ڈاکٹر عمر فاروق قاسمی
تکثیریت عربی زبان کے لفظ ’’کثرت ‘‘سے ماخوذ ہے ۔ تکثیر عربی زبان میں بابِ تفعیل سے آتا ہے ۔ اضافہ کرنا ،زیادہ کرنے کے معنی میں ۔’’ی ‘‘ نسبت کی ہے اور’’ ت‘‘ دوبارہ مصدر بنانے کے لیے ہے ۔ معنی ہے کثرت والا ہونا۔ ا نگریزی میں اسے (pluralism) کہتے ہیں ، اصطلاحی اعتبار سے مختلف لوگوں نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں ۔کچھ لوگوں نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے :
’’ وہ نظریہ یا نظام جو ایک سے زائد منتہی مادوں یا اصولوں کو تسلیم کرتا ہے‘‘
جب کہ بعض لوگوں نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے:
’’کسی معاشرے کی وہ نوعیت جس کے اندر مختلف لسانی، معاشرتی اور ثقافتی مفادات موجود ہوں اور آپس میں مل کر مجموعی ترقی کر رہے ہوں‘‘
اسی سے مغرب نے ایک اور اصطلاح بنائی ہے ’’ مذہبی تکثریت‘‘ مذہبی تکثیریت کی تعریف انھوں نے اس طرح بیان کی ہے :
’’مذہبی تکثیریت عام طور پر دو یا دو سے زیادہ مذہبی نظریہ ٔحیات کے یکساں طور پر درست یا قابل ِقبول ہونے پر ایمان رکھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘‘
مذہبی تکثیریت مذکورہ معنی میں ’’ نظریہ ٔ اختصاریت ‘‘سے میل نہیں کھاتی ہے ؛ بلکہ اس سے متصادم ہے۔کیوں کہ مذہبی تکثیریت اس معنی میں حق تعالی تک پہنچنے کے لیے متعدد راستوں اورانیک طریقوں کو صحیح اور درست مانتی ہے ۔ اور یکساں طور پر بیک وقت دنیا کے تمام مذاہب کی حقانیت کے امکان کو قبول کرتی ہے ؛لیکن یہ نظریہ ”نظریۂ اختصاریت” کے بالکل برعکس ہے ۔’’اختصاریت ‘‘خدا کے جاننے اور اس کو سمجھنے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ کو سچا اور درست مانتی ہے۔مثلاًبائبل کی تعلیم نظریۂ اختصاریت کو مانتی ہے وہ مذہبی تکثیریت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے کیونکہ تکثیریت کا نظریہ خدا کے بارے میں مختلف نظریات بلکہ خدا کے ساتھ متعدد ددیوی ، یوتاؤں اور مزعومہ لاکھوں خداؤں کے وجو کوبھی قبول کرتا ہے ۔اسی طرح مذاہب کے حوالے سے وہ ہر ایک کو قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ جب کہ بائبل بنیادی طور پر- ناقابل فہم عقیدۂ تثلیث پر یقین رکھنے کے باوجود – صرف ایک خدا کے وجود کو مانتی ہے اورخدا تک پہنچنے کے لیے صرف اپنی تعلیمات یعنی عیسائیت ہی کو حق اور درست مانتی ہے ۔ اسی طرح مذہبی تکثیریت مذکورہ معنی میں قرانی تعلیمات سے بھی متصادم ہے ۔ کیونکہ قران بھی مسلمانوں کوصرف صراطِ مستقیم پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور خدا کے نزدیک صرف دین اسلام کو معتبر مانتا ہے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد بھی ایک معتبر اور مستند عالم دین تھے ۔ راسخ العقیدہ سنی اورعلامہ ابن تیمہ کے پیروکار تھے ۔ وہ مفسر قران بھی تھے ،جنھوں نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۹ ’’ان الدین عنداللہ الاسلام ‘‘ کاترجمہ ’’ بلاشبہ ’’الدین ‘‘ (یعنی دین) اللہ کے نزدیک ’’ الاسلام ‘‘ ہی ہے ‘‘ سے کیا ہے،اسی طرح انھوں نے اسی سورہ کی آیت نمبر۸۵”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین” کا تر جمہ اس طرح کیا ہے ’’ اور (دیکھو) جو کوئی اسلام کے سوا ( جو تمام رہنمایانِ حق کی تصدیق وپیروی کی راہ ہے) کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو وہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا ۔اور آخرت کے دن اس کی جگہ ان لوگوں میں ہوگی جو تباہ نامراد ہوں گے ‘‘ ۔ انھوں نے اپنی کتاب امّ الکتاب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ:’ ’ اسی طرح دین کی سیدھی راہ بھی ایک ہی ہے ۔بہت سی نہیں ہو سکتیں اور وہ اول دن سے موجود ہے ۔ہرعہد ،ہرقو ہر ملک اسی پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا ہے ۔ بعد کو پیروانِ مذاہب نے ایساکیا کہ بہت سی ٹیڑھی ترچھی راہیں نکال لیں اور ایک راہ پر متفق رہنے کی جگہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر متفرق ہوگئے ۔ وہ کہتا ہے کہ اب اگر تم چاہتے ہو کہ منزل مقصود کا سراٖ غ پاؤ تو اسی سیدھی راہ پر اکٹھے ہو جاؤ فھو (سبیل اللہ) ‘‘ ام الکتاب) ص 299 (جنھوں نے ترجمان القران میں صاف صاف لکھا ہے :’’ وہ کہتا ہے ، یہی راہِ عمل نوع انسانی کے لیے خدا کا ٹہرایاہو ا فطری دین ہے اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ یہی ’’ الدین القیم ‘‘ ہے یعنی سیدھا اور درست دین جس میں کسی طرح کی کجی اور خامی نہیں ۔ یہی’’ دین حنیف ‘‘ ہے جس کی دعوت حضرت ابراہیم نے دی تھی ۔ اسی کا نام میری اصطلاح میں ’’ الاسلام ‘‘ ہے (ترجمان القران جلد اول ص 249) وہ مذکوہ معنی میں مذیبی تکثیریت کے نظریہ کو کیسے قبول کر سکتے تھے ؟
البتہ ایک تیسری چیز ہے ہندستانی تکثیریت مولاناآزاد اس تکثیریت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس کے پرجوش حامی رہے ہیں ۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ سینکڑوں نہیں ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں ۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں بھی ذات پات کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے عقائد ونظریات میں مشرق ومغرب کا فرق ہے ۔کسی علاقے میں راون کو برائی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے تو کہیں اس کی پرستش بھی کی جاتی ہے ۔ ایک ہی ذات کے ماننے والوں کے درمیان علاقائی اور لسانی اختلاف بھی پڑے پیمانے پر موجود ہے ۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں شدیدثقافتی تنوع پایا جاتا ہے ۔ ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ایک کے عقیدے اور نظریے کو دوسرے پر زبردستی تھوپ دیا جائے ۔ ثقافتوں میں سے ہر ایک کی اپنی الگ الگ پہچان ہے جسے کوئی بھی کھونا نہیں چاہتا ۔ اسی لیے کسی ایک ثقافت کو دوسری ثقافت میں نہ تومدغم کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی ضم ۔ ہندوستانی تکثیریت کامطلب یہ کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والے ،ہر تہذیب پر یقین رکھنے والے اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کو باقی رکھیں ، ماتھے پر سجدے کانشان سجانے والوں کو کوئی قشقہ لگانے پر مجبور نہ کرے اور کسی قشقہ لگانے والے کو زبردستی اسلامی ٹوپی نہ پہنایا جائے ۔ ہر زبان اور علاقے کی اپنی جو انفرادیت ہے انفرادیت کے حاملین اگرچاہیں تواس کو ہر حال میں باقی رکھیں ، مگر اس کے باوجو د قومی اور وطنی مسائل اور انسانی بنیاد پر جو ضرورتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس پر ہر مذہب وذات اور ہرلسانی وجغرافیائی فرقے کے لوگ ایک ہو جائیں ۔مثلا ملک کی ترقی وتابانی میں سب متحد ہوکر اپنا کردار ادا کریں ، ہرہنگامی وغیر ہنگامی آفت ومصیبت اور حادثات وواقعات کے وقت لوگ بغیر لسانی و علاقائی تعصب اور بلاتفریق ِذات ومذہب ایک دوسرے کے معاون مددگار بن جائیں ۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں قومی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔محسن قوم وملت سرسید احمد خان اپنے ایک لکچر میں کہتے ہیں:
’’یکتائی و یک جہتی سے میرا مقصد یہ نہیں کہ سب لوگ اپنے اپنے عقائد کو چھوڑ کر ایک عقیدے پر ہوجائیں، یہ امر تو قانونِ قدرت کے خلاف ہے، جو ہو نہیں سکتا۔‘‘
اپنے ایک دوسرے خطبے میں اس نقطۂ نظر کی وضاحت وہ اس طرح کرتے ہیں:
’’در حقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہلِ وطن ہونے کے ایک قوم ہیں اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی و بہبودی ممکن ہے اور آپس کے نفاق اور ضد وعداوت، ایک دوسرے کی بد خواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔‘‘
مولانا ابو الکلام آزاد مذکورہ معنی میں ہندوستانی تکثیریت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس کے پر جوش داعی تھے ۔ پوری زندگی انھوں نے اپنی تقریرو تحریر کے ذراپنے اس پیغام کو عام کیا ۔ اپنے مذیبی شناخت کی حفاظت کے ساتھ ہندوستانی قومیت بالفاظ دگر ہندوستانی تکثیریت کی وکالت وہ کس انداز میں کرتے ہیں ذرا ملاحظہ کیجئے :
