اے باعث فروغ گلستاں کہاں ہے تو حضرت مولانا ابرار صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

از: محمد اللہ قیصر
بعض اصحاب فکرو نظر کے نزدیک تخلیق انسانی کا ایک اہم مقصد خدا کی بنائی ہوئی زمین کی تعمیر بھی ہے، یہی وجہ ہے انسان فطری طور پر زمین کی تعمیر کے لیے غور و فکر کرتا ہے، کوئی سہولیات میں اضافہ کی کوشش کرتا ہے، کوئی انسانی جان کی زیادہ سے زیادہ حفاظت اور ان کے لیے مفید چیزوں کی حصولیابی اور مضر چیزوں سے حفاظت کے طریقوں کی تلاش اور تحقیقات میں زندگی بسر کرتا ہے، کوئی سماجی اصلاحات کو زندگی کا مشن بنالیتا ہے،  غرض دنیا میں آنے والا ہر انسان رب کی عطاء کردہ قدرت و صلاحیت کے بقدر اس دنیا میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر نے کی کوشش کرتا ہے، دنیا کے نقشے پر اپنے ذوق کے مطابق کوئی نہ کوئی رنگ بھرتا ہے،  کبھی رنگ اتنا نمایاں اور جاذب ہوتا ہے کہ دنیا کی اس نمائش گاہ میں گذرنے والا  ہر فرد اسے ٹھہر کر ایک نظر دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے، دیکھ کر رنگ بھرنے والے کی عظمت کا اعتراف کرتا ہے، کوئی خود کو اپنی نسل کی تعمیر تک محدود رکھتا ہے، کسی کی خدمات کا دائرہ سماج کے دوسرے طبقات تک وسیع ہوتا ہے، سماج کا محروم طبقہ اس کی خصوصی توجہات کا مرکز ہوتا ہے، پھر کوئی سماجی اصلاحات کو میدان عمل بناتا ہے، تو کوئی علم کی نشرو اشاعت کو مشن بناتا ہے، ان میں بھی کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کی خدمات بڑی عظیم ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات نمایاں نہیں ہوتے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے جو ہوتا چلا آیا ہے فقط اسی کا امتداد ہے، لیکن کچھ لوگوں کی خدمات سے سماج میں ایک انقلاب آتا ہے، اور نمایاں طور پر ایک تبدیلی محسوس ہوتی ہے،  دیکھنے والوں کے سامنے دو تصویریں ابھر کر سامنے آتی  ہیں ایک پہلے کی، جس میں وہی چال وہی ڈھال “جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے” دوسری تصویر میں ایک دوسرا سماج نظر آتا ہے، جس کے ہر فرد کے چہرے پر ہونے والی ذہنی، فکری اور سماجی تبدیلی کے آثار ہوتے ہیں، ایسا انقلاب برپا کرنے والے بہت کم اور نایاب ہوتے ہیں، زندہ رہتے ہیں تو ان کے لیے ہر شخص کی نگاہ میں احترام ہوتا ہے، اور دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ہر فرد آنسو بہا کر ان کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، دنیا انہیں صدیوں یاد رکھتی ہے، آنے والی نسلیں دعا کرتی ہیں کہ خدا ہمیں ایسے عظیم شخص کا نعم البدل عطا فرما۔
حضرت مولانا ابرار صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت انسان تھے، جن کی علمی، اور سماجی خدمات ناقابل فراموش ہیں، جس گاؤں سے ان کا تعلق تھا وہاں تعلیم خصوصا تعلیم نسواں کے حوالہ سے گذشتہ دو دہائیوں میں ہونے والی تبدیلی کے پیچھے بلاشبہ ان کا بڑا بلکہ اساسی کردار ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ علمی میدان کے شہسوار ہونے کے ساتھ ملی اور سماجی رہنما بھی تھے، مدرسہ کی چہار دیواری میں بند رہنے کے بجائے میدان میں نکل کر ہر محاذ پر سماج کی رہنمائی کا فریضہ بھی انہوں نے انجام دیا، وہ بلاشبہہ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ!
