شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوقات کی طرح مختلف ضرورتوں کا محتاج بناکر پیدا فرمایا ہے ، اسے پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کے لئے غذا کی ضرورت ہے ، صحت و علاج کے لئے دوائیں درکار ہیں ، وہ جسم چھپانے کے لئے کپڑوں کا محتاج ہے ، اسے چلنے کے لئے جوتے اور چپل کی حاجت ہے اور اگر وہ سفر کرنا چاہے تو سواری کے بغیر اپنی منزل تک پہنچ نہیں سکتا ، غرض کہ قدم قدم پر ضرورتیں اس کا دامن تھامے ہوئی ہیں ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جیسے ہر انسان کے وجود میں ناک ، کان ، آنکھیں اور دل و دماغ کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے اور ان میں سے کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے ، جو اسے خرید کر حاصل کرنی پڑے ، دوسری ضرورتوں کے سلسلے میں قدرت کا یہ نظام نہیں ہے ، کسی کے پاس کھیت ہیں جن میں چاول اور گیہوں اُگتا ہے ؛ لیکن اس کا کھیت دال اور تیل کی پیداوار نہیں دیتا ، کسی کے پاس دال اور تیل کا انتظام ہے ؛ لیکن پہننے کے کپڑے میسر نہیں ہیں ، کسی کے پاس کپڑوں کی بڑی سی دُکان ہے ؛ لیکن وہ سواری کے لئے ٹیکسی والوں کا محتاج ہے ، ہر شخص کچھ ضرورتیں دوسروں کی پوری کرسکتا ہے اور کچھ ضرورتوں کے لئے خو دوسروں کا حاجت مند ہوتا ہے ۔
غرض ، وہ اس بات پر مجبور ہے کہ اپنی کچھ چیزیں دے کر دوسروں سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرے ؛ اسی لئے انسانی سماج کے قدیم ترین دور سے خرید و فروخت اور اشیاء کے تبادلے کا سلسلہ شروع ہوا ، ابتداء میں لوگ جو چیز اپنے پاس مہیا ہوتی تھی ، وہ دیتے تھے ، اور اس کے بدلے میں اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتے تھے ، اگر کسی کے پاس گیہوں ہے اور اسے چاول کی ضرورت ہے تو وہ گیہوں لے کر جاتا اورچاول والے کو گیہوں دے کر چاول حاصل کرتا ؛ لیکن اس میں ایک بڑی دشواری یہ تھی کہ ضروری نہیں ہے کہ جس کے پاس چاول ہو ، اس کو گیہوں کی ضرورت ہو ، اگر اس کو گیہوں کی ضرورت نہیں ہو تو یہ شخص چاول کیوں کر حاصل کرسکے گا ؟ اس بناپر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ کسی چیز کو ذریعۂ تبادلہ اور زر کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے کہ اس کی بنیاد پر انسان اپنی تمام ضروریات بازار سے حاصل کرسکے ؛ چنانچہ اس کے لئے ابتداء ًایسی چیزوں کو ذریعہ بنایا گیا ، جو زیادہ استعمال میں آتی تھیں ، جیسے : گیہوں ، نمک ، لوہا ؛ بلکہ بعض جانوروں کا بھی اس حیثیت سے استعمال کیا گیا ۔
