شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگر ہم گذشتہ چند صدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ صلیبی جنگوں کے خاتمہ کے بعد ایک دور ایسا گذرا، جب عیسائی دنیا پستی اور تنزلی کے دلدل میں پھنسی رہی، پھر جب اس وقت کی ترقی یافتہ قوم امت مسلمہ سے علم کی روشنی اسپین کے راستہ یورپ تک پہنچی تو مغرب نے ایک نئی کروٹ لی اور اس کی بیداری صنعتی ترقی کے اس عظیم واقعہ کی شکل میں ظاہر ہوئی، جس کا تسلسل اب تک جاری ہے، مغرب کی مادی اور علمی ترقی نئی نئی منزلین فتح کررہی ہے اور مسلسل آگے کی طرف جاری ہے اور مسلمانوں کے ادبی اور علمی زوال کی داستا ن بھی دراز سے دراز تر ہوتی جارہی ہے، اس ترقی کا سہارا لے کر ایک نئی صلیبی جنگ استعماریت کی شکل میں شروع ہوئی، جس نے ایشیا و افریقہ اور خاص کر عالم اسلام کے بڑے حصے کو فتح کرتے ہوئے اسے اپنی نو آبادی بنالیا، یہ استعماریت آخر اس وقت تک جاری رہی، جب تک خلافت عثمانیہ کا سقوط نہ ہوگیا اور عالم اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کا میاب نہ ہوگئی۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ مسلم ممالک کو آزادی نصیب ہوئی؛لیکن اکثر و بیشتر یہ نام نہاد آزادی تھی، ان کے گلے میں غلامی کا ایسا طوق پہنایا گیا، جو آنکھوں کو نظر نہ آئے؛ لیکن وہ صرف جسم ہی کی غلامی نہ ہو؛ بلکہ دل و دماغ کی بھی غلامی ہو،جس میں ایک قوم خوداپنے بارے میں فیصلہ کرتی ہوئی نظرآئے؛ لیکن اس کی حیثیت اس جہاز کی ہو جسے ریموٹ کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتاہے، اسی دور میں کا رل مارکس نے کمیونزم کا صور پھونکا اور دنیا کے دو بڑے ممالک – روس، چین – اس نئے فلسفۂ حیات اور نظام معیشت پر ایمان لے آئے، کمیونزم سرمایہ داری کے خلاف اعلان جنگ تھا، اب دنیا میں فکر ی اعتبار سے تین فریق بن گئے، مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، مشرق کا اشتراکی نظام اور اسلام، اگر چہ ان دونوں نظام ہائے حیات کو اسلام سے بغض تھا؛ لیکن چوں کہ عالم اسلام اپنی پستی اور کمزوری کی وجہ سے کمزور دشمن شمارکیا جاتا تھا؛ اس لیے اصل سرد جنگ مغربی قوتوں اور اشتراکیت کے حامل مشرقی ملکوں کے درمیان قائم رہی،اس سے ایک توازن قائم تھا، بغض وعناد رکھنے کے باوجود یہ دونوں بڑی طاقتیں مسلم ملکوں کو اپنا ہم نوا رکھنا چاہتی تھیں، اور چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک مذہب کی بالکل نفی نہیں کرتے تھے؛ اس لیے کمیونسٹ ملکوں کے مقابلہ میں عالم اسلام اور مسلمان مغربی قوتوں سے زیادہ قریب رہے، مغربی اقوام نے بھی یہ رویہ رکھا کہ وہ علی الاعلان کمیونزم کے خلاف تو بولتے تھے اور اپنے ذرائع ابلاغ کو بھی ان کے خلاف خوب خوب استعمال کرتے تھے؛ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے میں کسی قدررعایت سے کام لیتے تھے۔
کمیونزم کی بنیاد ایسے اصولوں پرتھی، جو پوری طرح فطرت سے متصادم تھے؛اس لیے صرف سترسال کے اندر ہی اس کی جائے پیدائش ہی اس کا مدفن بن گیا، اس نظام کا سب سے بڑا نمائندہ ملک اور دوسری سوپر طاقت ’’روس‘‘ خود اپنی وحدت کو بچا نہیں سکا اور اس کے ٹکرے ہوگئے،اب دنیا میں دوہی تصورات باقی رہ گئے،ایک اسلام، دوسرے مغربی تہذیب اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، دشمن کا مقابلہ کرنے اور کسی فکر کے تحفظ میں دو طرح کے لوگوں کا اہم کردار