مسلم نوجوانوں کی گرفتاری مدارس کو بدنام کرنے کی سازش ۔گرفتاری سے قبل ہی مکمل تفتیش کیوں نہیں کی گئی ؟ وزیر داخلہ جواب دیں: مولانا ارشد مدنی 

نئی دہلی (ملت ٹائمز؍عامر ظفر )
مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر، شاملی اوردیوبند میں چھاپہ ماری کر کے تین مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کا تعلق بنگلہ دیش دہشت گرد تنظیم سے جوڑنے اور مدارس اسلامیہ کو بد نام کرنے کی اے ٹی ایس اتر پردیش کی کوشش آ خر کار ناکام ہوگئی اور 24گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد کوئی بھی پختہ ثبوت سامنے نہ آنے کے سبب ان تینوں نوجوانوں کو آج چھوڑ دیا گیا ۔ دیوبند سے گرفتار کئے گئے ان تینوں مسلم نوجوان دارالعلوم کے علاوہ دیوبند کے دیگر مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔ان میں دو کا تعلق کشمیر سے ہے جبکہ ایک بہار کا رہنے والا ہے ۔ ان تینوں مسلم نوجوانو ں کو چھوڑ دئے جانے کے بعد علاقہ کے مسلمانوں نے راحت کی سانس لی ہے لیکن سہارنپور، مظفر نگر ،شاملی اور دیوبند میں چھاپہ ماری اور حراست میں لئے گئے بے قصور مسلم نوجوانوں کے تعلق سے اے ٹی ایس اور میڈیا نے بڑھا چڑھاکر جو دعوے پیش کئے اور ان کے ساتھ ساتھ مدارس کو بھی دہشت گردی کے اڈے بتانے کی سازش کی گئی اس سے مسلمانوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے ۔ جمعیۃ علما ء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور نام نہاد قومی میڈیا کی مدارس کے خلاف ایک منظم سازِ ش قرار دیا ہے۔
مولانا سید ارشد مدنی نے ملت ٹائمز کو ایک پریس ریلیز جاری کرکے کہا کہ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر ایسا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جیسے مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آج تک ملک کی خفیہ ایجنسیاں کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ اتنا ہی نہیں خود بی جے پی کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی بھی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور کسی بھی مدرسہ کے خلاف حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کا کردار ہمیشہ سے صاف ستھرا ہے اور مدارس نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں جو قربانیاں دی ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں اوران کے سامنے موجودہ سیاسی جماعتوں کا قدبہت چھوٹا ہے ۔ اس کے باوجود بار بار مدارس کونشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازِ ش کا حصہ ہے ورنہ ان نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پکڑا ہی کیوں گیا ؟ جب میڈیا نے ان کو دہشت گرد کے طور پر بد نام کر دیا تب تفتیشی ایجنسی نے کہہ دیا کہ ان کے خلاف ثبوت نہیں ہے اس لئے ہم چھوڑ رہے ہیں آخر یہ تفتیش ان نوجوانوں کوحراست میں لئے جانے سے قبل ہی کیوں نہیں گئی ؟مولانا مدنی نے کہا کہ 24گھنٹے تک تمام چینل ان نوجوانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتے رہے اور ان کے نام مختلف دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دئے گئے جبکہ تفتیش میں وہ بے قصور پائے گئے ۔اتنا ہی نہیں اس کی آڑ میں ایکبار پھر مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا گیا اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی گاہ دارالعلوم کے وقار کو بھی مجروح کرنے کی سازش رچی گئی ۔ یہ بھی کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ اس لئے ان افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے جن کی وجہ سے ان نوجوانوں ، ان کے اہل خانہ، اساتذہ اور مدارس کے ذمہ داران کو ذہنی اذیت سے دو چار ہونا پڑا اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جب تک کہ غیر ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی تب تک یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا اور بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے کیریئر کو یونہی تباہ کیا جاتا رہے گا۔ مولانا مدنی نے وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ا س تعلق سے بیان جاری کر کے ملک کے سامنے سچائی پیش کریں ۔