نم آنکھوں کے ساتھ معروف صحافی خورشید عالم سپر دخاک،نمازہ جنازہ میں صحافی ،دانشوران اور سماجی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی

نئی دہلی(ملت ٹائمز)
معروف صحافی اور کالم نویس خورشید عالم کا سال بھر کی طویل علالت کے بعد آج صبح 12.30 بجے انتقال ہو گیا۔ انھوں نے آخری سانس دہلی اسٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ ہاسپٹل دہلی میں اپنے اعزا اقارب و دیگر رفقا کے بیچ لی۔ وہ 54 سال کے تھے۔ ان کے پسماندگان میں والد محمد شہاب الدین، رکن جماعت اسلامی ہند کانپور کے علاوہ ان کی اہلیہ، دو بیٹے، ایک بیٹی اور ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔
انہوں نے اپنا صحافتی سفر ماہنامہ افکارِ ملی سے تقریباً 25 سال قبل شروع کیا تھا۔ ان کی صحافتی تربیت میں ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس مدیر افکارِ ملی کا رول قابلِ ذکر ہے۔ اس کے بعد چوتھی دنیا اردو کے مدیر اے یو آصف نے فکری و فنی صحافت کو ان میں اجاگر کرنے میں خاصی دلچسپی لی۔ انھوں نے بعد میں روزنامہ قومی آواز اور اخبار مشرق میں کا م کیا جس میں انھیں موہن چراغی اور وسیم الحق جیسے ممتاز صحافیوں کے زیر تربیت کام کرنے کا موقع ملا۔ انھیں اردو کے ساتھ ہندی میں بھی برابر مقبولیت حاصل تھی۔ ہندی میں ان کی صحافت دینک جاگرن سے شروع ہوئی جس میں وہ اسلامی اور مسلم ایشوز پر آبجیکٹیو انداز میں لکھنے کےلئے کافی مشہور ہوئے۔ جاگرن کے مالک اور چیف ایڈیٹر نریندر جی کو ان کی تحریر پسند تھی۔ جب تک نریندر جی حیات سے رہے، تب وہ ان سے خصوصی طور پر اسلامی ومسلم مسائل پر لکھواتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینک جاگرن جیسا اخبار اس زمانے میں مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا۔ وہ دینک ہندوستان، امر اجالا اور ویر ارجن ودیگر علاقائی ہندی اخبارات سے بھی منسلک رہے۔ ویر ارجن و چند دیگر ہندی اخبارات میں ان کاکالم ’اردو اخباروں کا جائزہ‘بہت مقبول رہا،جو بہت دلچسپی سے پڑھاجاتا تھا۔
اس وقت خورشید صاحب انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اور آل انڈیا ملی کونسل کے میڈیا کو آرڈینٹر اور ماہنامہ آئی او ایس اردو خبر نامہ کے مدیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ کئی اہم ترین کتا بوں کی تیاری میں ان کا کلیدی رول رہا۔ مولاناعبدالحمید نعمانی کی ضخیم کتاب ’ہندتوا ‘ان میں سے ایک ہے۔ خورشید صاحب کو متعدد صحافتی ایوارڈ و اعزازوں سے نوازا گیا۔ گزشتہ سال پریس کلب آف انڈیا نے انہیں اپنا ممبر بنایا تھا۔ ابھی تک ان کے تقریباً تین ہزار اردو، دوہزار ہندی مضامین، فیچر اور نیوز اسٹوریز شائع ہو چکی ہیں۔معروضی وفنی صحافت خواہ وہ ہندی میں ہو یا اردو میں کو فروغ دینے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ نئی نسل کے اردو اور ہندی صحافیوں کا مجمع ہمیشہ ان کے ارد گرد رہ کر تربیت حاصل کرتا تھا۔
خورشید عالم کے انتقال پرملال پر اپنے تا ثرات کا اظہار کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی ہند نصرت علی نے کہاکہ یہ اردو اور ہندی صحافت میں تعمیری ومعروضی رخ دینے کےلئے ہمیشہ یاد کئے جائیںگے اور نئی نسل کے صحافیوں کےلئے سبق فراہم کرتے رہیںگے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہاکہ خورشید عالم کے انتقال سے اردو اور ہندی دونوں صحافت کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو ادا کرتے وقت بڑی بے باکی سے اپنی بات پیش کرتے تھے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ خورشید صاحب میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ فکری اور تعمیری صحافت کو بڑی دلیری سے پیش کرتے تھے اور متعدد نازک سے نازک ایشوز کو بڑی خوش اسلوبی سے اٹھاتے تھے۔ آئی او ایس چیئرمین اور آل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ خورشید عالم نے اپنا پورا صحافتی کیریئر اسلامی، ملی اور کمزور طبقات کے کاز میں جوڑ دیا تھا اور اس ضمن میں وہ مختلف تنظیموں اور اداروں بالخصوص آئی اوایس اور ملی کونسل کے کاز کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے۔

عیسائی فادر سولومن نے کہاکہ خورشید صاحب نے صرف اسلامی اور مسلم ایشوز ہی نہیں بلکہ اقلیتی کاز، جس میں عیسائیوں کے ایشوز شامل ہیں، کو منطقی انداز میں پیش کرنے میں بڑی اہم کوشش کی۔ یونائیٹڈ مسلم مورچہ کے جنرل سکریٹری اور مشاورت کے سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی نے ان کے انتقال کو ملک وملت کے خسارے کے ساتھ اپنا ذاتی خسارہ بھی بتایا۔
شام ساڑھے پانچ بجے ان کی نمازہ جنازہ اداکی گئی اور بٹلہ ہاﺅس قبرستان میں تدفیل عمل میں آئی ،نمازہ جنازہ میں صحافی ،سماجی کارکنان اور ملی رہنماﺅں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور ان کے انتقال کو عظیم خسارہ بتایا ۔