ہوتاہے، ایک: حکومتوں کا، جن کے پاس فوجی طاقت ہوتی ہے، جن کے پاس مادی وسائل ہوتے ہے،جو زر و زمین کی مالک ہو تی ہیں، جو ٹکنا لوجی کی حامل ہوتی ہیں،اس کو وجودمیں لانے اور ترقی دینے کاکام انجام دیتی ہے اور اس کے لیے وسائل فراہم کرتی ہیں، دوسرے: وہ لوگ جو اس فکرکے ترجمان اور اس کے شارح ہوتے ہیں، جو فکری اعتبار سے اس کا دفاع کرتے ہیں،جو اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ عوام کو اس سے وابستہ رکھتے ہیں، کسی بھی فکرکے بقا اور کسی بھی نظام کے دوام و استحکام کے لئے ان دونوں طبقوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،ایک کے پاس فولادکی طاقت ہوتی ہے، دوسرے کے پاس علم کا ہتھیار ہوتا ہے، ایک نوک شمشیر سے میدان سر کرتا ہے، دوسرا زبان و قلم سے، ایک زمین کو فتح کرتا ہے اور دوسرا دل و دماغ کو۔
چنانچہ اب مشرق و مغرب کی پوری طاقت اسلام، مسلمان اور عالم اسلام کی طرف متوجہ ہے، مسلم حکومتوں کو زیر کرنے میں انھیں کچھ زیادہ دشواری پیش نہیں آئی؛ کیوں کہ خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد پورے عالم اسلام میں کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہی، جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے، ان کو مزید کمزور کرنے کے لئے دو خصوصی تدبیر یں اختیار کی گئیں، ایک یہ کہ ان کے زیارہ سے زیادہ ٹکرے کرد یے گئے،اتنے چھوٹے چھوٹے ممالک بنادیے گئے کہ بعض شہربھی ان میں سے بعض ملکوں سے بڑے ہوں گے، اس طرح ان کی طاقت ٹوٹ گئی،قدرتی وسائل بٹ گئے، افرادی وسائل کم ہوگئے اور یہ بھی کوشش کی گئی کہ ان ملکوں کو پروانہ ٔ آزادی دیتے ہوئے سرحدوں کا اختلاف باقی رکھا جائے،اس اختلاف کے ذریعہ ان کے درمیان نفرت کی بیج بوئی گئی اور اسے مسلسل پروان چڑھایا گیا، آج اکثرمسلم ممالک کی یہی صورت حال ہے، سعودی عرب اور کویت اور سعودی عرب اور یمن کے درمیان سرحد کا اختلاف موجود ہے، قطراور بحرین کے درمیان جھگڑا ہے، کویت کوعراق سے اور متحدہ عرب امارات کی ایران سے لڑائی ہے، مصراور سوڈان کے درمیان اختلاف ہے، خود سوڈان میں عرب اور غیر عرب قبائل کے درمیان نزاع ہے، فلسطین کی چھوٹی سی نامکمل حکومت کے دوحصے بنے ہوئے ہیں، شام اور ترکی کوایک دوسرے سے بغض ہے، کرد، عراق، ترکی اور شام سے نبرد آزما ہیں ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کدورتیں ہیں، بنگلہ دیش میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معرکۂ کار زار گرم ہے،غرض شرق بعید کے دوتین مسلم ملکوں کو چھوڑ کر تمام ہی مسلم ممالک اپنے مسلمان پڑوسی ملکوں سے یاملک کے اندر دو طبقے ایک دوسرے سے برسرجنگ ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ مسلم ممالک کو حقیقی جمہوریت سے دور رکھا گیا؛ تاکہ وہاں ایسے لوگ نہ آجائیں،جو اسلام پسند ہوں اور مغربی تہذیب کے مقابلہ شریعت اسلامی کو نافذ کرنا چاہتے ہوں؛ اسی لئے انگلی پر گنے جانے والے تین چار مسلم ممالک کو چھوڑ کر تمام ملکوں میں دو طرح کے حکمراں تخت اقتدار پر مسلط ہیں، ایک وہ جو خاندانی بادشاہت کے نمائندہ ہیں، وہاں ایک خاندان کو ملک کے عوام اور اس کے وسائل کا مالک سمجھا جاتا ہے، وہ پیدائشی طور پر حکمراں ہوتا ہے، اس کی زبان قانون ہوتی ہے، عوام کی نہ حکومت میں شرکت ہوتی ہے اور نہ ان کی رائے کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے، ہاں، اگر اس حکمراں کے اندر ذاتی طور پر اللہ کا خوف، دین کی عظمت اور اپنے عوام کی محبت ہے تو اس کا رویہ بہتر ہوتا ہے؛ لیکن چوںکہ یہ کسی نظام کا نتیجہ نہیں ہے؛ بلکہ ایک شخص کے انفرادی اخلاق و اوصاف کا اثر ہے؛ اس لئے اس میں دوام و استمرار باقی نہیں رہتا ۔
