اردو اخبارات ، مسائل وامکانات

شمس تبریز قاسمی
آج کا معاشرہ معلوماتی معاشرہ ہے ۔ان دنوں کسی ملک کی ترقی کے معیار کا اندازہ اس کے معلوماتی نظام کی ترقی سے لگایا جاتا ہے اور معلوماتی نظام ترسیل و ابلاغ کے ذرائع پر منحصر ہے ۔عوامی ذرائع ابلاغ سے معلومات کی فراہمی ہوتی ہے ۔کسی مسئلے کی تفسیر و تفصیل تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔نئے فکر وشعورتک پہنچ بنتی ہے۔ نئے مسائل سے آشنائی ہوتی ہے ۔ذرائع ابلاغ انسانی سرگرمیوں کے رگ وپے میں سرایت کرچکے ہیں ۔ یہ زندگی کے ہرلمحے کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں ۔ ہرلمحہ ہماری سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہچ گئی ہے کہ آ ج اس کے بغیر زندگی گزانی انتہائی مشکل ہوگئی ہے ۔
ذرائع ابلاغ آج دنیا میں مختلف شکلوں میں موجود ہے جس میں صحافت کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو صحف سے ماخوذ ہے ۔جس کا معنی صفحہ ، کتاب ، یارسالے کے ہیں ۔ اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ کے مطابق صحیفہ کے معنی وہ چیز ہیں جس پر لکھا جاسکے ،جدید عربی میں صحیفہ بمعنی جریدہ ا ور اخبار بھی ہے عبدالسلام فن صحافت میں رقم طراز ہیں ۔
’’صحافت سے مراد ایسا مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفے کے بعد شروع ہوتا ہے ، چناں چہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں ، جو لوگ اس کی ترتیب و تحسین سے وابستہ ہیں انہیں صحافی کہاجاتا ہے اور ان کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے‘‘ ۔
آج کی اصطلاح میں صحافت خبرنگاری کا دوسرا نام ہے جس کا مفہوم انتہائی وسیع ہے ۔یہ عوام کے لئے عوام کے بارے میں تخلیق کیا گیا مواد ہے ۔یہ دن بھر کے واقعات کو تحریر میں نکھارکرآواز میں سجاکر تصویر میں سمو کر اس کی خواہش کی تکمیل کرتی ہے جس کے تحت وہ ہر نئی بات جاننے کے لئے بے چین ہوتا ہے ۔
صحافت معاشرے کی بہتر تربیت بھی کرتی ہے ، انتظام دامن کے قیا م میں مدد بھی دیتی ہے ۔معاشرے کے مختلف اقدار کے تحفظ میں معاون بھی ہوتی ہے ، اور عوامی رجحانات کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔ صحافت کی تعریف میں یہ بات بہ طور خاص شامل ہے کہ جو کچھ دنیا بھر میں ہورہا ہے اگر وہ لوگوں کی دل چسپی ، جانکاری ، اور جوش پیداکرنے کے لئے لائق ہے تو اسے لوگوں تک پہچایا جائے ، بلکہ اس سے آگے بڑ ھ کر صحافی کا فرض یہ ہوتا ہے کہ کسی حادثے کی اصل و جہ کیا تھی ، حادثہ کس طرح او رکیوں ہوا، مستقبل میں اس کا کیا اثر پڑے گا ، جیسے سوالوں کے جوابات بھی قارئین کو فراہم کرائے جائیں ۔
صحافت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اسے نظام مملکت کا اہم جزبنادیا ہے ۔ دنیا بھر میں اسے مملکت کے چوتھے ستون کے امیتازی لقب سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ لقب برطانوی پارلیمان لارڈ میکالے نے اخباری نامہ نگاروں کو دیا تھا ،کسی بھی ملک میں سب سے نمایاں مقام حکمراں طبقے کا ہوتا ہے ۔ دوسرا دینی پیشواؤں کا ، تیسر اعوام الناس کا اور چوتھا صحافت کا ۔
