نقطہ نظر: ڈاکٹر منظور عالم
کسی بھی قوم کی کامیابی ،کامرانی اور فتح ونصرت کی تاریخ رقم کرنے میں سب سے کلیدی رول اس قوم کے درمیان پایا جانے والے اتحاد ادا کرتاہے ، تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال،اقبال مندی و سربلندی،ترقی و تنزلی،خوش حالی و فارغ البالی اور بد حالی کے تقدم وتخلف میں اتحاد و اتفاق،باہمی اخوت و ہمدردی، آپسی اختلاف و انتشار، تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت اہم ترین اسباب ثابت ہوئے ہیں ،ملت اسلامیہ کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب تک فرزندان توحید کے اندراتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح ونصرت اور کامیابی و کامرانی کا علم پوری دنیا میں لہراتے رہے اورجب انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سپرپارو قوم کی حیثیت رکھنے والے مسلمان دنیابھر میں ذلت ورسوائی کا سامناکرنے لگے ،اسی لئے قرآن کریم نے اتحاد واتفاق کی اہمیت اور اسے برقراررکھنے پر بے پنا ہ زور دیاہے ،واضح طور پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کہاہے جس کا ترجمہ یوں ہے
’’ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کو جوڑا اور تم اس کی رحمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے کھڈکے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا‘‘ (سورہ آل عمران ،آیت نمبر 103)
احادیث رسول ،آثار صحابہ اور امت کے تمام مصلحین ،داعین ،ائمہ ،علماء ،مفکرین نے اتحاد کی دعوت دی ہے ،اس کو اپنانے ،باہم شیر وشکر رہنے کی تلقین کی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ اختلاف کا شکاریہی قوم ہے ،اکیسویں صدی میں سیاسی اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنے کیلئے کئی متضاد مذہب ،فکر اور کلچر کے حاملین بھی ایک ہوچکے ہیں جو کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،وہ لوگ بھی باہم شیروشکر نظر آرہے ہیں جن کے پاس اتحاد کیلئے کوئی نقطہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے پاس اختلافات کے باوجود اتحاد قائم کرنے کیلئے بہت سی مشترک چیزیں ہیں،اللہ تعالی کی وحدانیت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سمیت بہت سے ایسے امور ہیں جن پر مسلمانوں کے سبھی فرقے ،سبھی مسلک کا اتحاد ہے لیکن اس کے باوجود عملی سطح پر مسلمان اختلاف کے شدید شکار ہیں ،دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ اختلاف کی شکار اس قوم کے رہنما ہمیشہ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ مشن کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپاتاہے ۔عالم اسلام کے ساتھ ہندوستان کے حالات بھی مسلمانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوچکے ہیں،ہر آنے والادن ایک نئی مصیبت اور طلوع قیامت کی خبر دیتاہے ،ملک کی آب وہوا چیخ وپکا رکر کہ رہی ہے کہ مسلمانوں متحدہوجاؤ ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں! لیکن ہم سیاسی ،سماجی ،مذہبی سطح پر شدید اختلاف کے شکار ہیں اور ایسی کوئی بھی پہل نہیں کررہے ہیں جو عملی سطح پر اس مہلک مرض کا ازالہ کرسکے ،زیر نظر تحریر میں ہم ایسی ہی کچھ چیزیں پیش کرنے جارہے ہیں جس کی بنیاد پر ہم عملی اتحاد اپنے درمیان قائم کرسکتے ہیں، ایک ایسی کوشش کرکے اس قیامت خیز منظر سے باہر نکل سکتے ہیں،خوف وہرکے اس ماحول سے باہر نکل سکتے ہیں ۔ اس کیلئے تمام مسلک کے رہنماؤں کو اپنے اصولوں ونظریات سے سمجھوتہ کرناپڑے گا کیوں کہ اتحاد یہ نہیں ہے کہ آپ دوسرے کو اپنی بات ماننے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ قیام اتحاددرحقیقت اس کوشش کا نام ہے کہ امت کے مفاد کی خاطر آپ اپنے خیالات سے سمجھوتہ کرکے دوسروں کی تائید کررہے ہیں ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ۔ اس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات اور اجتہادات پر عمل کریں ،اس کی تشریح کریں لیکن دوسروں کی تنقید نہ کریں ،اختلاف اپنے مسلک اور نظریات کی تشریح سے نہیں ہوتاہے بلکہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوتاہے جب اپنے مسلک اور نظریات کی تائید میں ہم دوسروں کی تنقیدوتنقیص شروع کردیتے ہیں۔علمی ،فقہی اختلاف شریعت اسلامیہ کا طرہ امتیاز ہے ،دورصحابہ میں بھی فقہی اور علمی اختلاف تھا لیکن ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف ذرہ برابربھی رنجش نہیں تھی ،ایسی ہی کیفیت دورتابعین اور بعد کے ائمہ اور فقہاء کے درمیان پائی جاتی رہی ہے ،ان کا اجتہاد ایک دوسرے کے خلاف ہوتاتھا لیکن اس کے باوجود وہ آپس میں باہم شیر وشکر تھے کسی کے دل میں کسی خلاف کے ذرہ برابر بغض وکینہ نہیں تھا لیکن آج یہ علمی اور فقہی اختلاف بغض وعناد کا سبب بن گیاہے ،ایک مسلک او رنظریہ کے ماننے والے دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،سچ یہ ہے کہ ان دنوں مذہب کی تبلیغ کے بجائے تمام ترتوجہ مسلک کی ترویج پر ہے ۔ قیام اتحاد کیلئے ایک ایسی ہی کوشش آل انڈیا ملی کونسل نے 2014 میں کی تھی اور میثاق اتحاد کے عنوان سے ایک قرارد تشکیل دی گئی تھے ،اس کے کچھ اہم نکات ہم یہاں زیب قرطاس کررہے ہیں ۔
(۱) ہم سب کلمہ طیبہ کی اساس پر اتحاد ملت کو فروغ دیں گے اور ملت کے مشترکہ مسائل کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں گے ۔(۲) ہم سب صحابہ کرام ،امہات المومنین اور اہل بیت کا احترام ملحوظ رکھیں گے اور ایسی باتوں سے بچیں گے جوان کی شان میں تنقیص کا موجب ہوں۔(۳) جوگروہ اپنے آپ کے بارے میں جن عقائد کا اقرار کرتاہے اور وہ اپنی جو رائے ذکر کرتاہے اسی کو ان کا حقیقی نقطہ نظر باورکریں گے ،ہم ان کی طرف اس سے مختلف ایسی آراء کی نسبت کرنے سے گریز کریں گے جس سے ان کو انکار ہو۔(۴) اس بات کا خیال رکھیں گے کہ دوسرے نقطہ نظر کے حاملین جن بزرگوں سے عقیدت واحترام کا تعلق رکھتے ہیں ،علمی وفکری مباحث کے درمیان ان کے بارے میں ایسی بات نہ کی جائے جو دل آزاری کا باعث بنے ۔(۵) مسالک کے اختلاف کی گفتگو کو درسی اور علمی محفلوں تک محدود رکھیں گے ،عوام میں حتی الامکان ایسے مسائل کو لانے سے اجتناب کریں گے اور اگر ایسے مسائل کو عوام میں لانا ضروری سمجھیں تو آداب اختلاف کو ملحوظ رکھیں گے اور داعیانہ اسلوب سے کام لیں گے ۔(۶) ہم اپنی تحریروں میں اختلاف رائے کو اعتدال اور دوسرے فریق کی بے حرمتی سے اجتناب کی رعایت کرتے ہوئے پیش کریں گے ۔(۷) ملت اسلامیہ کے جو مشترک مسائل ہیں ہم انہیں مشترکہ طور پر مرکزی وریاستی حکومتوں ،سیاسی جماعتوں اور برادران وطن کے سامنے پیش کریں گے ۔(۸) ہم اس بات کا خیال رکھیں گے مسلکی اختلافات مسلمانوں کیلئے سیاسی اعتبار سے نقصان اور بے وزنی کا سبب نہ بنے اور ہم پوری طرح اجتماعیت کا ثبوت پیش کریں گے ۔(۹) اگر کبھی مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو ہم کوشش کریں گے کہ باہمی توافق اور صلح کے ذریعہ مسئلہ حل ہوجائے ،پولس کیس اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے اور اعدائے اسلام ہمارے اختلاف سے فائدہ نہ اٹھاسکیں ۔
قیام اتحاد کیلئے دوسری پہل ملک کے معتبر ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کرنے کی ضرورت ہے ،یہاں ہم اتحاد کی بات صرف اپنے درمیان نہیں بلکہ ملک میں امن وامان کی فضاء برقرار رکھنے کیلئے دیگر مذاہب کے کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کرنے کی کررہے ہیں۔ اس نازک دور میں بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مسلمانوں کے درمیان ایک اہمیت ہے ،وہ مسلمانان ہند کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ،اس کی آواز پر تمام مسلمان مسلکی اختلاف سے بالاکر تر ہوکر لبیک کہتے ہیں،اس لئے برادراون وطن سے اتحاد قائم کرنے کیلئے بورڈ ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے، اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ ہندؤوں کے چاروں شنکر اچاریہ سوامی نیسچا لنندہ سرسوتھی، سوامی سوروپ انندہ سرسوتھی، سوامی بھارتی ٹیرتھی وغیرہ سے ملاقات کرے ۔ ملک میں امن واتحاد برقراررکھنے کیلئے ایک مشترکہ پروگرام پر سمجھوتہ کرے ، موجودہ حکومت کی غلط اور ملک مخالف پالیسیوں سے انہیں آگاہ کریں اور یہ باورکرائیں کہ اس طرح کی پالیسیاں ملک کے وقارکے خلاف ہے، یہاں کی عظمت کو خطرات لاحق ہیں ، اقتصادی ،سیاسی ،سماجی اور تعلیمی سطح پر ملک شدید بحران کا شکار ہورہاہے جس کا خمیازہ مذہبی تفریق کے بغیر یہاں کی تمام عوام کو بھگتنا پڑے گا ، تمام ذات ،مذہب اور برادری کے لوگوں کو اس ملک کی ترقی اور کامیابی کیلئے جدجہد کرنی ہوگی ،ان کے سامنے اسلامی تعلیمات بھی پیش کی جائے اور یہ بتایاجائے کہ قرآن او راسلام کا غیر مسلموں کے تئیں کیا نظریہ ہے ،بھائی چار ہ اور مخلوط معاشرہ کے تئیں اسلام میں کتنی وسعت اور فراخدلی کا مظاہر ہ کیا گیاہے ،ان کے دلوں سے وہ شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں بھی مذاکرات کی میز سجا کر دور کرنے کی کوششیں کریں جو اسلام کے تعلق سے قائم ہیں ۔
میر ا خیال ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملک میں قیام امن کیلئے یہ ایک مثبت اور تاریخی پہل ہوگی ،دنیا بھر میں یہ پیغام بھی جائے گا کہ ہندوستان کے مسلمان امن وسلامتی کیلئے کل بھی پیش پیش تھے اور آج بھی وہ اس کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔مناسب ہوگا کہ اس کی تشہیر کی جائے ،اخبارات کے ذریعہ بورڈ پورے ملک میں یہ بتائے کہ ہم ایک ایسی پہل کررہے ہیں ۔
سیاسی و سماجی وقار کی بحالی اور مسلمانان ہند کی مشکلات ختم کرنے کیلئے مشترکہ طور پر ایک سیاسی فورم بھی تشکیل دینے کی سخت ضرورت ہے ۔اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ملک میں موثر ہونے اور اپنی حیثیت ثابت کرنے کیلئے انہیں سیاست میں اثر ورسوخ حاصل کرنا ہوگا، سیاسی سطح پر مضبوط ہونا ہوگا لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان سیاسی سطح پر بہت کمزو ر ہیں،مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں،کوئی مشترکہ نظریہ اور مشن نہیں ہے ، مسلم ایم پی ،ایم ایل اے اور دیگر طرح کے نمائندوں کی بڑی تعداد ہے لیکن ان کے سامنے کوئی ایجنڈہ نہیں ہے ،عام نمائندوں کی طرح وہ بھی سیاسی نہج پر کام کرتے ہیں ۔اس لئے بہتر ہوگا ایک سیاسی فورم تشکیل دیاجائے ،اس میں تمام اقلیتوں او رمظلو م طبقات کو بھی شامل کیا جائے ،اس کے تحت سیاسی سطح پر سیاست میں سرگرم نوجوانوں اور قائدین کی ذہن سازی کی جائے ،اس فورم کا صدر اور کلیدی ذمہ دار ایسے شخص کو بنایا جائے جوخود کو انتخابی سیاست میں حصہ لینے اور کسی بھی سرکاری منصب کو قبول کرنے سے مکمل طورپر دوررہے ۔ اس کے تحت ایک نظریہ اور آئیڈیالوجی کی بنیاد پر انتخاب میں نمائندگی کرائی جائے ،باصلاحیت اور نیک امیدوارکو ٹکٹ دلوایا جائے ،کسی بھی ایک سیاسی پارٹی سے تعلقات وابستہ کرنے کے بجائے جہاں جس پارٹی سے امید ہو یا کوئی معاہدہ ہوجائے اس کی خفیہ حمایت کی جائے ،جہاں کوئی ایسی پارٹی باحیثیت ہو جس کے سربراہ مسلمان ہوں وہاں اس کی حمایت کی جائے ۔دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ تمام مسلمان مل کر ایک سیاسی پریشر گروپ بنائیں ۔
خلاصہ یہ کہ ہندوستان میں بین المسالک اور بین المذاہب دونوں سطح پر مذاکرات اور اتحاد کی اشد ضرور ت ہے او راس کوشش کو بروئے کار لانے کیلئے تمام مذہبی رہنماؤں کو آگے آنا ہوگا ،اپنے خیالات سے سمجھوتہ کرنا ہوگا ،زمینی سطح پر محنت اور جدوجہدکرنی پڑے گی ،راقم الحروف اس مشن کو کامیاب بنانے میں ہمیشہ کی طرح ملت کے ساتھ ہے اور اتحاد کی ایسی کسی بھی کوشش کو پایہ تکمیل تک پہونچانے اور اس کا حصہ بننے میں پیش پیش رہے گا ۔
( مضمون نگار معرو ف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )
media.millicouncil@gmail.com