احمد زکریا کاندھلوی
اسلامی کلینڈر کے نویں ماہ رمضان کی آمد آمد ہے جس کی تیاری مومنین ماہ شعبان سے ہی شروع کردیتے ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ماہ شعبان میں تلاوت قرآن اور نوافل کی کثرت فرمایا کرتے تھے اور اس طرح نبی کریم ماہ رمضان کے استقبال کی تیاری نوافل کی کثرت کے ساتھ کرتے تھے۔ماہ رمضان کے جہاں بے شمار فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں اور اس ماہ میں عبادت اور اجر وثواب کی وجہ سے اہمیت ہے وہیں مومنین کوروزہ کی حالت میں اپنی روز مرہ کی زندگی کا محاسبہ کرنے اور دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے کا موقع میسر آتا ہے جس کی وجہ سے ان میں انابت ،تقوی اور رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ماہرین اطباء نے روزہ کے دینی فوائد کے ساتھ صحت کے فوائد بیان کئے ہیں۔رمضان کے مہینہ کا روزہ امت مسلمہ پر فرض ہے اور اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے ۔قرآن کریم کی آیت ’’کتب علیکم الصیام کما کتب علی اللذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘ترجمہ اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے قبل کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔رمضان کے دیگر فضائل میں اس ماہ مبارک میں طاق راتوں میں شب قدر کی رات کا ہونا بھی ہے۔وہ ایک رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ یہ مہینہ اللہ کی عبادت، اطاعت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا دنیامیں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیاملے گا مگر روزہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا یا فرمایا کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔رمضان کے دیگر فضائل اور مناسبات کے ساتھ اس ماہ کا قرآن شریف سے ایک گہرا رشتہ اور مضبوط تعلق ہے جس پر یہاں روشنی ڈالی جائے گی۔قرآن کریم اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا بنسبت دوسرے مہینوں کے زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔حضرت جبریل امین جن کے واسطے سے وحی کے ذریعہ قرآن شریف کا نزول ہوا رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن شریف کا دور کیا کرتے تھے چنانچہ رمضان میں تراویح میں قرآن شریف کی تلاوت کا عمل مسنون ہے اور صحابہ کرام کے بعد تابعین اور بزرگان دین نے تراویح میں ختم قرآن کے عمل کو جاری رکھا اور آج تک اس سنت پر تمام مسلمان عمل کرتے ہیں۔بعض اسلامی ممالک میں اگرچہ تراویح میں مکمل قرآن نہیں پڑھا جاتا ہے تاہم بر صغیر ہند وپاک میں نماز تراویح میں مکمل قرآن پڑھنے کا معمول ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)اس ماہ مبارک کی ایک رات میں ہی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم آسمان دنیا پر نازل ہوئی،قرآن میں ارشاد ہے ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، یعنی ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم میں ہے: یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق قرآن کریم سے ہر شخص کو ہدایت نہیں ملتی بلکہ قرآن کریم سے استفادہ کی بنیادی شرط تقویٰ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّکْم تَتَّقْونَ یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ، غرض رمضان اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23 سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔چنانچہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر 3’’انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ‘‘ سورۃ بقرۃ کی آیت 185’’شہر رمضان اللذی انزل فیہ القرآن‘‘قرآن کریم کے ماہ رمضان میں نازل ہونے پر دال ہیں۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔ نزول قرآن اور دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔بخاری و مسلم میں حضرت ابن عباس رض سے حدیث مروی ہے کہ نبی کریم ؐ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اوررمضان مبارک میںآپؐ کی سخاوت بڑھ جاتی تھی وقت کے آپ جبریل امین سے ملاقات کرتے تھے اور قرآن شریف کا دور کرتے تھے۔(بخاری 6و مسلم2308 )امام ابن رجب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث رمضان میں قرآن شریف کے دور کرنے پر استحباب بتاتی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔امام رجب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جبریل امین نبی کریم ؐسے رات میں دور کیا کرتے تھے اسی لئے رات میں قرآن کی تلاوت کی کثرت مستحب ہے۔ اور سب سے زیادہ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری ومسلم) نماز تراویح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا لیکن اس خیال سے اس کو ترک کردیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح) صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی اور انفرادی طور پر نماز تراویح پڑھی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقیناًتبدیلی ہوئی، اس تبدیلی کی وضاحت محدثین ،فقہاء اور علماء کرام نے فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے پورے رمضان باجماعت نماز تراویح شروع ہوئی، نیز قرآن کریم ختم کرنے اور رمضان میں وتر باجماعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔نماز تراویح کے ساتھ ہی رمضان اور قرآن شریف میں کئی خصوصیات مشترک ہیں۔قرآن اور رمضان کی سب سے اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔اسلامی کتابوں میں اسلاف اور بزرگان دین کے رمضان مبارک میں تلاوت قرآن کی کثرت کے واقعات مذکور ہیں جن کے مطابق ماہ رمضان شروع ہوتے ہی بزرگان دین اور علماء کرام تلاوت قرآن کی کثرت کا اہتمام کرتے تھے ۔امام زہری فرماتے تھے کہ رمضان قرآت قرآن اور اطعام طعام کا مہینہ ہے۔امام عبد الرزاق فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری ؒ رمضان آتے ہی تمام نفلی عبادت چھوڑ کر قرآن شریف کی تلاوت کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، رمجان میں کثرت تلاوت کا بزرگان دین اور علماء سلف کے یہاں اس قدر اہتمام تھا کہ امام قتادۃ ؒ تین راتوں میں ایک ختم فرماتے تھے،امام اسودؒ دو راتوں میں ایک ختم فرماتے تھے،ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں کہ امام محمد بن ادریس شافعی ؒ پورے رمضان میں 60ختم فرماتے تھے۔اور سب نماز کے دوران(اللطائف 359-60)حدیث کی مشہور کتاب ریاض الصالحین کے مصنف اور مشہور محدث امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت میں ختم قرآن کرنے والوں کی تعداد کا شمار ممکن نہیں ہے متقدمین میں عثمان بن عفانؓ ،تمیم داری،سعید بن جبیر ؒ ایک رات میں قرآن ختم فرماتے تھے (التبیان48)۔ بعض بزرگان دین کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اخیر رمضان میں ایک ایک رات میں مکمل قرآن تک پڑھ لیا کرتے تھے۔مغربی اترپردیش میں بزرگان دین اور علماء کرام کی اسی تربیت اور منہج کا اثر ہے کہ آج بھی خواتین کام کی کثرت کے باوجود کئی کئی قرآن پاک ختم کرلیتی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو اس مقدس ماہ میں قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی توفیق عطا فرمائے۔