محاسبۂ نفس وقت کی ضرورت

حماد غزالی

خلق خدا اور امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت انسان بہت سی خوبیوں کی مالک ہے اور بےشمارخرابیوں اورخامیوں کوبھی اپنےاندرسموئےہوئی ہے ؛ بلکہ بعض مرتبہ خوبیاں توبراےنام رہتی ہیں؛ لیکن خامیوں کامقدربن جاتی ہے، اس کی سب بڑی وجہ خود کوآئینہ کی طرح صاف سمجھنا اور دیگرامم کو غلطیوں، گناہوں، کاپلندہ خیال کرناہےاورخود احتسابی و محاسبہ ءنفس یعنی اپنےاندرکی کمی کوتا ہی کی نوٹس نہیں لینا ہے؛بلکہ اس خیال میں گم رہناکہ” ہم چنی دیگرے نیست “اور اگرکسی مخلص نےبطور مخلصانہ مشورے کےکسی کمی کااحساس دلانےکی کوشش کی تواسےبجائے قلب کی عمیق گہرائیوں سےاستقبال کرنےکے اسےدھتکاردیاجاتاہے ، پھٹکارلگاتا ہےـ لعنت بھیج کرآیندہ قطع تعلق کی راہ ہموار کرلی جاتی ہے،حالانکہ دوست ہوکہ دشمن کسی نےبھی کچھ ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کیاہو توایک عاقل شخص کی دانائی اور فہم یہ ہے کہ فورا اس طرف توجہ دے ـ اگروہ خرابی قطعی طور پرموجودہوتو اسےدور کرے،اگر نہ ہوتو یہ بھی سبق آموز واقعہ لوگوں کوپرکھنے اور اخلاص ومنافقت کوتولنے کا ایک قیمتی آلہ ثابت ہوگا،
آج کےاس پرآشوب وپرآزمائش دور میں ہم کسی طرح جیےجا رہےہیں؛ لیکن سلیقہ ءوارفگتی سےکوسوں دور جاچکے ہیں، تعلیمات اسلام سے بےتوجہی خاص الخاص مشغلہ بن گیاہے، دن بہ دن روبہ زوال ہیں، ترقیوں کےبجائے تنزلی مقدربن چکی ہے، پھربھی خواحتسابی وخودشناسی کو اپنی زندگی میں نہیں لاتے ہیں، آخرایساکیوں؟اس کی وجہِ خاص انسانیت جیسی طاقت ور شےسےمحرومی اور شیطانیت کواپنےدل میں جگہ دیناہے؛ حالانکہ انسانیت زیادہ طاقت ور ہےبہ مقابلہ شیطانیت کےـ انسانیت انسان کوجگائےرکھتی ہے،اس کی تجدید کرتی رہتی ہےـ اوریہ چیزیں ختم ہوجاےتو شیطانیت انسانیت کی جگہ اختیارکرلیتی ہے پھرانسان اپنےبس میں نہیں رہتا ـ اب جوجی میں آئےکرنےلگتا ہے، حدیث شریف کامفہوم ہےکہ جب حیاساتھ چھوڑدے تو جوچاہے کرے،اور یقیناایسادیکھنےکوملتاہےـ مثلا آج کےہمارے معاشرے میں کسی کی ترقی سےخوش نہ ہونا، زوال کی تمناکرنا، کسی کی خوش لباسی ،آسودگی کی وجہ سےاپنےکو اس کی غیبت اور اس کوگرانےکےلیے ہرممکن کوشش کرنا، اسی طرح آج ہمارے کچھ دینی اداروں، سرپرستوں، مالکوں، اور دین کےٹھیکہ داروں کا ہےوہ ظاہری جبہ، قبہ ،دستارمیں مبلوس ومگن رہتےہیں اور تصور بےاماں میں کہتےرہتےہیں “ہم چنی ڈنگرے نیست “اکابر واسلاف، فقیہ اور اویس قرنی کےروپ میں ڈاکؤوں سےزیادہ بدترین