کسی بھی جمہوری نظام مملکت میں تین ادارے ضروری ہوتے ہیں ،پارلیمنٹ ، شعبہ انتظامیہ ، اور عدلیہ ان تین اداروں کے بغیر کسی جمہوری عمل کا سرگرم رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور اب محسوس کیا گیا ہے کہ ان تینوں کے ساتھ صحافت کا رہنا ضروری ہے صحافت نہ ہوتو عوام کو کیسے پتہ چلے گا کہ کہ پارلیمینٹ میں کیا قانون بن رہا ہے ،اس کا پس منظر کیا ہے ،اس کا کیا منفی اور مثبت اثر پڑسکتا ہے ، صحافت کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی آزادی جمہوریت کی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے ،صحافت کو یہ اعزاز اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ مستعد پہرے دار کی طرح سماج کے ہر طبقے کی آواز حکمرانوں اور دوسرے لوگوں تک غرجانب دارانہ طریقے سے پہچاتی رہی ہے ۔
روز اول سے صحافت کے بارے میں کئی طرح کانظریہ پایا جاتا رہا ہے ، اسے کچھ لوگ صرف تجارت کے پیشے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ،مگر اکثریت کا ماننا ہے کہ کسی اعلی مقصد کو نصب العین بناکر میدان صحافت میں قدم جمائے رکھنا لائق احترام ہے ۔جس کے تحت صحافی سماج کو مستعد اور چوکنا رکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے ، ایسی صحافت کی گواہی کے لئے جنگ آزادی کی تایخ کافی ہے ۔
اس وقت تحریری صحافت خصوصا اخبارات کا مقابلہ ریڈیواور ٹیلی ویژن سے ہے ،ریڈیو کی ابتدا ہوئی تو لوگوں نے سمجھاکہ اب اخبارات کے دن گئے ،اخبار زیادہ سے زیادہ دن میں تین مرتبہ چھپ جائے گا لیکن ریڈیوسے تو ہرگھنٹے خبریں نشر کی جاسکیں گی ۔ ٹیلی وزیژن آنے کے بعد ریڈیوں کی اہمیت بھی کم ہوگئی اور سب کا نگاہیں ٹی وی پر لگ گئی ۔ طرح طرح کے پروگرام پیش کئے جانے لگے ۔لیکن اس کے باوجود تحریر کا اپنا مقام ہے ،اس کے اندر پائداری ہے ، تلفظ کردہ جملوں کی طرح ہوا میں یہ معدوم نہیں ہوتے ،تحریری صحافت اپنے بس میں ہوتی ہے جتنی مرتبہ اسے جی چاہے آدمی اسے پڑھ لے ، اسے حوالے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ،دستاویزر کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔آنے والی نسلیں اسے استفادہ کرسکتیں ہیں ،ماہرین کا دعوی ہے کہ الیکٹرانک میڈیاکی حیرت انگیز ترقی کے باوجود تحریری صحافت کی اہمیت نہ کم ہوئی نہ کم ہوگی ،کچھ لوگوں کا تو یہ دعوی بھی ہے کہ فی زمانہ اخبارات کا اشتیاق بڑھ رہا ہے اور ان کی اشاعت میں اضافہ ہورہا ہے ۔
صحافت کے فرائض میں سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ صحافی اپنی سوچ بوجھ سے واقعات اور حکمرانوں کے اہم فیصلوں کی ٹھیک ٹھیک جانکاری جلد ازجلد حاصل کرے اور اسے فورا عوام تک پہچائے ، جو اخبار سرکار اور دوسے اداروں کی سرگرمیوں سے پردہ نہیں اٹھاسکتے وہ اپنے وجود کو عزت کے ساتھ زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ پریس کا مذہب ہے بولنا ، سیاست داں خاموش رہ سکتا ہے لیکن پریس نہیں ۔ ساتھ میڈیا ہاؤ کے لئے یہ بھی ضرو ری ہے کہ مکمل طو رپر خود کفیل ہو ، معاشی طور پر کسی کا محتاج نہ ہو اور صحافت کے تمام ترو سائل سے مالامال ہو ۔
صحافی کا رول تاریخ نگار کی طرح ہونا چاہئے جو صرف سچ کی تلاش میں رہتا ہے ،مستقبل کے لئے سچے واقعات چھوڑجاتا ہے اچھے صحافی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنا کام غیر جانبداری کے ساتھ انجام دیں انہیں قطعی زیب نہیں دیتا کہ و ہ چیزوں کو حکمرانوں کی خواہش کے مطابق پیش کریں ۔
