جنید احمد قاسمی
ثبوت وشواہد کی روشنی میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مروجہ کانفرنسیں اور جلسے انگریزوں کی دین ہیں ؛ ورنہ انگریزوں کے ہندوستان آنے سے پہلے مروجہ جلسوں اور کا نفرنسوں کا کوئی تصور نہیں تھا، مساجد اور خانقاہوں میں علماء کرام وعظ فرماتے تھے، اس سادہ وعظ کا اثر مسلمانوں کے قلب و دماغ اور اعمال وافعال پر ہفتوں رہتا تھا ۔
لیکن انگریز ھندوستان آئے تو اور چیزوں کے ساتھ وعظ و تقریر میں بھی دکھاوا اور نمائش آگئی ۔ پھر وعظ مساجد اور خانقاہوں سے نکل کر تقریری محفل پھرجلسہ واجلاس اور اس کے بعد کانفرنس کی صورت اختیار کر گیا ۔نام کانفرنس رہے یا جلسہ و اجلاس صورت سب کی ایک ہی رہتی ہے ۔
اخلاص کی تمام تر نور بیزیوں کو بڑے بڑے پوسٹر، اشتھارات اور القابات لے کر ڈوب جاتے ہیں ۔
مقررین کی دستیابی کے لئے وفد در وفد ملک بھر کے اسفار کئے جاتے ہیں، تین ماہ پہلے ہی ڈیٹ بک کرائے جاتے ہیں، تاریخیں لینے کے بعد اخراجات کا بل کنوینر صاحب ادا کرتے ہیں، اور کئی ماہ پہلے سے چندے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔بالآخر وہ وقت بھی آتا ہے،مہمانوں کا ورود ہوتا ہے، متعینہ وقفے میں تقریریں ہوتی ہیں اور پھر طے شدہ رقومات حاصل کر کے سارے مقررین گھریا کسی دوسری کانفرنس کا راستہ لیتے ہیں ،خاطر تواضع اچھی ہوئی تو ٹھیک ہے نہیں تو زندگی بھر کے لئے صلواتیں سنئیے ۔ اور تب منظر یہ ہوتا ہے کہ شامیانے اکھڑ جاتے ہیں ۔منتظمین و رضاکاران
مہینوں اور ہفتوں کے تھکے ماندے کئی دنوں کے لئے بستر پکڑ لیتے ہیں، کیوں کہ ان کے ذہن میں رہتا ہے کہ اس صدی کا دین کا سب سے بڑا کام انہوں نے کیا ہے ۔
پورا علاقہ سدھر گیا ہوگا؛ لیکن جب باہر نکلے تو لوگوں کی چہ می گوئیاں : فلان صاحب فلاں
پر کیچڑ اچھال رہے ہیں فلاں شخص فلاں پر، فلاں کی تقریر اچھی رہی فلاں کی نہیں ۔عمل کیا کریں گے؟ اور علماء کو ہی سدھارنے میں لگ جاتے ہیں ۔
اس کے بعد جلسہ کے اخراجات کا حساب دیا تو ٹھیک ہے ورنہ منتظمین جلسہ کی خیر نہیں، بیچاره تہمت و اتھام میں پورے طور سے گھر جاتا ہے ۔
اب بتائیے کیا فائدہ ہوا؟ پھر چھوٹے چھوٹے بچے اور ناخواندہ خواتین اونچے درجے کے مقررین کی باتیں کیا سمجھیں گی ؟ نتیجہ جوں کا توں رہتا ہے ۔جلسہ سے پہلے بھی وہ گالیاں بولتے تھے، کلمہ تک یاد نہیں تھا اب بھی وہی حال ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ کسی بھی علاقے میں بڑا جلسہ ہوا اور جلسہ سن کر یکلخت اس علاقے کی جہالت و ناخواندگی دور ہو گئی ہو ۔مکمل نہیں تو بہت حد تک ہی سہی ۔
ابھی ملک کی سب سے مضبوط تنظیم آرایس ایس ہے، آپ نے کبھی اسے بڑا جلسہ کرتے نہیں دیکھا ہوگا ۔؟لیکن زمین کو اس قدر ہموار کیا اور اتنی محنتیں کیں کہ آج ملک بھر میں ھندؤں کے مابین اس کی ایک پہچان بن گئی ۔
مروجہ جلسے کی کچھ افادیت ضرور ہے لیکن اس سے زیادہ نقصانات ہیں ۔