جو ڈٹے ہوئے تھے محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
ان کی وفات سے گاؤں ہی نہیں یہ پورا خطہ سوگوار ہے، ہم ایک ایسے رہنما سے محروم ہوگئے جو ایک طرف علوم دینیہ کے بے لوث خادم تھے، تو دوسری طرف عزم و حوصلہ اور خود اعتمادی سے سے لبریز، ملت کے وفادار سپاہی بھی تھے، گاؤں اور علاقہ میں ہونے والے ہر قسم کے سماجی فیصلوں میں ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ایسے شخص کی وفات یقینا اس پورے خطہ کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں۔
سوانحی خاکہ
آپ کے آباؤ اجداد مدھوبنی کی ایک  چھوٹی بستی “کٹھیلا” کے باشندہ تھے، یہیں 1945 میں مولانا ابرار صاحب کی ولادت ہوئی،  گھرانہ دیندار تھا، آپ کے والد الحاج حبیب الرحمن ابن یاد علی اہل علم کے قدردان تھے، اور طبعی طور پر علم دین سے دلچسپی تھی،  لہذا انہوں نے اپنے نونہال کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا ارادہ کیا، اس وقت کی روایت کے مطابق ابتدائی تعلیم کیلیے گاؤں کے مکتب میں داخل کیے گئے، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد شمالی بہار میں ام المدارس کی حیثیت رکھنے والی درسگاہ مدرسہ محمود العلوم دملہ گئے، جہاں عربی سوم کی تکمیل کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم کے لیے رخت سفر باندھا،1961 میں داخلہ لیا یہاں آپ کو مولانا مظفر حسین رحمۃ اللہ علیہ جیسے علوم دینیہ کے رمز سناش، اور شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ جیسے زہد و تقوی کے امام سے کسب فیض کا موقع ملا، ، یہاں ایک سال گذار کر علم دین کے ہر مسافر کی آخری فرو گاہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں 4 سالوں تک وقت کے سلاطین علوم سے علم و حکمت کا خزانہ بٹورتے رہے، منطق و فلسفہ کے امام حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی، رحمۃ اللہ علیہ، فکر نانوتوی کے ترجمان حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شارح بخاری حضرت مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ، جانشین فخر المحدثین ،حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، خطیب الاسلام حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ،اور مولانا خورشید صاحب رحمہ اللہ جیسے اصحاب علم وفضل سے آپ کو تلمذ کا شرف حاصل ہوا، ان نفوس قدسیہ کے سرچشمہ حکمت و معرفت  سے کسب فیض کرتے ہوئے 1965 میں آپ نے سند فراغت حاصل کی۔
کٹھیلا میں دارالعلوم کے پہلے فیض یافتہ تھے، اللہ نے بڑی ذہانت و ذکاوت سے نوازا تھا، علمی استعداد کے ساتھ انتظامی صلاحیت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، علاقہ کے اکابر علماء نے آپ کی اس خوابیدہ صلاحیت کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، سابق مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کنہواں نے آپ کو اپنے یہاں صدر مدرس کے عہدے کی پیشکش کی، آپ نے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں سے مشورہ کیا، جنہوں نے رضامندی ظاہر کی، اس طرح آپ نے 1966 میں مدرسہ اشرف العلوم کنہواں سے بہ طور صدر مدرس اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، یہاں دوسال آپ کا قیام رہا، اس دوران آپ کی انتظامی صلاحیت خوب نکھر کر سامنے آئی، باتدبیر منتظم کی حیثیت سے آپ کے چرچے اہل نظر اور ارباب حل و عقد کے درو بام کا طواف کرنے لگے، چناں چہ قاری مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (پرسونی) بانی و مہتمم مدرسہ تجوید القرآن سمڈیگا، کی نظر آپ پر پڑی، آپ نے صدارت تدریس کی پیش کش کی، جسے آپ نے قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اصرار کو دیکھتے ہوئے قبول فرمالیا، ایک سال تک بحیثیت صدر مدرس خدمات انجام دینے کے بعد آپ اہتمام کے عہدے پر فائز ہوگئے، اور گیارہ سال تک بحیثیت مہتمم دل و جان سے خدمات انجام دیتے رہے،
