فوزیہ خان
الفلاح یونیورسٹی، دہلی
رمضان المبارک کے روزوں کا ان اعمال میں شمار ہے جن سے بندے کے درجات بلند ہوتے ہیں اور ان اعمال میں ایک عمل’’ قیام اللیل‘‘ہے، جیسا کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا ، یہ دونوں مسلمان تھے۔ ان میں سے ایک بے حد محنت کش تھا، وہ ایک غزوہ میں شریک ہوا اور شہید ہوگیا، دوسرے شخص کی ایک سال کے بعد وفات ہوئی، طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ جنت کے قریب کھڑا ہوں اور وہ دونوں میرے روبرو موجود ہیں، اسی دوران میں جنت سے ایک شخص نکلا اور پہلے شخص کی شہادت کے بعد ایک سال تک زندہ رہنے والے شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی، وہ اندر چلاگیا، جنت سے پھر وہ شخص نکلا اور اس دوسرے شہید شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی، اس کے بعد وہ میری طرف آیا اور مجھ سے کہا کہ تم واپس جاؤ ، کیوں کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا ہے۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو لوگوں کو بیحد حیرانی ہوئی کہ ایک شہید کا رتبہ کس طرح کم ہوگیا، جب کہ شہید کا رتبہ سب سے اعلیٰ اور فائق ہے۔
لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا خواب بیان کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا، کیا وہ دوسرا شخص ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں!آپ ﷺ نے فرمایا ، اس نے اس دوران رمضان المبارک کا مہینہ بھی پایا اور روزے بھی رکھے ، نمازیں بھی پڑھیں ، اور اتنے زیادہ اس کے سجدے پورے ایک سال کے اندر ہوئے ، صحابہ کرام نے عرض کیا ، جی ہاں!آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہوگیا۔ یعنی ان اعمال کے سبب ہی اس دوسرے شخص کو شہید پر فوقیت حاصل ہوئی۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رمضان کے روزے اور اس کی راتوں میں تراویح و تہجد کی ادائیگی سے مومن بندے کے درجات بلند ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو ا کہ نماز بندے کو جنت میں لے جاتی ہے بشرطیکہ وہ پابندی سے ادا کی جائے، نیز نماز کے سبب مومن بندہ کو صدیقین اور شہدا کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور صدقین و شہدا کے درجے سب سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔اس ضمن میں عمر وبن مرّہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ قضاعہ کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ!آپ کا خیال ہے کہ اگر میں ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی شہادت دوں، پانچوں وقت کی فرض نماز یں پڑھوں، ماہ رمضان کے تمام روزے رکھوں اور اس کی راتوں میں عبادتیں کروں اور اپنے مال کی زکوۃ ادا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کی وفات ان اعمال میں ہوگی وہ صدقین اور شہدا ء میں شمار ہوگا۔
لہٰذا ہر مسلمان کو ان فضائل کے پیش نظر ایمان اور احتساب سے ماہ رمضان کے روزے اور اس کی راتوں میں عبادات کا اہتمام کرنا چاہئے، ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عائد کیا ہوا فریضہ ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے اور احتساب یہ کہ اس کی ادائیگی سے اجرو ثواب حاصل ہوگا، خدا تعالیٰ خوش ہوگا۔ گناہوں کی معافی ہوگی اور درجات بلند ہونگے۔ چنانچہ مروی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گزشتہ گناہوں کو معاف فردے گا۔ جو لوگ اس مزید اجر وثواب اور درجات کے خواہشمند ہیں وہ روزہ داروں کو افطار کرانے کا اہتمام کریں، کیوں کہ مروی ہے کہ جس نے کسی روزہ دارکو افطار کرایا، اس کو اس روزہ دار کے اجرو ثواب کے مساوی اجر وثواب ملے گا اور مزید یہ کہ اس روزہ دار کے اجروثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگی جس نے کسی کی چیز سے افطار کیا۔