دوسرے قسم کے ممالک وہ ہیں، جہاں کسی فوجی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا، پھر وہ ڈکٹیڑ بن گیا اور اس کے بعد یہ ڈکٹیٹر شپ اس کی نسلوں میں منتقل ہوتی رہی، عوام کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ جمہوری طور پر ان سے نجات پاسکیں، ان کے لئے نجات کی دو ہی صورتیں ہیں: یا تو کوئی فوجی یاظلم و ستم سے عاجز شخص تشدد کے ذریعہ اس کا خاتمہ کردے، یا اللہ تعالیٰ اس کو اُٹھالیں، ان ملکوں کا حال بھی پہلی قسم کے ملکوں سے مختلف نہیں؛ بلکہ زیادہ بُرا ہے، ان دونوں طرح کی حکومتوں میں مغربی طاقتوں نے اپنی سازشوں کے ذریعہ اس بات کی کامیاب کوشش کی ہے کہ یہ اصحاب اقتدار ان کا کھلونا بن کر رہیں، وہ نام کے مسلمان ہوں؛ لیکن پوری طرح مغربی افکار، مغربی تہذیب اورمغربی طرز حیات کے نمائندہ ہوں، ان کی زبان حق بولنے سے خاموش رہے، اس کو ٹکنالوجی سے محروم رکھ کر بنا بنایا سامان فراہم کیا جائے، ان کے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے اور پھر قرض دے کر ان پر احسان جتایا جائے، ان کے ذریعہ عوام پر ظلم و ستم کئے جائیں، جو لوگ اسلامی اور شریعت اسلام کا نام لیتے ہیں، انہیں دبایا جائے اور شرمناک سزائیں دی جائیں، وہ اپنی عوام کے مالک و مختار ہوں اور مغربی آقاؤں کے غلام، آج کم و بیش پورا عالم اسلام اسی صورت حال سے دو چار ہے۔
اس طویل عرصے میں مغرب کی مسلسل سازشوں اور ستم انگیزیوں کے باوجود مسلم ممالک میں بھی اور مسلم اقلیتی ممالک میں بھی جن لوگوں نے ملت اسلامیہ کو اسلام سے جوڑے رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ان کی دینی حمیت اور ایمانی غیرت کی آگ کو بجھنے سے بچایا ہے، وہ وہی طبقہ ہے جو زبان و قلم کے ذریعہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرتا ہے اور اخلاق و محبت کی تلوار سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرتا ہے، یہ طبقہ علماء اور دینی تحریکات کا ہے، مغرب کے استعماری دور میں ہی مسلمانوں میں اسلامی تحریکات وجود میں آنے لگیں اور انہیں فروغ حاصل ہوتا رہا، ان تحریکات کو فکر کا سرمایہ فراہم کرنے والا طبقہ علماء کا ہے، خلافت کے خاتمہ کے بعد کسی سرکاری اعانت کے بغیر اس طبقہ نے مسلمانوں کا دین سے رشتہ استوار کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ نقش لازوال ہے، ورنہ نہ معلوم کتنے مسلمان ارتداد کا شکار ہوچکے ہوتے، وہریت اور الحاد پورے پورے ملک کو اپنے قبضہ میں لے لیتی، اسلامی شعائر کے بارے میں مسلمانوں کی دینی غیرت ختم ہوچکی ہوتی اور شریعت اسلامی سے ان کا رشتہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہوتا، جیسے عیسائی معاشرہ میں کچھ لوگ اتوار کو چرچ چلے جاتے ہیں اور جیسے ہندو سماج میں کچھ افراد مندروں میں پہنچ کر نذر و نیاز پیش کردیتے ہیں اور کچھ خاص خاص تہواروں کو دھوم دھام سے انجام دے لیتے ہیں، یہی حال مسلمانوں کا ہوگیا ہوتا؛ کہ ان میں جو لوگ مذہبی ہوتے وہ جمعہ اور عیدین میں شرکت کرلیتے اور کبھی کبھار مسجد چلے جاتے، ان کی عائلی زندگی، ان کی معیشت اور زندگی کے دوسرے مسائل میں شریعت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
