دستوری ریفرینڈم میں 57 فی صد ووٹروں نے اردگان کی حمایت میں ووٹ دئے
استنبول(ملت ٹائمز)
ترکی میں صدارتی طرز حکمرانی کے نفاذ کے لیے مجوزہ آئینی ترامیم پر ہونے والے ریفرینڈم کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو کے مطابق نصف ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 57 ووٹروں نے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔اس ریفرینڈم میں مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کی صورت میں صدر رجب طیب اردگان کو مزید انتظامی اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔اس سے ملک کے طویل المیعاد سیاسی مستقبل کا بھی تعیّن ہوگا اور اس کے ترکی کے یورپی یونین اور باقی دنیا کے ساتھ تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
اناطولو کی جانب سے ریفرینڈم کے نتائج سے متعلق جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق وسطی اناطولیہ کے علاقے میں ’’ہاں‘‘ میں ووٹوں کی شرح زیادہ رہی ہے جبکہ بحیرہ ایجیئن اور ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں زیادہ تر ووٹروں نے دستوری ترامیم کو ’’ناں‘‘ کردی ہے۔ریفرینڈم میں ’’ ہاں‘‘ ووٹ کی اکثریت برقرار رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں ترکی کے دستور میں 18 ترامیم کی جائیں گی اور ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ صدارتی نظام حکومت لے گا،وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا جائے گا اور صدر کو وزراء کے تقرر سمیت مزید انتظامی اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ترک طرز کے صدارتی نظام سے ملک میں استحکام اور خوش حالی آئے گی جبکہ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم سے ملک میں مطلق العنان شخصی حکمرانی کا دور دورہ ہوجائے گا اور 63 سالہ صدر اردگان 2029ء تک ملک کے صدر رہ سکیں گے۔
ترکی کی قریباً آٹھ کروڑ آبادی میں سے ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ رجسٹر ووٹر ہیں اور بیرون ممالک میں مقیم تیرہ لاکھ سے زیادہ ترک تارکین وطن نے ریفرینڈم میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ بیلٹ پیپرز پر ریفرینڈم کا سوال درج نہیں تھا بلکہ ووٹروں سے صرف یہ کہا گیا تھا کہ وہ ’’ہاں‘‘ یا ’’ نہیں‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔رجب طیب ایردوآن نے استنبول میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے ریفرینڈم کو تبدیلی اور تغیّر کا ایک موقع قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ ہمیں عموم سے ماورا ایک فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ترکی کی حزب اختلاف کی بڑی پارٹی کے رہ نما کمال قلیچ دار اوغلو نے ریفرینڈم کو ترکی کے مستقبل پر ایک ووٹ قرار دیا ہے۔ وہ ’’ناں‘‘ کے حق میں مہم چلاتے رہے ہیں۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نتائج اچھے ہوں گے اور ہمیں ترکی کے دوسرے بنیادی مسائل کے بارے میں گفتگو کا موقع مل سکتا ہے۔ریفرینڈم کے موقع پر ترکی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اناطولو نیوز ایجنسی نے یہ اطلاع دی ہے کہ کرد اکثریتی جنوب مشرقی علاقے دیاربکر کے بعض حصوں میں سکیورٹی وجوہ کی بنا پر میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انتخابی عملہ اور سامان اتارا گیا ہے۔