1980 کے اوائل میں حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیشکش پر آپ اپنی مادر علمی مدرسہ محمود العلوم دملہ میں بحیثیت مہتمم تشریف لائے، یہاں آپ نے تقریبا 17 سال خدمات انجام دی، 1997 میں مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر محمود العلوم دملہ سے سبکدوش ہوگئے، حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے “دارالعلوم الاسلامیہ” پھلواری شریف پٹنہ کے اہتمام کی پیشکش کی لیکن آپ نے فیصلہ کیا کہ اپنے علاقہ میں ہی دینی و علمی خدمات انجام دی جائے، چنانچہ اکابر علماء بالخصوص حضرت مولانا کاظم صاحب بھیروا، خادم مدرسہ حسینیہ رانچی، قاضی شریعت حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری، اور گاؤں کے ارباب حل و عقد اور اپنے مخلصین و محبین بالخصوص حضرت مولانا حسین صاحب قاسمی اور مولانا سعید صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورہ سے اپنے گاؤں میں ہی، آپ نے”مدرسہ فیضان القرآن” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہے مدرسہ کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں رہی، جب ضعف اور امراض کا غلبہ ہوا، چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تو اپنے فرزند ارجمند مولانا شہاب الدین صاحب قاسمی کو ذمہ داری سونپ دی، اس دوران آپ مسلسل مدرسہ کے انتظام و انصرام اور تعلیمی و ترقیاتی امور کا جائزہ لیتے رہے،اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہے، ضعیف العمری کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے امراض لاحق ہوگئے تھے، بالخصوص اعصابی مشکلات سے دوچار تھے، علاج و معالجہ چلتا رہا لیکن “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” بالآخر وقت موعود کو آنا تھا ، سو آگیا، اور 20 شوال 1445 ہجری مطابق 30 اپریل 2024 کو اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک ہجوم چھوڑ کر اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔

شخصیت :
گہرا سانوالا رنگ، دراز قد، قدرے خمیدہ قامت، چوڑی پیشانی، ستواں ناک، برق آلود نگاہیں، نگاہوں سے ٹپکتی ذہانت،  بارعب سراپا، پروقار لب و لہجہ، اور لہجے میں بلا کا ٹھہراؤ تھا، ان کی شخصیت کا رعب بے نظیر تھا، آپ کے علمی وقار اور رعب کا عالم یہ تھا کہ آپ کا گذر ہوتا تو جنہیں موقع ہوتا راستہ سے چھٹ جاتے یا ادب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے، جس محفل میں ہوتے میر مجلس ہوتے، نپی تلی گتفگو ہوتی، ماحول کی رعایت کا سلیقہ خوب تھا، دوران گفتگو دوسروں کی باتیں غور سے اور پوری توجہ سے سنتے،  چہرے پر اتنی سنجیدگی ہوتی کہ دوسروں کے لیے ان کا چہرہ پڑھ پانا مشکل ہوتا، اخیر میں اپنی راۓ بڑی خود اعتمادی اور سنجیدگی سے پیش کرتے،
خوشی کی حالت میں اتنی بے تکلفی کا اظہار نہیں کرتے کہ کوئی سر چڑھ جائے، اور حالت غضب میں آپے سے باہر نہیں ہوتے، ہر حالت میں متانت و سنجیدگی ان کا شعار تھا، ان کی شخصیت میں لچک نہیں تھی، کسی سیاسی، سماجی مسئلہ یا مدرسہ سے متعلق انتظامی امور میں انتہائی نپا تلا موقف اختیار کرتے اور اس پر چٹان کی طرح جم جاتے، کسی کام کا ارادہ کرتے تو پختہ عزم اور مضبوط حوصلہ کے ساتھ اس کی تکمیل کی کوشش میں جٹ جاتے، انتظامی امور میں اصول کی پابندی ان کی فطرت کا حصہ تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کو اصل شہرت ایک کامیاب اور با اصول منتظم کے طور پر ملی۔
اللہ کو ان سے بڑا کام لینا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ دارالعلوم سے آتے ہی ان کی عملی زندگی کا آغاز بہ طور صدر مدرس ہوا، پھر انہوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، جہاں گئے ادارہ کے مہتمم کی حیثیت سے گئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ ابتدائی دس بارہ سال میں ہی تجربات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے، اور نظم و نسق میں اتنے طاق ہوگئے کہ بڑی سے بڑی مہم ان کے لیے “بازیچہ اطفال” ثابت ہوتی، اس کی بہترین مثال ہے مدرسہ محمود العلوم دملہ میں آپ کا دور اہتمام، 80 کی دہائی تک مدرسہ محمود العلوم دملہ کو وہ شہرت اور ترقی نہیں ملی تھی جس کا یہ ارادہ مستحق تھا،  مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تقرری کے بعد اس ادارہ کی ترقیات کو جیسے پر لگ گئے، تعلیمی، انتظامی اور تعمیری ہر شعبہ میں ادارہ مسلسل ترقی کرتا رہا۔
