ذاکر اعظمی ندوی
ملت ٹائمز
جب انسانی تمدن غاروں، پہاڑوں اور جنگلوں کی حدود سے متجاوز نہ تھی تو اس وقت کا انسان یہ سوچنے پر مجبور تھاکہ کائنات کی ساری اشیاء کی تخلیق یا تو اسکی خدمت کے لئے ہوئی تھی یا اسکے وجود کو نیست و نابود کرنے کے لئے،اس دور کا انسان کائنات کے اسرار ورموز کا بنظر غائر مطالعہ کرتا، مگر پھربھی اسکی ساری تلاش وجستجو کی کوششیں بے نتیجہ ہی رہتیں، وجہ اسکی یہ تھی کہ اس دور کے انسان کا دماغ منظم ومرتب تدبر وتفکر کے لائق نہیں ہوپایا تھا،اس نے مسائل کے فوری حل کی تلاش شروع کی تو اسکے ہاتھ ’’افسانوی کہانیاں‘‘لگیں جس میں اسکے تمام سوالوں کا جواب اسکی عقل کے مطابق مل گیا،طوفان، سیلاب ، تودے گرنے، جوالامکھی پہٹنے وغیرہ جیسے حوادث زمانہ کو قصہ پارینہ کے ہم آہنگ پایا یا ان’’دیومالائی کہانیوں‘‘نے ان کائناتی تغیرات کو انسانی زنگی کے ہم آہنگ بنا دیا۔
عصر حاضر میں دیومالئی عقلیت کا ظہور سازشی تھیوری سے کہیں زیادہ مقبول ہے،افسانوی ذہن کے انسان کو آپ ہر گز ملامت نہیں کریں گے جب وہ شام میں رونما ہونے والے واقعات کو امریکہ کے تناظر میں دیکھے گا،کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے کیا اغراض ومقاصد ہیں؟ ایک طرف امریکہ بشار الاسد کے انجام اور شام کے مستقل کے بارے میں متضاد بیاں بازی کرتا ہے تو دوسری طرف وہی امریکہ روس اور ایران کو کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ سرزمین شام میں وہ ظلم وجبر کی نئی تاریخ رقم کریں،باجودیکہ امریکہ موجودہ دنیا کا طاقتور تریں ملک ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ داعش سے نپٹنے میں ناکام نظر آتا ہے،اس میں شک نہیں کہ امریکہ خطے میں انتشار وافتراق کا ایک ایسا گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے جس میں ہماری حیثیت قربانی کے بکرہ سے زیادہ کچھ نہیں۔
شام کی موجودہ صورتحال ہماری لئے ایک ایسے آتش فشان کی ہے جو عہد بعید کے انسان کے سامنے پھوٹتا تھا مگر اس عہد کے انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہ تھی جو اسے آتش فشاں کی ہولناکیوں سے بچا سکے،ایک طرف یہ محیر العقول ہلاکت خیزیاں، تو دوسری طرف قابل رحم ہماری سادہ لوحی اور بجکانہ خیالی کہ ہم نہ تو موجودہ سیاسی حالات کو صحیح تاریخی پس منظر میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ وسائل ہمارے پاس ہیں جو ہمیں ہمارے سامنے رونما ہونے والے واقعات کی ماہیت کو سمجھنے میں مددگار ہوسکیں۔
ہم رونما ہونے والے واقعات کو اولیں فرصت میں ان کے ظاہری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ ہماری فکری سادہ لوحی وجذباتیت واقعات کی تحت تک ہمیں پہنچنے نہیں دیتی اور ہمارے سامنے غور وفکر کے سارے سوتے خشک نظر آتے ہیں،آخر کیوں ہم اس طرح کے واضح سوال کرنے سے خوف کھاتے ہیں،شام میں امریکہ کی عسکری مداخلت اور اسد حکومت کو گرانے میں امریکہ کے کیا مفاد ہوسکتے ہیں؟ مشرق وسطی بالخصوص شام میں موجودہ سیاسی افرا تفری امریکہ کے کس مفاد کو تقویت بخش رہی ہے؟ امریکہ اپنی بندوق کی ایک گولی بہی کسی حکومت کی حفاظت یا گرانے کے لئے کیوں ضائع کرے گا؟
