امام حرم مکی شیخ صالح :حیات وخدمات

Salamn Abdullahعبد اللہ سلمان ریاض
امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب کی ہندوستان آمد پر ہم لوگ ان کا دل کی گہرائیوں سے اہلاو سہلا مرحبا کہتے ہوئے استقبال کرتے ہیں۔امام محترم کی آمد سے ہندوستانی فضا ء معطرو منور ہور ہی ہے۔یہاں کی فضاء میں یقیناًاتحاد و یگانگت ،امن و سکون کی باد نسیم چلے گی۔یہاں کے علماء کرام میں امام محترم کی آمد سے خوشی کی لہردوڑ رہی ہے۔مدارس و مکاتب کے طلباء ، ائمہ ء کرام اورخواص و عوام میں ایک نیاجذبہ انگڑائیاں لے رہا ہے اور یہ کیوں نہ ہو امام محترم کی نسبت ایسے منبرو محراب سے ہے جہاں سے اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں، جہاں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور سارے عالم میں پھیل گیا۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ، تابعین و تبع تابعین نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے سارے عالم میں امن کا پیغام دیا جاتاہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمین کے تمام شہروں پر مکہ معظمہ کو جو فضیلت ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔زمانہ گواہ ہے کہ اس حال میں اس قدر لاتعداد مخلوق پورے عالم میں مکہ معظمہ کے سوا کہیں بھی جمع نہیں ہوتی اور انشاء اللہ قیامت تک ہر سال اسی جوش و خروش ، جذبہء اور ولولہ کے ساتھ فرزندانِ توحید یہاں جمع ہوتے رہیں گے۔
یہ معزز شہر مہبط وحی، نزول قرآن مجید اور ظہورِ اسلام کا مقدس مرکز ہے۔ اس شہر میں ایک ہی دین اور مذہب کا بول بالا ہے۔ دوسرے کسی مذہب کے پیروکار یہاں نہیں ہیں۔ اس شہر میں کافر کا داخلہ اور اس کی تدفین شرعاً ممنوع ہے۔ ماسوا اشد ضرورت کے یہاں لڑائی کرنا حرا م ہے۔ شکار کرنا بھی قطعی حرام ہے۔شکاری خواہ مکہ کا باشندہ ہو۔ حِل میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے شہر یا ملک کا ہو۔احرام میں ہو یا نہ ہو۔ یہ حکم سب کے لئے یکساں طور پر نافذ ہے ۔ اس شہر کے درخت کاٹنا، یہاں سے مٹی اور پتھر باہر لے جانا بھی حرام ہے۔ یہاں نیکیوں اور بالخصوص نماز کا اجر ایک لاگھ گنا زیادہ ملتا ہے۔دجال کے داخلہ سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں انبیاء کرام کی تقریباً تین سو قبریں ہیں۔اسی شہر مقدس میں جنت المعلاء ہے جہاں سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گے۔
مکۃ المکرمہ کے امام فضیلت الشیخ ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب اپنی سوریلی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کی وجہ سے سارے عالم میں مشہور و معروف ہیں۔آپ کا اندازِ تلاوت بہت ہی سادہ مگر پر کیف ہے۔بالکل آہستہ آہستہ سریلی آواز میں بڑے ہی اطمینان سے نماز میں قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں۔ آپ گویا اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو بناسنوار کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔
مکۃ المکرمہ کے امام ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب سعودی عرب کے مشہور قبیلہ بنی تمیم کے طے سے تعلق رکھتے ہیں۔طے یہ حوطہ قبیلے کی ایک مشہور شاخ ہے۔شیخ صالح کا خاندان علماء ، حفاظ اور قضاء کی وجہ سے پورے خطہ ء عرب میں جانا جاتا ہے۔ڈاکٹرشیخ صالح کی ابتدائی دینی تعلیم ، حفظ قرآن کریم، قرأت سبعہ عشرہ اور ثانوی تعلیم شہر ریاض میں ہوئی۔آپ کے قرأت سبعہ عشرہ کے اساتذہ میں شیخ محمد عمرسکر، ماہر تجوید شیخ صابر حسن ابو سلیمان ، شیخ عبد الحلیم صابر ، شیخ عبد الرزاق اور شیخ قاری عبد المالک ابومحمد قابل ذکر ہیں۔ شیخ صالح نے حفظ قرآن کی تکمیل اور ابتدائی دینی تعلیم کے بعد سال ۱۴۱۴ھ میں ریاض کے شریعہ کالج میں داخلہ لیااس کالج سے بی اے کی تکمیل کے بعد ہایئر انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس سے سال ۱۴۱۷ھ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے برطانیہ سے بین الاقوامی دستورمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، سعودی عرب کے ولی عہد نے ملک میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ضروت کے پیش نظر تین علمائے دین کی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کے لئے خصوصی منظوری دی تھی جن میں شیخ صالح بھی شامل تھے۔شیخ نے بین الاقوامی دستور میں برطانیہ کی یونیورسٹی سے استفادہ کیا۔اور بین الاقوامی قانون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے۔شیخ نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ فن میں مہارت حاصل کرنے کے لئے علم حدیث و فقہ مشاہر علماء و مشائخ سے حاصل کئے۔آپ کے مشہور اساتذہ میں آپ کے والد محترم شیخ محمد بن ابراہیم بن محمد آل طالب، آپ کے دادا شیخ ابراہیم بن محمد بن ناصر آل طالب، مفتی عام مملکت سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اور مملکت سعودی عرب میں وزیر اسلامی امور شیخ صالح بن عبد العزیز آل شیخ وغیرہ اہم ہیں۔
شیخ نے ۱۷ سال کی عمر میں اپنی عملی زندگی کا آغاز ریاض شہر کے سویدی محلے کی ایک مسجد’’مسجدِ علیا ء آل شیخ‘‘ میں امامت کے ذریعہ کیا تھا۔ پھرعملی زندگی میں مختلف مراحل طے کرتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچ گئے جہاں تین سال خدمات سر انجام دیں، اس دوران انھوں نے شیخ عبد العزیز بن ابراہیم القاسم اور طائف کورٹ کے چیف جسٹس شیخ عبد اللہ بن عبد العزیزالفریان سے تربیت حاصل کی، اسی طرح آپ نے ضمانت اور نکاح وغیرہ امور سے متعلق کورٹ کے چیف جسٹس شیخ سعود المعجب سے بھی تربیت حاصل کی۔سال ۱۴۱۸ھ میں سعودی عرب کے تربہ علاقے میں قاضی مقررہوئے جہاں آپ نے دو برس تک خدمات انجام دیں۔ پھر سال ۱۴۲۰ھ میں رابغ کے علاقے میں قاضی متعین ہوئے اور یہاں آپ نے دو برس چھ ماہ خدمات انجام دیں اور پھر مکہ مکرمہ کے سپریم کورٹ میں قاضی مقرر ہوئے اور ہنوز اسی عہدے پر فائز ہیں۔۲۸؍ شعبان ۱۴۲۳ھ کو شیخ صالح کے نام مسجد حرام میں امام کی تعین کا شاہی فرمان جاری ہوا اور اسی تاریخ کی نماز عصر سے شیخ صالح نے حرم پاک میں امامت کی ۔ یہ رمضان المبارک کا پہلادن تھا۔اور ۲۰؍شعبان ۱۴۳۰ھ کو شاہی فرمان کی روسے شیخ صالح مسجد حرام میں مدرس مقرر ہوئے۔اسی طرح آپ مکہ مکرمہ کی منشیات کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔آپ وزارت صحت کے زیر نگرانی میڈیکل سوسائٹی کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ شیخ صالح موصوف مملکت سعودی سمیت دنیا بھر کے مختلف خیراتی اور تعلیمی ادارو ں کے سربراہ اور رکن ہیں۔شیخ صالح امام حرم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متحرک داعی و مربی ہیں۔ آپ نے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں دینی اداروں کے قیام کی کوشش کی اور رابغ شہر میں آپ کی کوششوں کے نتیجے میں جمعیہ تحفیظ القرآن الکریم کا آغاز ہوا تھایہ ادارہ آج مختلف شعبوں پر مشتمل ہے، جہاں جالیات کی تربیت سمیت افتاو ارشاد کے شعبے عالمی سطح پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔شیخ صالح نے سال ۱۴۱۵ھ میں ہالینڈ کے شہر لابائی میں منعقدہ بین الاقوامی عدالت کے زیر نگرانی تجارتی استحکام سے متعلق بین الاقوامی کانفرس میں شرکت کی، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے زیر سرپرستی منعقدہ الیکٹرانک تجارت سے متعلق منعقدہ کاتفرنس میں شرکت کی، ان کے علاوہ قانون سے متعلق متعددکانفرنسوں اور سیمیناروں میں شریک ہوئے۔شیخ نے متعدداصلاحی اور تربتی موضوعات پر کتابیں تحریر کیں، جن میں آپ کی ایک کتاب ’تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد حرام کا کردار‘ عربی زبان میں منظر عام پر آئی۔ اسی طرح شیخ صالح نے ایم اے میں ’نومسلموں کے احکام‘ کے عنوان پر مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ شیخ نے اجتہاد ، تقلید اور نفاق جیسے موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کیں ہیں۔
امام حرم ، شیخ العرب و العجم ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد آل طالب حفظہ اللہ صرف مسجد حرم کے امام نہیں بلکہ سارے عالم کے امام ہیں آپ کی امامت و اقتداء میں سارے عالم کے لوگ چاہے وہ گورے ہوں یا کالے ، عربی ہوں یا عجمی، مالکی ہوں یا شافعی ، حنبلی ہوں یا حنفی سبھی نماز ادا کرتے ہیں۔آپ ایسی مسجد کے امام ہیں جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْ مَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا،مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد میں ہزار نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دن رات میں ایک سو بیس رحمتیں کعبہ شریف پر نازل فرماتا ہے جس میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے ، چالیس نماز پڑھنے والوں اور بیس ان لوگوں کے لئے ہوتی ہیں جو صرف کعبہ شریف کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کررہے ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کعبۃ اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔اس عدیم النظیر شہر کا جاہ و جلال اور عظمت در حقیقت اس سادہ و بے نمود مکان کی مرہونِ منت ہے، جس کی صداقت اور حقانیت پر چار ہزار برس کے حوادثات اور انقلابات بھی کوئی دھبہ نہیں لگاسکے۔ چند پتھروں سے چنی ہوئی چاردیواری جو کروڑوں انسانوں کی پرستش گاہ اور قبلہ وجوہ ہے جو نہ صرف زندگی میں قبلہء جاناں ہے بلکہ مرجانے کے بعد بھی منہ اسی کی سمت کیا جاتا ہے اور خداوند تعالیٰ کے جلال اور قدوسیت نے تمام عالم میں صرف اسی کی چھت کو اپنا نشیمن قراردیا ہے۔
امام محترم کا تعلق ایسے شہر سے ہے جس کی شان میں اتنی آیات قرآنی نازل کی گئی ہیں کہ کسی اور شہر کی تعریف میں اتنی آیتیں نہیں نازل کی گئیں۔قابل مبارک باد ہیں علماء دیوبند اور خاص کرجانشین شیخ الاسلام، صدر جمعیۃ العلماء ہند حضرت مولانا سیدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم استاد حدیث دارالعلوم دیوبندجن کی کوششوں سے امام محترم کا سفر ہندطے ہوا۔شیخ ہندوستان میں مختلف شہروں کا دورہ کریں گے ۔امید ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچ کر شیخ کے خطاب سے مستفید و مستفیض ہوں۔(ملت ٹائمز)
E-mail: salmanpbh@gmail.com Mob: 9341378921
26, Haines Road, 1st Floor, Egyptian Block, Bangalore -560051

SHARE