مولانا نسیم اختر شاہ قیصر
(استاذ دارالعلوم وقف دیوبند)
سادگی اور شائستگی کا ایک پیکر، تہذیب و اخلاق کی ایک مبہوت کردینے والی تصویر، گفتار و لباس سے اپنی جانب متوجہ کرنے والا انسان، سنجیدگی، متانت، عالمانہ وقار کا مجسمہ، خوش ذوقی، خوش مزاجی کا نمونہ، ادب و کمال کی نادر مثال، علمی اور قلمی آفاقیت اور سربلندیوں کی نشانی، زبان اور بیان کی ناقابل تسخیر صلاحیتوں کی ہستی، اسلوب اور اظہار کی انتہائی قوتوں کا مالک شخص، اپنی ذات میں ایک عہد اور اپنے کاموں کے اعتبار سے ایک وقت اور مخصوص سانچے میں ڈھل جانے والی شخصیت کا نام مولانا نور عالم خلیل امینی ہے ، جو ماہِ مقدس میں رخصت ہوئے اور یوں خدائی رحمتوں کے سائے میں ابدی نیند سوتے ہیں۔
مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے میرے تعلق کا آغاز ۲۰۰۶ء میں ہوا، میں اپنی کتاب ’’جانے پہچانے لوگ‘‘ پر مقدمہ لکھوانے کے لئے مولانا کی خدمت میں پہنچا، مولانا نے اول مرحلے میں مقدمہ لکھنے کی حامی بھرلی ، جس آسانی سے یہ مرحلہ طے ہوا اتنا آسان ثابت نہ ہوا۔ مولانا کو مقدمہ لکھنے میں چھ ماہ لگ گئے۔ میں نہ مایوس ہوا اور نہ ناامید، مولانا نے خود مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مقدمہ میرے ہاتھ میں آیا تو لفظ لفظ محبتوں اور عنایتوں کا عنوان تھا۔ خاکہ نگاری کی خصوصیات، نامور خاکہ نگاروں کے حوالے، خاکہ نگاری کی ضرورت اور وقیع رائے سب اس مقدمہ کے مندرجات تھے۔ایک بیش بہا مقدمہ جس سے مولانا کے مطالعہ، نظر اور قلمی رفعتوں کے دروازے وا ہوتے ہیں بلکہ مجھے لکھنا چاہئے کہ نئی سمتوں اور جہتوں کے واضح اشارے اس مقدمہ کا امتیاز ہیں۔ مولانا نے دل سے مقدمہ لکھا تھا، چھ ماہ کی محنتوں اور گزرنے والے دنوں کی جھلکیاں مقدمہ میں موجود ہیں۔ یہ مقدمہ ، مقدمہ نگاری کے باب میں خاص طور سے دیوبند کی قلمی زندگی میں اپنی انفرادیت کی خود گواہی دیتا ہے۔
مولانا سے ۱۲-۱۳ سال کے عرصہ میں کافی ملاقاتیں رہیں، میں ان کے مکان پر حاضر ہوتا، کھلتے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتے، بڑی نفیس اور نظیف طبیعت پائی تھی، بڑا سلیقہ تھا، انتہائی مہذب تھے، دسترخوان بھی خوش ذائقہ اور لذیذ چیزوں سے سجا ہوتا ۔ جب دسترخوان سمیٹنے کی باری آتی تو یہ شکایت ضرور فرماتے کہ آپ لیتے کچھ نہیں ہیں۔
خوش پوشاک تھے، شاید روز ہی لباس تبدیل کرتے، شیروانی ہر موسم میں زیب تن رہتی، دھیمی چال کے ساتھ مکان سے دارالعلوم آتے، بہت بار باب قاسم دارالعلوم دیوبند اور چھتہ مسجد کے درمیانی راستے میں ان سے آمنا سامنا ہوا، کبھی چند منٹ ٹھہر کر گفتگو فرماتے اور کبھی سلام و دعا کے بعد آگے بڑھ جاتے۔ گفتگو میں بڑا ٹھہراؤ تھا ، لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی ساخت بھی دل پذیر ہوتی۔ مولانا مرغوب الرحمن سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوا تو برادرم مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی مدظلہٗ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند اور میں تعزیت کے لئے مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ اس نشست میں مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند ، مولانا انوار الرحمن ممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، مولانا نور عالم خلیل امینی اور دیگر حضرات موجود تھے ، مجھے مولانا نور عالم خلیل امینی کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، تعزیتی گفتگو اور مولانا مرغوب الرحمن سے خاندانی اور قدیم تعلق کے تذکرے کے بعد دیگر موضوعات پر بات ہوتی رہی ۔ مولانا میری جانب متوجہ ہوئے ، میں یہاں یہ عرض کردوں کہ بہت دیر سنجیدہ ماحول میں گزارنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے اور میری فطرت مجھے چہکنے پر مجبور کرتی اور قہقہوں پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔ میں چند ہی ملاقاتوں میں بڑوں کی مجلسوں میں بھی بے تکلفی کی فضا بنا لیتا ہوں۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ کی کتاب ’’پسِ مرگ زندہ‘‘ کے بعد میرا خیال ہے کہ اب ’’قبل از مرگ مردہ‘‘ آنی چاہئے۔ یہ سنتے ہی مولانا سنجیدہ ہوگئے، کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئے۔ مگر یہ لمحاتی سنجیدگی تھی، چہرے پر پھر وہی زندہ مسکراہٹ لوٹ آئی جو مولانا کی فطرت کا حصہ تھی۔ فرمایا: بات تو درست ہے، ایسے کردار بھی لاتعداد ہیں، ان پر لکھا جاسکتا ہے۔
میری کتاب ’’ اوراق شناسی ‘‘ چھپی تو حسبِ معمول مولانا کی خدمت میں بھی بھیجی، میں نے اس کتاب میں اپنی وہ تمام تحریریں شامل کی ہیں جو دیگر حضرات کی کتابوں پر مقدمات اور تقاریظ وغیرہ کی صورت میں لکھی گئیں۔ اتفاق یہ کہ مولانا سے بابِ قاسم اور چھتہ مسجد والے راستے میں ملاقات ہوئی۔ فرمایا کہ میں کتاب کے نام سے یہ سمجھا تھا کہ اس میں کاغذ کی تاریخ اور اقسام وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہوگی۔ میں نے قہقہہ لگایا تو مولانا نے فرمایا کہ ابتدائی مطالعہ کر چکا ہوں، آپ نے اچھا کیا جو یہ چیزیں جمع کردیں۔ ان سے ایک ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کے لئے طبیعت بے چین رہتی تھی، وہ دھیرے دھیرے بولتے، ان کی زبان پر کسی کے لئے کوئی توہین یا تضحیک آمیز بات نہ آتی۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے دو دور اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، دونوں ہی زمانوں کی مثبت اور لائقِ ذکر یادیں ہی ان کی زبان اور قلم کا سرمایہ تھیں۔ ان کے یہاں تلخی نہیں، خوشگواری تھی، بہت سی تلخیوں کو انہوں نے ماضی کے حوالے کردیا تھا۔ مثبت اور بہترین سوچ کے ساتھ زندگی گزاری اور اس سلسلے میں خود سے جو عہد کیا تھا تمام عمر اس کی پاس داری کی، کبھی میں زمانۂ طالب علمی کے حوالے سے انہیں کریدتا اور اس دور کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتا تو وہ اس سمت میں نہ چلتے اور اچھی ہی باتیں بتاتے۔
اپنے زمانے کے نامور افراد اور اشخاص کے لئے ان کے دل میں بڑی محبت تھی، ان کے شخصی مضامین بڑے طویل ہوتے، ۱۵-۱۵، ۲۰-۲۰ صفحات پر مشتمل، کبھی اس سے بھی زائد، متعلقہ شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو کو سامنے لاتے، مختصر مضامین لکھنے پر شاید وہ قادر ہی نہ تھے، طوالت کے باوجود ان کے مضامین نثری خوبصورتی اور آراستگی کی بنا پر ذوق اور شوق سے پڑھے جاتے۔ مجھے لمبی چوڑی تحریروں سے وحشت ہوتی ہے، بات مختصر سے مختصر انداز میں ادا کی جائے، میرا دل اس کا تقاضہ کرتا ہے مگر ان کے شخصی مضامین کو ابتداء تا انتہاء پڑھتا۔
