ہندوستان میں دینی وملی بیداری مدارس اسلامیہ کی دین، بدلتے وقت کے ساتھ نصاب تعلیم اور طریقہ تدریس میں کچھ تبدیلی کی اشد ضرورت، دعوت وتبلیغ کوموثر بنانے کیلئے سنسکرت کا شعبہ بھی قائم کیاجائے

آئی اوایس کے زیر اہتمام’’شمالی ہندوستان میں مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریئر سازی میں مدارس کا کردار‘‘کے عنوان پر منعقدہ سمینار میں شرکا کا اظہار خیال 

نئی دہلی(ملت ٹائمز؍محمد قیصر صدیقی)
مسلمانوں کے تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیزکے زیر اہتمام سول سوسائٹی کے اشتراک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نہروگیسٹ ہاؤس میں شمالی ہندوستان میں مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریئر سازی میں مدارس کا کردار کے عنوان پر یک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیا، اس سمینار میں شرکانے ہندوستان میں مدارس کی ہمہ جہت خدمات اور تعلیم کے فروغ میں نمایاں خدمات کا اعتراف کیا، ساتھ ہی مقررین نے یہ بھی کہاکہ بدلتے وقت کے ساتھ مدارس کو ا پنے نصاب تعلیم میں کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور تمام بڑے مدارس کے ذمہ داران بیٹھ کر اس بارے میں سوچیں اور غورکریں، سمینار کے روح رواں ڈاکٹر منظور عالم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اس سمینار کا مقصد مدارس اور عصری اداروں کے درمیان حائل فاصلوں کو ختم کرناہے ، انہوں نے کہاکہ آج سے 500سال قبل دنیا کے تمام شعبوں میں مسلمان ہی حاوی تھے، تاریخ اورجغرافیہ میں آج بھی ہمیں امام ماناجاتاہے،قرآن اور حدیث ہمارے لئے سرچشمہ ہے اس سے انحراف نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس میں غوروفکر کرنے کی سخت ضروت ہے،انہوں نے یہ بھی کہاکہ عصری اداوں میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس میں اخلاقیات کا فقدان ہوتاہے، ایسے میں دینی مدارس سے تربیت حاصل کرکے عصری تعلیم حاصل کی جائے گی تو وہاں اخلاقیات پائے جائے گی کیوں کہ مدارس میں اخلاقیات پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ڈاکٹر منظور عالم نے یہ بھی کہاکہ دعوت تبلیغ کوموثر بنانے کیلئے مدارس میں سنسکرت کا شعبہ قائم کیاجائے ،اس فن کے ماہرین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائے جن کے ماہانہ شہریہ کا کفیل آئی او ایس ہوگا ۔

SONY DSC

یہ سمینار کل چھ نشستوں پر مشتمل تھا ، افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی اوایس کے فائنینس سکریٹری پروفیسر اشتیاق دانش نے کہاکہ ہندوستان میں دینی اور ملی بیداری مدارس اسلامیہ کی دین ہے، تاہم 1857 کے وقت جو حالات تھے 1947 کے بعد وہ بدل گئے ہیں ، اس لئے مدارس کو بھی کچھ اپنا نظام بدلنے کی ضرورت ہے ،انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے ائمہ کی تنخواہ میں اضافہ کیاجائے ،انہوں نے کہاکہ علمااور ابل مدارس کی بھی معاشی ضروریات ہے جس کی تکمیل ہونی چاہئے، انہوں نے مدارس کو عصری تعلیم سے جوڑنے کے سلسلے میں یہ بھی مشورہ دیاکہ جنوبی ہند کے نظام کو اپنایا جائے جہاں صبح کے وقت دینی تعلیم دی جاتی ہے اور شام کے وقت اسکول کا نصاب پڑھایاجاتا ہے ،سول سوسائٹی نیٹ ورک کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ایس ایم محمود نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ تعلیم کے فروغ میں دینی مدراس کا نمایاں کردارہے لیکن سماجی اور معاشی نقطہ نظر واضح نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات تنقید کا سامناکرناپڑتاہے، اور عصری تعلیم سے واقفیت نہ ہونے کی بناپر ملازمت سے محروم رہ جاتے ہیں حالاں کہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیاکہ اگر ہندوستان میں یہ مدارس نہ ہوتے مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں تھی۔ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اپنے کلیدی خطاب میں مدارس کی ہمہ جہت افادیت اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ افراط وتفریط کے درمیان مدارس میں کچھ ضروری اوراہم مسائل شامل کئے جائیں،تقابل ادیان کو پڑھایاجائے۔پروگراموں میں سرکاری افسران کو مدعوکیاجائے،افتتاحی اجلاس کے صدر پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہم سے جو غلطیاں اندلس میں سرزدہوئی ہیں وہی غلطیاں اب ہم ہندوستان میں دوہرارہے ہیں،اندلس میں مسلمانوں نے علمی دنیامیں بہت بڑا کام کیا لیکن وہاں کے لوگو ں سے ارتباط نہیں ہوسکا ، ایسا ہی معاملہ ہندوستان میں ہم کررہے ہیں، یہاں کی اکثریت سے ہم نے بہت دوری بنارکھی ہے، انہوں نے کہاکہ 80فیصد غیر مسلموں کو چھوڑ کر کوئی پروگرام کرنا سیرت طیبہ کی ناقص پیروی ہے،پروفیسر عثمانی نے مزید کہاکہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ 80فیصد آبادی کو خطاب کرنے کے اہل نہیں ہوتے ہیں اس لئے ہمارا یہ حال ہے اور ضروری ہے کہ مدارس میں عربی کے ساتھ ہندی اور انگریزی کی تعلیم دی جائے۔
سمینار کے پہلے تکنیکی اجلاس کا موضوع “مسلم نو نہالوں کی تعلیم میں مدارس کا کرداراور نصاب تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت” تھا جس پر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبہ عربی کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد نسیم اختر نے کلیدی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے جہاں مدارس سے اسکول آنے والے طلبہ کی بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کیاتووہیں انہوں نے بہت سی خامیوں کی بھی نشاندہی کی، انہوں نے کہاکہ اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ نصاب تعلیم موضوع کے اعتبار سے ہونا چاہئے نہ کہ کتابوں کے اعتبار سے جبکہ مدارس میں ابھی بھی یہی نظام قائم ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے،انہوں نے ایک تجویز یہ بھی پیش کی کہ بڑے مدار س اپنی ماتحتی میں کچھ ایسے ادارے قائم کریں جہاں 70 فیصد عصری تعلیم دیں اور 30 فیصد دینی تعلیم کا اہتمام کریں تاکہ اسلامی ماحول میں تربیت پاتے ہوئے طلبہ عصری تعلیم حاصل کریں۔انہوں نے طریقہ تدریس کو بھی بدلنے کی بات کی اورکہاکہ اساتذہ کچھ مضامین کھڑے ہوکر پڑھائیں اور بلیک بورڈ کا بھی استعمال کریں۔اس اجلاس کی صدرت مفتی ارشد فاروقی نے کی۔
سمینار کے دوسرے تکنیکی اجلاس کا مرکزی موضوع ” مدارس کی تعلیم کے ذریعہ کیرئیر کی تعمیر اور اس سے وابستہ دیگر مسائل” تھا اس موضوع پر کلیدی خطاب دہلی یونیورسیٹی میں شعبہ عربی کے پروفیسر ڈاکٹر مجیب اختر ندوی نے پیش کیا،انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ عربی ششم کے بعد مدارس کے نصاب میں سائنس ، ریاضی ،ہندی اور انگریزی کوبھی شامل کیا جائے ،اسی موضوع پر اہم ترین خطاب ڈاکٹر عمیر انس ندوی نے پیش کیا اور کہاکہ مدارس کے طلبہ میں اپنی باتوں پر اٹل رہنے اور حق فہمی کا انحصار اپنی ذات تک محدود سمجھنے کی بیماری ہے جو افسوسناک ہے۔
سمینار کا تیسرا تکنیکی اجلاس “مدارس کی ضرورتیں اور اس کی تکمیل کی شکلیں ” تھا اس پر ہند نیوز کے چیف ایڈیٹرماجد نظامی ندوی نے اپنا مطبوعہ مقالہ پیش کیا جبکہ صدارت کا فریضہ مولانایعقوب خان بلندشہری نے انجام دیا،اپنے خطبہ صدارت میں انہوں نے شرکاء سمینار کی آراء سے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ مدارس کا مقصد کسب معاش نہیں ہے،دینی ادروں کا اصل مقصد ایمان اور عقیدے کی حفاظت ہے۔

SONY DSC

چوتھے تکنیکی اجلاس کا مرکزی موضوع ” مدارس کے مسائل اور مدارس کی تعلیم میں اصلاح کے طریقے ” تھا۔ اس اجلاس میں کلیدی خطاب دہلی یونیورسیٹی میں شعبہ عربی کے پروفیسر ڈاکٹر اکرم ندوی نے پیش کیا، انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ مدار س کی بہت ساری پریشانیاں ہیں ،حکومتی سطح پربھی انہیں ٹارگٹ کیا جاتاہے اور عوامی طور پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے اس لئے انہیں زیادہ مجبور نہ کیا جائے۔ اجلاس کی صدرت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ عربی کے سابق صدر پروفیسر شفیق احمد ندوی نے کی ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس کو ان کے اصل مشن پر قائم رکھاجائے، یہ ادارے ملت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، تاہم اگرتبدیلی کی گنجائش ہو تو اس پر بھی سوچا جائے
سمینار کے آخری اجلاس کی صدرت آئی او ایس کے چیرمین ڈاکٹر منظور عالم نے کی جبکہ مفتی ارشد فاروقی اور مولانا یعقوب بلندشہری نے اس اجلاس مدارس کے نصاب تعلیم اور تبدیلی کے موضوع پر خصوصی خطاب کیا،سمینار کے تمام تکنیکی نشستوں میں سامعین اور شرکا کو مباحثہ کا بھی موقع دیا گیا،سمینار میں پروفیسر اقتدار احمدخان اور ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔سمینار میں شرکت کرنے والوں میں حامد علی خاں، صفی اختر ،عطاء الرحمن ،خالد حسین ندوی ،وسیم احمد ،اقبال حسین ،نسیم احسن ،منصور احمد ،بسمل عارفی کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں،تمام نشستوں کی نظامت مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی اور ڈاکٹر نکہت حسین ندوی نے مشترکہ طور پر کی ۔