کرادر اداکررہےہیں، وہ صرف انہیں کومخلص ومشفق گردانتےہیں، جوان کی جوتیاں سیدھی کرے،ان کےفرمائے ہوے جملہ احکامات وکلمات کو لاریب کہہ کرسرنگوں ہوجائے،ان کےساتھ عیاری، مکاری، دجل وفریب میں ان کاہم سایہ رہے،بطور خاص کچھ مدارس دینیہ بھی بدقسمتی سےاس کاشکارہیں جوکسی غیرمخلص، منافق، عبداللہ بن ابی اور دیگراسلام مخالف بنام نمونہ ءاسلاف جیسی ظاہری صفات کواپنی جھولیوں کےلیےرجسٹرڈ کراچکے ہیں، آج کل کےکچھ بزرگ نماڈاکوعوام کی جیب کترنےکےلیے ایسےہتکھنڈے اپناتےہیں ـ ان کی اولاد خوب پرتعیش زندگی گزاررہی ہے ـ ایسالگتاہے کہ شاہ وقت کےصاحبزادے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کسی اسٹیج پربراجمان ہوتےہیں توایسی ہمدردی ظاہرکرتےہیں جیسےان کےبعد یہ صفت ناپید ہوکر رہ جائےگی ـ عوام سےمخاطب ہوتےہیں تویہ کلمہ زبان پرضرور لاتےہیں کہ علماکااحترام کرو، انہیں گالیاں مت دو یہ تمہارے لیے رحمت ہے، برکت ہے،انہیں خوش رکھاکرو، اپنےاماموں کو ذلیل ورسوا نہ کرو،ان سے غلامانہ خدمت نہ لو اگرتم نےایساکیاتو خداکاعتاب نازل ہوگا، تم مجرم ہوگے خداکی عدالت میں ، عوام میں سیاسی لیڈروں کوکوستےہوے انہیں حضرت اورنگ زیب، حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرز زندگی کواپنانےکی ترغیب دیتےہیں ـ جب یہ ان سیاسی آقاؤں کےدرمیان جاتےہیں، توکرسی، ظاہری عزت ثروت اور ایساایوارڈ لینےکی خاطر ان کی تمام غلطیوں کوان کےصحیح کارنامےکےطورپر ان کےسامنےبیان کرتے ہیں، جس ایوارڈ کےلینےوالےعلماء کےسلسلہ میں بہت سی وعیدیں آئیں ہیں ـ یہی وہ لوگ ہیں جواپنے اساتذہ، ملازمین، مدرسین اور دیگر عمال کےساتھ ایساسلوک کرتےہیں گویاوہ انسان نہیں،ان سےجانوروں سےزیادہ بدترین سلوک کرتے ہیں، جب وہ عوامی عدالت میں مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم، غریب اقوام اوردیگررفاہی کاموں کےنام پرڈکیتی کرتےہیں تودیکھیے کس قدرمگرمچھ کےآنسو بہاتےہیں؛لیکن ان کی حالت دیکھیں توعوام سےدگرگوں رہتی ہیں، قوم سے توکہتےہیں کہ ہم طالبان علونبوت کو ان کی مکمل ضروریات، عمدہ قیام وطعا اور علاج ومعالجہ کے اسباب بھی فراہم کرتےہیں ؛ لیکن یہ سب صد فی صد کذب بیانی پرمشتمل پروپیگنڈہ ہوتاہے جوآج کل کےکچھ شہرت پسند قائدین اپنی بےہودہ اولاد، نکمےوارثین کےلیے جہنم میں انگارے جمع کرتے ہیں، بہت سی جگہوں پرتو دال میں نمک اور سبزیوں میں سبزہ بھی نظرنہیں آتا، ہم نےمشاہدہ کیاہے کہ بہت سےدینی ادارے جہاں سےعلم وشمع کےدیےجلانے اورفروغ اسلام کےپرچم چسپاں کیے جاتےہیں وہیں ایسی بدعنوانی کہ سیاسی لیڈران بھی اسےغلط کہنےلگے، ایسے بھی خلیفہ ءوقت ہیں جوکبھی نمازفجر کےلیے مسجد تشریف نہیں لاتے مگر شب تین بجےتک واٹس ایپ اوردیگرسوشل سائٹس پر دوسروں کی عیب جوئیوں میں سرگرم عمل رہتےہیں، ساتھ میں خادم بھی اپنی نیندکی قربانی پیش کرتاہے ـ حضرت جی خود توسفرجہازسےکم پرکرنا اپنی توہین سمجھتےہیں، لیکن اپنےاساتذہ ملازمین کوتین ماہ میں ایک ماہ کی تنخواہ دےکر احسان فرماتے ہیں، خودتو بکرےکےعلاوہ دسترخوان پر کچھ دیکھناپسندنہیں فرماتے؛ لیکن اپنےاساتذہ اورطلبہ کےلیے جن کےنام پر قوم سےاربوں روپے بٹور تے ہیں انہیں سبزیوں میں ایسی مولی کھلاتےہیں جس کےپیڑ سرسوکی شکل اختیارکرکےپھول دیناشروع کردیتےہیں پھراس مولی کو چھڑی سےکاٹنابھی ایک اہم مسئلہ ہوجاتاہے ـ کیوں کہ اس کےریشے اتنےسخت ہوجاتے ہیں جیسے آم کےدرخت کی جڑیں، چاول بھی مہاگھٹیا، تیل مصالحہ کااستعمال بھی براے نام ہی ہوتاہےجس سےطباخ حضرات بھی ہنسنےپرمجبور ہوجاتےہیں کہ اس سےاچھاتوہم اپنےگھرکھاتے ہیں، فہرست میں طلبہ کےکی سہولت کےلیے کثیر تعداد میں حمام اوردیگرذرائع اورانتظامات کےتذکرےبھی کالم وارہوتےہیں حالانکہ معاملہ برعکس ہے ٹھنڈیوں میں لحاف اور کمبل کی تقسیم کاڈھونگ رچتےہیں،اساتذہ اورطلبہ سےپچاس روپے لے کردس سال پرانےلحاف دیےجاتےہیں، ان میں اکثرلحاف نالائق استعمال ہوتےہیں، لحاف میں اکثرجگہوں پرروئی نہیں ہوتی زیادہ عمرکی وجہ سے ـ نئےلحاف اپنےگھرکےلیےمہمان خانہ میں سجائےجاتےہیں ـ اخبارات میں سرخیاں بٹور نےکی خاطرمذکورہ حیلہ اپنایاجاتاہےـ اور تحقیق کی جاتی ہےتو دس بیس لوگوں میں ایسےلحاف تقسیم کیے گئےہوتےہیں جوایک چادراور ایک سواٹر کےبرابر بھی ٹھنڈ دور کرنےمیں ناکام رہتےہیں، یہ توہوئی طلبہ کےساتھ ہوئی بےپروائی اور استحصال ـ آگے پڑھیے ملازمین کےساتھ ہوے ظلم وزیادتی کہ فلسطین کا”نتین یاہو” بھی شرماجائے، ملازمین ومدرسین سے ۲۴/چوبیس گھنٹے کام لیےجاتےہیں، ان سےہلکی سی چوک کی وجہ سےسخت حسابات لیے جاتےہیں؛ لیکن ان کی تنخواہوں کامعاملہ دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے کہ، کیا اسلاف ایسے بھی ہوتےہیں؟ان کو اویس قرنی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت اورنگ، ا حضرت عمربن عبدالعزیز نہیں بننا چاہیے؟ آج اکابرین کی طرف سےاصاغرین اور متأخرین پرجوظلم وستم ہورہےہیں اس سےاللہ ہی بچائےـ مراکزدینیہ میں جوعملی،علمی خیانت کی بدترین مثال پیش کی جارہی ہے یہ بھی ایک المیہ ہےکہ جو ہرطرح کی خیانت سےبچنےاور امانت ودیانت کےاوصاف کواپنی زندگی میں ڈھالنےکی بات کرتےپھرتےہیں، جنہیں اندھےعقیدت مند اورنگ زیب ثانی سمجھتےہیں انہیں پیشواؤں کی طرف سے ایساگھناؤناکھیل کھیلا جارہاہے جوہرگزمناسب نہیں ہےـ کیا یہ ادارے کے ذمہ دار، خانقاہوں کے ولی، مدرسوں کےمہتمم،دینی، ملی اور سیاسی جماعتوں کے امرا کواس دنیاکی کا “فنا”انکار ہے؟یاپھروہ یہ خیال رکھتےہیں کہ انہیں مرنا نہیں ہے، اگرمرنابھی ہےتوحساب وکتا نہیں ہوگا؟یہ سب بدترین حالات جوملک وملت کےلیے مسائل طورپر پیش آرہےہیں صرف اورصرف محاسبہ نہ کرنےکی وجہ سے، اگر خود احتسابی اپنےاندر پیداکرلیے تو کوئی مسلمان چوری نہیں کرے گا، کوئی جعلی رسید نہیں چھپوائے گا، طلبہ کےذمہ داران یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کےبجائےمدارس اسلامیہ، خانقاہیں اور دیگر اصلاحی اداروں کارخ کریں گے، پھرسڑکوپراترنانہیں پڑےگا، کوئی نجیب کسی ادارےسے غائب نہیں ہوگا، کوئی ماں اس قدر بلکےگی نہیں، کوئی بہن تڑپےگی نہیں، کوئی ملازم اپنےآقاکی روگردانی نہیں کرےگا، مدرسین مدرسے سے عاجزہوکر بھاگیں گے نہیں، قوم علماسےبےجاسوالات نہیں کرےگی، پھرکوئی باپ بےسہارا نہیں ہوگا، کوبیٹا باغی نہیں ہوگا، پھرجہیزکی خاطر کوئی اپنی دلہن کوجلائےگا نہیں، اولاد والدین کےلیےسہارا ہوں گی اور مرنےکےبعد کارخیرکاسامان ثابت ہوگی، پھر کسی عالم کو کوئی ناخواندہ شخص مفاد پرست، خودغرض اور چندہ خور نہیں کہے گا اس کااستقبال صرف مسجدوں، مدرسوں میں نہیں؛ بلکہ جملہ امورمیں اسے اپناسردارا وراہنماسمجھیں گے،پھرکسی مہتمم یاادارہ کےدیگر ذمہ داروں کو طلبہ کی تشکیل کےلیے ملک کےمختلف دینی مراکز کےچکرکاٹنےکی نوبت نہیں آئے گی ، نہ ہی مخلص و محنتی وباذوق اساتذہ کی تلاش کے لیےایمرجنسی لائٹ کےذریعہ ملک کےکونےکونے، گلیوں، اورشاہ راہوں پربھٹکنےکی حاجت پیش آئےگی،پھرکسی شیخ کو خلافت واجازت کی لالچ دینےکی ضرورت نہیں پڑےگی، مجلس ذکرمنعقد کرنےکےلیے خانقاہوں میں دلی دربار، ممبئی کامعروف ترین قدیم ترین ہوٹل شالیمار کےکھانے کابہانہ بناکر عوام کومجلس میں اکٹھاکرنے والی پریشانیا نہیں آئیں گی ـ اساتذہ، عمال ودیگرملازمین اخلاص وعمل کاپیکر بن جائیں توذمہ داران کےبےجاعتاب کی پروانہ ہوگی،دینی اورسیاسی جلسوں میں عوامی سیلاب کےلیےپیسوں، بسوں، کاروں اور ٹرینوں کو فری کرانےکاعمل بد انجام دینانہیں پڑےگا، اخلاص پیداہوجائے تو عوام ہی خود حبیب الامت، خطیب الامت، حکیم