ارشاد احمد قاسمی
نام کی اہمیت و افادیت
نام کسی بھی چیز کیلئے ایک تعارفی علامت ہے جس کی اہمیت فطری بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ ناموں کی اہمیت و افادیت سے کسی مذہب و ملت کوانکار نہیں ۔اسلام نے اس موضوع کو اور نمایاں کیا؛ چنانچہ اسلام نے جس خصوصیت اور اہمیت سے اس پہلو کی جانب توجہ دلائی ، کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ناموں کے حوالے سے کتب ِ احادیث و فقہ میں معتد بہ مواد دستیاب ہے ۔ محدثین و فقہاءنے موضوع کے اہم ہونے کے پیش نظر اسکے لئے الگ ابواب و عنوانات قائم کئے ہیں ؛ کیونکہ نام تعارفی علامت کے ساتھ ساتھ ، انسان کے دین و عقیدہ کا مظہر اور اسکے مسلک و مشرب کا ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔اور اس اعتبارسے اسے شعار کا درجہ حاصل ہے ؛ جس کی وجہ سے آدمی باطل مذاہب و مسالک سے ممتاز ہوجاتا ہے ۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اسلامی نام کو ایک بیش قیمت نعمت کا درجہ حاصل ہے ۔ حضرت ِ آدم علیہ السلام کو جب اس دنیا میں اتارا گیا ، تو فرشتوں نے انسان کی فطری کمزوریوں کو دیکھ کر اپنے پروردگار سے کہا:﴾ اَ ¿تَج ±عَلُ فِی ±ھَا مَن ± یُف ±سِدُ فِی ±ھَا وَ یَس ±فِکُ الدِّمَائَ ﴿” کیا آپ ایسی ہستی کو خلیفہ بنارہے ہیں جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی ؟“ (البقرة:۰۳)۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴾اَ ¿ن ±بِئُو ±نِی ± بِاَ ¿س ±مَائِ ھٰوُ ¿لَائِ اِن ± کُن ±تُم صادقین ﴿ان حقیقتوں کے نام بتلاو ¿ اگر تم درستی پر ہو (البقرة :۱۳)۔ابن عطاءفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ناموں کے ذریعے ہی فرشتوں پر حضرت آدم علیہ السلام کا شرف ظاہر فرمایا اور یہ بات واضح ہے ( قرطبی : ۱ ۶۴۱ )۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ایک فضیلت نام سے ثابت فرمائی : ﴾ لَم ± نَج ±عَل ± لَہ ¾ مِن ± قَب ±لُ سَمِیًّا ﴿ ” یعنی یحییٰ سے پہلے اسکا کوئی بھی اسکے نام کا شریک نہ تھا ( بلکہ یہ ان کا خصوصی اور امتیازی نام ہے ) “۔ اس سے معلوم ہوا کہ نام کو شریعت کی عدالت میں عظیم نعمت کا درجہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ، اسلام کی جانب سے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ بچے کے اچھے نام کی جانب توجہ کریں۔ اور یہ ایسا حق ہے جس کی اہمیت کاصحیح اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوگا کہ خلیفہ ¿ دوم حضرت عمر ؓ کے پاس ایک آدمی اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا کہ نافرمان ہوچکا ہے ۔ تو حضرت عمرؓ نے اسے حاضر کیا اور کہا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ؟ اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہو ؟!!! والد کے حقوق پہچانے نہیں ؟ تو اس لڑکے نے حضرت عمر سے کہا :اے امیر المو ¿منین! کیا بیٹے کا اپنے باپ پر کوئی حق ہے ؟؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا : (( نعم ، حقُّہ علیہ ا ¿ن یَستنجِب ا ¿مہ ، ویحسن اسمہ و یعلمہ الکتاب)) ” جی بالکل، باپ پر بیٹے کے کئی حقوق ہیں ،وہ یہ ہیں باپ بچے کے لئے اچھی ماں تلاش کرے ،اسکا اچھا نام رکھے اور کتاب اللہ کی تعلیم دے“ ۔ تو بیٹے نے کہا : ((فواللہ ما استنجب ا ¿می وما ھی الا سندیہ اشتراھا با ¿ربع مائة درھم ، ولاحَسَّنَ اسمی ، سمانی جُعَلاً ، ولا علمنی من کتاب اللہ آیة واحدة )) ”بخدا نہ میرے لئے اچھی ماں کا انتخاب کیا ۔ میری ماں ایک سندیہ باندی ہے ،جسے اس نے چار سو درہم میں خریدا ۔ میرا نام ” جُعَل ( یعنی کالا بدصورت )‘ ‘ رکھا جو اچھا نام نہیں اور نہ مجھے قرآن کی کوئی آیت سکھائی “ ۔ تو حضرت عمر اسکے باپ کی جانب متوجہ ہوا اور کہا : تیرا دعوی ہے کہ تیرا بیٹا تیرا نافرمان ہے اور تیری حق تلفی کرتا ہے ؟!!، تو نے تو پہلے ہی اسکے حقوق دبا دئے ہیں ،اور حقوق مانگتا ہے!! ۔ پھر سخت لہجے میں اس سے کہا : قم عنی ” یہاں سے بھاگ ( تنبیہ الغافلین :۶۴عن موسوعہ الا ¿سرہ:۴ ۱۳۱ )۔ اس سے نام کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہوگا کہ کتنا نازک معاملہ ہے ، خلیفة المومنین نے اس حق تلفی کی بنا پر اسکے باپ کی تمام شکایتوں کو کالعدم قرار دیا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ و ا ¿دبہ ” جس کا کوئی بچہ پیدا ہو تو اسکا خوبصورت نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے ( بیہقی: ۵۴۱۸ )۔علامہ ابن حزم ؒ لکھتے ہیں: اہل علم کا اتفاق ہے کہ نام رکھنا واجب اور ضروری ہے(مراتب الاجماع:۹۴۲)۔ علامہ ماوردی لکھتے ہیں : فاذا ولد المولود ، فان من ا ¿ول کراماتہ لہ و برہ بہ ا ¿ن یحلیہ باسم حسن الخ یعنی جب بچہ پیدا ہو تو اسکے ساتھ پہلا حسن سلوک یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھا جائے ( تحفة الملوک : ۶۶۱)۔
عرب کا مزاج
تاریخ نے عرب معاشرے کے جن عیوب کا ذکر کیا ہے ، ان میں شرک و بت پرستی ، نخوت و تکبربھی بڑے عیب سمجھے جاتے ہیں ۔ ان عیوب کا اثر ان کے ناموں پر بھی تھا ؛چنانچہ وہ ایسے نام پسند کرتے تھے جن میں شرک و بت پرستی ، فخر و ریاءکا معنی موجود ہوتا ۔ اور فخر و ریاءمیں حدِ مبالغہ سے بھی بعض لوگ حد سے آگے بڑھ گئے تھے ۔ تاریخ میں موجود ہے کہ بعض عربوں کا مزاج تھا کہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کراتے تھے کہ باپ ہی اپنی بیٹی سے پیدا ہونے والے اولاد کا نام رکھے گاجیسا کہ عوف بن شیبانی کے سلسلے میں منقول ہے کہ اس نے اپنی بیٹی ام ایاس کا نکاح عمرو بن حجر سے کیا اور شرط یہ رکھی کی ام ایاس سے پیدا ہونے والے اولاد کو وہی نام رکھے گا ۔ علامہ ابن القیم ؒ لکھتے ہیں : ناموں کے سلسلے میں عربوں کے مزاج مختلف تھے ۔ فطرتاً جنگ و جدال کی جانب مائل تھے اسی لئے اپنے اولاد کا ایسا نام رکھتے جن کے معنی سے دشمن پر فتحیابی کا شگون لیا جاسکے، اس طرح وہ غالب ، غَلَّاب ( بہت غلبہ پانے والا) ، مالک ، ظالم ، عارم ( شدید)، مُنازل ( لڑاکو) ، مقاتل ، مُس ±ہِر( بے خواب و بے چین کرنے والا) ، مُو ¿رِق( بے خواب و بے چین کرنے والا)، مصبح ( قندیل یا فانوس) اور طارق( رات میں آنے والا ) جیسے ناموں کو ترجیح دیتے تھے ۔ بعض لوگ سلامتی سے شگون لیتے اور ایسے نام پسند کرتے جسمیں حفاظت و سلامت اور سعادت مندی کا معنی پایا جاتا ۔ اسی لئے سالم ، ثابت، سعید ، سعد ، اسعد ، مسعود جیسے ناموں کو اچھا سمجھتے تھے ۔ بعضوں کی طبیعت تھی کہ نام کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے جن سے قوت و طاقت یا سختی کا کنایہ کیا جاتا۔ اس طرح وہ اسد ( شیر) ، لیث ( شیر) ، ذئب ( لومڑی )، ضرغام( شیر) ، حجر ( پتھر)، صخر( چٹان) ، فِہر( پتھر) ، جندل ( ضخیم چٹان)جیسا نام رکھتے ۔مزاج میں اتنی آزادی اور لاپرواہی تھی، جس چیز کی جانب مائل ہوتے اسی کو ترجیح دیتے حتیٰ کہ بعض لوگوں کی طبیعت تھی کہ اس چیز کا نام بچے کے لئے منتخب کرتے جس کو وہ گھر سے نکلتے وقت دیکھتے( موسوعہ الاسرة عن مفتاح دار السعادہ ملخصًا: ۴ ۷۲۱)۔ اسلام توحید کا دین ہے جو اللہ کی فضل و کمال ہی کا داعی ہے ۔ ساتھ ساتھ امن و سلامتی کو پسند کرتا ہے ۔ تکبر و نخوت وغیرہ سے بیزار ہے ، اس لئے اس باب میں شریعت کی جانب سے ضروری و غیر ضروری ایسی اصلاحات عملائی گئی جو اسلام کے شستہ و شائستہ معاشرہ کے ہم آہنگ ہیں ؛ تاکہ ایک تاریک معاشرہ کے خاتمہ پر ایک روشن معاشرہ کا آفتاب طلوع ہو، جو توہم و شرک سے پاک ہو ، صرف اور صرف صبغة اللہ میں ڈھلا ہو۔