علماء نے ہمیشہ اپنی بساط بھر امت مسلمہ کو دین سے جوڑے رکھنے اور اسلام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی کوشش کی؛ چوںکہ ان کی یہ کوشش حکمراں طبقہ کے عیش و عشرت کے منصوبوں میں خلل انداز ہوتی تھی؛ اس لئے زیادہ تر وہ اپنے اپنے عہد کے حکمرانوں کے معتوب ہی بنے رہے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تو قرنِ اول میں نذرانۂ شہادت پیش کردیا تھا، امام ابو حنیفہؒ کو بنو امیہ اور بنو عباس دونوں زمانوں میں حکمراں شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے، دونوں حکومتوں میں انہیں کوڑوں سے مارا گیا، قید کی سزا سے بھی دو چار ہوئے، یہاں تک کہ زہر کا پیالہ پلاکر انہیں شہید کیا گیا، امام مالکؒ کو عباسی حکمراں منصور کے زمانے میں ستر (۷۰) کوڑے لگائے گئے اور اس طرح ان کی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اکھڑ گئے، امام احمد بن حنبلؒ عباسی حکمراں مامون، معتصم اور واثق تینوں کے زمانہ میں ایسی شدید آزمائش سے گذرے کہ تاریخ عزیمت میں شاید اس کی مثال مل سکے، جس شخص نے امام احمدؒ پر کوڑے برسائے خود اس کا بیان ہے کہ میں نے امام احمدؒ پر اس سختی کے ساتھ اسی (۸۰) کوڑے برسائے کہ اگر اس طاقت کے ساتھ میں ہاتھی پر کوڑوں کی بارش کرتا تو وہ بھی چینخ اٹھتا اور یہ بارش مدتوں امام احمد بن حنبل پر ہوتی رہی؛ لیکن پائے استقامت میں کوئی تزلزل نہیں آیا، امام بخاریؒ کا آخری زمانہ اس حال میں گذرا کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی تھی، سعید بن جبیرؒ کو اس طرح ذبح کردیا گیا جیسے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے؛ لیکن حجاج بن یوسف کا جبر و ظلم ان کو ذرا بھی خوفزدہ نہ کرسکا، ابن السکیت کی حق گوئی پر عباسی خلیفہ متوکل نے ان کی زبان کھینچوالی اور زبان کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی پرواز کرگئی، خود ہندوستان میں راہِ عزیمت میں علماء کی استقامت کی ایک وسیع تاریخ رہی ہے، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے اکبر کی دین بے زاری کے خلاف علم اصلاح بلند کیا اور پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ گوالیار میں قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں، مغل حکمرانوں کے دور میں مختلف علماء و مشائخ حق گوئی کے جرم میں شہید کردئے گئے، کسی کو قتل کردیا گیا، کسی کو ہاتھی کے قدموں تلے روند دیا گیا، کسی کو دیوار میں چن دیا گیا اور کوئی جلا وطن کردیا گیا، ہندوستان کی جنگِ آزادی — جس میں علماء نے اسلام کی حفاظت کے لئے حصہ لیا — میں بے شمار علماء شہید کردئے گئے، دلی کے مضافات میں ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں سر راہ درختوں پر پھانسی دے دے کر عبرت کے لئے علماء واہل دین کی لاشیں لٹکاکر رکھی گئیں، سید احمد شہید کی تحریک میں شامل کتنے ہی علماء صادق پور نے جام شہادت نوش کیا اور ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، شاملی میں بڑے بڑے علماء نے سر بہ کف ہوکر برطانوی فوج کا مقابلہ کیا؛ لیکن کوئی چیز ان کی ثابت قدمی کو متأثر نہیں کرسکی۔