الامت، مرشدالامت، راہنمائے امت،ملک و ملت ومسلک کےتحفظ کاعلمبردار جیسے خطابات والقابات سےنوازےگی، اس کےلیے تلقین وترغیب کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئے گی، نہ خود رپورٹ لکھ کرپریس کودیناپڑےگا؛ بلکہ رپوٹر، اخبارات کےنمائندے،صحافی وقلم کار وتبصرہ نگار برادران خودہی آپ کے صفات حسنہ کواپنے قلم کےذریعہ آشکارا کریں گے، اخبارات میں جگہ کےلیے بطور رشوت ناشتہ، کلکتہ بریانی اور چکن کےبہترین قسم کے آئٹمس کھلانے، تاج ہوٹل کی چائے، کافی نوشی جیسی مصیبت نہیں درآئےگی،خودہی وہ آپ پرامانت ودیانت والاقلم استعمال کرنااولین فریضہ تصور کریں گے، اس عمل پروہ اپنےاندر خوشی و مسرت محسوس کریں گے ـ متقدمین اکابرین واسلاف کاتو یہ طرہ رہاہے کہ وہ ایک کپڑا،روزانہ کی مزدوری سے زندگی گزارتےتھے؛ چنانچہ ایک واقعہ ہے سادگی دیکھیے !وقت کےامام، نباض ،متحفظ اسلام حضرت امام قاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ کا کہ ایک شخص حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضری کے بعدمشہورزمانہ عالم وحاکم مولاناقاسم نانوتوی رح کےپاس پہنچا حضرت نے خیریت دریافت کرنےکےبعد معلوم کیاکہ کب تک قیام ہے؟ اس نےکہاکہ رات تک توحضرت نےعرض کیاکہ دوپہرکودال روٹی میرے ساتھ کھائیے؛ جب دسترخوان لگاتو بالکل وہی چیزیں تھیں ـ صرف چٹنی کااضافہ تھاـ فرمایاکہ آپ کی وجہ سےچٹنی کااضافہ کرلیاگیا ہے “یہ تھے اکابر جن کےطرزواسلوب کواپنی زندگی میں اتارناچاہیےاور متبع بنناچاہیے؛ لیکن آج کل کےاکابرین اس کےبرعکس نظرآتےہیں ـ دور کاسفر جہاز سے کم پر نہیں منظورنہیں ، لوکل سفر اےنوا سےکم پرنہیں، کھانا شالیمار اور دلی دربارکےعلاوہ کانہیں چلے گا، قیام ہو وائٹ ہاؤس جیسی جگہ میں ،بیت الخلا سیدھا سادہ نہیں انگریزی ہوناجزولاینفک ہے، اگر آپ نےایساانتظام وانصرام نہیں کیاتوفیوض وبرکات سےمحروم رہیں گے اور ملامت کےلیے بھی تیار رہیےـ اگرہمارے راہنما، قائدین، مصلحین، مربیان کرام واقعی مخلص ہوجائیں ـ وہ خودمتقدمین اسلاف کی راہ چلیں تو معاشرہ کاماحول خوشگوار اور پرلطف ہوگا ـ؛ لیکن ایسااس وقت ہوگا ؛جبکہ وہ محاسبہ ءنفس کو اپنی زندگی کااہم ترین شعبہ قراردیں، اس پرعامل بھی ہوجائیں ، جب لوگ یہ قربانی دیں گے توپھرہم ایک ایسےمعاشرے میں سانس لیں گے جس کی آب وہوا بارود کی نہیں؛ بلکہ خوشیوں اور بہاروں کی خوشبو ہوگی، جوہماری سانسو کوایسے مہکائےگی جیسے کسی مچھلی کےلیےپانی یاجیسے تتلی کےلیے پھول ـ حق جل مجدہ توفیق بخشے ـ

SHARE