اچھا نام رکھنے کی ترغیب:
نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جسمیں انسان ڈھلتا ہے ۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسیاتی اثر رہتا ہے ۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کااچھا اثر محسوس کرتا ہے ۔ چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا تووہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اسکے برخلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کو جھنجوڑتا رہتا ہے ۔ علامہ ابن القیم ؒ نے عجیب بات لکھی کہ ناموں کا یہ اثرانسان کی شخصیت پر اتنا نمایاں ہے ،کہ مشاہدہ ہے کہ جتنی بڑی شخصیات دنیا میں تشریف فرما ہوئیں، انکے نام بھی ان شخصیات کے مناسب تھے اور تاریخ میں جو لوگ منفی تشخص رکھتے ہیں ان کا نام بھی ان کے موافق ملے گا ، انکا اچھا نام نہیں ملے گا ( تحفة المودود: ۳۱۲) ۔ حضرت عمر ؓ کے پاس ایک آدمی آیا ، آپ نے نام دریافت کیا تو اسنے کہا : میرا نام جمرہ ( دھکتی آگ ) ہے ، پھر دریافت کیا کہ تیرا باپ کون ؟ اسنے جواب دیا : شھاب (آگ کا شعلہ )۔ پھر پوچھا کہ کس قبیلہ کا ہے ، تو اس نے جواب دیا :حُرقہ( گرمی اور جلن) قبیلے سے ہوں ۔ حضرت عمر ؓ نے سوال کیا کہ تیرا گھر کہاں ہے اس نے کہا: حَرَّة ُ النار ( آگ کا علاقہ ) میں میرا گھر ہے ۔ پھر پوچھا کہ یہ جگہ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ذات لظی (آگ والی ) میں ۔ حضرت عمر ؓ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ اور بد دعا کے طور پر کہا کہ جاو ¿ تیرا خانہ ہی جل گیا، پھر جب وہ گیا اسنے اپنے گھر کو جلا ہوا پایا ( زاد المعاد:۲۸۰۳، ا ¿وجز المسالک : ۷۱ ۹۳۳)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کبھی اپنے لئے خود کنواں کھودکر مصیبت کھڑی کرتا ہے ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ ۔ کیونکہ آدمی کو اپنے قول و فعل ہر چیز کا حساب اپنے رب کے پاس دینا ہے ،اور اللہ کسی بھی چیز پر پکڑ کر سکتے ہیں ۔ مومن ایساہونا چاہیے کہ اسکے قول و فعل سے خیر و صلاح ہی ٹپکے۔ گویا اس مذکورہ آدمی کا ایسے نام رکھنا شرعی قانین پر نہیں تھا ؛ یہی وجہ تھی کہ اللہ نے اسکا نتیجہ اس پر ظاہر فرمادیا۔ حدیث میں ہے : کل کلام ابن آدم علیہ لا لہ الا ا ¿مر بمعروف ا ¿و نھی عن منکر یعنی ابن آدم کے ( برے ) کلام کا نقصان اس کو پہنچتا ہے الا یہ کہ وہ (خیر کا کلام ہو یعنی )امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قبیل سے ہو( مشکوة : ۵۷۲۲)۔ دین اسلام خوبصورت ہے ۔ پروردگار خوبصورت ہے۔ اس دین کے مبلغِ اول خوبصور ت ہیں ۔ تو شریعت برے ناموں کو پسند کیسے کرتی ؟!! حدیث میں ہے کہ بدشگونی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، آدمی کو چاہیے کہ نیک فال اختیار کرے ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے ؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الکلمة الصالحہ یسمعھا ا ¿حدکم یعنی آدمی کوئی صالح اور اچھا لفظ سنے ( بخاری )۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف خوبصورت ناموں کو جائز نہیں کہا بلکہ خوبصورت نام رکھنے کی ترغیب بھی دی۔ اور ساتھ ساتھ اسکا رشتہ آخرت کے ساتھ بھی جوڑ دیا ۔ حدیث میں ہے: انکم تدعون یوم القیمة با ¿سمائکم و ا ¿سماءآبائکم فا ¿حسنوا ا ¿سمائکم ۔ ” تم کو روز ِ قیامت تمہارے اور تمہارے آباءکے ناموں سے پکارا جائے گا ، اس لئے نام اچھے رکھو“( ا ¿بو داو ¿د ۸۴۹۴ )۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کئی ایک مواقع پر ان لوگوں کو آگے رکھا جن کے نام اچھے تھے ؛ تاکہ امت میں اچھا نام رکھنے کا رجحان پیدا ہو ۔ ایک موقع پر دودھ دوہنے کی باری آئی تو اللہ کے رسول نے فرمایا : اس اونٹنی کو کون دوہے گا ؟؟ ایک آدمی کھڑا ہو اور کہا : میں ۔ حضور نے پوچھا ۔ نام کیا ہے ؟ اسنے کہا : ” مرہ ( کڑوا )“ ۔ فرمایا : بیٹھ جا ۔ پھر دوسرا کھڑا ہو ا جسکا نام جمرہ ( آگ کا شعلہ )تھا ۔ تو اللہ کے نبی نے کہا : توبھی بیٹھ جا ۔ پھر اایک اور آدمی کھڑا ہوا جسکا نام ” یعیش “ تھا ( زندگی گذارنے والا) “ ۔ تو اللہ کے نبی نے یہ کام اسی کے سپرد فرمایا ( موسوعة الا ¿سرة )۔ صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ شریعت نے مقامات کے صحیح ناموںکی جانب راہنمائی فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے ۔ جب کسی عامل کو بیجھتے تو اسکا نام دریافت کرتے ، اگر اسکا نام پسند آتا ، تو خوش ہوتے اور اسکی خوشی آپ کے چہرے پر ظاہر ہوتی۔ اور اگر نام پسند نہ آتا تو چہرے پر ناپسندیگی ظاہر ہوتی ۔ اگر کسی بستی میں جاتے تو اگربستی کا نام پسند آتا تو خوشی کے آثار چہرہ ¿انورپر ظاہر ہوتے اور اگر نام پسند نہ آتا تو اسکی ناپسندیدگی ظاہر ہوتی (ابو داو ¿د : ۲۲۹۳)۔ یہ ایسی جامع اصلاحات ہیں جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جاہلیت میں رائج تمام رسومات کو صحیح شفاف اسلامی رنگت حاصل ہواور ہر چیز اسلامی طرز ِ معاشرت کا بولنے والا ہو ، یہی وجہ تھی جگہوں وغیرہ کو بھی اس موضوع میں جگہ ملی ۔
محبوب ترین نام :
اللہ معبود ہے اور انسان عابد، یہ کلیات ِ دین میں ہے ۔ اللہ کو بندے کی صفت عبدیت بہت محبوب ہے ، جسکا تقاضہ یہ ہیکہ یہ صفت ِ عبدیت بندے کے ہر چیز سے ظاہر ہو ۔ ناموں کے سلسلے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے اپنے خاص تعلق کا اظہار فرمایا ۔ حدیث میں ہے : ا ¿حب الا ¿سماءالی اللہ عبد اللہ و عبد الرحمن ” اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین نام عبد اللہ واور عبد الرحمن ہے ( مسلم عن ابن عمر )اس جیسی احادیث کی بناءپر صحابہ میں عبد اللہ نام رکھنے کا رواج بہت بڑھ گیا تھا ۔ مشہور ناقد ابن الصلاح ؒ کا بیان ہے کہ صحابہ کرام میں عبد اللہ نام کے ۰۲۲ ، افراد موجود تھے ۔ حافظ عراقی ؒنے۰۰۳ کی تعداد بتلائی ہے ( المنھل اللطیف فی اصول الحدیث :۰۳۲)۔ حدیث میں گو کہ صراحتاً صرف دو ناموں کی افضلیت وارد ہے لیکن محدثین نے قرائن اور شواہد کی بنا پر اس فضلیت میں عموم پیدا کیا ہے اور اور یہ فضلیت ہر اس نام میں ثابت فرمائی ،جسمیں اللہ تعالیٰ کے کسی نام کے شروع میں لفظ ِ عبد کا اضافہ کیا جائے ۔ مشہور و معروف محدث علامہ قرطبی ؒ رقمطراز ہیں : ” ان دو ناموں ( عبد اللہ اور عبد الرحمن ) کے ساتھ انکے ہم مثل نام بھی ملحق ہیں جیسے عبد الرحیم ، عبد الملک ، عبد الصمد ۔ اور ایسے نام اللہ کو اس لئے محبوب ہیں کیوں کہ ان ناموں میںاللہ تعالیٰ کیلئے بھی اس کے شایاں شاں وصف ( معبود ہونا ) موجود ہے اور انسان کے شایاں شان وصف ( یعنی عابد ہونا ) بھی موجود ہے ۔طبرانی میں ایک حدیث بھی ہے : (( اذا سَمَّی ±تُم ± فَعَبِّدُو ±ا )) یعنی جب نام رکھو تو اسمیں اللہ تعالی کے ساتھ اپنی بندگی کا اظہار کرو “( یعنی اللہ تعالی کے ذاتی یا صفاتی نام کے شروع میں لفظ ” عبد“ کا اضافہ کرکے نام رکھو )( تکملة فتح الملھم ملخصًا: ۴ ۹۷۱)۔ بعض محدثین نے افضلیت انہی دو ناموں کے ساتھ محدود کی۔ انکے پیش نظر ان احادیث کے الفاظ ہیں جن میں ” عبد اللہ اور عبد الرحمن “ کو افضل نام قرار دیا گیا ۔ اسکی علت یہ بھی لکھی ہے کہ ان ناموں میں کمالِ بندگی کا اظہار ہے جو دیگر ناموں جیسے عبد الصمد ، عبد القاہر وغیرہ میں موجود نہیںاور ” اللہ اور رحمن “ اللہ کے مشہور نام بھی ہیں ( ملخص من فیض القدیر للمناوی: ۳ ۶۴۲ ، زاد المعاد : ۲ ۰۱۳)۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : مقاصد شریعت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر لوگوں کے ذکر و اشغال میں بھی شامل ہو؛ تاکہ تمام چیزیں حق کا تکلم کرنے والی ہوں ۔ اور جب نو مولود کا نام اس کے مطابق رکھا جائے تو یہ توحید کی جانب واضح اشارہ ہوگا۔ نیز عرب اور دیگر اقوام کا رواج تھا کہ وہ اپنے معبودوں کے نام پر نام رکھتے تھے ۔ پھر جب اللہ کے نبی ﷺآداب توحید کی تبلیغ کے لئے آئے تو اسکا اثر ناموں پر پڑنا ضروری تھا ۔ اور دو نام ( عبد اللہ ، و عبد الرحمن ) دیگر ناموں کے بنسبت زیادہ پسند کئے گئے کیوں کہ انمیں اللہ کے دو مشہورو مخصوص ناموں ( اللہ و رحمن ) کی جانب نسبت ہے اور ان کا اطلاق غیر اللہ پر نہیں ہوتا( حجة اللہ البالغة :۲ ۷۴۴)۔محدثین نے اگر چہ ان مذکورہ ناموں کو افضل قرار دیا ۔لیکن مشہور و معروف فقیہ و محقق ابن عابدین ؒلکھتے ہیں : سب سے افضل نام محمد ہی ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کیلئے سب سے اچھے نا م کا انتخاب فرمایا۔ حدیث میں جو عبد الرحمن اور عبد اللہ کی فضیلت وارد ہے ،اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے محقق موصوف لکھتے ہیں کہ فضیلت صرف اس لئے ہے کہ اس زمانے میں شرکیہ نام رکھنے کا رواج ہوگیا تھا ، تو اس کو مٹانے کے لئے حضور نے ان ناموں کو محبوب قرار دیااور یہ چیز ” محمد “ کے افضلیت کے منافی نہیں ( شامی۹ ۸۹۵)۔ عتبی ؒ کا بیان ہے کہ اہل مکہ کہا کرتے تھے : ” ما من بیت فیہ اسم محمد الا را ¿وا خیراً و رزقوا “ یعنی جس گھر میں محمد نام کا کوئی آدمی ہو تو گھر والے خیر دیکھتے ہیں اور انہیں رزق کی کمی نہیںہوتی (الموسوعة الفقھیة عن مواھب الجلیل:۱۱ ۲۳۳) ۔ابو امامہ باہلی ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس کا کوئی بچہ پیدا ہوا اور اسکا نام ( برکت اور احترام میں ) محمد رکھا تو باپ اور بچہ دونوں جنت میں ہونگے ۔ حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن درجہ کی ہے ( رد المحتار: ۹ ۸۹۵)۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ عبدیت والے ناموں کو، انبیاءکے ناموں کے بعد فضیلت حاصل ہے ( مرقاة :۹۰۱) ۔ لیکن اس بات میں دو رائے نہیں کہ عبدیت والے ناموں میں فضیلت اور برکت ہے ۔ عبدیت والے ناموں میں ایک بات ملحوظ رکھی جائے کہ صرف انہی ناموں کے شروع میں لفظِ عبد کا اضافہ کیا جائے جن کو شریعت نے اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں شمار کیا ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں یعنی جو شریعت میں منصوص ہیں ۔ جو نام وارد نہیں ان کی جانب لفظ ِ عبد کی نسبت کرکے نام رکھنا درست نہیں ہیں۔ چانچہ لوگ عبد المقصود ، عبد الموجود ، عبد الستار ، عبد السبحان ، عبد المعبود ، عبد الوحید ، عبد الطالب وغیرہ نام رکھتے ہیں جوکہ غلط ہے ؛ کیونکہ ان مذکورہ ناموں میں کوئی بھی نام اللہ کے لئے ثابت نہیں ( تسمیة المولود ملخصاً :۶۴)
پیغمبروںاور صالحین کے نام رکھنا:
پیغمبروں اور صالحین کے نام رکھنا بھی بہتر اورمستحب ہے ۔ مشہور تابعی سعید ابن المسیب ؒ لکھتے ہیں : ا ¿حب الا ¿سماءالی اللہ ا ¿سماءالا ¿نبیاء یعنی اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام انبیاءکے نام ہیں ( الموسوعة :۱۱ ۳۳۳) اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:: تسموا با ¿سماءالا ¿نبیاء، وا ¿حب الا ¿سماءالی اللہ عبد اللہ و عبد الرحمن و، و ا ¿صدقھا حارث و ھمام ، وا ¿ قبحھا مرة و حرب ” انبیاءکے نام رکھو ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب تریں نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں ۔ اور سچا نام حارث اور ہَمّام ہے ۔ برا نام مرہ اور حرب ہے“ ( ا ¿بو داو ¿د )۔اس حدیث سے انبیاءاور عبد اللہ و عبد الرحمن جیسے نام رکھنے کا استحباب معلوم ہوا ، ساتھ ساتھ حارث اور ھمام کو صحیح اور سچا نام قرار دیا گیا اور حرب اور مرہ کو برا نام قرار دیا گیا ۔ حارث اور ہمام کو سچا اور صحیح نام قرار دینے کی وجہ حافظ منذری ؒ نے یہ لکھی ہے کہ یہ انسان کی حقیقت کے بالکل ہم آہنگ ہے ، کیونکہ حارث کے معنی کمانے والا اور ہمام کے معنی اردہ کرنے والا ، کے ہیں ۔ انسان کمانے اور ارادہ کرنے میں ہی رہتا ہے ؛ اسی لئے ان دو ناموں کو سچا نام قرار دیا گیا ( الترغیب:۳۹۱) حرب اور مرہ برے نام اس وجہ سے قرار دئے گئے کہ ان میں منفی معنی موجود ہے کیوںکہ حرب کے معنی جنگ اور مُرّہ کے معنی کڑوے کے ہیں ۔ نیز اسمیں امکان یہ بھی ہے کہ لوگ بد شگونی لیں جسکا انجام شرک ہے ، اسی وجہ سے حدیث میں ان کو قبیح اور برے نام قرار دیا گیا ( مرقاة :۹ ۱۳)۔ حدیث میں ہے کہ : (( تسموا باسمی ولا تکنوا بکنیتی )) یعنی میرا نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو ( مسلم )۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا نام رکھنا بھی مستحب ہے ۔کنیت سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی تاکہ آپ ﷺ کے تعارف اور پہچاننے میں التباس نہ ہو (تکملة فتح الملھم ) ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جب میںنجران گیا، تو انہوں نے سوال کیا کہ تم قرآن کریم میںحضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں پڑھتے ہو ” یا ا ¿خت ھارون “( یعنی ھارون کہ بہن ) حالانہ مریم ہاروں کی بہن نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں کہ درمیان بڑے بڑے زمانے کا فاصلہ ہے ۔ تو مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے نبی کے پاس آیا اور یہی سوال دریافت کیا ۔ تو اللہ کے رسول نے فرمایا: انھم کانویسمون با ¿نبیاءھم والصالحین قبلھم ”وہ لوگ اپنے انبیاءاور نیک لوگوں کا نام رکھتے تھے ( مسلم )۔ اسی بنیاد پر محدثین نے لکھا ہے کہ انبیاءاور امت کے صالح شخصیات کا نام رکھنا بھی امر مسنون ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ رقمطراز ہیں : ”کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام اپنے اسلاف کے نام پر رکھنے کو پسند کرتے ہیں ۔ اسمیں دین کی تعظیم کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اقرار ہے کہ بچے اہل دین سے ہے“ ( حجة اللہ البالغة :۲ ۷۴۴)۔حضرت زبیر ابن العوام نے اپنے دس بیٹوں کے لئے شہدائے صحابہ کے اسماءِ گرامی تجویز کئے ، اس امید پر کہ ان کے نقش قدم پر چل کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے ۔ حضرت طلحہ نے اپنے بچوں کے نام انبیاءکے نام پر رکھے تھے ( الموسوعة الفقہیة ) ۔اسی طرح حضور ﷺ حضرت ابو موسی اشعری کا نام ابراھیم رکھا ( مسلم : ۹۳۷۵)۔ ایک صحابی کا نام یوسف رکھا ( الا ¿دب المفرد:۹۷۳)۔ انبیاءاور اور گذشتہ صالحین کے ناموں میں بہرحال ایک مثبت تاثیر ہے جو انسان کے نفس و دماغ پر پڑتا ہے اگر انسان واقعی باشعور ہو اور نام کے پس منظر اور تاریخ سے واقفیت رکھتا ہو۔ حضرت عمرؓ کے سلسلے میں جو منقول ہے کہ وہ انبیاءکے نام رکھنے پر سخت نکیر کرتے تھے ؛ حتیٰ کہ انہوں نے کوفہ اپنا حکم نامہ روانہ کیا، جس میں لکھا تھاکہ ” کوئی بھی نبی کا نام نہ رکھے “ (شرح المسلم للنووی:۴۱ ۳۱۱)، وہ صرف اس وجہ سے تھا کہ لوگ انبیاءکے ناموں کا احترام نہیں کرتے تھے اور انکی عظمت سے ناواقف تھے ، جیسا کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ محمد بن یزید بن الخطاب نامی شخص کو برا بلاکہہ رہا تھا اور اسے کہا کہ میں جائز نہیں سمجھتا کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے نام کو برا بلا کہو ۔ چنانچہ انہوں نے اس آدمی کا نام بدلکر عبد الرحمن نام رکھا (شرح المسلم للنووی:۴۱ ۳۱۱، مرقاة المفاتیح : ۹ ۰۱)۔ گویا ان کا مقصد ان ناموں سے روکنا نہیں تھا بلکہ اس بات کی جانب متوجہ کرنا مقصود تھا کہ جس کسی نے نبی کا نام رکھا ہے اس پر ضروری ہے کہ وہ اسکی تعظیم کرے ۔حدیث میں بھی اس کی جانب اشارہ کیا گیا ، فرمایا: ” تسمون ا ¿ولادکم محمداً ثم تلعنونھم “ کہ تم اپنے اولاد کا نام محمد رکھتے ہو پھر ان پر لعنت بھی کرتے ہو ( جو کہ ایک غیر شرعی فعل ہے ) ( مرقاة المفاتیح : ۹ ۰۱)۔ اسی بنیاد پر فقہائے احناف نے اپنا نقطہ ¿ نظر قائم کیا کہ اللہ کے اسماءمثلاً رشید ، علی وغیرہ ، اسی طرح انبیاءو صالحین کے ناموں کی اگر معاشرے میں تحقیر ہوتی ہو ، تو ایسے مبارک نام رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی جانب منسوب اسماء، اسی طرح انبیاءکے اسماءکی تعظیم لازم اور ضروری ہے۔ فقیہ ابو اللیث لکھتے ہیں : ” میں عجمیوں کے لئے عبد الرحمن ، عبد الرحیم جیسے ناموں کو پسند نہیں کرتا ہوں ؛ کیونکہ لوگ ان کے معانی سے ناواقف ہیں اور حقارت سے پکارتے ہیں “ ( در مع رد المحتار : ۹ ۸۹۵) ۔ لیکن یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ اللہ اور انبیاءو صالحین کے ناموں میں بہر حال برکت ہے ، وہ حکمتوں سے پُر ہیں ؛ فقہاءنے جن اسباب کی بنیاد پر منع کیا ہے ، اسے ہمارے ہی معاشرے اور سوسائٹی نے جنم دیا ہے ، اس لئے ہم پر اس چیز کی ذمہ داری عائد ہے کہ ان ناموں اور نسبتوں کا صحیح پس ِ منظر جان کران کا احترام کریں ۔اور ساتھ ساتھ ان بے حرمتیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے ہی معاشرے پیدا ہوئیں۔
ناموں میں حضور ﷺ کی اصلاحات
اللہ کے نبی ﷺ ہر اس نام کو تبدیل کرنے کی کوشش فرماتے تھے جس میں منفی معنی ہوتا ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ” کان النبی ﷺ یغیر الاسم القبیح “یعنی اللہ کے نبی ﷺ برے نام کو بدلتے تھے ( الترمذی : ۹۳۸۲)۔ ایک آدمی کا نام اَصرم تھا ۔ حضور کی خدمت میں آیا ، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ اَصرم ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ۔ تیرا نام زُرعہ ہے ( ابو داو ¿د ) ۔ اصرم کٹنے والے یا کاٹنے والے کو کہتے ہیں جو کہ منفی معنی ہے اور زُرعہ کے معنی کھیتی یا بیج کے ہیںجو ایک مثبت معنی ہے ۔ حضرت عمر کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیة( گناہگار) تھا ۔ حضور ﷺ نے اسکا نام بدلا۔ اور جمیلہ ( خوبصورت) نام رکھا۔ ( مسلم)۔ ( ایک نام ” آسیہ “ لفظِ سین کے ساتھ ہے جو ایک صالح اور نیک خاتون گذری ہے ، ان کی نسبت پر یہ نام رکھنا مستحب ہے )۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ مجھے پسند تھا کہ میں ابو حرب نام کی کنیت رکھوں ( حرب ،جنگ اور قتال کو کہتے ہیں اور وہ جہاد و قتال کی جانب بہت مائل تھے) ۔ چنانچہ جب حسن پیدا ہوئے تو میں نے اسکا نام حرب رکھا ( تاکہ میں ابو حرب کی کنیت رکھ سکوں )۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، تو انہوں نے کہا : میرے بیٹے کا کیا نام رکھا ؟ تو میں نے جواب دیا کہ” حرب “۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ حسن ہے ۔ پھر جب حسین پیدا ہوئے میں نے اسکا نام حرب رکھا ۔ جب حضور ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کی کیا نام رکھا ہے ؟۔ میں نے کہا حرب ۔ حضور ﷺ نے کہا کہ یہ حسین ہے ۔ پھر جب تیسرے لڑکے کی پیدائش ہوئی ، تو میں نے اسکا نام حرب رکھا ۔ جب حضور ﷺ تشریف لائے اور نام کے بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا حرب ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ مُحسِن ہے ( المسندلا ¿حمد: ۹۶۷، المعجم الکبیر: ۸۰۷۴) بعض روایات سے ثابت ہے کہ حسن کا نام حمزہ اور حسین کانام جعفر رکھا گیا تھا ( المعجم الکبیر ۳۱۷۲)۔ ایک آدمی کا نام شہاب ( آگ کا شعلہ )تھا ۔ حضور ﷺ نے اسکا نام ہشام ( سخاوت ) رکھا ( مستدرک لحاکم :۳۴۸۷)۔ ایک صحابی کا نام غُراب تھا ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اسکا نام مسلم رکھا ( طبرانی: ۵۹۳۶۱)۔ غراب کے معنی دوری یا کوے کے ہیں ۔ جاہلیت میں کوے سے بدفالی لیتے تھے ، اسی وجہ سے یہ نام بدل دیا ۔امام ابو داو ¿د ؒ لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عاص ، عزیز ، عَتَلہ ، شیطان ، حَکَم ، غُراب ، حُباب اور شھاب ناموں کو بدل ڈالا ۔ ( مشکوة: ۶۷۷۴ )۔ عاص بدلنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ اسکے معنی سختی کے ہیں ، عزیز اللہ کا نام ہے ، تو عبد العزیز کہنا درست تھا ۔ عَتَلَہ کو بدل دیا ؛ کیونکہ اس کے معنی شدت اور سختی کے ہے ۔ شیطان ابلیس کا نام ہے اور اسکا معنی خبیث کے ہے ۔ حَکَم کے معنی حاکم ہے جو خود اللہ کی ذات ہے ۔ غراب کے معنی بعد اور دوری کے ہے ۔ نیز یہ ایک گندہ پرندہ ( کوا ) بھی ہے ۔ حُباب شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی بولتے ہیں ( مرقاة ۹۶۲، المعجم الوسیط ) ۔ایک آدمی کان زَحم( بمعنی ہجوم اور تنگی ) تھا ۔ اللہ کے نبی نے نام بدل کر اسکا نام بشیر رکھا( المعجم الکبیر : ۵۱۲۱)۔ ایک آدمی کا نام اسود ( کالے رنگ والا) تھا ، اللہ کے نبی نے اسکا نام بدلکر اسے ابیض ( سفید رنگ والا ) کا نام رکھا( المعجم الکبیر للطبرانی: ۴۸۸۵) لیکن اگر تواضع کے لئے کوئی اپنا نام ” اسود “رکھے تو کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ بہت سے صحابہ کانام اسود تھا ۔ جگہوں کے نام بھی اگر برے ہوتے تو اللہ کے نبی ﷺ ان کو بھی بدل دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی کا ایک بستی کا گذر ہوا ، جسکا نام عُفرہ (بنجر زمین ) تھا ۔ اللہ کے نبی نے اسکا نام خُضرہ (سر سبز زمین) رکھا ( المعجم الکبیر : ۹۴۳)۔ اسی طرح ایک جگہ کا نام ” بقیة الضلالہ “( گمراہی کے باقی ماندہ) تھا ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بقیة الھدی (ہدایت کا باقی ماندہ ) نام رکھا ۔ ایک قوم سے گذرے اور ان سے کہا کہ تم کون ہو ؟ بولے : بنو غِیّہ ( یعنی سرکشی کی اولاد ) ۔ اللہ کے نبی نے اسکا نام بنو رِشدہ ( ہدایت کی اولاد ) رکھا ( مصنف عبد الرزاق: ۲۶۸۹۱) ۔ یہ کچھ واقعات ہیں جنہیں یہاں ذکر کیا گیا ، اس طرح کے بہت سے واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ تفصیل کے کے لئے حدیث کی کتابوں کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ محدثین نے حضور ﷺ کی ان اصلاحات کی وجہ لکھی ہے کہ آپ ﷺ کو برے معنی کے نام ناپسند تھے اور ایسے نام جن سے بدشگونی کا اندیشہ ہو سکتا ہو( تکملة فتح الملھم ، المجموع شرح المھذب للنووی ۸ ۶۳۴)
ایسے نام رکھنا جن میں تزکیہ اور تعریف کا پہلو ہو
حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: (( لا تسمین غلامک یساراً ولا رباحاً ولا نجیحاً ولا ا ¿فلح )) ” اپنے بچے کا نام یسار ( آسانی و خوش حالی ) ، رباح ( نفع )، نجیح ( کامیاب اور درست ) اور افلح ( کامیاب ترین ) نہ رکھو (مسلم )۔ اسی طرح نافع ( نفع بخش) ، یعلی ( بلند و برتر ) ، مقبل( طلوع ہونے والا) ، برکت جیسے ناموں کو بھی آپ ﷺ نے ناپسند کیا ( شرح المسلم للنووی: ۴۱۹۱۱) ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضرت زینب بنت سلمہ کاپہلا نام ” بَرّہ “ تھا (جس کا معنی صالح اور پاک کے ہیں )۔ آپ ﷺ کو کہا گیا کہ وہ اپنی پاکیزگی ظاہر کرتی ہے ، تو حضور ﷺ نے اسکا نام زینب رکھا ( بخاری: ۴۲۷۵)۔ حضرت جویریہ کا نام بھی ”برہ “ تھا حضور ﷺ نے اسکا نام جویریہ رکھا ۔ برہ اور اسکے مثل ناموں پر جن میں تعریفی اورخیر و صلاح کا معنی موجود ہے ، حضور ﷺ کی ناپسندیدگی کی دو علتیں حدیث ہی میں بیان کی گئی ۔ ایک علت یہ کہ حضور ﷺ یہ سننا ناپسند کرتے تھے کہ کہا جائے ” خرج من عند برة “ یعنی میں برہ یعنی پاکیزگی سے نکلا ( مسلم : ۹۲۷۵)۔ گویا یہ برا کلام ہے جسے شریعت پسند نہیں کرتی اور کبھی آدمی اسی بنیاد پر بے شگونی بھی لے سکتا ہے ۔ ایک موقع پر اسی سلسلے میں فرمایا کہ اپنے آپ کی پاکی و ستھرائی بیان مت کرو ۔ اللہ تم میں پاک اور ستھرے لوگوں کو زیادہ جانتے ہیں ( ابو داو ¿د : ۵۵۹۴) ۔ جاننا چاہیے کہ تزکیہ ¿ نفس اور بد فالی کی شریعت نے مذمت کی ہے اور دونوں گناہوں میں شمار ہیں ۔ عرب کے مزاج میں دونوں چیزیں تھی ، یہی وجہ ہے اللہ کے نبی ﷺ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لئے کبھی نام بدل لیا کرتے تھے ۔ فی نفسہ ان ناموں میں کوئی حرج نہیں ۔ بہت سے صحابہ کے نام ان ناموں پے ملتے ہیں اور حضور ﷺ نے انکے ناموں کو تبدیل نہیں کیا ۔ نافع ، یسار ، برکت ، برہ ( صالح اور نیک ) وغیرہ میں تو تزکیہ کا معنی ظاہر ہے ۔ بدشگونی کا اندیشہ اس طرح ہے کہ جب کسی آدمی کو ایسے نام رکھے جائیں ، تو کبھی جب اسے پکارا جائے اور وہ وہاں نہ ہو تو جواب ملے ” برکت نہیں ہے ، نافع نہیں ، برہ ( پاکیزگی ) نہیںہے ، یا یوں کہا جائے کہ میں برکت سے رخصت ہوا ، نافع سے رخصت ہوا ، برہ سے رخصت ہوا ، جو کہ اچھے جواب نہیں اوران سے آدمی کا گمان خراب بھی ہوسکتا ہے کہ شاید میں ان چیزوں سے خالی ہوجاو ¿ں گا۔ اسی لئے حضور ﷺنے ان ناموں کو ناپسند کیا ۔ گویا اللہ کے حضور ﷺ کی یہ اصلاح حکم نہیںتھا بلکہ ایک طرح کا مشورہ تھا جس کا مقصدان اسرار ورموز سے واقف کرانا تھا ۔ (ملخص من حجة اللہ البالغہ : ۲ ۸۹۵، شرح المسلم : ۴۱ ۰۲۱، مرقاة ۹۱۱)۔ ابن عابدین ؒ نے محی الدین ، فخر الدین ، شمس الدین جیسے ناموں کو بھی اسی زمرے میں شامل کیا اور کہاایسے نام رکھنا درست نہیں ؛ کیون کہ ان ناموں میں تزکیہ ¿ نفس ہے کیونکہ محی الدین کے معنی دین زندہ کرنے والا ، فخر الدین کے معنی دین کا فخر اور شمس الدین کے معنی دین کا سورج ہے ۔ ساتھ ساتھ اس میں جھوٹ بھی ہے ۔لکھتے ہیں کہ مشہور محدث امام نوویؒ کا لقب لوگوں نے محی الدین رکھا تھا ، خود امام صاحب اس کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ جس آدمی نے مجھے اس نام سے پکارا اس نے حلال کام نہیں کیا ( رد المحتار ۹ ۹۹۵) ۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا کہ یہ نام فی نفسہ درست اور صحیح ہیں، بالخصوص اس وقت جب ان ناموں کے معانی سے اچھی توقع اور نیک فال اختیار کیا جائے ؛کیونکہ خود حضور ﷺ سے اچھے اور تعریفی کلمات کے نام رکھنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ کی ایک صاحبزادی کا نام جمیلہ رکھا ، حضرت علی ؓ کے صاحبزادوں کا نام حسن ، حسین اور محسن رکھا۔ آپ ﷺ کے عم ِ محترم کا نام حمزہ ( شیر)تھا ، آپ نے انکا نام تبدیل نہیں کیا ۔ نیز اللہ کے رسول ﷺ نے ناموںمیں جتنی بھی ترمیمات فرمائی ، ان میں تزکیہ و تعریف کا معنی موجود تھا ۔ اور صحابہ میں اس طرح کے معنی و مفہوم والے نام کثیر تعداد موجود تھے ۔ اسی بنیاد پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے فرمایا کہ یہ نہی والی احادیث مشورہ پر محمول ہیں جیسا کہ گذر چکا۔ مشہور شارح ِ بخاری ابن بطال لکھتے ہیں کہ ایسے نام جن میں معنی کی خرابی ہو ( اور حسن نیت ہو یعنی تواضع وغیرہ کا اظہار ) ، اسی طرح دیگر مثبت اور اچھے نام کو بدلنا واجب اور ضرری نہیں ( فتح الباری: ۴۱ ۷۶)۔ امام طبری لکھتے ہیں کہ نام محض علامت ہی کیلئے ہوتے ہیں جن سے حقیقی معنی کا ارادہ نہیں ہوتا۔ لیکن سننے والا جب سنے تو وہ اسکی صفت سمجھ سکتا ہے اور کراہت پیدا ہوسکتی ہے ( فتح الباری : ۴۱ ۰۷)۔
شریعت نے جن ناموں پر پابندی لگادی
۱۔ اللہ تعالی کے نام رکھنا