آزمائش کا ایک دوسرا رنگ بھی ہوتا ہے اور وہ ہے مال و متاع کی لالچ دے کر کسی کو اس کی فکر سے ہٹا دینا اور اس کو اس کے مشن سے روک دینا، امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں منقول ہے کہ عباسی حکمراں متوکل نے جب پچھلے مظالم کی تلافی کے لئے امام احمد کے پاس ۲۰؍ ہزار سکے بھیجے اور ایک دوسرے موقع پر ایک لاکھ درہم بھیجے تو امام احمد نے معذرت کردی اور فرمایا کہ یہ آزمائش اس آزمائش سے بڑھ کر ہے: ’’ہذا أمر أصعب عليّ من ذلک، ذلک فتنۃ الدین وہذا فتنۃ الدنیا‘‘ محدثین و فقہاء ہوں یا اکابر صوفیاء جیسے خواجہ حسن بصریؒ، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، مشائخ ہند میں خواجہ معین الدین چشتیؒ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیاء، شیخ شرف الدین یحی منیری – رحمہم اللہ – وغیرہ ان سب کے حالات دیکھئے، یہ بادشاہوں اور حکمرانوں سے اور ان کی طرف سے ملنے والے مناصب اور نذرانوں سے اس طرح بھاگتے تھے، جیسے انسان آگ سے بھاگتا ہے۔
موجودہ حالات میں مغربی طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طور اس طبقہ کی لگام کسی جائے، انہیں حق گوئی سے باز رکھاجائے، غلط تاویل اورجھوٹی توجیہ کے ذریعہ مغربی افکار اور لادینی تہذیب پر ان سے مہر لگوائی جائے، اور یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے، ہلاکو خان نے جب بغداد کو پوری طرح قابو میں کرلیا تو اس نے اس زمانے کے بعض نام نہاد ضمیر فروش علماء سے یہ فتوی صادر کرانے میں کامیابی حاصل کرلی کہ ’عادل کافر بادشاہ ‘ظالم مسلمان بادشاہ سے بہتر ہے اور اس غلط فتوی کو اس نے اپنے لئے مہر تصدیق بنایا، مغرب نے اپنی اس سوچ کو روبہ عمل لانے کے لئے دو طریقۂ کار اختیار کئے، ایک طریقہ ان ملکوں میں جہاں مسلمان حکمراں ہیں یا جہاں آمرانہ نظام ہے، وہاں ظلم اور دباؤ کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور حسبِ ضرورت کچھ ترغیب وتحریص کا، اِس وقت اس کی زندہ مثال عرب ممالک ہیں، خاص کر مصر، جہاں شیخ الازہر اور مفتی اعظم سے مغرب کے منشا کے مطابق بیانات دلوائے جاتے ہیں، جہاں مساجد سے ان ائمہ کو معزول کردیا گیا ہے، جو حقیقت میں اسلامی فکر کے ترجمان ہیں اور ایسے لوگوں کو اس اہم ذمہ داری پرفائز کیا گیا ہے، جن کو اس عہد کا ’منافق ‘کہا جاسکتا ہے، ان سے کس طرح کا کام لیا جارہا ہے اور لیا جانے والا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہاں ائمہ مساجد کے لئے جو تربیتی ورکشاپ رکھے جارہے ہیں، ان میں انہیں ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ اسرائیل ہمارا پڑوسی ہے اور پڑوسی کے بڑے حقوق ہوتے ہیں، چاہے مسلمان ہویا غیر مسلم، اور چاہے اس کا سلوک اچھا ہو یا بُرا؛ اس لئے اسرائیل جو بھی کرے؛ لیکن ہمیں پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں حد درجہ افسوسناک صورت حال وہ ہے جو ابھی چند عرب ملکوں کی طرف سے ایک مسلم عرب ملک قطر کے بائیکاٹ پر مصر اورسعودی عرب کے بعض علماء و مشائخ اور اصحابِ افتاء کی طرف سے سامنے آئی ہے ، مصر کے ایک مفتی نے تو خوشامد کی آخری حدوں کو پار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سال قطری باشندوں کا روزہ مقبول نہیں ہوگا ؛ کیوںکہ انھوں نے سعودی عرب کی مخالفت کی ہے ، گویا روزہ کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ، سعودی حکومت کی طرف ہوگی ، سعودی عرب کے مفتی اعظم اور رئیس اُمور حرمین بجائے اس کے کہ ایک مذہبی قائد ہونے کی حیثیت سے مسلم ملکوں کے باہمی اختلاف کو کم کرنے اور صلح کرانے کی کوشش کرتے ، انھوں نے سعودی حکومت کے فیصلے پر آمین کہنے پر اکتفا کیا ، ظاہر ہے کہ جب امام خود مقتدی بن جائے تو اُمت کے مسائل کیوں کر حل ہوسکیں گے؟
