ابھی بھی بھارت کی آواز سنی جانے کے لیے دیر نہیں ہوئی ہے!

سونیا گاندھی 

مترجم: ڈاکٹر عبد الحکیم

(جے این یو نیو دہلی)

13 جون 2025 کو دنیا نے ایک بار پھر یک طرفہ عسکریت پسندی کے خطرناک نتائج کا مشاہدہ کیا، جب اسرائیل نے ایران اور اس کی خودمختاری کے خلاف ایک نہایت پریشان کن اور غیر قانونی حملہ کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے ایرانی سرزمین پر ہونے والی ان بمباریوں اور ٹارگٹ کلنگ کی سخت مذمت کی ہے، جو ایک خطرناک کشیدگی کو جنم دیتی ہیں اور جن کے سنگین علاقائی اور عالمی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں کی طرح، بشمول غزہ میں اس کی ظالمانہ اور غیر متناسب فوجی مہم کے، اس کارروائی میں بھی عام شہریوں کی جانوں اور علاقائی استحکام کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایسی کارروائیاں صرف عدم استحکام کو مزید بڑھائیں گی اور مستقبل کے تنازعات کی بنیاد رکھیں گی۔

یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی کوششیں امید افزا علامات ظاہر کر رہی تھیں، جو اس واقعے کو اور بھی زیادہ افسوسناک بناتا ہے۔ اس سال مذاکرات کے پانچ ادوار پہلے ہی مکمل ہو چکے تھے، جبکہ چھٹا دور جون میں طے شدہ تھا۔ حتیٰ کہ مارچ 2025 میں، امریکہ کی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس، ٹلسی گیبارڈ، نے کانگریس میں واضح طور پر گواہی دی تھی کہ ایران جوہری ہتھیاروں کا کوئی پروگرام نہیں چلا رہا، اور اس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں اس کی معطلی کے بعد اسے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

اسرائیل موجودہ نظام حکومت کے تحت

یہ بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قیادت، وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی سربراہی میں، امن کو نقصان پہنچانے اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کی ایک طویل اور افسوسناک تاریخ رکھتی ہے۔ ان کی حکومت کی جانب سے غیر قانونی بستیوں کی مسلسل توسیع، قوم پرست انتہا پسند دھڑوں سے اتحاد، اور دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے نے نہ صرف فلسطینی عوام کی تکالیف میں اضافہ کیا ہے بلکہ پورے خطے کو مسلسل تصادم کی طرف دھکیل دیا ہے۔ درحقیقت، تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مسٹر نیتن یاہو نے نفرت کے اس ماحول کو ہوا دی تھی، جو 1995 میں وزیر اعظم یتزاک رابن کے قتل پر منتج ہوا وہ قتل جس نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی ایک امید افزا کوشش کا خاتمہ کر دیا۔

اس ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ حیرت کی بات نہیں کہ مسٹر نیتن یاہو مصالحت کے بجائے تصادم کو ترجیح دیں گے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے کبھی امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں اور فوجی صنعتی گٹھ جوڑ کے اثر و رسوخ کے خلاف آواز اٹھائی تھی اب ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اسی تباہ کن راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔ خود انہوں نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق جھوٹے دعووں نے کس طرح ایک مہنگی جنگ کو جنم دیا، جس نے پورے خطے کو غیر مستحکم کیا اور عراق تباہ و برباد کر دیا۔لہٰذا، 17 جون کو صدر ٹرمپ کا یہ بیان کہ ایران “ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے بہت قریب” ہے، اپنے ہی انٹیلیجنس چیف کی تشخیص کو مسترد کرتے ہوئے، نہایت مایوس کن ہے۔ دنیا ایسے قیادت کی متقاضی ہے جو حقائق پر مبنی ہو اور سفارت کاری کے ذریعے کام کرے، نہ کہ طاقت یا جھوٹ کے ذریعہ۔

دوہرے معیار کی کوئی گنجائش نہیں

چونکہ یہ خطہ ایک پیچیدہ تاریخ رکھتا ہے، اس لیے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران کے حوالے سے اسرائیل کے سلامتی سے متعلق خدشات کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، دوہرے معیار کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اسرائیل خود ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست ہے جس کا اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف فوجی جارحیت کا طویل ریکارڈ ہے۔ اس کے برعکس، ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کا دستخط کنندہ ہے، اور اس نے 2015 کے جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے تحت یورینیم افزودگی پر سخت پابندیاں قبول کی تھیں، جن کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، جرمنی اور یورپی یونین کی حمایت یافتہ تھا اور اس پر بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں عملدرآمد بھی ہو رہا تھا، یہاں تک کہ 2018 میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی۔ اس فیصلے نے برسوں کی محنت طلب سفارت کاری کو ضائع کر دیا اور خطے کے نازک توازن پر ایک بار پھر پردہ ڈال دیا۔