’’میں مسلمان ہوں، اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں، بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے؛ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی وہ اس راہ میں میری راہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کاہیکل ادھورا رہ جاتا ہے میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر عامل (Factor) ہوں میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مسلمان اور کانگریس٢٦. ٢٧۔ آزاد بک ڈپو لاہور)
انھوں نے جناح کے بتائے ہوے ’’ دو قومی نظریہ‘‘ کی پوری طرح سے تردیدکی ،ان کی نظر میں فطرت نے ہمیں یعنی ہندو اورمسلمانوں کو ہزار سال قبل ایک ساتھ جمع کردیا ہے ۔ گذشتہ ایک ہزار سالوں سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوے آرہے ہیں ۔ بے شک ہمارے درمیان بہت سی لڑائیاں بھی ہوئی ہیں؛ لیکن یہ لڑائیاں دشمنوں کی لڑائیاں نہیں تھیں،دوسگے بھائیوں کی لڑائیاں تھیں جوزندگی میں کبھی کبھار ہوتی رہتی ہیں اور وقت گزرتے ہی ختم ہوجاتی ہیں ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’مسلم لیگ کی پیش کردہ قیام پاکستان کی تجویز محض ایک تخیل ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے وہ وقت، قومیت اور جدید زمانے کے خلاف جارہے ہیں۔ ہندو اور مسلمانانِ ہند کے آبا و اجداد مشترکہ قوم ہیں کسی ایک قوم کی برتری یا کمتری کا قائل نہیں۔ انسانیت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے مل جل کر رہنا چاہیے، فطرت ہمیں ہزاروں سال پہلے ایک ہی جگہ اکٹھا کرچکی ہے۔ بے شک ہم لڑتے بھی ہیں مگر یہ لڑنا دو سگے بھائیوں کے لڑنے کے مترادف ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انگریزوار آف روزز کے دوران آپس میں نبردآزما رہے مگر دونوں متحارب انگریز گروپوں نے کبھی الگ قوم ہونے پر اصرار نہیں کیا۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ سماجی روحانی، اخلاقی اور مادی مفادات کے تعاقب کے حامل رہے ہیں۔ امن سے محبت رکھنے والا ہر شخص ہندو مسلم یکسانیت کا حامی ہوگا۔ مجھے سب سے زیادہ نفرت قومی مسائل کے بارے میں گروہی سوچ استعمال کرنے کے رویے سے ہے۔ مستقبل کا جو بھی دستور ہندوستانی نمائندگان طے کریں گے اس کے مطابق ہندو اور مسلم اپنی حیثیت مفادات کا تعین ہندو اور مسلم شناخت کے بجائے ایک کسان زمین دار مزدور اور سرمایہ دار وغیرہ کی حیثیت سے طے کریں گے۔‘‘
ان کی نظر میں ہندستان کو مشترکہ تہذیب اور ترقی و تابانی کی دولت سے مالا مال کرنے میں ہندو مسلم دونوں کا حصہ رہا ہے ۔ بے شک مسلمانوں نے ہندوستان سے بہت کچھ لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بہت کچھ دیا بھی ہے :
’’ہندوستان کے لئے قدرت کا یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے، ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔ اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کیلئے جگہ نکالی، ان ہی قافلوں میں ایک آخری قافلہ ہم پیروانِ اسلام کا بھی تھا، یہ بھی پچھلے قافلوں کے نشانِ راہ پر چلتا ہوا یہاں پہنچا اور ہمیشہ کے لئے بس گیا، یہ دنیا کی ’’مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دھاروں کا ملان تھا یہ گنگا اور جمنا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے، لیکن پھر جیسا کہ قدرت کا اٹل قانون ہے دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا، ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا اس دن سے قدرت کے مخفی ہاتھوں نے پرانے ہندوستان کی جگہ ایک نئے ہندوستان کے ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔‘‘
ہم اپنے ساتھ اپنا ذخیرہ لائے تھے، یہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالامال تھی ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اور اس نے اپنے خزانوں کے دروازے ہم پر کھول دئیے ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز دے دی جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی، ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیام پہنچادیا۔
تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعے پر گذرچکی ہیں، اب اسلام اس سرزمین پر ویسا ہی دعویٰ رکھتا ہے جیسا دعویٰ ہندومذہب کا ہے اگر ہندو مذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے۔
ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک (ملی جلی) تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھردیا ہے، ہماری زبانیں ہماری شاعری، ہمارا ادب، ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم و رواج ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ گئی ہو، ہماری بولیاں الگ الگ تھیں مگر ہم ایک ہی زبان بولنے لگ گئے، ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر انھوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کرلیا، ہمارا پُرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا، یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے، جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی، ہم میں اگر ایسے ہندو دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں، تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں۔ (مسلمان اور کانگریس ص ۲۷،۲۹)
سیکولر قومیت اور ہندوستانی تکثیریت کے وہ اس قدر حامی تھے کہ انھوں نے اپنی مفکرانہ صلاحیتیوں سے قران کریم اور احادیث کی کتابوں سے اس کا مذہبی جوازبھی تلاش کرلیا چناں چہ آپ فرماتے ہیں :
’’ایک مسلمان سیاسی جدوجہد میں کسی طرح ایک ہندو کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل سکتا ہے؟ قرآن ایک مسلم کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی عیسائی عورت سے شادی کرلے ایسی صورت میں ایک مسلم مرد یقینا اپنی عیسائی بیوی سے محبت کے تعلق سے وابستہ ہوگا اس طرح کوئی اور رشتہ اسے اس رشتے سے محبوب نہ ہوگا پھر اگر قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں سے کسی بھی قسم کے تعلق کی اجازت نہیں دیتا تو یہ کسی طرح ممکن ہے کہ قرآن مسلم مردوں کو یہ اجازت دیدے کہ وہ غیر مسلم عورتوں کو اپنے گھروں کی ملکہ اور تمام امور کی نگراں مقرر کردیں؟ اسی دلیل میں ہندو مسلم اتحاد کا راز پوشیدہ ہے‘‘۔
’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان، ہندوستان کے 22 کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہو جائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی قوم اور ایک نیشن بن جائیں۔ آپ میں سے اب مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کہ خدا کی آواز کے بعد جو سب سے بڑی آواز ہو سکتی ہے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز تھی اس وجود مقدس نے عہد نامہ لکھا بجنسہ یہ اس کے الفاظ ہیں انہ امۃ واحدۃ: ہم ان تمام قبیلوں سے جو مدینہ کے اطراف میں بستے ہیں صلح کرتے ہیں۔ اتفاق کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک امۃ واحدۃ بننا چاہتے ہیں امۃ کے معنی ہیں قوم اور نیشن اور واحدہ کے معنی ہیں ایک ۔ ” (خطبات آزاد ،ص 49.50۔ ،مرتب مالک رام )
مولانا ابو الکلام آزاد عالمِ دین تھے قران و حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی کتابوں اور ان کے ماخذوں کے بھی اچھے جان کار تھے وہ جانتے تھے کہ توحید ہی دنیا کے تمام مذاہب کی مشترکہ وراثت ہے ۔مرور زمانہ اور تغیروقت نے بھلے ہی اس کی تشریح وتعبیر اوراس کے شرعی اصول وقوانین میں تبدیلیاں کردی ہیں ؛لیکن تما م مذاہب کی روح وحدانیت ہی ہے۔ آدم علیہ السلام ہندوستان ہی میں اتارے گئے تھے اور آدم کو مسلمان اللہ کا پہلا نبی مانتے ہیں لہذااسلام اور باشندگان ہند کی بھی مذہبی بنیاد بھی ایک ہی ہو سکتی ہے بھلے ہی زمانے کے انقلابات او ر مکان ومقام کے اختلافات نے ان کے رسم و رواج کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اور ہر گروہ اپنے تبدیل شدہ عقیدے اور طور طریقے کو ہی حق بجانب سمجھتا ہے ۔مگر پھر بھی سب کے مذہب کی جڑ ایک ہے ۔مولانا آزاد کے نظریے کے مطابق بھلے ہی آپ دوسرے کے عقیدے اور مذیبی رسومات کو قبول نہ کرتے ہوں؛ لیکن ایک تکثیری سماج میں مذیبی منافرت کے خاتمہ کے لیے ’’برداشت ‘‘ہی اس کا واحد حل ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں :
’’مذہب کی جڑیں مختلف نہیں بلکہ ان کے پتے اور شاخیں جدا جدا ہیں۔ ان کی روح مختلف نہیں مختلف مذاہب کی رسومات، تقریبات یقینا جدا ہوں گی اور زمان و مکان کے اختلاف سے بھی یہ امور مختلف قرار پاتے ہیں مگر خالق کائنات نے یہ تنوع ایک زبردست حکمت کے تحت ترتیب دے رکھا ہے۔ مذہب دراصل ایک ہے صرف اس کے بیرونی مظاہر، رسومات اور تہوار الگ الگ قرار پاگئے ہیں جس کے نتیجے میں کسی ایک مذہب کے ماننے والے اپنے آپ کودیگر مذاہب سے اعلیٰ وارفع خیال کرنے لگے ہیں۔ کسی ایک مذہب کا پیروکار اپنے طریقے کار کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا۔ اس طرح اگر آپ کا طریقہ یامذہب آپ کی نگاہوں میں بہترین ہے تو دیگر لوگوں خیال میں ان کا طریقہ و مذہب اعلیٰ ترین ہے ” برداشت ” ہی اس مسئلے کا آخری حل ہے‘‘۔
ہندوستانی تکثیری سماج میں ہندوو مسلم اتحاد کو وہ کس قدر ضروری سمجھتے تھے اس کا ندازہ ان کے اس بیان سے ہوتا ہے :
’’ آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج 24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاؤں گا‘ مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا، کیوں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی ، تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے‘‘۔ (خطبات آزاد ص ۱۹۲، ۱۹۳ ناشر ارشد محمود ، ارشد بک سیلر زعلامہ اقبال روڈ ، میر پور کشمیر )
خلاصہ یہ کہ مولانا آزاد ہندوستانی تکثیریت کے نہ صرف قائل رہے بلکہ اس کے پرجوش حامی و داعی رہے ، انیک نظریات و افکار کے حاملین ، مختلف تہذیب وثقافت کے علم بردار ، نوع بنوع سماجی ولسانی اختلافات کے باوجود محض انسانی ہمدری اور سماجی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ ہندوستان عملی طور پر سینکڑوں نہیں ہزاروں سال سے اس کا گواہ رہا ہے ۔ بہت سارے اختلافات کے باوجود یہاں سکھوں کی بھی بڑی تعداد اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ موجود رہی ہے ، مہاتما بدھ کے پیروکار بھی اپنے مذہبی حدود و قیود کو توڑے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک رہے ہیں ۔ مسلم سلاطین کے عہد میں بھی ہندؤں نے بھی اپنی تہذیبی وثقافتی وراثت کو باقی رکھا ہے۔ اورنگزیب عالم گیرؒ کے عہد میں بھی اس کے سپہ سالار اپنی پوری پہچان کے ساتھ ہندو رہے ہیں ، اور شیواجی کے فوج میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعدا رہی ہے جو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہندستان ہزاروں سالوں سے تکثیریت کی تجربہ گاہ رہا ہے ۔ مولانا آزاد نے نظریۂ پاکستان کی مخالفت اسی بنیاد پر کی تھی ۔عقائدوعمل میں راسخ العقیدہ مذہبی عالم ہونے کے باوجود ، قوم پرست لیڈر سرادر ولبھ بھائی پٹییل اور مذہبی شناخت ’’پنڈت‘‘ نام کے باوجود جواہر لال نہرو سے ان کے اچھے اور دوستانہ مراسم رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظریۂ ٔ تکثیریت پر انھوں نے اپنی زندگی میں عمل کر کے بھی دکھایا ۔ البتہ ہندوستانی تکثیرت کا یہ مفہوم ان کے نزدیک یہ قطعی نہیں تھا کہ ہندوستان میں بسنے والی کوئی بھی قوم اپنے مذہبی طور طریقے ،ثقافتی رسم واج اور تہذیبی پہچان کو چھوڑ کر اکثریت کے طور طریقے اپنا لے ، ہندو مسلمانوں کے محلے میں آکر مسجد میں سجدہ ریز ہوجائے اور مسلمان اپنے برادرانِ وطن کی مندروں میں جاکر محض چندووٹوں اور نوٹوں کی کاخاطر اپنے ماتھے پر قشقہ لگالے جیساکہ آج کے سیاسی لوگ اسی کو سیکولرزم کی پہچان مانتے ہیں ۔ مولانا آزاد کے یہاں تکثیریت کا یہ مفہوم قطعی نہیں تھا ۔