جو جمہوری ممالک ہیں، جہاں دستوری طور پر کسی کو اپنے ضمیر کے خلاف مجبور نہیں کیا جاسکتا، وہاں مال و متاع اور عہدہ ومنصب کی لالچ دے کر زبان وقلم پر مہر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یقیناً جمہوریت ایک نعمت ہے، نیز مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، اور اس ملک کی خصوصیت علماء و مشائخ، دینی جماعتوں، تحریکوں اور تنظیموں، نیز دینی تعلیمی اداروں کی کثرت ہے؛ اس لئے یہاں ایک طرف دباؤ کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے، مدارس، ان کے طلبہ و فضلاء، دینی تحریکوں سے وابستہ نوجوانوں اور مذہبی شخصیتوں پر انتہا پسندی، بنیاد پرستی اوردہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔
عالم اسلام کی صورت حال اس سے بھی بہت خراب ہے ، جہاں ہزاروں علماء کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے ، انھیں یہود و نصاریٰ اور اسرائیل سے خطرہ نہیں ہے ؛ لیکن علماء ربانیین اور اسلام کے پرستاروں سے خطرہ ہے ، دوسری طرف ان کے سامنے متاعِ مال و زر کی پیش کش بھی کی جارہی ہے ، خود ہمارے ملک میں کبھی کہا جاتا ہے کہ حکومت ائمہ مساجد کو معقول تنخواہیں دے گی، مساجد حکومت کے یہاں اپنا رجسٹریشن کرالیں، کبھی مدارس کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ گورنمنٹ کے قائم کئے ہوئے بورڈ میں شامل ہوجائیں، اس طرح اساتذہ کو اونچی تنخواہیں فراہم کی جائیں گی، کبھی حکومت کے غیراہم مناصب دے کر تالیف قلب کی جاتی ہے، بہ حیثیت مجموعی ان تمام کوششوں کا بنیادی مقصد اس طبقہ کو پست حوصلہ کرنا ، ان کی زبان کو بند کرنا اوران کی جد و جہد کو محدود کرنا ہے، جن کا بنیادی مشن اسلام کی اشاعت وحفاظت ہے اور یہ سب کچھ صرف حکومتِ ہند کا منصوبہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک عالمی منصوبہ ہے جس کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل میں بنے گئے ہیں۔
یہ حالات عالمی سطح پر علماء و مشائخ کے لئے لمحۂ فکریہ ہیں کہ کیا ان کا مقصد زندگی صرف روٹی کے ٹکڑے حاصل کرنا ہے، جس طور پر بھی حاصل ہوجائیں، یا وہ اس سے اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے کام کررہے ہیں، وہ انبیاء کے وارث ہیں، جو اجرت کے لئے نہیں، اجر کے لئے کام کرتے تھے، یا حکومت ِوقت کے ہر فیصلہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ، وہ اس کائنات میں خدائی مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں یا مادیت کے پرستار ،ان کا کام حکمت و مصلحت کے ساتھ حکومت ِوقت پر نکیر کرنا ہے یا ان کی ڈیوٹی حکمرانوں کے اعدائے اسلام کی سازشوں کا حصہ بننے کے باوجود ان کی تائید و تقویت ہے ، یہ وقت ہے کہ علماء سرجوڑ کر بیٹھیں، اس مسئلہ پر غور کریں، اپنے سلف کے راستہ پر خود کو ثابت قدم رکھیں، دین کے فروغ کو اپنی متاع حیات بنانے کا عہد کریں اور اس بات کا عزم مصمم کریں کہ نہ فولاد و آہن کی طاقت اظہار حق کے معاملہ میں انہیںخوف زدہ کرسکے گی اور نہ سیم وزرکی لالچ انہیں اپنا اسیر بناسکے گی کہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا جینا اور مرنا سب اللہ کے لئے ہے: { اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ}
(ملت ٹائمز )