بھارت نے بھی اس تعطل کے نتائج جھیلے ہیں۔ ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد ہونے سے بھارت کی ان اہم تزویراتی اور اقتصادی منصوبوں کو آگے بڑھانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی، جن میں انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور اور چابہار بندرگاہ کی ترقی شامل ہیں ، یہ وہ اقدامات تھے جو سینڑل ایشیا سے گہرے روابط اور افغانستان تک براہِ راست رسائی کے امکانات رکھتے تھے۔ایران ایک دیرینہ دوست رہا ہے اور ہمارے ساتھ تہذیبی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔ اس نے ہمیشہ بھارت کی مضبوطی کو حمایت کی ہے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے اہم مواقع پر۔ 1994 میں، ایران نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق میں کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو رکوانے میں مدد کی تھی۔ درحقیقت، اسلامی جمہوریہ ایران نے بھارت کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ تعاون کیا ہے جتنا کہ اس کا پیشرو، شاہی دور کا ایران، جس نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا تھا۔

چونکہ، بھارت اور اسرائیل کے درمیان بھی حالیہ دہائیوں میں اسٹریٹجک تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ یہی منفرد حیثیت ہمارے ملک کو ایک اخلاقی ذمہ داری اور سفارتی اثر و رسوخ عطا کرتی ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور امن کے قیام کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرے۔ یہ کوئی محض نظریاتی بات نہیں ہے لاکھوں بھارتی شہری مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر اور برسرِ روزگار ہیں، اس لیے اس خطے میں امن بھارت کے لیے ایک نہایت اہم قومی مفاد کا مسئلہ ہے۔

اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں ایران کے خلاف ایک ایسے ماحول میں انجام دی گئی ہیں جہاں اسے مکمل چھوٹ حاصل ہے، جو کہ طاقتور مغربی ممالک کی تقریباً غیر مشروط حمایت کے باعث ممکن ہوئی ہے۔ اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے ذریعے کیے گئے نہایت ہولناک اور سراسر ناقابلِ قبول حملوں کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کی تھی، لیکن ہم اسرائیل کے تباہ کن اور حد سے زیادہ ردِعمل پر خاموش نہیں رہ سکتے ،

55,000 سے زائد فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ پورے کے پورے خاندان، محلے، یہاں تک کہ اسپتال بھی تباہ کر دیے گئے ہیں۔ غزہ قحط کے دہانے پر کھڑا ہے، اور اس کے عام شہری ناقابلِ بیان مصیبتوں سے دوچار ہیں۔

              بھارت کا باعثِ تشویش مؤقف

اس انسانی المیہ کے باوجود، نریندر مودی حکومت نے بھارت کے دیرینہ اور اصولی مؤقف کو تقریباً ترک کر دیا ہے یعنی ایک پرامن دو ریاستی حل کی حمایت، جس میں ایک خودمختار، آزاد فلسطینی ریاست کو اسرائیل کے ساتھ امن، سلامتی اور وقار کے ساتھ رہتے ہوئے تصور کیا گیا تھا۔ غزہ میں تباہی کے حوالے سے نئی دہلی کی خاموشی، اور اب ایران کے خلاف بلا جواز بڑھتی ہوئی کشیدگی پر خاموش رہنا، ہمارے اخلاقی اور سفارتی روایات سے ایک باعثِ تشویش انحراف کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف آواز کھو دینے کا معاملہ نہیں، بلکہ اقدار سے دستبرداری کا بھی ہے۔

غزہ میں تباہی اور اب ایران کے خلاف بلا اشتعال بڑھتی ہوئی کشیدگی پر نئی دہلی کی خاموشی ہمارے اخلاقی اور سفارتی روایات سے ایک تشویشناک انحراف کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ صرف آواز کھو دینے کا معاملہ نہیں بلکہ اقدار سے دستبرداری بھی ہے۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ صاف گوئی سے بات کرے، ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اور مغربی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے اور بات چیت کی بحالی کے لیے ہر دستیاب سفارتی راستہ اپنائے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com