قرآن کریم میں ہے : ﴾وَذَرِ الَّذِینَ یُل ±حِدُو ±نَ فِی ± اَ ¿س ±مَائِ ہ سَیُج ±زَو ±نَ ما کانُو ±ا یعملون﴿ ” اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے جو اللہ کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، عنقریب وہ اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے “ ( ا ¿عراف : ۰۸۱)۔ علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ اللہ کے ناموں میں ” کج روی ااور الحاد “ ناجائز اور حرام ہے ۔اللہ کے ناموں میں کج روی اور الحاد کی ایک صورت مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کیا جائے۔ حدیث میں ہے : ا ¿َغ ±یَظُ رَجُل عَلَی اللّہِ یوم القیامة واَ ¿خ ±بَثُہ ¾ رَجلُ ¾ کانَ یُسَمِّی مَلِکَ الا ¿ملاکِ ، لا مَلِکَ الا اللّہُ ” قیامت کے روز اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ غضب کا سامنا کرنے والا اور خبیث ترین شخص وہ ہوگا ، جس کا نام ملک الاملاک ( بادشاہوں کا بادشاہ ) ہوگا ۔ بادشاہ صرف اور صرف اللہ ہی ہیں “ (مشکوة عن مسلم: ۵۵۷۴) ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس وعید کے ضمن میں ہر وہ نام داخل ہے جو اس معنی کا حامل ہو اور اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہواور اسی کے شایان ِ شان ہو ، مثال کے طور پر خالق الخلق ( مخلوقات کا خالق ) ، احکم الحاکمین ( حاکموں کو کا حاکم ) ، سلطان السلاطین ( بادشاہوں کا بادشاہ ) ، امیر الامراء( سرداروں کے سردار ) (تکملة فتح الملھم :۸۸۱)۔اسی طرح صمد ،احد، خالق ، جبار، متکبر ، اول ، آخر ، باطن وغیرہ بھی اللہ کے ساتھ خاص ہیں ، انکا استعمال بھی اللہ کے علاوہ کسی اورکے لئے ناجائز اور حرام ہے ( تحفة المودود ) ۔ عجمی لوگ ” شاہان شاہ “ یعنی بادشاہوں کے بادشاہ کا لقب اپنے بادشاہوں کے لئے استعمال کرتے تھے ، سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ یہ نام بھی اس وعید میں داخل ہے ( مسلم )۔ ایک آدمی کانام ابو الحکم تھا( حَکَم، فیصلہ کرنے والا) اللہ کے رسول ﷺ نے اسے بدل کر ابو شریح رکھا ( ابو داو ¿د : ۴۵۹۴)ایک موقع پر فرمایا : اِنَّ اللّہَ ھُوَ الحَکَمُ ، وَاِلَی ±ہِ الحُک ±مُ یعنی اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں اور فیصلہ کرنا اسی کے سزا وار ہے ( الا ¿دب المفرد للبخاری ) شارح مسلم امام نووی لکھتے ہیں کہ غیر اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے جیسے کسی کا نام رحمن ، مہیمن ، خالق لخلق، احد ، صمد وغیرہ رکھا جائے (شرح المسلم : ۴۱ ۲۲۱، )۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں : ” انما نھی عن ذالک ؛ لا ¿نہ افراط فی التعظیم ، یتاخم الشرک“ یعنی ان ناموں سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ شرک سے قریب ہیں ( حجة اللہ البالغة :۲ ۷۹۵) پھر ان ناموں کی حرمت اور بڑھ سکتی ہے جب کسی غلط عقیدے کی بنا پر ہو کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر خطاب کرے؛ کیونکہ تب تو یہ کفر ہوگا ۔ لیکن اگر غلط عقیدہ نہیںمحض بے سمجھی سے کسی کو خالق ، رازق ، یا رحمن وغیرہ کہہ دیا ،تو یہ اگر چہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ ِ شدید ہے ( معارف القرآن ملخصاً : ۴ ۱۳۱)۔ لیکن واضح رہے کہ یہ حرمت اس وقت رہے گی جب ان ناموں کے شروع میں لفظ ” عبد “ کا اضافہ نہ کیا جائے ۔ لیکن اگر لفظ ِ عبد کا اضافہ کیا جائے مثلاً عبد اللہ ، عبد الرحمن ، عبد الخالق ، عبد الرزاق، عبد الصمد ، تو یہ نام محبوب ترین نام بن جاتے ہیں جیسا کہ ماقبل میں گذر چکا ۔ لیکن ان محبوب ناموں کے پکارنے میں بھی ایک غفلت برتی جاتی ہے ،وہ یہ کہ تخفیف کے وقت عبد الرحمن کو رحمن ، عبد الخالق کو خالق ، عبد الرزاق کو رزاق سے پکارتے ہیں ، یا بگاڑ کر پکارتے ہیں جیسے عبد الرحمن کو ” رمان“ وغیرہ، جو کہ ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے ، آدمی جتنی مرتبہ اس طرح پکارے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا ؛کیونکہ یہ سب ” الحاد فی الاسماء“ میں داخل ہے جس کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی جانب سورہ ¿ انعام کی مذکورہ آیت کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی سَیُج ±زَو ±نَِ مَا کانوا یعملونَ یعنی انکو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی ، بلکہ ابہام میں رکھا گیا ، اس ابہام سے عذاب ِ شدید کی طرف اشارہ ہے ( ملخص من شامی :۹ ۸۹۵ ، معارف القرآن :۴ ۲۳۱، تکملة فتح الملھم :۴ ۸۸۱)
یہ ان ناموں کی تفصیل ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے ؛ بلکہ ان کا اطلاق غیر اللہ پر بھی ہوتا ہے جیسے کریم ، رشید ، علی، سمیع وغیرہ ، تو ایسے نام رکھنا جائز اور درست ہے اس شرط پر کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جس حیثیت سے ان ناموں کا اطلاق ہوتا ، اس حیثیت سے نہ ہو بلکہ کسی اور حیثیت سے ہو ( معارف القرآن : ۴ ۲۳۱، بدائع الصنائع )۔
۲۔شرکیہ نام رکھنا
ایسے نام رکھنا جن سے شرک کا معنی پیدا ہوتا ہو ، رکھنا ناجائز اور گناہ ہے۔ عرب میں چونکہ شرک اور بت پرستی کا رواج تھا ، اس لئے وہ فرط ِ عقیدت میں بتوں کی جانب اپنے ناموں کو منسوب کرتے تھے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس طرح کے تمام ناموں کو تبدیل فرمایا۔ ابو بکر صدیق ؓ کا نام پہلے ” عبد العزی ( عُزّی کا بندہ )“ تھا ، اللہ کے نبی نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا ( مستدرک حاکم : ۲۳۰۶)۔ عزی عرب کا ایک مشہور بت تھا ۔ ایک صحابی کا نام ” عبد الحجر ( پتھر کا بندہ ) “ تھا ، اللہ کے نبی نے اسکا نام بدل کر اسے” عبد اللہ “نام رکھا ( مصنف لابن ا ¿بی شیبہ : ۱۲۴۶۲)۔ عبد الرحمن ابن عوف کا نام جاہلیت میں ” عبد الکعبة ( یعنی کعبے کا بندہ ) “ تھا ، تو اللہ کے نبی نے اسکا نام ” عبد الرحمن “ رکھا ( المعجم الکبیر :۲۵۲) ۔ جاننا چاہیے کہ انسان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ اور عبد ہے ؛ لہذا اس لفظ کی نسبت اللہ کے کسی نام ہی کی جانب ہونی چاہیے ۔ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب اسکی نسبت درست نہیں ۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم میں ہرگز کوئی اپنے غلام کے سلسلے میں نہ کہے ” عبدی “ یعنی میرا بندہ ، کیونکہ تم سب کے سب اللہ کے ہی بندے ہو بلکہ کہے ” فَتَایَ “( یعنی میرا نوجوان یا جو لفظ خادم کے مناسب ہو ) ۔ اور نہ غلام اپنے آقا سے کہے ” رَبِّی “ یعنی میرے رب “ ، بلکہ کہے: ” سیدی “یعنی میرے سردار (مشکوة عن مسلم: ۰۶۷۴ )۔ اسی حکم میں عبد الحارث ، عبد النبی ، عبد المصطفی ہیں ، ایسے نام رکھنااور لقب رکھنا، ناجائز اور خلاف شرع ہیں ( مرقاة ملخصاً )۔
۳۔شیطان اور گمراہ لوگوں کے نام رکھنا ممنوع