مدرسہ محمود العلوم دملہ میں آپ کی آمد:
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا 1980 میں مولانا رحمۃ  اللہ علیہ  حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیشکش پر  مدرسہ تجوید القرآن سمڈیگا کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر دملہ آگئے، مدرسہ محمود العلوم دملہ ایک بڑا ادارہ تھا، اس علاقہ میں علوم دینیہ کا عظیم مرکز تھا، اسے ام المدارس کی حیثیت حاصل تھی، یہاں سے علوم دینیہ کے ایسے لعل و گہر تیار ہوئے تھے جن سے پورے خطہ کو علمی و روحانی روشنی میسر ہوئی، یہاں سے علم دین کے محافظین کی ایسی فوج تیار ہوئی تھی جس نے اس علاقہ میں دین و ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا، یہاں اب تک کام کرنے والوں کی کوششوں سے ایک بڑا مرحلہ تو پورا ہو گیا تھا کہ آزادی کے قریب جو ارتداد کی فضا تیار ہوئی تھی، بالخصوص دیہی علاقوں میں دین پر جو خطرات منڈلا رہے تھے، وہ حضرت مولانا ادریس صاحب دملوی شاگرد رشید حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور ان کے روحانی فرزندوں کی کوششوں سے ٹل گئے، اب اس علاقہ کے لوگوں کا ایمان محفوظ تھا، اس ادارے کی برکت کہیے کہ گاؤں گاؤں میں ایسے علماء ربانیین پیدا ہو چکے تھے جو دین پر شب خون مارنے والوں کا علمی مقابلہ کرنے کے ساتھ عوام الناس کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں،  یہاں کے فیص یافتگان نے بچوں کی دینی تعلیم کے لیے مدارس و مکاتب بھی قائم کیے، چنانچہ مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں اور مدرسہ اشرف العلوم کنہواں محمود العلوم دملہ کے فرزندوں کی ہی یادگاریں ہیں، جو اب تک بڑے پیمانہ پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس علاقہ میں مدرسہ محمود العلوم دملہ کی خدمات کو ایک جملہ میں بیان کرنا ہو تو بلاتردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ ادارہ نہ ہوتا تو  -حاشا و کلا-   شاید اس خطہ کے لوگ ارتداد کے شکار ہوجاتے، اس ادارہ نے علوم دینیہ کی نشرو اشاعت کے ذریعہ دین کی حفاظت کا ناقابل فراموش فریضہ انجام دیا تھا، ایسے بڑے ادارے کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آئی تو ظاہر ہے یہ آپ کے لیے کسی بڑے چلینج سے کم نہ تھا، آپ نے توکلت علی اللہ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے اس ادارہ کی ذمہ داری قبول کی، اور تاریخ شاہد ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ محمود العلوم دملہ علم دین کے ایک لہلہاتے گلزار میں تبدیل ہوگیا۔
ایک منتظم اعلی کی کامیابی یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑنے لگے، اس کی حدود میں مقصد قیام کے آثار نمایاں نظر آنے لگیں، اس سے منسلک تمام افراد اپنی اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بیدار اور حساس نظر آئیں، ادارہ کی درو دیوار سے حرکت و نشاط جھلکے، حضرت مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری کے بعد مدرسہ محمود العلوم دملہ میں کچھ یہی کیفیات تھیں، طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا، تعلیمی معیار اپنی مطلوبہ بلندیوں تک پہونچ گیا، تعمیراتی کاموں میں اضافہ ہوا، منتظم اعلی سے لیکر چپراسی تک چاق و چوبند نظر آنے لگے، اساتذہ  وقت کے پابندی ہوگئے اور،  طلبہ میں درس سے غیر حاضری کا تصور محال ہوگیا،  پورا مدرسہ نظم و نسق  کا آئینہ دار ہوگیا، اس وقت بہت مشہور تھا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی سائیکل مدرسہ چوک سے اترتی نہیں کہ اساتذہ، طلبہ اور تمام کارکنان اپنے مشغولیات کا جائزہ لینے میں مصروف ہوجاتے