شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان کے لئے ایک بہت بڑی ضرورت خاندان کی ہے ، اسی لئے اس کو ’ سماجی حیوان ‘ کہا جاتا ہے ، خاندان رشتہ داروں کے مجموعہ سے وجود میں آتا ہے ، انسان جن رشتوں میں بندھا ہوا ہے ، وہ بنیادی طور پر تین ہیں : دادیہال ، نانیہال اور سسرال ، لیکن غور کیا جائے تو ان سہ رخی قرابت داریوں کی بنیاد نکاح ہے ، والدین کا رشتۂ نکاح اولاد کو دادیہالی اور نانیہالی خاندان سے جوڑتا ہے اور خود اس کا نکاح سسرال کے وجود میں آنے کا سبب بنتا ہے ، اسی لئے اسلام میں نکاح کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ، اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور بے نکاحی زندگی کو ناپسند کیا گیا ہے ، اسلام سے پہلے بعض مذاہب میں نکاح کو ایک دنیوی اور نفسانی عمل سمجھا جاتا تھا اور نکاح سے بچنے کو خدا کی قربت کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا ، لیکن اسلام دینِ فطرت ہے ، وہ فطرت سے بغاوت کا قائل نہیں ، بلکہ اس رَوش کے اختیار کرنے کا قائل ہے ، جو راہِ فطرت پر قائم ہو ، اسی لئے اس نکاح کو پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ نے اپنی اور دوسرے انبیاء کی مقدس سنت قرار دیا ۔
اسلام میں نکاح کا تصور یہ ہے کہ دو مرد و عورت کے درمیان زندگی کی رفاقت کا معاہدہ ہے ، نکاح کی وجہ سے عورت مرد کی ملکیت اور جائیدا نہیں بن جاتی کہ لاکھ چاہے مگر اسے رہائی نصیب نہ ہو ؛ بلکہ دوسرے معاہدات کی طرح یہ بھی ایک معاہدہ ہے ، اور اسلام چاہتا ہے کہ زندگی کے دونوں رفیق ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ اس معاہدہ کو نباہتے رہیں ، ہاں ، اگر کسی وجہ سے فریقین کے درمیان ایسی نفرت اور دوری پیدا ہوگئی کہ اب ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا دشوار ہو جائے ، رفاقت ایک دوسرے کے لئے بوجھ ہو جائے اور یہ رشتہ سکون و طمانینت کی شبنم کے بجائے نفرت و عداوت کی آگ بن جائے تو اسلام کا حکم ہے کہ وہ بہتر اور خوشگوار طریقہ پر ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کرلیں ، اس معاہدہ کو ختم کردیں اور دونوں اپنی اپنی زندگی کے نئے دَور کا آغاز کریں ، فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان ۔( البقرۃ : ۲۲۹ )
معاہدات اور بھی ہوتے ہیں ، خرید و فروخت بھی ایک معاہدہ ہے ، کرایہ داری اور ملازمت بھی دو فریقوں کے درمیان معاہدہ ہے ، اسی طرح شرکت و مضاربت کے مالی معاہدات ہیں ؛ لیکن نکاح ایسا معاہدہ ہے جس سے کئی خاندانوں کا باہمی تعلق جڑا ہوا ہے اور جس سے آنے والی نسل کی تربیت اور کفالت و غیرہ کے بہت سے مسائل بھی متعلق ہیں ، اس لئے اس کی ایک خصوصی نوعیت ہے ، اسی لئے اس معاملہ کے طے پانے سے پہلے خطبہ رکھا گیا ہے ، جس میں طرفین کو تقویٰ کی تلقین کی جاتی ہے اور ان کے لئے دعائیں بھی کی جاتی ہیں ، خطبۂ نکاح میں بار بار ان آیات کا ذکر جن میں تقویٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، ایک خاص مصلحت کے تحت ہے ، اور وہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق جلوت سے زیادہ خلوت کا ہے ، اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی اور حق تلفی کو خدا کے خوف کے سواء اور کوئی چیز نہیں روک سکتی ، اسی لئے خاص طور پر اور بار بار تقویٰ کی تلقین کی گئی ہے ۔
نکاح اصل میں تو زبانی ایجاب و قبول ہی سے وجود میں آتا ہے ، لیکن جن معاہدات میں بقیہ امور مستقبل میں ادا طلب ہوں ، ان میں تحریری رکارڈ مرتب کرلینا افضل طریقہ ہے اور خود قرآن مجید نے اس کی صراحت کی ہے ، ( البقرۃ : ۲۸۲ ) نکاح میں اکثر اوقات مہر بعد میں ادا کیا جاتا ہے ، اس لئے یہ بھی ان معاہدات میں داخل ہے ، بہت سے قانونی مسائل میں بھی نکاح کے مستند رکارڈ کی ضرورت پیش آتی ہے ، اس لئے اگر نکاح کے معاہدہ کو تحریری طور پر بھی مرتب کرلیا جائے تو یہ عین مزاجِ شریعت کے مطابق ہے ، اسی لئے اکثر مقامات پر حکومت کی طرف سے یا مسلمانوں کے کسی مذہبی ادارہ کی طرف سے نکاح نامے دستیاب ہیں ، یہ نکاح نامے آئندہ پیدا ہونے والی بہت سی امکانی نزاعات کو ثابت کرنے میں ممد و معاون ہیں ۔