مثال کے طور پہ بہت سارے علاقے ہیں جہاں کے مسلم بچے اور بچیاں کافروں کے اسکولوں میں پڑھتی ہیں، کیوں کہ کفار انہیں فیس کی ادائیگی کے ساتھ وظیفہ بھی دیتے ہیں ،ہم وہاں اچھے اسکول نہیں کھول سکتے، کیوں کہ قوم موٹی رقم جلسوں میں خرچ کر چکی ہے، اب پیسے رہیں تب نہ ادھر کی سوچے گی؟، بہت سے علاقے ہیں جہاں کے مسلمان انتہائی پس ماندہ ہیں، دینی تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے ۔قوم کے پاس کانفرنسوں سے پیسے بچیں گے تب نہ ان کا ہاتھ بٹائے گی؟۔
مسلمانوں کو دینی تعلیم کے اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان سرکاری مدارس کی باہمی گندی سیاست سے اٹھانا پڑا ہے قوم کے پاس شادی بیاہ اور جلسے جلوس کی فضول خرچیوں سے پیسے بچیں گے تب نہ ان میں پرائیویٹ طور پر باصلاحیت علماء کرام کو مدرس کے طور پر رکھ سکے گی؟
میرا خیال ہے کہ اور چیزوں کی طرح جلسوں کی اصلاح بھی ضروری ہے، فروری سے شروع ہو کر مئی تک جلسوں کا سیلاب رہتا ہے،ہر طرف جلسے، کانفرنسیں! اس کے بعد جنوری کے آخر تک کے لئے معاملہ ختم !۔مسلمان کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں، مگر نتیجہ جو برآمد ہونا چاہئے نہیں ہو پاتا ۔
اس لئے بہتر ہے کہ سادہ جلسے کی بنیاد ڈالی جائے،ہر ماہ ایک بار ہوجایا کرے ۔اور اس کی شروعات بھی ہمارے ہی گاؤں سے ہو ۔نہ پوسٹر نہ بینر نہ اور کچھ! بس کسی ایک، دو، یا تین اچھے عالم کو بلاکر تقریر کروا لی جائے، اور کہی ہوئیں باتوں پر عمل شروع کر دیا جائے ۔
انہیں کی اچھی خاطر تواضع کی جائے ۔زندگی بھر آپ کو یاد رکھیں گے ۔اب تو المیہ یہ ہے کہ جو مقررین اور واعظین ہر جمعہ آدھا آدھا اور پون پون گھنٹے تقریریں کرتے ہیں ان کے لئے بہت معمولی وظیفہ ؛بلکہ بعض جگہ وہ بھی نہیں اور جو باہر سے لائے جاتے ہیں ایک گھنٹے میں پانچ ہزار سے پچاس ہزار تک ؟ جو بیچارے پورے سال امامت کرتے ہیں عوام کے دین و ایمان کی ہرموسم میں نگرانی کرتے ہیں اور بچوں کو قرآن و حدیث اور کلمہ و ایمان سکھلاتے ہیں، انہیں علم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ان کے لئے تین ہزار سے سات آٹھ تک وہ بھی بڑی مشکلوں کے بعد!
اور جس نے تراویح پڑھا دی اس کے لئے پانچ ہزار سے ایک لاکھ تک ۔حالانکہ نہ تراویح میں پیسہ لینے کا رواج رہا اسلاف میں نہ تقریروں میں ۔اور یہ جائز بھی نہیں ہے ۔کوئی خوشی سے دے دے تو الگ بات ہے ۔
اس لئے میں کہتا ہوں کہ جلسے جلوس کی بھی اصلاح ہونی چاہیئے ۔جلسے جلوس اور شادی بیاہ میں فضول خرچی سے بہتر ہے کہ مختلف طرح کے تعلیمی ادارے کھولے جائیں ؛تاکہ زیادہ سے زیادہ دین کا پیغام عام ہو ۔
جلسے جلوس میں ایک دن میں آپ لاکھوں روپے خرچ کریں گے لیکن فائدہ چند دنوں، اور تعلیمی ادارے قائم کریں گے تو وہ لاکھوں روپے کئی سال میں خرچ ہوں گے اور ان کا فائدہ پڑھنے والے بچوں کی پوری زندگی میں رہے گا ۔تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمیں دوامی فائدہ چاہئے یا عارضی اور وقتی؟؟ اس نام و نمود کے جراثیم جلسوں کے دائمی فائدے کو عارضی بنا دیتے ہیں ۔
اس لئے آج سے ہم تہیہ کریں کہ بڑے جلسے جلوس سے کلی اجتناب کریں گے اور زیادہ سے زیادہ دین کے فروغ کے مختلف النوع تعلیمی ادارے کھولیں گے؟ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق دے ۔آمین یا رب العالمین ۔