کہ کہیں کوئی بے ترتیبی تو نہیں، جس پر مولانا کی نظر پڑجائے اور انہیں مولانا کے عتاب کا شکار ہونا پڑے، یہاں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس خطہ کی مقتدر شخصیات اور یہاں کے ذمہ داران میں مدرسہ محمود العلوم دملہ کے لیے فکر مندی اور  بیداری پیدا کی، ان کے اندر مدرسہ کے تئیں ذمہ داری اور اپنائیت کا احساس پیدا کیا، ہر شخص اس مدرسہ کے تئیں فکر مند نظر آنے لگا، مدرسہ کے حدود میں ہونے والے مد و جزر سے علاقہ کا ہر شخص ایسے بے چین ہوجاتا جیسے ان کے اپنے گھر کا مسئلہ ہے، بلکہ سبکدوشی کے بعد بھی وہ مدرسہ کے لیے فکر مند رہے، چناں چہ مدرسہ کی ایک زمین پر ذمہ داران کی بے توجہی کی وجہ سے ایک شخص کی نیت خراب تھی،وہ اسے اچکنے کے فراق میں تھا، مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فورا مدرسہ کے ذمہ دار کو متنبہ کیا اور زمین کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے،اس پر مکمل قبضہ کی تلقین کی،
در اصل انسان کی نظر اپنے ہدف پر جس قدر مرکوز ہوتی ہے ،وہ اسی قدر اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے، ذرا سی بے اصولی اس کے دماغ میں طوفان برپا کردیتی ہے،   اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس بے اصولی کی وجہ سے کہیں وہ ہدف سے چوک نہ جائے، گوہر مراد تک رسائی سے محروم  نہ ہو جائے،کیوں کہ مقصد سے انحراف کا اولین سبب طے شدہ نظام میں بے اصولی ہے، اسے یہی احساس اصول و ضوابط کا پابند بناتا ہے، مقررہ اصول و ضوابط کی تنفیذ میں تساہلی سے روکتا ہے، اور اپنی یا کسی ماتحت کی تساہلی پر وہ سراپا غیض و غضب بن جاتا ہے،
مولانا رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بڑے حساس اور بیدار تھے، اسی طرح نظم و ضبط کی پابندی ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی،انہیں بے اصولی سے انتہا درجہ کی نفرت تھی، اور ان کی زندگی میں ہم نے تجربہ کیا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر مقصد متعین کرتے پھر مقصد کے حصول میں جی جان لگا دیتے، اس راہ میں مسائل کی آندھیاں آئیں،مخالفت کا طوفان اٹھے ہر حال میں اپنے ہدف تک پہونچنے کی کوشش کرتے،
ان کی عملی زندگی کے ابتدائی اور محمود العلوم دملہ تک کے حالات پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو لگتا ہے مولانا رحمۃ اللہ علیہ “یک قطبی شخصیت” کے حامل تھے، ان کا مزاج تھا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں پاؤں پسارنے کے بجائے ایک ہدف پر نگاہ مرکوز رکھتے ہوئے اسی کے حصول کی کوشش زیادہ بار آور ہوتی ہے، اور ان کے اسی مزاج نے مدرسہ محمود العلوم کو اس کے بام عراج تک پہونچا دیا تھا، حقیقی معنوں میں وہ ایک مرکزی تعلیم گاہ میں تبدیل ہوگیا،  مدرسہ محمود العلوم دملہ میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا دور اہتمام حقیقی معنوں میں مدرسہ کا “گولڈن ایج” کہلانے کا مستحق ہے،

مدرسہ فیضان القرآن کا قیام ایک انقلابی قدم:
اس پورے خطہ میں جہالت کا بسیرا تھا، بدعات و خرافات نے مسلمانوں کو جکڑ لیا تھا، دین سے دوری کا یہ عالم تھا کہ دین مخالف رسوم و رواج دین سمجھ کر انجام دیے جاتے، لوگ تعزیہ بناکر چھتوں پر چڑھ جاتے اور آسمان کی طرف رخ کرکے کہتے ” یا اللہ ہم نے تعزیہ بنا دیا ہے، اب تیری مرضی قبول کر یا نہ کر” شادیوں میں ہندوانہ رسوم ماضی قریب تک انجام دیے جاتے رہے ہیں، اس ظاہرہ سے یہاں کے دیندار اور دینی و ملی تشخص کے تئیں بیدار افراد بے چین تھے، دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں تھا، بس گاؤں کی حد تک مکاتب تھے جہاں بچوں کو دین کی ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی، اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ یا دیوبند کا رخ کرنا پڑتا، ظاہر ہے یہ ہر کسی کے بس میں نہیں تھا، اس کی ایک بڑی وجہ تھی کہ یہاں کے اکثر لوگ کسان اور مزدور تھے جن کی اقتصادی حالت اطمینان بخش نہیں تھی، لہذا اپنے نو نہالوں کو حصول علم کے لیے دور دراز کے سفر پر بھیجنا ان کے لیے آسان نہ تھا، لیکن کچھ گھرانوں میں ایمان کی تھوڑی رمق باقی تھی، اور وہ اس حالت سے بے چین بھی تھے، لہذا دارالعلوم دیوبند جب قائم ہوا، تو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے چشمہ حکمت و معرفت سے سیرابی کے لیے چند طلبہ نے دیوبند کا سفر کیا،جو وہاں سے دین کے سپاہی بن کر لوٹے، انہیں اولو العزم افراد میں سے ایک حضرت مولانا ادریس صاحب دملوی رحمۃ اللہ نے 1916 میں مدرسہ محمود العلوم دملہ کی بنیاد ڈالی، اس طرح اس خطہ میں علوم دینیہ کی نشرو اشاعت کا آغاز ہوا، لوگوں میں دینی تعلیم کا رجحان عام ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے ہر گاؤں میں دین کے محافظین کی ایک جماعت تیار ہوگئی، انہوں نے اپنے اپنے گاؤں میں مکاتب قائم کیے، ظاہر ہے دینی تعلیم کا یہ انتظام صرف لڑکوں کے لیے تھا، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اب تک کوئی ایسا  ادارہ قائم نہیں ہوا نہ اس طرف توجہ دی گئی، جہاں اعلی تعلیم کی سہولیات دستیاب ہوں، حیرت کی بات ہے کہ اس خطہ میں ہزاروں کی تعداد میں علماء پیدا ہوئے لیکن تعلیم نسواں کے لیے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی، خواتین کے لیے دینی تعلیم کا نظم صرف مکتب کی حد تک تھا، جہاں بچیاں صرف ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرتیں، اور بارہ پندرہ سال کی عمر ہوتے ہوتے گھر بٹھادی جاتیں، بلکہ اکثر گھرانوں کی لڑکیاں تو ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہی رہتیں، جنہیں قرآن بھی پڑھنا نہیں اتا تھا۔
حضرت مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب مدرسہ محمود العلوم دملہ سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اس جانب توجہ دی اور اپنے محبین و مخلصین کے مشورہ سے انہوں نے اپنے گاؤں میں مدرسۃ البنات قائم کرنے کا ارادہ فرمایا، چناں چہ 1998 میں آپ نے اپنے گاؤں کٹھیلا میں مدرسہ فیضان القرآن کی بنیاد ڈالی۔ مشورہ ہوا کہ گاؤں میں پہلے سے قائم مکتب کو ہی مدرسہ کی شکل دی جائے جہاں ابتداء گاؤں کے طلبہ و طالبات کو تجوید کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم دی جائے، نیز درس نظامی میں لڑکیوں کی نفسیات ان کے مزاج و مذاق اور ان کی ضروریات کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلی کرکے انہیں تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم بھی دی جائے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت کم عرصہ میں گاؤں کے علاؤہ قرب جوار کے گاؤں سے بھی لڑکیوں کی بڑی تعداد مستفید ہونے لگی، جہاں لڑکیوں کی دینی تعلیم کا رجحان صفر تھاں وہاں لڑکیاں تفسیر و حدیث اور فقہ کی بڑی کتابیں پڑھنے لگیں، مجھے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے گاؤں کی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” کون جانتا تھا کہ کٹھیلا کی بیٹیاں بھی شرح  وقایہ اور قدوری کی تعلیم حاصل کریں گی، لیکن آج مدرسہ فیضان القرآن کا فیض ہے کہ گاوں کی بیٹیاں حدیث اور فقہ کی بڑی کتابوں سے مستفید ہورہی ہیں ” اس مدرسہ کی خدمات کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہاں کی دو نسلوں کا موازنہ کیا جائے، ایک وہ جو مدرسہ کے قیام سے قبل تعلیم ترک کر چکی تھیں، انہیں قران کریم بھی سلیقہ سے پڑھنا نہیں آتا، دوسری جو مدرسہ کے قیام کے وقت سات اٹھ سال کی بچیاں تھی وہ آج دین کی اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے گھر کے ساتھ سماج کی دیگر خواتین کی اصلاح و تربیت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں، اور کئی طالبات تدریسی خدمات سے منسلک ہیں،