نکاح نامہ میاں بیوی کے درمیان نکاح کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی فریق اس سے مکر جائے تو اس کے خلاف دلیل بنتا ہے ، نکاح نامہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس عورت کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں ، وہ اسی مرد کی اولاد ہیں ، مرد پر ان کے نفقہ اور کفالت کی ذمہ داری ہے ، اور ان بچوں کو اس مرد کے ترکہ میں حق میراث حاصل ہے ، نکاح نامہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عورت کب سے اس مرد کی طرف سے نفقہ کی حقدار ہے ، نکاح نامے کی وجہ سے بہت سے ان رشتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے ، نکاح نامہ سے مہر کی مقدار معلوم ہوتی ہے اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نکاح کے وقت مہر ادا کیا گیا یا نہیں ؟
موجودہ دَور میں مسلمانوں کی احکامِ شریعت سے نا واقفیت اور سماجی بگاڑ کی وجہ سے خدا سے بے خوفی کے باعث ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ’ نکاح نامہ ‘ میں زوجین کے لئے خوشگوار زندگی گزار نے اور ایک دوسرے کے ساتھ معتدل تعلقات قائم رکھنے کے سلسلہ میں ضروری ہدایات بھی ہوں ، چنانچہ دکن کے نکاح نامہ میں حقوق الزوجین کو بہتر طریقہ پر واضح کر دیا گیا ہے ، خطبۂ نکاح کے موقعہ سے زوجین کو جو ہدایات دی جاتی ہیں ، وہ بڑی اہم ہوتی ہیں ، لیکن ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جاتی ہیں ، اگر خطبہ کے ساتھ نکاح نامہ میں بھی ضروری ہدایات درج ہوں ، تو یہ نکاح نامہ طرفین کے لئے تذکیر کا باعث ہوگا ۔
ہندوستان کے حالات میں ایک اہم مسئلہ میاں بیوی کے باہمی نزاعات کو حل کرنے کا ہے ، اگر زوجین میں تعلقات خراب ہوں ، تو بجائے اس کے کہ فریقین کسی مذہبی ادارہ میں یا مذہبی شخصیت کے پاس جائیں اور اپنے معاملہ کو سلجھائیں ، ایسے وکلاء کے پاس پہنچ جاتے ہیں جن کو مسئلہ حل کرنے سے زیادہ مقدمہ کو آگے بڑھانے اور مقدمہ کی درازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے سے دلچسپی ہوتی ہے ، اس صورتِ حال کی وجہ سے سماج میں بہت ہی تکلیف دہ واقعات پیش آرہے ہیں ، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ مرد کسی جائز شرعی سبب کے بغیر طلاق دے دیتا ہے ، یا شرعی اصولوں کی رعایت کیے بغیر تین طلاقیں دے دیتا ہے ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر مرد کی زیادتی یا باہمی ناچاقی کی وجہ سے عورت علاحدگی حاصل کرنا چاہے اور خدا ناترس شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ، تو ان کے لئے بڑی دشواری پیش آتی ہے ، اگر وہ عدالت میں جائے تو غیر مسلم جج کی طرف سے فسخ نکاح کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ، دوسرے عدالتی کاروائیوں کا طویل سلسلہ ایسا ہے کہ ان مقدمات میں دسیوں سال لگ جاتے ہیں ، چنانچہ بعض دفعہ وکیلوں کے اکسانے پر عورتیں جھوٹا ڈوری کیس کردیتی ہیں اور بہت سے بے قصور شوہر ، ان کے ماں باپ اور بھائی بہن راتوں رات گرفتار کرلئے جاتے ہیں اور انھیں ضمانت بھی نہیں ملتی ۔
ان کا حل اصل میں وہی ہے جو خود قرآن مجید نے متعین کیا ہے ، کہ اگر زوجین کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھ جائیں کہ وہ آپس میں انھیں حل نہیں کرسکیں تو چاہے کہ دونوں فریق حکَم مقرر کرلیں ، حکم ان دونوں کے درمیان میل ملاپ پیدا کرنے یا جو مناسب حال ہو ، وہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرے ، ( النساء : ۳۵ ) حکم ایسا ہونا چاہئے جو احکامِ شرعیہ سے واقف ہو ، اللہ کا خوف رکھتا ہو ، غیر جانبدار اور مسائل کو حل کرنے میں مخلص ہو ، ہر آبادی ، سماج اور خاندان میں ایسے لائق اور مناسب حکم کا ملنا دشوار ہے ، لیکن اگر وہاں دار القضاء یا شرعی پنچایت قائم ہے ، تو قاضی شریعت ( جو مسلمانوں کے منتخب امیر یا مسلمانوں کے اربابِ حل و عقد کی طرف سے فسخ نکاح کے بشمول مسائل اور اختلاف کو حل کرنے کے ذمہ دار بنائے گئے ہوں ) یا شرعی پنچایت کے ذمہ داران کے بارے میں خیال کیا جاسکتا ہے ، کہ وہ ان اوصاف کے حامل ہوں گے ۔