شاہ ایران امریکہ کا ایک عظیم و مخلص اتحادی تھا مگر جب وقت مدد آیا تو شاہ کو امریکہ نے بے یار ومددر گار چھوڑ دیا، اور آج ایران کے پاسداران انقلاب جن کا’’امریکہ مردہ باد‘‘کے نعرہ لگائے بغیر رات کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا’’شیطان بزرگ‘‘امریکہ کی چوکھٹ پر ایڑیاں رگڑ کر اپنی بندگی کا فرض ادا کررہے ہیں،لیبیا، مصر اور عراق میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ اب کوئی رازہائے سربستہ نہیں رہا،
در اصل امریکہ اور اسکے ہمنوا مغربی ممالک ’’حوادث‘‘کی تخلیق نہیں کرتے بلکہ ’’حوادث‘‘ان کے مقاصد کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں،جب عالم اسلام کے دو دہڑے باہم دیگر پیکار ہوتے ہیں تو اسلحہ مغرب سے سپلائی ہوتا ہے اور جب یہ گروہ باہم صلح پر اتفاق کرتے ہیں تو اشیائے ضرورت بھی مغرب سے دستیاب کی جاتی ہیں،لہذا کسی سازشی کردار کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ مغرب کائنات کا مرکز ہے،اگر مغربی ممالک آپس میں لڑتے ہیں تو اس کا مقصد واقعات کو اپنے ملکوں کے مفادات کے مطابق چلنے دینا ہوتا ہے۔
دوسرا زویہ نگاہ جو’’خیالی عقل‘‘نہیں دیکھ پاتی وہ خطے کی تاریخ ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ’’عقل طفلی‘‘ماضی اور مستقل پر نظر ڈالنے سے قاصر ہوتی ہے،جب تک نوآبادیاتی نظام نہیں آیا تھا کسی نے ہمیں نہیں بتایا کہ عراق کی شورش زدہ صورتحال ہی عراق کی حقیقی صورتحال ہے،در اصل عراق کی موجودہ صورتحال جس پر ہمارے مفکریں نوحہ کناں ہیں ہمیں خلافت عثمانی کے خاتمہ کے بعد وراثت میں ملی ہے۔
جس عراق کی ابتری ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے وہ برطانیہ کے ونسٹن چرچل نامی شخص کی مقدس ایجاد ہے،چرچل نے کچھ زمینیں یہاں وہاں سے لیں اور ہمارے سامنے ایک نئے عراق کا نقشہ کھینچ دیا،اس تاریخی غیبوبت کے سبب ہم اس الم انگیز حقیقت سے روگردانی کی کوشش کررہے ہیں کہ خطے میں جو کچھ واقعات رونما ہورہے ہیں ان تنازعات کو ایندہن مقامی عناصر سے ہی مل رہا ہے،شام میں کمیونسٹ، لبرل یا کنزرویٹوز ہرگز باہم دیگر پیکار نہیں بلکہ قاتل ومقتول دونوں خطے کی اصل وارث ہیں،خواہ سنی ہوں یا شیعہ، علوی ہوں یا دروز یا عرب کرد یہ سب اسی خطے کے باشندے ہیں ان کا باہر سے کوئی تعلق نہیں،خطے میں پائی جانے والی فرقہ واریت ونفرت انگزی ہرگز امریکہ کی ایجاد نہیں بلکہ انسانی حالات نے نئی کروٹ لی تو انقلابات وتغیرات رونما ہوئے جس کے نتیجہ میں خستہ حال عمارتیں ان کے مالکان کے سروں پر گرنا شروع ہوگئیں، یہی شورش زدہ شام کی اصلی کہانی ہے۔
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین بلاد شام میں مغربی سازشیں اور ہماری سادہ لوحی ایک تجزیاتی مطالعہ