کچھ لوگوں کی نظر میں مدرسہ فیضان القرآن کا قیام ایک حادثاتی واقعہ کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن کٹھیلا کے لوگوں کا تجربہ ہے کہ اس ادارہ کا قیام کٹھیلا اور قرب جوار کے گاؤں کی بچیوں کے لیے کسی عظیم نعمت سے کم نہیں، اس مدرسہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس خطہ میں تعلیم نسواں کا مزاج پیدا ہوا، جو لوگ بچیوں کو تھوڑی بہت دینی تعلیم دے کر یہ سوچ کر گھر بٹھا دیتے، کہ بیٹی ہے زیادہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی، اسے تو آخر کار گھر بار ہی سنبھالنا ہے ان کے مزاج میں یہ انقلابی تبدیلی آئی کہ بیٹی پڑھی لکھی ہوگی تو خاندان سنوار سکتی ہے، نسل نو کی تربیت کی اصل ذمہ دار یہ خواتین ہی تو ہوتی ہیں،
انہوں نے غور کرنا شروع کیا کہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل بغیر تعلیم تربیت کے ممکن نہیں، اور بیٹیاں نہ صرف یہ کہ وہ سماج کا نصف حصہ ہیں بلکہ انہیں نسل نو کی تربیت کا فریضہ تبھی سے انجام دینا ہوتا ہے جب تربیت کے اہم ترین ابتدائی ایام میں بچوں کی ذہنی اور دماغی نشو ونما کا عمل شروع ہوتا ہے،  ان کی نفسیات اور مزاج و مذاق کے تانے بانے اپنے تشکیلی عمل سے گذر رہے ہوتے ہیں، گویا ایک پوری نسل کا دارو مدار ان کے کندھوں پر ہوتا ہے، سماجی عمارت کی بنیاد کا پتھر ہماری یہی بیٹیاں ماں، بہن اور بہو بن کر تو تیار کرتی ہیں لہذا انہیں دینی علوم، امور خانہ داری، حسن معاشرت، اعلی اخلاق و کردار کے پھول بوٹوں سے مزین کرنا زیادہ ضروری ہے، بیٹے کو تعلیم دی جاتی ہے کسب معاش کے لیے، لیکن جسے اپنے کندھوں پر خاندان کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری اٹھانی ہے اسے ہم کیوں بھول رہے ہیں، یہ مزاج اس علاقہ میں ہر خاص و عام میں پیدا ہوا حتی کہ سماج کے وہ طبقات جنہیں ہندوانہ مزاج کے زیر اثر مسلمان بھی کم تر اور پسماندہ سمجھتے رہے ہیں، اور جن کے یہاں تعلیم کا تصور بھی محال تھا، جنہوں نے مان لیا تھا کہ تعلیم ہمارے لیے نہیں ہے، ان کی بچیاں بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہونے لگیں، سماج میں انہیں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا، ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ اپنے گھرانوں کی بڑی بوڑھی خواتین کو عبادت کے طریقے،، طہارت و پاکیزگی کے مسائل، معاشرت کے آداب سکھا رہی ہیں، جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے، اور یہ تمام نیکیاں حضرت مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء کار کے نامہ اعمال میں شمار کی جائیں گی۔

سماجی فکر:
انسان کی عظمت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ دوسروں کے لیے اس کی فکر مندی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے ، اپنے ماسوا کے لیے اس کی سوچ، نقطہ نظر اور سلوک و رویہ کی نوعیت کیا ہے،  بعض انسان صرف اپنے لیے جیتا ہے، بعض اپنے گھر اور خاندان کے لیے، اس سے بڑا انسان سماج اور قوم کی فکر میں گھلتا ہے اور اعلی ترین درجہ ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لیے فکر مند ہو، اتنا کہ خالق کائنات اسے کہہ دے ” لعلك باخع نفسك على آثارهم” (ارے ان کے لیے خود کو ہلاک کرلوگے کیا)یہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا درجہ یے۔
اپنے لیے اور خاندان کے لیے تو ظاہر ہے ہر کوئی جیتا ہے، سماج اور قوم کیلیے فکر مندی کی دولت کسی کسی کو میسر ہوتی ہے، مولانا ابرار صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ان حوصلہ مندوں میں سے تھے جو صرف اپنے لیے جینے کو زندگی کا نام دینے کے بجائے موت سے تعبیر کرتے تھے ، ان کی زندگی کی کہانی تھی کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