ان کا اندازِ نگارش کتنا دل آویز، پرلطف اور چاشنی بھرا تھا اس کو ان کے پڑھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ مولانا کی زبان اور قلم دونوں ہی تنقید سے پاک تھے۔ انہوں نے بے تحاشہ لکھا، شخصیات پر بھی انہوں نے کمال درجہ دادِ قلم دی، شخصیات پر آدمی لکھے اور اپنا دامن بچا لے جائے بڑی بات ہے۔ تنقید اور تعریض دونوں کے قریب نہ جائے، قلم مثبت اور سیدھی راہ پر ہی چلے، یہ جہاں قلم پر گرفت کی علامت ہے وہیں اپنے افکار و خیالات کو آزاد نہ چھوڑنے کی نشانی ہے۔ یہ مولانا کی بڑی خوبی رہی کہ انہوں نے شخصیات پر تفصیل کے ساتھ لکھا اور قلم کو بے قابو نہ ہونے دیا۔
جملہ معترضہ کے طور پر ہی سہی لکھتا ہوں کہ ہمارے بہت سے مضمون نگار جب شخصیات پر لکھتے ہیں، خاص طور پر مرحوم شخصیات پر تو شخصیت کے ان گوشوں کو بھی اُبھارنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے مضامین میں اس روش کو جگہ نہ دی، جس پر لکھا محبت اور تعلق سے لکھا۔ مولانا کے مضامین کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ کسی کے لکھے ہوئے پر کبھی تنقید نہ کرتے حالاں کہ ان مضمون نگاروں کے خیالات اور افکار کو بھی اگر نظر انداز کریں تب بھی ان کی زبان و بیان کی غلطیوں کی پکڑ کی جاسکتی تھی مگر مولانا خاموش ہی رہتے۔ انہیں یہ شوق کبھی نہیں رہا کہ ہمہ دانی کا دعویٰ کریں اور لفظوں کو نشانہ بناکر اپنی قوت ضائع کریں۔ مضمون نگاروں کی ایک ایسی کھیپ بھی منظر پر ہے خاص طور پر سوشل میڈیا پر جسے الفاظ کے استعمال کا ذرہ بھر سلیقہ نہیں وہ ایسا لکھتے ہیں کہ جیسے قلم کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں، بھیک مانگتے جملے، کٹورا ہاتھ میں لئے کھڑی عبارتیں، سسکیاں لیتی تشبیہات، منہ بسورتی تعبیرات ، ایسی بے دردی سے قلم چلاتے ہیں کہ لفظ مر جاتے اور خیالات جاں کنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا کے یہاں حِسِّ مزاح بھی تھی ، چٹکلوں اور لطیفوں کی کاشت کرتے ، کبھی مہذب تبصرے بھی ہوجاتے مگر حدود سے باہر قدم نہ نکالتے۔ درس گاہ اور نجی مجلسوں میں ان کی یہ ادا زیادہ دیکھنے میں آتی۔ شگفتہ اور قہقہہ بار جملوں اور گفتگو سے زیر لب تبسم کی کیفیت تو پیدا کرتے ہی۔
مولانا تحریری قلمرو کے مالک تھے اور اس کا رنگ جدا تھا ۔ ان کی مضمون نگاری مہکتی عبارتوں، پُردم جملوں، مسحور کن اقتباسات، سماں باندھتی تشبیہات سے عبارت تھی۔ تراکیب کی ندرت اور اسلوب کی آفاقیت انہیں دوسرے قلم کاروں سے بلند کرتی ہے۔ شہد میں گھلے طویل اقتباسات، چاشنی میں لپٹے لمبے لمبے جملے یوں ان کا قلم شخصیت کے خدوخال کو خوبصورتی کے ساتھ کاغذ پر ایسے اتارتا کہ مکمل تصویر بن جاتی۔ عادت، اخلاق، مزاج، کردار، کمال، صلاحیت، خدمات، کارنامے، داستانِ زندگی کا ہر ورق روشن ہوتا۔ لگتا کہ زیر قلم مرحوم شخصیت اٹھ بیٹھی ہو اور آنکھیں ان کے متحرک ہونے، چلنے پھرنے کا حیرت انگیز منظر دیکھتی ہوں۔ مولانا نے بے شمار مقالات، مضامین اور کافی کتابیں لکھیں، سب شاہکار ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں، زبان و بیان کا گنجینہ اور اسلوب و ادائیگی کا حسین قرینہ ہیں۔ ’’پسِ مرگ زندہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ کتاب مولانا کے نثری اسلوب اور پیرایۂ اظہار کا مکمل اور روشن نمونہ ہے۔ کتاب کے یہ چند اقتباسات ہمارے خیال کے مؤید ہیں۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا سراپا یوں لکھتے ہیں:
’’گورا چٹا سرخی گھلا ہوا اور صباحت کی مثال کتابی و بیضوی آمیزے کا چہرا، کھڑی ناک، بڑی بڑی آنکھیں، گھنیریں بھنویں، متوسط القامت، نحیف الجسم، مستقیم القد وجود، گھنیری داڑھی، سر پر دوپلّی ممتاز طور پر کھڑی ٹوپی، جو اُن کی شانِ امتیاز تھی، جاڑے اور گرمی دونوں موسموں میں بہ وقتِ ضرورت و خواہش خوب صورت جاذبِ رنگ کی شیروانی، ہاتھ میں ان کے ذوق ِلطیف کی غماز خوب صورت سی چھڑی، ہونٹوں پر ہلکی گلابی جو قدرتی گلابی سے گھل مل کر مزید پرکشش ہوجاتی تھی، اوپر کی جیب میں نستعلیق سا قلم، چال میں عالمانہ شان، نشست و برخاست میں دین دارانہ امتیاز، حرکات و سکنات سے صالحانہ عظمت و وقار کا ترشح، بات میں متوازن دھیما پن، عام مجلس ہو یا بزمِ خاص ہر جگہ علم و فضل کی بارش۔ بیٹھے ہوں، یا چل رہے ہوں یا کھڑے ہوں، لوگ اُن کی دید سے اتنے محظوظ ہوتے کہ جس کی نظیر، میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ سلوک و برتاؤ میں نرمی اور دل میں اُس سے زیادہ نرمی و بردباری، جوش میں آتے، نہ بلند آواز سے بولتے، اس کے ساتھ ظرافت و بذلہ سنجی میں بھی ممتاز تھے۔ نثر و نظم دونوں پر قدرت تھی، اُن کا بڑا علمی سرمایہ تو نثر ہی میں ہے؛ لیکن اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعری میراث بھی چھوڑی ہے۔ اُن کی تقریر ہی کی طرح اُن کی تحریر بھی، بڑی سہل اور اُن کے زبردست علم و فکر کی ترجمانی کے باوجود، انتہائی رواں، سلیس اور شگفتہ ہوتی تھی، جو بہ ذاتِ خود اُن کا وجہِ امتیاز تھی۔‘‘ (پسِ مرگ زندہ)
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ اُن کی عربی اور اردو دونوں یک ساں طور پر روحانیت اور ایمان و یقین میں دھلی ہوئی اور قلب و جگر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہیں ـــــــ مولانا کی ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ‘‘ ، ’’ کاروانِ مدینہ ‘‘، ’’جب ایمان کی بہار آئی‘‘، کو بالخصوص اور اُن کی دیگر کتابوں اور دعوتی و فکری کتابچوں کو بالعموم، ایک سے زائد بار پڑھا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ بعض دفعہ وفورِ جوش و جذبات کی وجہ سے مجھے ایسا لگا کہ میرا سینہ چاک ہوجائے گا، چناں چہ میں بیٹھا ہوتا، تو کھڑا ہوجاتا اور کھڑا ہوتا تو ٹہلنے لگتا، نہ معلوم کتنی مرتبہ آنکھوں کو غسلِ صحت ملی اور عصیاں شعار و توبہ شکن دل پر قلعی ہوئی ۔ میرے جیسے سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے بندگانِ خدا ہوں گے، جنہیں مولاناؒ کی تحریر و تقریر سے اس مبارک کیفیت کا توشہ ملا ہوگا اور ان شاء اللہ ملتا رہے گا۔ آخر کوئی بات ہے کہ عرب کے بڑے بڑے شاہانِ قلم و زبان، اپنا اپنا تاجِ شہنشاہی، مولانا کے قدموں میں ڈال کر عقیدت کا خراج ادا کرکے، ناقابلِ بیان فرحت و انبساط محسوس کرتے رہے ہیں۔‘‘ (پس مرگ زندہ)
فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ مسعودیؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کے تحریر و قلم کے باب میں یوں لکھتے ہیں:
’’نیز وہ اردو کے بلند پایہ اہلِ قلم تھے، ان کی زبان پُرشکوہ ہونے کے ساتھ ساتھ، نئی نئی ترکیبوں اور خوش نما ساختیات سے بھری پُری ہوتی تھی۔ وہ اپنی تحریروں میں زیادہ تر اپنے تراشے ہوئے جملے استعمال کرتے، جو روانی، شیرینیت اور جمال کا پیکر ہوتے تھے۔ وہ زندگی کے اکثر میدانوں میں نقالی و محاکات اور ’’دوسروں سے مانگنے‘‘ کے رویہ سے بے نیاز تھے، ان کی تحریر میں یہ رنگِ بے نیازی زیادہ نمایاں تھا، لہٰذا ان کی تحریریں اپنے بانک پن کی وجہ سے بڑی پُرکشش اور طرح دار ہوتی تھیں، جیسے سامعین اُن کی تقریروں سے بے پناہ محفوظ ہوتے تھے، اسی طرح قارئین اُن کی تحریروں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے، جن میں خیال کی ندرت، زبان کی بلاغت، ترکیبوں کی فصاحت، طرزِ ادا کی سحرکاری اور پیرایۂ بیان کے تنوع اور ہمہ گیریت کی وجہ سے، ہر لمحہ ایک نئی لذّت محسوس ہوتی اور قاری کسی قدم پر اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔ ‘‘ (پس مرگ زندہ)
یوں تو مولانا کی تمام تصانیف اعلیٰ پائے کی ہیں لیکن سوانحی باب اور شخصی مضامین کے ذیل میں ان کے قلم کی رعنائیاں اور جلوہ ریزیاں دیدنی ہیں۔ ’’پس مرگ زندہ‘‘ کے ساتھ ان کی کتاب ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ بھی لائق تذکرہ اور لائقِ بیان ہے۔ کتاب میں مولانا نے تعلق اور عقیدت کے پہاڑ کاٹے ہیں اور اپنے استاذ کو جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اس کا درجہ متعین کرنا مشکل ہے۔ استاذ کی محبت میں لکھی گئی اس کتاب کی ہر سطر روشن اور ہر صفحہ تابندہ ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا کہ مولانا نے معروف اور روایتی تعبیرات کو قلم کا طواف کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ انہوں نے تعبیرات اور استعارات کی اپنی دنیا آباد کی جس سے کتاب کے حسن میں اضافہ ہوا۔
اردو عربی زبان و ادب کے وہ ادا شناس اور ماہر تھے، دونوں زبانوں کی نزاکتوں، تقاضوں اور فطری مطالبوں کو وہ خوب جانتے تھے، دونوں زبانوں میں ان کا اشہبِ قلم اپنے جلوے دکھاتا، کبھی عربی میں اپنی برق رفتاری سے متاثر کرتا، کبھی اردو میں موجِ رواں کی کیفیت پیدا کرتا۔ ان کا لکھا ایک زبان کا شہ پارہ دیکھیں تو دوسرے سے بڑھا ہوا، دوسری زبان کی تخلیق کا مطالعہ کریں تو پہلے سے زیادہ سامانِ قلب و نظر فراہم کرتی ہوئی۔
مولانا نور عالم خلیل امینیؒ مسلسل اور تیز رفتاری کے ساتھ انسانوں سے محروم ہوتی اس دنیا سے جسم و جاں کا نذرانہ لئے بارگاہِ خالق میں پہنچ گئے۔ حادثات، محرومیوں اور درد و کرب کے اس عالم میں یہ خیال بار بار دل اور دماغ پر دستک دیتا ہے:
ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں قلم نے غموں کا بوجھ ڈھونے کے سوا کیا ہی کیا ہے، اپنوں کو رونے اور چلے جانے کا دکھ ہی اس کی پہچان اور شناخت بن کر رہ گئی ہے۔ اس شناخت کو مولانا نور عالم خلیل امینی کی وفات نے اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔ اللہ مولانا مرحوم کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