یہ ہے صحافت کی حقیقت لیکن عصر حاضر میں صحافت کی تعریف ان جزئیات سے بالکلیہ خالی پڑی ہیں ۔ صحافت آج کے دور کی سب سے بڑی بزنس ہے ۔ ہر میڈیا ہاؤ س کسی نہ کسی کے ہاتھوں بکا ہوا ہے ۔ٹی وی چینلوں سے لیکر اخبارات تک کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ اردو اخبارات اس سلسلے میں جب سے زیادہ بدنام ہیں ۔اردو کا ہر اخبار تقریبا بزنس کے ارداے سے مارکیٹ میں ہے شاید ہے ایسا کوئی اخبار ہو جس کا مقصد بزنس کے بجائے صحافتی فرائض انجام دینا ہو ۔ جس کے ایجنڈے کی پہلی شق صحافت کے ذریعے قوم و ملت کی خدمت کرنی ہو۔ آمدنی دوسرے نمبر پر ہو ۔
ہندوستان کے مختلف شہروں سے تقریبا ہزاروں ارد و کے اخبارات نکلتے ہیں ۔ اشاعت کے اعتبار سے ہندوستان میں اردو تیسرے نمبر پر ہے ۔لیکن نہ کسی کا اپنا نیٹ ورک ہے اور نہ ہی صحافتی وسائل سے مالامال ہے ۔ اردو کا ہر اخبار ہندی اور انگلش کا مرہون منت ہے ۔ اردو اخبارات میں وہی چیزیں اور وہی خبریں ہوتی ہے جو انگلش اور ہندی میں ہوتی ہیں ہاں اردو میں اگر کچھ نمایاں چیزیں ہوتی ہے تو وہ ہرچھوٹے بڑے معاملات پر مسلم تنظیموں کی پریس ریلیز ،کانفرنس اور جلسہ جلوس کی خبریں۔
ہندوستان میں اردو صحافت کی صورت حال اتنی خراب کبھی بھی نہیں ہوئی تھی جتنی آج ہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں اردو صحافت کا اہم رول ہے ۔ الہلا ل اور البلاغ کی تابانیاں نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اپنی جگہ برقرار ہے ۔ لیکن آج نہ کسی اخبار نے وہ مقام حاصل کیا ہے اور نہ کسی ایڈیٹر نے مولانا ابوالکلام آزاد کے صحافتی مشن پر گامزن ہوکر صحافتی فرائض کو انجام دینے کی کوشش کی ہے ۔
ہندوستان کے کچھ اخبارات وہ ہیں جو کافی قدیم ہیں لیکن طویل عرصہ گذرجانے کے باوجو د بھی انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی ہے ۔ جدید ٹکنا لوجی آجانے کے بعد اردو اخبارات نے تجارت کی ترقی تو خوب کی ہے لیکن صحافتی امور میں ترقی کے بجائے تنزلی آگئی ہے۔
ہندوستان میں فی الوقت اردو و کے بڑے اخبارات میں روزنامہ راشٹڑیہ سہارا اور انقلاب کا نام آتا ہے۔ سہارا کی اشاعت ہندوستان کے تقریبا آٹھ صوبوں سے ہوتی ہے اور یہ ہندوستان کا سب سے کثیر الاشاعت اردو اخبار ہے ۔ دوسرے نمبر پر روزنامہ انقلاب ہے جو سترہ ایڈیشنوں ؂پر مشتمل ہندوستان کے چار صوبوں سے شائع ہوتا ہے ۔سب سے زیادہ قارئین انہی دو اخبارات کے ہیں لیکن ان دونوں کے مالک غیر مسلم ہیں ۔ لہذا یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے کہ ان اخبارات کا مقصد بزنس اور تجارت کے سوا بھی کچھ ہوسکتا ہے ۔ مسلم مسائل کا حل ، اردو کا فروغ اور حقائق پر مبنی صحافت کی اس سے توقع کی جاسکتی ہے ۔ اگر ان اخبارات کا مقصد مسلم مسائل کا حل ہوتا تو سہار ا کے ہندی ایڈیشن اور دینگ جاگرن میں بھی صحافت کا وہی طرز اپنایا جاتا جو ان دونوں میڈیا ہاؤ س کے اردو ایڈیشنوں میں اپنایا جاتا ہے ۔
روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ ، روزنامہ اخبار مشرق کولکاتا ، روزنامہ منصف حید آباد ،روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی، روزنامہ آگ لکھنو اور کشمیر عظمی جیسے اردوکے اخبارات علاقائی سطح پر بہت ہی پرانے ہیں ۔ان کی اپنی اہمیت ہے ۔ ان کے مالکان مسلمان ہیں۔ معاشی طور پر بھی یہ اخبارات کافی حدتک مضبوط ہیں لیکن ان کا مقصد بھی بزنس اور تجارت کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ ان کی پیشانی پر تو ملت کا اخبار لکھا ہوا ہے لیکن ملت کے لئے یہ کتنا کام کرتے ہیں اس کا اندازہ انہیں بھی اچھی طرح ہے ۔ ہرچند کے ان اخبارات کی مقبولیت اپنی جگہ برقرارہے ۔سہارا او رانقلاب کی آمد سے ان کے سرکولیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔
گذشتہ چندسالوں میں اردو اخبارات کی طویل قطار لگ گئی ہے ۔ دہلی ، پٹنہ اور لکھنو سے سب سے زیادہ اردو کے اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن چند ہی اخبارات ہیں جو مارکیٹ میں نظر آتے ہیں ۔ بقیہ تمام اخبارات کی حیثیت آفس کاپی کی ہے جن کا مقصد اشتہارات لینا ہوتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ اس زمرے میں صرف اردو اخبارات آتے ہیں بلکہ ارد اخبارات سے زیادہ انگلش اور ہندی کے اخبارات آفس کا پی کے طو ر پر شائع ہوتے ہیں ۔ اور وہ بڑی تعداد میں سرکاری اشتہارات حاصل کرتے ہیں ۔
اردو اخبارات کے حوالے سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ مالکان اپنے ملازمین کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک کرتے ہیں۔ بروقت تنحواہ نہیں دیتے ہیں ۔ تنخواہ بھی اتنی کم دیتے ہیں جو خود کی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ثابت ہوتا ہے ۔ کل تک مدرسوں کے حوالے سے کہاجاتا تھا کہ یہاں سب سے کم تنخواہ ملتی ہے لیکن اب یہ جملہ اردو اخبارات کے لئے کہاجانے لگا ہے ۔ مدرسہ والوں نے اپنی تنخواہ کا معیار الحمد اللہ بہتر بنالیا ہے لیکن اردو اخبارات میں پہلے سے زیادہ تنزلی آگئی ہے ۔ کام تو اب پہلے سے زیادہ لیا جانے لگا ہے لیکن تنخواہ کم ہوگئی ہے۔ پہلے آپریٹر االگ اور سب ایڈیٹر الگ ہواکرتے تھے لیکن اب ایک ہی شخص آپریٹر بھی ہوتا ہے اور سب ایڈیٹر بھی ۔ چند ہی ایسے اخبارات ہیں جن کے تنخواہ کا معاملہ قدرے بہتر ہے اور وقت پر تنخواہ دے دیتے ہیں ۔ اردو اخبارات کے حوالے سے ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یہاں پیشہ ور صحافیوں کی کمی ہے ۔ زیادہ کام کرنے والے طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اخبارات میں کام کرتے ہیں ۔ چناں چہ جیسے ہی ان کی تعلیم مکمل ہوتی ہے صحافت کا پیشہ بھی ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اردو صحافت کا معیار زیادہ بلند نہیں ہوپاتا ہے ۔
ان سب کے باوجود اردو کے کچھ اخبارات وہ ہیں جو حقیقت میں قوم و ملت کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس زبان میں صحافت کی حقیقی اصولوں پر عمل پیر ا ہوکر صحافتی فرائض انجام دینے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ ان کے یہاں تجارت دوسرے نمبر پر ہے پہلے نمبر پرملت کی ترجمانی ہے۔ وہ میڈیا کے نشیب و فراز سے باخبر ہیں ۔ صحافت کی مطلوبہ صلاحیتوں سے سرشار ہیں لیکن ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اقتصادی حالت خستہ ہے ۔ صحافتی وسائل ان کے پاس نہیں ہے ۔ ان کے پاس اپنے ذرائع نہیں ہیں ۔ جس کی بناپر وہ چاہ کر بھی یہ سب چیزیں نہیں کرپاتے ہیں لیکن حتی الامکان اس طرح کوشش ہوتی ہے ۔ صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھاتا جاتا ہے ۔ راہ عتدال پر گامزن ہوکر خبرنگاری اورتجزیاتی رپوٹ تیار کی جاتی ہے ۔صاحب ثروت لوگوں کوایسے اخبارات کی مالی امداد کرنی چاہئے اور اس طرح کے مسلم میڈیاہاؤس کو مضبوطی فراہم کرنے کے سلسلے میں اقدام کرنا چاہئے ۔
( مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)

SHARE