ڈاکٹر یامین انصاری
رجب طیب اردوغان نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے مضبوط لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں، لیکن ابھی انھیں عالمی رہبر مان لینا جلد بازی ہوگی
رجب طیب اردوغان کو ایک بار پھر ترکی کے عوام نے اپنا صدرمنتخب کر لیا ہے۔اردوغان کو صدارتی الیکشن میں۲۵اعشاریہ۵فیصد ووٹ ملے ، جبکہ ان کے حریف امیدوارمحرم انسے کو۰۳ اعشاریہ ۶ فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔اس نتیجے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ترکی میں طیب اردوغان کی مقبولیت برقرار ہے۔حالانکہ اسے اردوغان کی یک طرفہ جیت نہیں کہا جا سکتا۔ کیوںکہ اردوغان کے حریف محرم انسے کی انتخابی ریلیوں میںبھی لاکھوں افراد کی بھیڑ جمع ہوتی تھی،جسے ترکی میں اردوغان کے خلاف ناراضگی کے طور پر دیکھا جارہاتھا،لیکن نتائج نے اس قیاس کو جھٹلا دیا ہے،اگرچہ دوسرے نمبر کی جماعت کو ۰۳ فیصد ووٹ ملے۔دوسری طرف پارلیمانی انتخابات میں بھی اردوغان کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی ۔ویسے ۶۱۰۲ءکی ناکام فوجی بغاوت کے بعد قومی سطح پر فوج،عدلیہ،بیوروکریسی میں موجود باغیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں اور حقوق انسانی کی پامالیوںکے سبب ایک طبقہ اردوغان سے ناراض بھی تھا۔لیکن جمہوریت میں عوام کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوتا ہے۔لہذا امید کی جانی چاہئے کہ طیب اردوغان اپنی اس کامیابی کا جشن ملک کے ہر طبقہ کو ساتھ میں لے کر منائیں گے۔ترکی کے ان انتخابات پر نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر کی نظریں مرکوز تھیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔
اس وقت دنیا بھر کے مسلمان عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہےں ۔کم و بیش ہر جگہ ان میں اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ باہمی اختلافات، جھگڑے فساد، ظلم و تشدد، جنگیں اور قتل و غارت گری ان کا مقدر بن گئے ہےں۔ کہیں اپنے ہی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں تو کہیں دوسری اقوام ان پر ظلم و تشدد کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ ایسے میں اگر کہیں سے کوئی آواز مسلمانوں کے حق کے لئے بلند ہوتی ہے تو وہ ان کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ایک سچے قائد کی تلاش میں ہیں۔ وہ ٹکٹکی لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی ایسا قائد پیدا ہو جو واقعی اپنے سینے میں ملت کا درد رکھتا ہو، مسلمانوں کو ظلم و تشدد سے نجات دلا سکتا ہو، اسلام دشمن طاقتوں سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کر سکتا ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ ذاتی یا سیاسی مفادات سے بالا تر ہوا۔ لہذا جیسے ہی عالم اسلام کو در پیش مسائل پر کوئی آواز بلندہوتی ہے، تومسلمانوں کو اس میں اپنا رہنما نظر آتا ہے۔ اس کی موجودہ مثال ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان ہیں۔۳۶ سالہ اردوغان اے کے پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد ۲۰۰۲ءمیں اقتدار میں آئے۔ وہ ۱۱ سال تک ترکی کے وزیر اعظم رہے اور پھر ۴۱۰۲ءمیں ملک کے پہلے براہ راست صدر منتخب ہوئے۔ رجب طیب اردوغان۰۷۹۱ءاور۰۸۹۱ءکی دہائیوں میں اسلامی حلقوں میں سرگرم نجم الدین اربکان کی ویلفیئر پارٹی کے رکن رہے۔ ۴۹۹۱ءسے۸۹۹۱ءتک فوج کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے تک وہ استنبول کے میئر رہے۔۸۹۹۱ء میں ویلفیئر پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اگست ۱۰۰۲ءمیں عبداللہ گل کے اتحاد میں ’اے کے پی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ ۲۰۰۲ئ۔۳۰۰۲ ءمیں اے کے پی نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور اردوغان کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ اردوغان۴۱۰۲ءمیں براہ راست انتخابات کے ذریعے ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اردوغان نے پچھلے کچھ عرصہ کے دوران عالم اسلام کے مختلف مسائل کو اٹھایااور ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر عام طور پر دیگر مسلم حکمراں خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردیاتو عالمی سطح پرہلچل مچ گئی۔ وہیں دوسری جانب عالم اسلام میں بھی اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔دنیا کے سیاسی منظر نامے میں بھی زبردست تبدیلی ہوئی۔ اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنے کے علاوہ ترکی نے اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔یعنی ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کے خلاف دنیا اکٹھی ہوئی تو دوسری طرف اسلامی دنیا ترکی کی قیادت میں بیت المقدس کی حفاظت کے لیے جمع ہوئی۔اس سے دنیا کے مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ اس وقت اردوغان کی قیادت میں ترکی عالم اسلام میں قائد اور رہبر کا رول ادا کر سکتا ہے۔اس سے پہلے عالم اسلام کے کئی چھوٹے بڑے مسئلے میں ترکی نے سرگرم رول ادا کیا۔ گزشتہ برس جب قطر، مصر، بحرین، امارات اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش شروع ہوئی تو ترکی نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان ممالک کوبڑی تباہی اور جنگ میں جانے سے بچا لیا۔
۸۰۰۲ءمیں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوغان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ اس کے بعد ڈاو ¿س عالمی اقتصادی فورم میں اردوغان نے اسرائیل کے خلاف احتجاج درج کرایااور انہیں وقت نہ دینے پرفورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا۔ ترکی پہنچنے پران کا شاندار استقبال کیاگیا۔اس کے بعد ۱۳مئی ۰۱۰۲ءکو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے ترک جہاز پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں۹ ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار اردوغان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردوغان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔انھوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان بھی کیا۔میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے خلاف بھی اردوغان نے آواز بلند کی۔۵۱ جولائی۶۱۰۲ءکی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا، لیکن بغاوت کی اس سازش کو تر ک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دیا۔اس سے ثابت ہو گیا کہ اردوغان اب ترکی کے بڑے طبقہ کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔ اردوغان کی حالیہ کامیابی پر ایک طرف جہاں ترکی میں جشن منایا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب دنیا بھر کے عام مسلمان انھیں مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کر رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اردوغان نے ترکی کا صدارتی انتخاب جیتا ہے، نہ کہ دنیا فتح کر لی ہے۔ خاص طورپر ہندوستانی مسلمانوں نے انھیں عالم اسلام کا رہبر سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا پر تہنیتی پیغامات کی بارش کر دی۔ یہ سہی ہے کہ مایوسی کے اس دور میں طیب اردوغان مسلمانوں کے لئے امید کی ایک کرن ہیں، لیکن انھیں ابھی عالمی قائد مان لینا جلد بازی ہوگی۔ روس، امریکہ، ایران، سعودی عرب، مصروغیرہ سے ان کے بدلتے رشتے آخر کیا اشارہ کرتے ہیں ؟ابھی ترکی میں بھی ۰۵ فیصد سے کچھ کم لوگ ان کی حمایت نہیں کرتے، اس کا اندازہ انتخابی نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔ رجب طیب اردوغان پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے مخالفین اور ناقدین کو طاقت کے زور پر دبا دیتے ہیں۔۶۱۰۲ءمیں ناکام فوجی بغاوت کے بعد جس طرح کی انسانیت سوز کارروائیاں کی گئیں، اس کے بعد موجودہ حکومت پر حقوق انسانی کی پامالی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے۔ اس کے علاوہ اردوغان کے دور حکومت میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی ہےں اور ان کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے۔ گزشتہ برس ہی پولیس نے ترکی کے سب سے بڑے اخبار ’زمان‘ کے دفتر پر چھاپہ مارا اور عملے کو ڈرایا دھمکایا۔اس کے علاوہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں ترکی کے رول پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں روس کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ترکی نے بعد میں روس اور ایران سے ہاتھ ملالیا۔بہر حال مسلم دنیا کو اس وقت اردوغان میں عالمی قائد نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں ان کے سامنے دو سب سے بڑے چیلنج ہیں، جن سے انھیں بہتر حکمت عملی نیک نیتی سے نمٹنا ہوگا۔ ان میں ایک ہے مسئلہ فلسطین اور اس سے بھی زیادہ پیچیدہ بن چکا ملک شام کا مسئلہ۔ دیکھنا ہوگا کہ اردوغان کس طرح ان مسائل کے حل میں اپنا رول ادا کرتے ہیں اور عالم اسلام کا دل جیتتے ہیں۔
(مضمون نگار وزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں)