درد دل درد آشنا جانے ۔۔۔!

محمد عباس دھالیوال
اس سے پہلے کہ ہم میانمار کے ر وہنگیا مسلمانوں پرہو رہے ظلم و تشدد کے حالات کو زیر بحث لائیں ۔آئیے ہم مختصرا ً میانمار برما کی تاریخ اور روہنگیا مسلمانوںکے بارے میںمعلومات حاصل کریں۔ برما کے علاقہ اراکان اور بنگلہ دیش کے علاقہ چاٹگا م میں رہنے والے مسلمانوں کو روہنگیا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔برما میں اسلام کی آمد کے آثار ۰۵۰۱ءسے ملتے ہیں جب اسلام کے ابتدائی سالوں میں عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔جنوبی مشرق ایشائی میں واقع یہ ملک جسے آجکل میانمار کہا جاتا ہے اس کو پرانے نام برما سے بھی جاناجاتا ہے ۔میانمار۷۳۹۱ء تک بر صغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا اسکے بعدبرطانیہ کی طرف سے اسے ایک علاحدہ کالونی کا درجہ دے دیا گیا اور ۸۴۹۱تک یہ علاقہ برطانیہ کے زیر تسلط رہا۔مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو بھی اپنی جلاوطنی کے دن اسی برما میں کاٹنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔رنگون میں انکی قبر آج بھی مغل سلطنت کے زوال اوربرطانوی سفاکیت کی داستان سناتی نظر ٓاتی ہے۔
اس وقت میانمار کی قریباً ۵ کروڑ۰۶ لاکھ کی کل آبادی میں۹۸فیصدبودھی،۴فیصد مسلمان،۴فیصد عیسائی،۱فیصد ہندو اور دو فیصدی دیگر قومین آباد ہیں۔
اب میانمار کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ جس مہاتما بدھ کو دنیا امن کا پیامبراور یکجہتی کا داعی سمجھتی ہے اور انکے فکر وفلسفہ کے مطابق جس نے کسی جانور کو قتل کیا ایسا ہی ہے گویا اس نے انسان کو قتل کیا۔لیکن مہاتما بدھ کے ماننے والے اس میانما رسے گزشتہ ۵۲ اگست سے جس طرح سے ، روز سوشل میڈیا پر برما کی فوج اور نا م نہادبودھی پیروکاروں کی طرف سے ایک سوچے سمجھے منصوبے تحت مظلوم روہنگیا مسلمانوںکے قتل وغارت اور نسل کشی اور انکے دیہاتوں کو نذر آتش کیے جانے کی خبریں ا ٓ رہی ہیں وہ دنیا کے ہر امن پسند انساںکے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ ان دل دہلا دینے والے واقعات نے انسانیت کا تھوڑا سا جزبہ رکھنے والوں کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تبتّ کے بودھی دھرم گورو دلائی لامہ کو بھی کہنا پڑا ہے کہ برما میں ہو رہا قتل عام کھلی دہشت گردی ہے اورایسی دہشت گردی کی بودھ دھرم قطعی اجازت نہیں دیتا۔ دلائی لامہ کے مزکورہ بیان سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے مہاتما بدھ کی تمام تعلیمات اور اخلاقیات کو یکسر بھلا دیا ہے ۔
لیکن اس پر دنیا کی خاموشی دراصل مجموعی انسانیت کو شرمسار کر رہی ہے اور برما میں پرتشدد واقعات و خونی کھیل کا بازار جس طرح سے گرم ہے اسے دیکھ کر یقینا حیوانیت بھی شرم سار ہورہی ہے اتنا ہی نہیں مزکورہ قتل عام اور نسل کشی کے واقعا ت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف چل رہی مہم کو منھ چڑاتے نظر آرہے ہیں ،لیکن افسوس کہ خود کو ترقی یافتہ و حقوق انسانی کے الم بردار کہلانے والے ملک برما کے مظلوم لوگوں پر ہو رہے ظلم تشدد کو ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔کیا خوب کہا کسی نے کہ
بڑھنے کو بشر چاند سے بھی آگے بڑھا ہے۔۔۔۔یہ سوچیئے کردار گھٹا ہے کہ بڑھا ہے۔
برما کے ان حالات پر سیاسی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ آج دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک دہشت گردی کو دوچشمی عینک لگا کر دیکھ رہے ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو دنیا میں انسانی حقوق ،یکسانیت و جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ملک مزکورہ میانمار میں نہ حق ہو رہے قتل عام کی سخت مذمت کرتے اور میانمارکی سرکار کو اس پر قابو پانے کیلئے دباﺅ بناتے۔۔۔دنیا کے کسی بھی کونہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے والے ملک برما کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کیئے جانے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یقینا انکی یہ خاموشی ہر امن پسند انسان کے ذہن کتنے ہی سوال کھڑے کرتی ہے۔
ایسے نازک حالات میں جب کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہر طرف سے زندگی کاکافیہ تنگ کیا جارہا ہے اور وہ خود کو بے یارو مددگا ر محسوس کر رہے ہیں ۔
اسی بیچ مزکورہ تمام طرح کی سیاسی جمع تفریق سے بالا تر ہو کر ایک صدائے حق اٹھتی ہے مجھے یقین ہے جب موجودہ عہد کی تاریخ لکھی جائے گی توبرما کے ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی اس آواز کی بدولت ترکی کے صدر اردگان اور انکی اہلیہ امینہ کا نام تاریخ میںوقت کے صفحات پر سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔
ترکی کے صدررجب طےب اردگان کی طرف سے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں کھلے دل سے آگے آنا یقینا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے جس طرح سے انہونے برما کے ان مظلوم پناہ گزینوں کیلئے آواز بلند کی ہے وہ ایک خوش آئیند بات ہے اور دنیا کی دوسری سپر پاور زطاقتوں کے لیے ایک سیکھ و سیدھ لینے کامقام ہے ۔
بے شک اس وقت ترکی کے صدرکی شخصیت برما کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ کو لیکرترک صدر اردگان نے نہ صرف بنگلہ دیش کی وزیر اعظم سے پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک بنگلہ دیش کی سرحدیں کھولنے کی درخواست کی بلکہ ان مہاجرین کا تمام خرچہ اپنی ترک سرکار کی طرف سے اٹھانے کا اعلان کیا،اور ساتھ ہی انہو نے برما کی حاکم آنگ ساک سوکی سے بھی روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کو لیکر فون پر بات چیت کی۔جبکہ انکی اہلیہ امینہ اردگان نے بنگلہ دیش کے مہاجرین کیمپس کا خود دورہ کرتے ہوئے روہنگیا کے مسلمانوںکے دکھ درد کو سن کر انکو ہرطرح کی امداد دینا یقینی بنایا۔
ترکی کے صدر اور انکی اہلیہ نے برما کے مسلمانوں کیلئے جو مخلصانہ کوششیں کی ہیں اسکے تعلق سے یہی کہونگا کہ
درد دل درد آشنا جانے ۔۔۔۔۔۔۔اور بے درد کوئی کیا جانے
از:محمد عباس دھالیوال،مالیرکوٹلہ ضلع سنگرور،پنجاب
موبائل نمبر (۰۵۶۹۵۲۵۵۸۹)