قاسم سید
بے بسی کا کوئی چہرہ نہیں علامات ہوتی ہیں، جب حد سے گزرجائے تو قہردرویش برجان درویش بن کر سر کے بال نوچنے لگتی ہے۔ دانتوں سے انگلیاں چبانے لگتی ہے۔ زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدابیر بتاتی ہے ۔ بندہ مومن آنکھوں میں لہو بھرکر اپنا مقدمہ رب کے حضور رکھ دیتا ہے۔ عمل سے جی چرانے ولے اسے تقدیر کا حصہ بتاکر خود سے مطمئن اور اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بے بسی تنہا ذات میں سمٹی ہوتی ہے۔ کبھی اداروںوجماعتوں پر محیط ہوتی ہے۔ کہیںضرورت ہے کہیں مصلحت۔ کہیں حکمت عملی کہیں مفاد کی ترجمان۔ کہیں سیاست کہیں منافقت کہیں اداکاری تو کہیں ریاکاری ،بے بسی حد سے بڑھتی ہے تو ذہنی غلامی کے ساتھ نظریاتی غلامی میں قید کردیتی ہے۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ 70سال کی سیاست تین سال کی سیاست کے مقابلہ میں گھٹنے ٹیک دے گی ۔مظلوم طبقات کی حمایت اس خوف سے نہیں کی جائے گی کہ منہ بھرائی کا الزام لگ جائے۔ سیکولرازم ایک گالی بن جائے گا اور جمہوریت کے مقابلہ میں جمہوری فاشزم کی باتیں کی جانے لگیں گی۔ نان ایشوز قومی سیاست کا محور بن جائیں گے اور ایشوز کوڑے دان میں ڈال دئیے جائیں گے۔ آئینی اداروں کی بنیادیں کھوکھلی کردی جائیں گی اور 70سال کی توانا جمہوریت وسیکولرازم کے شیر میمنہ بن جائیں گے ۔ اختلاف رائے کی آزادی کو ملک سے بغاوت اور غداری سے جوڑ دیاجائے گا۔ جارج بش کی پالیسی جو ہمارے ساتھ نہیں ہمارا دشمن ہے۔ کو قومی پالیسی کے طور پر متعارف کرایاجائے گا۔ فوج کا سربراہ شہریوں کو آگاہ کرے گا کہ ان کا فوج سے ڈرنا ضروری ہے اور یہ ڈر پیدا کیاجاناچاہئے فوج کو گائے کی طرح مقدس بنادیاجائے گا۔ اس کے طرز عمل پر تنقید کو دیش سے غداری سمجھاجائے گا ۔ سول سوسائٹی کو دیوار سے لگانے کی سفاکانہ حکمت عملی کوسرکاروں کی ہمدردی حاصل ہوگی ۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے سنگسار ہوں گے۔ مبینہ پتھرباز کو جیپ میں باندھ کر انسانی ڈھال بنانے کی نئی روایت کو فوج اور سرکار کی حمایت حاصل ہوگی۔ انسانی بنیادی حقوق پر سوال اٹھنے لگیں گے۔ گؤ ماتا کی عصمت وعزت کو انسانی جان پر ترجیح دی جانے لگے گی۔ اس کی اسمگلنگ پر قومی سلامتی ایکٹ اور گینگیسٹر ایکٹ لگایا جائے گا۔ گائے کے نام پر اخلاق، نوشاد، پہلو خان سڑکوں پر مارے جائیں گے اور ان کو ہی ملزم بنایاجائے گا۔ پورے ملک میں خوف ودہشت کا ایسا ماحول بن جائے گا کہ لوگ ایک دوسرے پر شبہ کرنے لگیں اور اپنے سایہ سے بھی دہشت محسوس کریں۔ گائے ،کشمیر فوج، طلاق ثلاثہ اور پاکستان میں الجھی سیاست ہماری بے بسی کی داستان ہے۔ آپ گائے کے ساتھ ہیں یا نہیں ۔ فوج کو مقدس مانتے ہیں یا نہیں۔ کشمیری پتھر بازوں پر گولیاں چلانے کے حق میں ہیں یا نہیں۔ پاکستان کو نیست و نابود کردینا چاہئے یا نہیں جیسے سوالات ہر وقت پیچھا کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں کوئی دلیل نہیں۔ صرف سرکا اشارہ درکارہے اگر جواب ہاں ہے تو آپ حب الوطنی سے سرشار اور دیش بھکت ہیں بصورت دیگر غدار اور دیش دروہی،پھر آپ کا فیصلہ بھیڑتنتر کرے گا کسی بھی چوراہے پر یامصروف سڑک پر گھیر کر پٹائی کی جاسکتی ہے ،کلبرگی کی طرح جان سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔ مارنے والے قاتل نہیں بھگت سنگھ کہلائیں گے وہ گوڈسے نہیں مہاتماگاندھی کے اوتار ہوں گے۔ کیونکہ دیش دروہیوں کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ سماجی درندگی پر سکوت ہماری بے بسی کو ظاہر کرتا ہے ورنہ افضل گینگ اور برہانی گینگ کا حصہ بنادیاجائے گا۔ مودی بھکتی کو راشٹر بھکتی سے جوڑنے کی خاموش کوشش،گائے کے بہانے ہندوستانی معاشرہ پر جبری ثقافت تھوپنے پرخاموشی، گائے کو قومی جانور قرار دینے کا مطالبہ ہماری بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مذہب کے نام پر غنڈہ گردی کا دفاع بے حد خطرناک اورلا قانونیت اور سماجی انتشار کی طرف لے جارہا ہے جو آگے چل کر خانہ جنگی میں بدل سکتا ہے۔ ظالم کے عمل پر سکوت اور مظلوم کی حمایت میں تذبذب خوف وبے بسی کا ہی عکاس ہے ۔ بھیڑ کا خوف اعصاب پر مسلط ہوگیا ہے اور بھیڑ تنتر کا دائرہ لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ اس سے ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہیں۔ پاگل بھیڑجسے دیش بھکتی کا انجکشن دیاگیا ہے ہر جگہ موجود ہے سڑکوں پر، تھانے کے باہر،عدالت کے باہر جو لوگ اس کی پشت پر ہیں وہ خوف ودہشت کو پال پوس رہے ہیں۔ تین سال میں ایسا وقت آگیا کہ آدمی سے زیادہ مقدس جانور سے ڈرلگنے لگا۔کیا ہم انہیں کریڈٹ نہیں دیناچاہیں گے۔ صرف تین سال کی مختصر مدت اقتدار کی ہے لیکن اس کے پیچھے دہائیوں کی محنت،ذہن سازی کی مشقت ہدف کے لئے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ ہے اور انہی قربانیوں کے فواکہات وثمرات ہیں، اسے نظرانداز نہیں کرناچاہئے۔ انہوںنے اپنے ارادوں کو کبھی چھپایانہیں۔ ان کے یہاں مزاحمت اور مخالفت توکجا اختلاف تک کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ مزاحمتی آوازیں جو کنہیا اور ہاردک کی شکل میں ابھریں غداری کے مقدمات سے گذر گئے چندر شیکھر آزاد جودلت نوجوانوں کی نئی آواز ہے اسے بھی نکسلی تحریک سے جوڑدیاگیا۔ اس سے قبل ذاکر نائک کو دہشت گردی کی علامت بناکر بدنام ذلیل ورسوا کردیاگیا اور جرم ثابت ہونے سے قبل ہی مجرم سمجھ لیاگیا۔ یہ ان کی کامیابی اور ہمارے مہذب سماج رسوائی وشکست ہے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان دعوئوں اور الزامات پر بھروسہ کریں اور حب الوطنی کی صف میں کھڑے ہوکر اپنی جاں بخشی کرالیں۔
