احمدآباد(ملت ٹائمزایجنسیاں)
یوپی-اتراکھنڈ سمیت گوا اور منی پور میں بی جے پی کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اب کانگریس اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے خاصی محتاط ہوگئی ہے۔کانگریس کی نظر خاص طور پر گجرات پرہے جہاں کے حالات اسے کافی مفیدنظرآ رہے ہیں۔پارٹی اگریہاں بی جے پی کی 20سال سے چلے آ رہے اقتدار کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو نہ صرف ایک بڑی ریاست اس کے ہاتھ آئے گی بلکہ پی ایم مودی کی آبائی ریاست میں جیت پورے ملک میں بھی اس کے حق میں ایک بڑا پیغام دینے کا کام کرے گی۔گجرات کی حالیہ سیاسی زمین کو دیکھیں تو کانگریس کے لئے امیدکے ہلکے ہلکے جھونکے نظرآتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس ان ہلکے جھونکوں شامل را کے رن میں سیاسی طوفان کھڑاکرپائے گی۔اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر کرے گا کہ کانگریس اپنے سامنے آ رہی چیلنجوں سے کس قدر پار پاتی ہے اور اپنے حق میں بن رہے موقعوں کوکتنابناپاتی ہے۔باپوکے نام سے جانے جانے والے شنکر سنگھ واگھیلا گزشتہ دو دہائی سے گجرات میں کانگریس کا چہرہ ہیں اور ہر الیکشن سے پہلے ان کے باغی ہونے کی خبرآتی ہے۔اس بار بھی شنکر سنگھ واگھیلا نے اپنے تیور دیکھا دیئے ہیں۔ٹویٹرپرانہوں نے راہل گاندھی سے لے کر تمام چھوٹے بڑے کانگریس لیڈروں کو ان فلو کر دیا ہے۔ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ شنکر سنگھ واگھیلا کی بی جے پی صدر امت شاہ سے ملاقات ہوئی ہے۔مانا جا رہا ہے کہ واگھیلا اس بار بھی وزیراعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بننا چاہتے ہیں، جبکہ انہیں بھرت سنگھ سولنکی دھڑے سے سخت ٹکرمل رہی ہے۔سولنکی دسمبر 2015سے گجرات ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدرہیں۔وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے واگھیلا اور سولنکی کے درمیان تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔یہ جنگ اتنی بڑی ہے کہ کانگریس کو گروداس کامت کو ہٹا کر اشوک گہلوت کو گجرات کا انچارج بنانا پڑا۔اس کے بعدگروداس کامت نے پارٹی ہی چھوڑدی۔