وہ ایک مر کزی ادارہ کے مہتمم تھے، ان کی زندگی میں اولیت اپنی ذمہ داریوں کو ہی حاصل تھی، لیکن وہ مدرسہ کی چہار دیواری میں قید ہو کر، اور سماجی مسائل سے بے خبر رہ کر زندگی گذارنے والوں میں سے نہیں تھے، سماجی خرابیوں پر روک ٹوک، اور ان کے خاتمہ کی مطلوبہ قوت کے با وجود، صرف چند چھینٹوں سے اپنا دامن بچانے کے لیے، یا سماج میں کسی با اثر اور مقتدر شخص کی قربت سے محرومی کے خوف سے زباں بندی اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی کے قائل نہیں تھے، بڑی سے بڑی حیثیت کا مالک اگر راہ حق سے تجاوز کرتا نظر آتا تو نکیر کرنے سے نہیں چوکتے، بلا خوف و خطر اور ایسی خود اعتمادی سے اپنا موقف پیش کرتے کہ مقابل اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتا،  انہوں نے خود کو کبھی سماج سے دور نہیں کیا، ، سیاسی سماجی، دینی علمی ہر سطح پر لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، ان کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ سماجی اصلاحات کی صرف فکر کافی نہیں بلکہ عملی طور پر لوگوں کے درمیان رہ کر، ان کے  غم اور خوشی میں شریک ہوکر، ان کے قریب رہ کر اصلاحی کام زیادہ موثر ہوتا ہے، دینی و اصلاحی کاموں میں ان کا نظریہ یہ نہیں تھا کہ “پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے” اس کے برعکس وہ سمجھتے تھے کہ ہندستان جیسے ملک میں جہاں دین سے بغاوت کے سارے اسباب مہیا ہیں، ملکی قانون، سماجی ماحول سیاسی حالات، تعلیمی نظام سب دین سے بیزاری کا ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ دین مخالف اعمال پر اکساتے ہیں، لوگ زندگی کے کسی مرحلہ میں دین کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ایسے میں لوگوں کو دین سے مربوط رکھنے کی صرف ایک شکل ہے کہ ان کے اندر دین کی اہمیت، اس کی محبت، اور ہماری زندگی میں دین کی ضرورت کا احساس پیدا کیا جائے، اور اس کے لیے لوگوں کی آمد کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے بجائے خود ان سے ربط و ضبط بنانے کی کوشش کی جائے، اگر دس افراد کسی عالم دین کے ربط میں ہوتے ہیں تو مسائل کے ظہور کے وقت وہ لوگ چار و ناچار، کم از کم ایک مرتبہ متعلقہ عالم دین سے دین کا موقف جاننے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ مولانا اپنی پوری زندگی میں سماج سے کٹ کر، اپنی دنیا میں مگن کبھی نہیں رہے، اور نہ ان کا کوئی مخصوص حلقہ رہا، بلکہ گاؤں اور علاقہ کے ہر طبقہ سے یکساں طور پر مربوط رہے، ملک کے نامور علماء ہوں یا میدان سیاست کی مشہور شخصیات اور گاؤں کے کسان اور مزدور ہر طبقہ سے ان کے مراسم تھے، اور تمام لوگوں کے نزدیک میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، دینی و ملی حمیت کوٹ کوٹ کے بھری تھی لیکن مذہبی عصبیت سے پاک تھے، اگر کسی مسلمان اور ہندو میں اختلاف رونما ہوتا تو بغیر کسی جانب داری کے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے، وہ آپسی اتحاد و اتفاق،  اور پر امن بقاء باہمی کے علمبردار تھے، ان کا نظریہ تھا کہ باہمی اتحاد و اتفاق کی بنیاد انصاف اور غیر جانب داری پر ٹکی ہوتی ہے، جہاں ظلم و نا انصافی ہوگی وہاں امن و امان کا تصور محال ہے، ان کی زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جب وہ ملت کے دفاع میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ گئے، اسی لیے وہ بلا تفریق مذہب و ملت ہر کسی کی نظر میں محبوب اور محترم تھے۔
حضرت مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہے، انہوں نے علم دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزاردی، تقریبا 55 سال تک علم دین کی نشرو اشاعت میں لگے رہے، اخیر عمر تک ان پیشانی پر تھکن کے آثار نہیں تھے، ، اپنے لیے سب جیتے ہیں قوم ملت کے لیے جینا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے، مولانا ابرار صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان خوش قسمت لوگوں میں تھے جنہوں نے خود کو دینی و ملی کاموں کے لیے وقف کردیا تھا ایسی عظیم شخصیت کی وفات حقیقی معنوں میں قوم و ملت کا عظیم خسارہ ہے۔
واے گل چین اجل کیا خوب تھی تیری پسند
پھول وہ توڑا کہ ویراں کر دیا سارا چمن
دعا ہے کہ اللہ اس علاقہ کے لوگوں کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ،اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی دینی خدمات کا بہترین صلہ عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com