ایک آدمی کا نام حُباب تھا ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کا نام عبد اللہ رکھا اور فرمایا کہ حُباب شیطان کا نام ہے ( مصنف عبد الرزاق ، باب الا ¿سماءوالکنی )۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی کو جس کا نام مسروق بن اجدع تھا ، سے کہا کہ اجدع شیطان کا نام ہے ( ابو داود ) ۔ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر اس سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر اسکے باپ زندہ ہے تو اسکا نام بدلے یا اسکو ” اجدع “ کے بجائے ابو مسروق کی کنیت سے پکارے ( مرقاة : ۹ ۲۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دشمنوں اور گمراہ لوگوں کے نام رکھنا درست نہیں ۔ حدیث میں اسے منع کیا گیا ہے ، اسی طرح فلمی اداکاروں ، گانے والوں اور دیگر فاسقوں کے نام رکھنا بھی شرعاً درست نہیں؛ کیونکہ ان لوگوں کے نام پر نام رکھنا محبت کی دلیل ہے ۔ اور شریعت کا ضابطہ ہے : ”ال ±مَرئُ مع مَن ا ¿َحَبّ یَومَ القِیامةِ“ یعنی آدمی روزِ قیامت ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس نے محبت کی ہو ( تحفة المودود لابن القیم، سنن الترمذی: ۵۳۵۳ )
فرشتوں اور قرآن کی سورتوں کا نام رکھنا
جہاں تک فرشتوں کے ناموں کا تعلق ہے تو وہ دو قسم پر ہیں ، ایک قسم وہ ہے جو فرشتوں اور انسانوں میں مشترک ہیں تو وہ نام رکھنے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لیکن فرشتوں کچھ نام انہی کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے جبرئیل ، اسرافیل وغیرہ تو ایسے نام رکھنے کے سلسلے میں امام بغوی ؒ نے معقول تقریر فرمائی ، لکھتے ہیں کی صحابہ و تابعین میں اس نام کوئی نہیں ملتا جس نے اپنے بیٹے کا نام فرشتوں کے ( مخصوص ) نام پر رکھا ہو ۔ نیز حضرت عمر اس چیز کو ناپسند کرتے تھے ، اس لئے یہ مکروہات میں شامل ہے ( شرح السنة : ۲۱ ۶۳۳) ۔ امام مالک ؒ نے بھی مکروہ لکھا ہے، ساتھ ساتھ ملا علی قاری ؒ کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے ( مرقاة : ۹ ۰۱) ۔ لیکن امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ جمہور علماءکے نزدیک فرشتوں کے نام رکھنا بلا کراہت درست ہے ۔ ( المجموع شرح المہذب : ۸ ۷۱۴ ) ۔اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں احتیاط کی جائے ، اور اگر کسی نے رکھ لیا ہو اس پر نکیر بھی درست نہیں ۔ رہا مسئلہ قرآن اور قرآن کی سورتوں کا نام رکھنا تو اس سلسلے میں حافظ ابن قیم ؒ کی عبارت تمام گوشوں کو پر کرتی ہے ۔ لکھتے ہیں : ” ومما یمنع منہ التسمیة با ¿سماءالقرآن و سورہ مثل طہ و یٰس وحم ، وقد نص مالک علی کراھة التسمیة بیٰس وا ¿ما ما یذکرہ العوام ا ¿ن یس و طہ من ا ¿سماءالنبی ﷺ فغیر صحیح لیس ذالک فی حدیث صحیح ولا حسن ولا مرسل ولا ا ¿ثر عن صاحب وانما ھذہ الحروف مثل الم و حم و الر ونحوھا “ یعنی جو نام رکھنے منع ہیں ان کی ایک قسم قرآن( کے مخصوص نام ) اور قرآن کی سورتوں کے نام ہیں جیسے طہ ، یس ، حم وغیرہ نام رکھا جائے ۔ امام مالک نے اسے مکروہ لکھا ہے ۔ اور عوام میں جو بات مشہور ہے کہ یس اور طہ حضور ﷺ نے ناموں میں ہیں تو یہ صحیح نہیں ، اس سلسلے میں نہ کوئی حدیث ہے نہ صحابی کا اثر موجود ہے ( تحفة المودود :۴۸۱، شرح المسلم للنووی:۴۱ ۷۱۱)۔ نیز یہ حروف ہیں جنکا معنی معلوم نہیں ؛ حالانکہ نام میں معنی ہی اسکی اچھائی اور برائی متعین کرتا ہے ، تو اس اعتبار سے بھی انکا نام رکھنا اچھا نہیں ۔ لیکن اگر ” یاسین “ ( جب کھول کر لکھا جائے ) نام رکھا جائے ، تو بعض علماءکی تحقیق پر اسکا نام رکھنا درست ہے کیونکہ اس صورت میں یہ قرآن کی سورت کا نام نہیں رہتا ( قرطبی: ۷۱ ۸۰۴ )۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ احتیاط کی جائے ۔
نام کی تاثیر کا شرعی جائزہ
حضور ِ اقدس ﷺ نے ناموں کے حوالے جتنی بھی اصطلاحات فرمائی ، انکا بنیادی مقصد یاتو اسلامی فکر و فلسفہ کی ترویج اور اشاعت تھی یا انفرادی اصلاح ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا نام دیکھتے جو اسلامی عقائد سے میل نہیں رکھتا ، اسے تبدیل فرماتے تھے ۔ خصوصاً جن صحابہ کے نام شرکیہ معنی کے حامل تھے ، حضور ﷺ نے انکا معنی بدل کر عبد اللہ یا عبد الرحمن نام رکھا ، جیسے کہ ایک صحابی کا نام عبد الحجر( پتھر کا بندہ ) تھا ، حضور ﷺ نے اس سے فرمایا: تم تو پتھر کے نہیں بلکہ اللہ کے بندے ہو ”اِنَّمَا ا ¿َن ±تَ عَب ±دُ اللّٰہِ “ ( مصنف ابن ا ¿بی شیبة )۔جس سے صاف ظاہر ہے ان ناموں کے بدلنے کا سب سے بڑا محرک یہ تھا کہ کفر و شرک کی فکر سے کلی طور آزادی ملے ۔ اسکے علاوہ دیگر اصلاحات جتنی بھی فرمائی ان میں یا تو تزکیہ ¿ نفس کا اندیشہ تھا یا وہ نام ایسے معنی رکھتے تھے جو مومن کے شایان شان نہیں تھے ، جسکے بارے میں شریعت نے ایک کلیہ بیان کیا کہ اسلام نیک فال کو پسند کرتا ہے اور نیک فال یہ ہے کہ آدمی اچھا کلام سنے ۔ ان اصلاحات سے عیاں ہے کہ نام کا انسان کی فکرو نفس پر اپنا اثر رہتا ہے ۔ علامہ ابن القیم ؒ لکھتے ہیں کہ نام معنی کے کیلئے ایک قالب کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے روح اور بدن کا تعلق ہے ( زاد المعاد: ۲۸۰۳)۔ تونام کے معنی کے اثرات کا انسان کے ذہن پرظاہر ہونا ایک بدیہی امرہے ، بالکل ویسے ہی جیسے ایک اعرابی آیا تھا اور مسجد نبوی میں فصیح و بلیغ تقریر کی۔ تم لوگ اسکی تقریر سن کر دم بخود ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” اِ نَّ مِنَ ال ±بَیَانِ لَسِح ±رًا “ کہ بعض بیان جادو اثر رکھتے ہیں ( ترمذی)۔ اسی طرح جب نام کے معنی اور پس ِ منظر سے واقفیت ہو ، تو انسان کے قلب و نفس پر اس کا اثر پڑتا ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماءنفس نے نام کی عمدگی کی جانب خصوصی توجہ کی تاکید کی ہے ۔ ایک ایسا آدمی جو بلند نسبت یا بلند معنی کا نام رکھتا ہو ، تو اگر وہ واقعی باشعور اور با حس آدمی ہے ، تو اسکے کردار و سلوک پر اسکا اثر پڑنا کوئی امر بعید نہیں ۔ عام حالات بھی جب اس نام سے اسکا صحیح خطاب کیا جاتا ہے تو اسکی ایجابی اثر وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے ۔ اسکے برخلاف جس آدمی کا نام سلبی معنی رکھتا ہو ، پکارتے وقت وہ نفسیاتی تکلیف کا شکار ہوجاتاہے اور نفس کے واسطے سے اسکا طور طریقہ بھی متاثر ہوسکتا ہے، جس کی زد میں انسان کا عمل اور کام بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ اور اگر اس درجہ غیر موزوں ہو جو شرعی قوانین کے خلاف ہو ، تو شرعی قوانین کی مخالفت کی وجہ سے کبھی اللہ کے عقاب و عذاب کا بھی شکار ہوسکتا ہے جیسا کہ مشہور ہے ” اِنَّ ال ±بلائِ مو ¿کل بالقول “ یعنی آدمی کو کبھی اپنے بات کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے ۔ امام بخاری نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک معمر اور سن رسیدہ آدمی بخار میں مبتلا ہوا ، اللہ کے نبی ﷺ عیادت کے لئے گئے تو ان کے لئے دعا فرمائی اور کہا ©: ” لا با ¿س طہور اِن شاءاللہ “ یعنی کوئی ڈر نہیں ، ان شاءاللہ یہ بیماری گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہوگی ، تو اس آدمی نے کہا : نہیں ، بلکہ یہ کھولتاہوا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر آپڑا ہے اور اسے قبر کے قریب کردیا۔ پھر اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تب ایسا ہی ہوگا ( جیسا تم سوچتے ہو ) ، دیگر روایات میں ہے کہ وہ آدمی دوسرے ہی دن مر گیا ( بخاری و مجمع الزوائد )۔ نام بھی انسان کا ایک عمل ہے اگر شرعی ضابطہ کے مطابق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسکا مو ¿اخذہ کر سکتے ہیں ۔ لیکن ناموں کی تاثیر کے سلسلے میں فی زمانہ چند ایسے افکار جنم لے چکے ہیں ،جو ایمان کی خرابی اور سنگینی میں جاہلیت میں رائج مشرکانہ افکار سے میل کھاتے ہیں ۔ ” طیرة “ جاہلیت کا ایسا گناہ ہے، جس پر اسلام نے زبر دست نکیر کی ہے ۔ اور اسے مشرکانہ عقائد کی فہرست میں شمار کیا ۔ اہل ِ لغت اس کی تعبیر ” بد شگونی “سے کرتے ہے ۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر میں غیر اللہ کو مو ¿ثر سمجھا جائے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے صاف لفظوں میں فرمایا : لَا طِیَرَة یعنی بدشگونی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ( بخاری و مسلم )۔ ناموں کی تاثیر میں بھی لوگ اسی بد شگونی کے شکار ہیں اور انسان کی بد خلقی ، سخت مزاجی اور بد سلوکی وغیرہ کو نام کا ہی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو سراسر ایک غلط فکر ہے جس کی اصلاح انتہائی ناگزیر ہے ۔ اس سلسلے میں عوام پر تو کیا ، ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو عوام کا مالی استحصال تو ہیچ ، ایمانی استحصال کرتے ہیں ۔ صحیح اور اچھے معنی کے نام ہونے کے باوجود ، انکے بدلنے کی صلاح تو دور ، انکی تبدیلی کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ پیدائشی تاریخ کو اصل قرار دیکر علم الاعداد اور علم نجوم وغیرہ سے انسان کی قسمت کو متعین کرتے ہیں اور حوالے دیتے ہیں کہ فلاں نام بھاری ہے یا بھاری پڑے گا وغیرہ ۔ اسلام میں ان چیزوں کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ۔ بس یہ چیزیں سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک گھناو ¿نا حربہ ہے علمائے اسلام نے سخت لہجے میں ان چیزوں کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ یاد رکھیے کہ اچھی سوچ ، اچھی فکر ، اچھی توقع اور اچھی امید کا فائدہ ملتا ہے ، گندی سوچ ، گندی فکر ، نا امیدی کا وبال آتا ہی ہے اسکے لئے کسی خاص زاویہ کی تخصیص نہیں ۔ حدیث قدسی ہے : ” ا ¿َنَا عِندَ ظَنِّ عَبدِی ± بَی ± ، فَلَا یَظُنُّ بِی ± اِلَّا خَیرًا “ یعنی میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں ؛ اس لئے بندے کو چاہیے کہ میرے ساتھ اچھا گمان رکھے ( مسلم)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اچھی تمنٰی اور آرزو رکھے، فرمایا: ” اِنَّ ا ¿حدکم لا یدری مایکتب لہ من ا ¿منیتہ “ کہ تم کو نہیں معلوم کہ تمہاری آرزو پر کیا لکھا جائے ( مسند لا ¿حمد ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھا سوچنا اور اچھا مطلب نکالنا شریعت کا عمومی سبق ہے ۔
ناموں کے احکامات کا خلاصہ
کوئی بھی نام رکھنا جائز ہے اگر شرعی اصولوں کا لحاظ کیا جائے ۔کسی صالح انسان سے مشورہ کرکے نام رکھنا چاہیے ، کئی صحابہ ؓ نے حضور ﷺ سے پوچھ کر اپنے بچوں کو نام رکھا ۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے شروع میں ” عبد “ لگا کر نام رکھنا مستحب ہے جیسے عبد اللہ ، عبد الرحمن ، عبد الرب وغیرہ ۔ انبیاءاور صالحین کی نسبت پر نام رکھنا مستحب ہے ،اور ان ناموں میں نسبت ہی اصل ہے ، معنی اصل نہیں ۔ بقول ابن قیم ؒ ، کبھی اچھا نام ہی بُرائی کرنے سے مانع بنتا ہے ( تحفة المودود:۳۱۲)۔ صحابہ، تابعین ، محدثین و فقہاءامت کے صالح ترین ہیں ۔ نام کا معنی شرعی طور پر اچھا ہونا چاہیے ۔ عاجزی اور انسان کی حقیقت کا اظہار کرنے والے نام رکھنا مستحب ہے ؛ کیونکہ عبدیت والے نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔ حارث اور ہمام جوکہ انسان کی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں ، کو حدیث میں سچا نام قرار دیا گیا ۔ نام کا معنی اچھا ہونا چاہیے ۔ علامہ ماوردی ؒ نے اچھے نام کی چند خصوصیات بیان کی ہیں ، لکھتے ہیں : نام کم حروف کا ہو ، پڑھنے میں آسان ہو ، الفاظ آسان ہوں ، سننے میں اچھا لگے ، معنی اچھا ہو ، انسان کی ذات کے مناسب ہو اور اس نام کا مسلم طبقے اور ہم مرتبہ طبقے میں رواج ہو ( تحفة الملوک ۷۶۱)برے معنی کا نام رکھنے سے احتیاط کرنی چاہیے ۔ اچھے نام پر اترانا اور تکبر کرنا جائز نہیں ۔ اگر عاجزی کی بنا پر اپنے نام ایسے رکھے جسکا معنی اچھا نہ ہو تو درست ہے جیسے کہ بہت سے صحابہ اور محدثین کا نام اسود تھا ۔ لیکن زیادہ برے معنی کا نام رکھنا مکروہ ہے ۔ اللہ کے مخصوص نام رکھنا حرام ہے ۔ اسی طرح نبی ﷺ کا مخصوص نام رکھنا بھی حرام ہے جیسے کسی کا نام ” سید الکل ، سید ولد آدم “ وغیرہ ( موسوعہ )۔اللہ اور انبیاءکے ناموں کو بگاڑ کر پکارنا گناہ کبیرہ ہے ۔ شرکیہ نام رکھنا حرام ہے ۔ شیطانوں اور فرعونوں کا نام رکھنا مکروہ تحریمی ہے ۔ فرشتوں کے مخصوص نام ، قرآن کے مخصوص نام اور قرآن کی سورتوں کے نام میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ نام مکمل اور سلیقے سے پکارنے چاہیے ؛ تخفیف کرکے بگاڑنا درست نہیں ۔ جن ناموں کا مسلم معاشرے میں رواج نہیں ؛ وہ نہ رکھنا بہتر اور اولی ہے ۔ ( رد المحتار: ۹ ۹۹۵ )۔
لمحہ ¿ فکریہ
ناموں کا یہ اسلامی نظام انتہائی جامعیت کا حامل ہے ، جسکا صحیح اندازہ ایک باشعور اور روح ِ ایمانی سے معمور انسان کو بخوبی ہوسکتا ہے ۔ اسکے اندار کتنی نزاکت ، کتنی گہرائی اور کتنی اہمیت ہے ، اسلام کا محب کبھی بھی ان کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ لیکن موجودہ وقت میں لوگ ایسے نام اور القاب دینے لگے ہیں ، جو غیر مسلم قوموں کی طرز ِ معاشرت کے عکاس ہیں جیسے سویٹی ، بیوٹی ، پرنس وغیرہ۔ اس میں زبانی طور پر تو نہیں لیکن عملی طور پر اسلامی تہذیب سے بیزاری پائی جاتی ہے ، جوکہ امت اسلامیہ کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ ایک دانشور مسلمان کو ایک بار سنجیدہ ہوکر سوچنا چاہیے کہ کسی غیر اسلامی اور فاسق شخص سے متا ¿ثر ہوکر جب وہ اپنے لئے نام یا لقب کا انتخاب کرتا ہے یا والدین اپنے بچے کے لئے ایسے نام کا انتخاب کرتے ہیں ، تو کل اگر محشر کے دن اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ میرے نیک اور صالح بندوں میں کسی کا نام تجھے پسند نہیں ؟؟ تو اس آدمی کا کیا جواب ہوسکتا ہے ۔ بلکہ حدیث میں تو آیا ہے کہ ہمارا رب ہم کو ہمارے نام ہی سے پکاریں گے ۔ تو اگر ہم نے کسی غیر مسلم ثقافت سے متاثر ہوکر نام یا لقب کا انتخاب کیا ہو تو کل اس طرح بھی سوال ہوسکتا ہے کہ کیا اسلامی ثقافت ختم تھی ؟؟ یا دین اسلام سے محبت نہیں تھی ؟؟ تو ان سوالات کا ہمارے پاس کیا جواب ہوسکتا ہے ؟؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی محبت نصیب فرمائے ( آمین )۔
مضمون نگار دارالعلوم سوپور کشمیرکے استاذ ہیں )
رابطہ: 08491019816
irshadah34@gmail.com