اس لئے ہندوستان کے خصوصی حالات کے پس منظر میں نکاح نامہ میں ضروری تنقیحات و معلومات اور زوجین کے لئے مناسب ہدایات کے ساتھ تحکیم کی شق داخل کرنا بھی بہت ہی مناسب اور مختلف دشواریوں کا حل ہے ، اور اس طرح مسلمان اپنے آپ کو عدالتوں کی گراں باریوں سے بچاسکیں گے ، طلاق کے واقعات کم ہوں گے ، ڈوری کیس کے ناخوشگوار واقعات روکے جاسکیں گے اور طرفین کے لئے یہ بات ممکن ہو سکے گی کہ وہ جلد اور سستا انصاف حاصل کرسکیں ۔
اسی پس منظر میں ’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ نے نکاح نامہ مرتب کیا ہے ، یہ نکاح نامہ نکاح سے متعلق ضروری تنقیحات اور طرفین سے متعلق معلومات پر تو مشتمل ہے ہی اور زیادہ تر یہ حصہ دکن کے نکاح نامہ سے ماخوذ ہے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نکاح نامہ میں زوجین کے لئے ضروری ہدایات ، میاں بیوی کے حقوق اور تین طلاق کی مذمت بھی شامل ہے ، اور آخر میں ایک اقرار نامہ بھی ہے ، جس میں زوجین عہد کرتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ان کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو تو مقامی دار القضاء یا شرعی پنچایت ثالث ہو گی اور اس کا فیصلہ طرفین کے لئے قابل قبول ہو گا ، اس اقرار نامہ سے نہ صرف یہ کہ زوجین کے باہمی اختلافات کو حل کرنے میں سہولت پیدا ہوگی ، بلکہ دار القضاء کے نظام کو بھی تقویت پہنچے گی ، اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مرتب کردہ مجوزہ نکاح نامہ کی ابتداء عرصہ پہلے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے عہد میں ہو ئی اور اس نکاح نامہ کے پس منظر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک مستقل سیمنار رکھا ، اس سمینار میں پورے ملک سے علماء اور اربابِ افتاء ، سماجی امور کے ماہرین اور دانشورں کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور مختلف پہلوؤں پر بحثیں ہوئیں ، پھر بورڈ کے اجلاسِ بنگلور میں نکاح نامہ کا ایک مسودہ بحث اور غور و فکر کے لئے پیش کیا گیا ، اس مسودہ پر جو آراء سامنے آئیں ، ان کو سامنے رکھ کر ایک سب کمیٹی بنائی گئی ، جس نے بعض ترمیمات کے ساتھ نکاح نامہ کا مسودہ بورڈ کے ارکانِ عاملہ اور اہم علماء اور مفتیان کو روانہ کیا ، پھر اس سلسلہ میں جو آراء آئیں ، ان کو سامنے رکھتے ہوئے جزوی ترمیمات کی گئیں اور بالآخر بورڈ کی مجلس عاملہ نے اسے آئندہ اجلاسِ عام میں پیش کرنے کے لئے آخری شکل دی ، اور بھوپال کے اجلاسِ عام میں اس کو منظوری حاصل ہوئی ۔
اس نکاح نامہ کا جہاں ملت کے سنجیدہ اور باشعور افراد کی طرف سے استقبال کیا جارہا ہے ، وہیں ذرائع ابلاغ نکاح نامہ کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں ، کبھی کہا جاتا ہے کہ اس نکاح نامہ نے مردوں سے طلاق کا حق چھین لیاہے ، کوئی کہتا ہے کہ عورت کو طلاق کا حق دے دیا گیا ہے ، کہیں سے آواز اٹھتی ہے کہ اس سے مظلوم عورتوں کے مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی ، یہ ساری باتیں خلافِ واقعہ ہیں ، شریعت کے احکام میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ؛ اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد سے حق طلاق چھین لیا جائے ، یا مرد سے لے کر عورت کو حق طلاق منتقل کردیا جائے ، اسی طرح یہ کہنا کہ عورتوں کے مسائل حل کرنے میں اس سے مدد نہیں ملے گی ، قطعاً درست نہیں ہے ، اس سے عورتوں اور مردوں دونوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی ؛ کیوں کہ اس سے کم وقت میں بغیر کسی خرچ کے انصاف مل سکے گا اور طرفین اپنے حقوق پاسکیں گے ، مسلم سماج مقدمہ بازی کی لعنت سے بچ سکے گا اور مسلمانوں کے اپنے شرعی عدالتی نظام کو تقویت حاصل ہو گی ، حقیقت یہ ہے کہ نکاح نامہ بہت سی سماجی برائیوں اور نا انصافیوں کا علاج ہے اور اس کو رواج دینے اور عام کرنے کی ضرورت ہے ، تین طلاق کے سلسلہ میں خاص کر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ۔
( ملت ٹائمز)