بدرالحسن القاسمی
اپنی نوعیت کے منفرد صوفی داعی ومصلح طریقت وسیاست کے جامع خانقاہ کی رونق اور دینی وملی مفاد کی تمام سرگرمیوں میں قائدین کی صف میں اور سب کے ہم قدم رہنے والی شخصیت یعنی سید مصطفی رفاعی ندوی جوئی ماہ پہلے فالج کے ایک حملہ کے نتیجہ میں ان کی آواز سے پہلے ملت محروم ہوئی تھی اب انکی الحاح وزاری والی دعاوں بزرگانہ تنبیہوں اورروحانی جھڑکیوں والے خطابات اور مسلسل جاری رہنے والے دوروں سے بھی ملت ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئی ہے اور جنوب سے شمال تک ملک کے ہر شہر اور ہر گاوں میں واقع دینی مدارس و مراکز تک خود پہنچ کر ان میں روح پھونکنے اور انکے وابستگان کو ملت کیلئے بیدار اورمتحرک کرنے والی ایک ہی شخصیت جو باقی رہ گئی تھی افسوس ہے کہ آج وہ بھی ہم سے رخصت ہوگئی
انا لله وانا الیہ راجعون
سيد مصطفي رفاعی لوح جہاں پر مکرر نہیں اپنی نوعیت کے فرد تھے سرسے پاوں تک سیاہ تہبند اورجبہ نما تن پوش اور ایک مختصر سی سیاہ کپڑے ہی کی تھیلی ہی ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر کے سفر میں بھی کل کائنات ہوا کرتی تھی، سفر میں ہوں یا حضر کسی نجی مجلس میں ہوں یا کسی بڑے عوامی اجلاس کے اسٹیج اور شہ نشیں پر حرمین شریفین کے سفر میں کے عربوں کی کسی مجلس میں ہوں یا اپنے اہل وطن میں علماء و سیاسی قائدین کے بیچ کسی اجتماع میں انکو سیاہ پوشی کےعلاوہ کسی اور لباس میں کسی نے شاید نہیں دیکھا ہوگا، ان کی سیاہ پوشی کاراز خاندانی طور پر طریقہ رفاعیہ سے وابستگی اور اس سلسلہ کی دسیوں خانقاہوں کی وراثت اور ان سے وابستہ لوگوں کی حکمت کے ساتھ اصلاح کے جذبہ میں مضمر تھا اور انکے مرشدوں مولانا سید ابو الحسن ندوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کی ہدایت بھی یہی تھی والد کے مریدوں اور سلسلہ سے وابستہ لوگوں متوحش کرنے کے بجائے بتدریج ان کو راہ حق پر لانے کی کوشش کی جائے اور ان کی اصلاح کی جائے۔
رفاعی صاحب بڑے متحرک انسان تھے وہ خانقاہی انسان ضرور تھے لیکن ملت کے مسائل سے غافل کبھی نہیں رہے جنوب میں ملی کونسل کا وجود ان سے اور ان کے رفیق و شریک کا مفتی اشرف علی باقوی مرحوم ناظم سبیل الرشاد و امیر شریعت کرناٹک کے دم سے اس وقت بھی زندہ اور سرگرم تھی جبکہ شمال میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے انتقال کے بعد اس کا صرف نام ہی باقی رہ گیا تھا، امیر شریعت مولانا مفتی اشرف علی صاحب کے انتقال کے بعد بھی رفاعی صاحب نے کونسل کی سرگرمیوں میں فرق آنے نہیں دیا اور تنہا ہی اسے زندہ رکھا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔
رفاعی صاحب کو اپنے خاص حلیہ اور کالے لباس کی وجہ سے بعض دفعہ الجھنوں سے بھی دوچار ہونا پڑا، کویت پہلی بار محترم جناب ہوشدار خاں صاحب کی دعوت پر آئے تو گاڑی کا لبنانی ڈرائیور لباس کی وجہ سے ان کو پہچان نہیں سکا، پھر کہیں سے مجھے ٹیلیفون کیا اور ڈرائیور کے نہ آنے کی شکایت کی تو مسئلہ حل ہوا ڈرائیور کہنے لگا کہ کالے لباس میں دیکھ کر مجھے کسی کرسچن پادری یا پھر کسی شیعہ واعظ کا گمان ہوا ۔
مولانا مصطفی رفاعی شاید ڈیڑھ دو سال تک شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب کی خدمت میں رہ کر روحانی فیض حاصل کیا اور خانقاہی تربیت کے مراحل پورے کئے وہ سلسلہ رفاعیہ سے خاندانی طور پر وابستہ اور روحانی طور پر اسکے نمائندہ تھے، شیخ احمد رفاعی الکبیر کے متعدد رسائل کے ترجمے کئے اور اس سلسلہ کے فروغ کیلئے برابر کوشش کرتے رہے ان کے ارشادات ملفوظات دعاوں اور وظائف کی لوگوں کو ہمیشہ تلقین کرتے رہے ۔ عربی زبان میں انھوں نے شیخ احمد رفاعی الکبیر کے حالات پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے جو کویت کی نامورشخصیت سید یوسف ہاشم الرفاعی اور ان کے مشترک نام سے شائع ہوئی ہے۔
کویت کے ایک سفر میں آئے سید یوسف ھاشم الرفاعی نے کھانے کی دعوت کی ہم دونوں ساتھ تھے مصطفی رفاعی صاحب نے مجھ سے عربی میں ایک مراسلہ لکھنے کے لئے کہا جس میں ان امور پر نکیر کی گئی تھی جو سید یوسف ہاشم الرفاعی صاحب کے یہاں بعض اہل بدعت کے اثر سے آگئی تھیں اور اس تحریر پر پر اپنا دستخط کرکے انہوں نے سید یوسف ھاشم الرفاعی صاحب کو پیش کیا اس سے ان کے جذبۂ حق اور عہدِ اول کے اکابر دیوبند کے عقیدہ پر پختگی کے ساتھ جماؤ اور استحکام کا اندازہ ہوتا ہے ۔
سیدمصطفی رفاعی صاحب کی رحلت اور جدائی سے ذاتی نقصان کا احساس مجھے اس لئے بھی ہو رہا ہے کہ میری طرف سے ہمیشہ روضۂ اقدس پر پہنچ کر سلام پہنچانے اور حرمین شریفین میں ان کی طرح التزام کے ساتھ ہمیشہ میرے لئے دعا کرنے والا شخص شاید کوئی اور نہیں رہا ۔
دعاہے کہ اللہ تعالی مولانامصطفی رفاعی صاحب کے درجات بلند فرمائے ان کی خدمات کو قبولیت سے نوازے اور انہیں امام احمد رفاعی الکبیر و دیگر صدیقین و صالحین کے ساتھ فردوس بریں میں جگہ دے ۔
مصائب اور تھے پر ان کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
رحمه الله رحمة واسعة واسكنه فسيح جناته وامطر عليه شآبيب رحمته وغفرانه وصلي الله علي خير خلقه محمد واله وصحبه اجمعين