ملی سطح پر بھی اس مجبوری وبےبسی کے دور سے گذررہے ہیں۔ اپنی ذات اپنی تنظیم کو محفوظ رکھنے کی بے بسی،اپنے اداروں کو بچاکر رکھنے کی مجبوری اسے کوئی نام دیں مگرڈر ہمارے عمل سے ظاہر ہوتا ہے جب خادم حرمین شریفین وزیراعظم ہند کو اپنے ملک کا اعلی ترین سول اعزاز دیتے ہیں تو مودی جی کو منہ بھرکوسنے والے اس پر خاموش رہتے ہیں۔ ان کی بے بسی قابل فہم ہوتی ہے اسی طرح جب شاہ سلمان اسلام اور مسلمانوںکے خلاف دشمنی کی مہم چلاکر اقتدار میں آنے والے ڈونالڈٹرمپ کو یہی اعزاز بخشتے ہیںتو ٹرمپ کی پالیسیوں کے کٹر مخالف ان کے اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات پر سخت نکتہ چینی کرنے والوں کے پاس قوت گویائی ختم ہوجاتی ہے۔ جب اسلامی وعرب ممالک کی کانفرنس میں ٹرمپ کی شاہانہ پذیرائی اورانعام واکرام کی بارش کی جاتی ہے توزبانیں کچھ بولتی نہیں۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ بے بسی کے تالے صاف نظرآجاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک چھوٹے سے کمزور ملک قطر کے خلاف بعض عرب حکمرانوں نے ناکہ بندی کا اعلان کیا اس پر حیرت انگیز طور پر دہشت گردی کا الزام لگایا محض اس لئے کہ وہ حماس اوراخوان کا دفاع کرتا ہے۔ میڈیاپر جبری پابندیاں نہیں لگاتا۔ اس سے سارے رشتے منقطع کرلیتے ہیں۔ آمدورفت کے تمام ذرائع بند کردیئے جاتے ہیں ۔ ٹرمپ اس کاکریڈیٹ لیتے ہیں۔ اور یہ کام رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں کیاجاتا ہے۔ قطر کا گناہ اتنا بڑا تھا کہ عالم اسلام کے ’نئے قائد ‘کے حکم پر فوری تعمیل ضروری تھی۔ اس کے منظر پس منظر کو سمجھنے کے باوجود اگر ہمارے ادارے تنظیمیں اور قائدین باتمکین خاموش ہیںاورکوئی ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ان کی بے بسی کے اسباب طشت ازبام ہیں۔
کوئی عالم دین مودی کے ساتھ یوگا کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور دعوت کا منتظر ہے تو اس کے پیچھے مجبوری وبے بسی کا عنصر سمجھ میں آسکتاہے۔ اگر کوئی مسلم رہنما یوگی کی طرف سے افطار پارٹی نہ کرنے کے فیصلے کو سیکولرازم کمزور ہونے سے جوڑتا ہے تواس کی جھنجھلاہٹ اور بے قراری میں پوشیدہ بےبسی ومجبوری کو سمجھاجاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی کوئی حدطے کرلی گئی ہے۔ اس ملک میں کوئی طوفان آنے والا ہے جس کے آثارہیں تو کیا ہم خود کو بچا پائیں گے جبکہ طوفان کی زد میں ہمارا ہی ٹھکانہ ہے۔ بے بسی کی اس چادر کو اتارپھینکنے کا وقت اور حد طے کرناضروری ہے۔ ہم خیرامت ہیں۔ ہم پر سماج اور ملک بچانے کی مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ ورنہ بے بسی کے مظاہرے خوار کرنے کے ساتھ تاریخ کا حصہ بھی بنادیں گے۔ کیا ہمیں اپنی بے بسی پر شرم آتی ہے ہمیں تو آتی ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com