نئی دہلی(ملت ٹائمز)
آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت سے متعلق انتہائی اہم مقدمہ کی آج سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی ۔جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے مقدمہ نمبر 274/2009 جو آسام میں قومی رجسٹر برائے شہریت کی از سر نو تیاری وغیرہ سے متعلق ہے اس پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی سرکار اور آسام سرکار کو پھٹکار لگاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ جب این آر سی کا کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہاہے تو آپ کون ہوتے ہیں ا س سلسلہ میں کوئی بھی فیصلہ لینے والے کہ کن لوگوں کا نام این آر سی میں شامل کیا جائے اور کن لوگوں کا نہیں ؟کورٹ نے مرکزی داخلہ سکریٹری،چیف سکریٹری آف آسام گورنمنٹ،ڈائیریکٹر جنرل آف آسام اور رجسٹرار جنرل آف انڈیا وغیرہ کی بھی سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان لوگوں نے آپس میں میٹنگ کرکے فیصلہ لے ہی لیا ہے تو پھر کورٹ میں آنے کی کیا ضرورت ہے جائیے جو کرنا ہے کر لیجئے، ججوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ این آرسی کا کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہاہے اس لئے آپ لوگ کچھ مشورہ یا پروپوزل دے سکتے ہیں لیکن فیصلہ آپ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کرے گا۔ججوں نے آسام میں این آر سی کے کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا کے ذریعہ فائل کردہ حلف نامہ پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس گگوئی نے کہاکہ آپ نے حلف نامہ میں کہا ہے کہ این آر سی میں اندراج کے لئے کل 3 کروڑ 21 لاکھ لوگوں نے درخواست دی تھی جس میں سے تقریبا 2 کروڑ لوگوں کی verification کرلی گئی ہے جبکہ 1 کروڑ اور 21 لاکھ لوگوں کی verification اب بھی باقی ہے، یہ بات بالکل ہی نئی ہے کیونکہ اس سے پہلے آپ نے کہا تھا کہ تقریبا29 لاکھ لوگوں کی verification باقی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے lnkage certificate کے طور پر پنچایت سرٹیفیکٹ کو جمع کیا تھا اس لئے ہم نے کہا تھا کہ 31 دسمبر 2017 تک این آر سی ڈرافٹ کو شائع کر دیا جائے اور باقی ماندہ لوگوں کا نام verification کرکے جوڑ نے کا سلسلہ رکھا جائے۔مگر اب آپ کے حلف نامہ کے مطابق ایک کروڑ اکیس لاکھ لوگوں کی verification ابھی بھی باقی ہے جوکہ بہت بڑی تعداد ہے، آپ لوگوں نے کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کیا بلکہ کنفیوژن ہی پید اکیا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت کل ہوگی جس میں اس بات پر بھی بحث ہونی ہے کہ آسام میں کسی کو اصلی باشندہ قرار دینے کا پیمانہ کیا ہے جس کی بنیاد پر سرکار یا این آر سی کو آرڈینیٹر عمل کر رہے ہیں۔ آج کی سماعت کے بعد جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام کے سکریٹری مولانا فضل الکریم قاسمی جو اس مقدمہ میں پٹیشنر بھی ہیں نے کہاکہ جمعیۃعلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود اسعد مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل کی زیر سر پرستی آسام کے مسلمانوں کے حقو ق کی مسلسل لڑائی لڑنے والی ملک کی قدیم ترین تنظیم جمعیۃ علماء ہندکو سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی پوری امید ہے۔جمعیۃ علماء ہند نے اس اہم مقدمہ میں کے لئے سینئر وکیلوں کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی ہے جس میں سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے،سینئر اڈووکیٹ راجو راما چندرن، سینئر اڈووکیٹ ،اڈووکیٹ اعجاز مقبول،اڈووکیٹ شکیل احمد،، اڈووکیٹ این ایچ مزار بھیا، اڈووکیٹ عبدا لصبور تپادر وغیرہ شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا شروع سے ہی انتہائی واضح موقف رہاہے کہ آسام میں کسی بھی غیر ملکی کو غیر قانونی طور پر رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہےئے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی حقیقی شہری(Genuine citizen) کو غیر ملکی ہونے کا الزام لگاکر ہر گز پریشان نہیں کیا جانا چاہئے۔واضح رہے کہ” آسام پبلک ورک “نامی تنظیم سمیت کچھ فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے اس بات کی مانگ کی ہے کہ آسام میں شریت کے لئے ۱۹۵۱ کو بنیادی سال مانا جائے اور اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے جبکہ جمعیۃ علماء ہند نے اس کے خلاف پٹیشن داخل کر کے مطالبہ کیا ہے کہ آسام اکورڈ اور انڈین سیٹیزن شپ ایکٹ – 1955 کے سیکشن 6-A کو بحال رکھتے ہوئے ۱۹۷۱ کو بنیادی سال قرار دیکر شہریت کا فیصلہ کیا جائے۔