لیکن اس طریقۂ تبادلہ میں کچھ کم دشواری نہیں تھی ؛ کیوں کہ اگر ایک کپڑا انسان کو پچاس کلو گیہوں کے بدلے میں ملتا ہے اور گھر کے دس افراد کے لئے کپڑے لینے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کنٹل گیہوں لے کر وہ کپڑوں کی دُکان پر پھرتا رہے اور اپنی پسند کے کپڑے خرید کرے ، سوچئے ! اس میں کس قدر دشواری ہے ؟ اس لئے لوگوں نے سوچا کہ کسی ایسی چیز کو ذریعہ تبادلہ بنایا جائے ، جو ہلکی پھلکی بھی ہو اور انسان کو اس کے حاصل کرنے میں رغبت بھی ہو ؛ چنانچہ اس کے لئے مختلف مرحلوں میں الگ الگ چیزیں مقرر کی جاتی رہیں ؛ لیکن آخر نظر انتخاب سونے اور چاندی پر جم گئی ؛ کیوں کہ شروع سے یہ دھاتیں انسان کو مرغوب رہی ہیں ، یہ سڑتی اور گلتی بھی نہیں ہیں ، وزن کم ہونے کی وجہ سے ان کا حمل ونقل بھی آسان ہے اور حجم کم ہونے کی وجہ سے ان کی حفاظت بھی دشوار نہیں ہے ؛ اس لئے پوری دنیا کے انسانی سماج نے ان کو زر اور ثمن کی حیثیت سے قبول کرلیا ، سینکڑوں ہی نہیں ، ہزاروں سال سونے چاندی کا اس طریقہ پر استعمال ہوتا رہا اور اسے چیزوں کی قدر متعین کرنے کا پیمانہ تسلیم کرلیا گیا ۔
چوں کہ چوروں اور رہزنوں کا نشانہ بھی یہی سونا اور چاندی بنتا تھا ، ہر آدمی کے پاس ایسے وسائل مہیا نہیں تھے کہ وہ ان قیمتی دھاتوں اوران کے سکوں کو محفوظ کرسکے تو ایک نئی صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ سوناروں اور صرافوں کے پاس چوں کہ حفاظت کا پورا انتظام ہوتا تھا ؛ اس لئے لوگ ان کے پاس سونا اور چاندی بطور امانت رکھوادیتے تھے اور یہ اس کی رسید دے دیا کرتے تھے ، اسی رسید کی بناء پر بازار میں اشیاء کی خرید وفروخت ہوتی تھی ، آخر اس کا اتنا عموم ہوا کہ اس نے باضابطہ کاغذی نوٹ کی حیثیت حاصل کرلی اور سترہویں صدی کے آغاز میں سب سے پہلے سویڈن کے اسٹاک ہوم بینک نے ایک کاغذی نوٹ جاری کیا ؛ اس وقت ان نوٹوں کا سونے سے پورا پورا تعلق قائم تھا ، بینک کو اپنے پاس موجود سونے کے برابر ہی کاغذی نوٹ جاری کرنے کا حق حاصل تھا اور کوئی بھی شخص کاغذی نوٹ کے بدلہ بینک سے اس کے برابر سونا حاصل کرسکتا تھا ، پھر یہ قانون نرم ہوتا گیا اور کہا گیا کہ جتنے نوٹ جاری کئے گئے ہیں ، اس کا دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی یا چوتھائی سونا ہونا کافی ہے ، یہاں تک کہ ایک ایسا مرحلہ آیا کہ امریکہ نے اعلان کردیا کہ اب وہ کرنسی کے بدلہ سونا ادا نہیں کرے گا ، اب اگرچہ نوٹ کے پیچھے سونے کی قوت باقی نہیں رہی ؛ لیکن اس کو حکومت کی پشت پناہی اور قانون کی طاقت حاصل ہے اور اسی سے دنیا کی ساری چیزوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ۔
اس میں شبہ نہیں کہ کاغذی نوٹ کے اس نظام کے پیچھے معاشی ظلم کار فرما ہے اور اس نے سودی نظام کو بڑی تقویت پہنچائی ہے ؛ لیکن جب اس کو قبولیت عامہ حاصل ہوگئی تو علماء نے طے کیا کہ سونا اور چاندی تو خلقی ثمن ہیں ؛ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے لئے پیدا فرمایا ہے ، اور یہ کاغذی نوٹ ثمن اصطلاحی ہیں ، جن کو لوگوں کے اتفاق اور عرف کی وجہ سے ثمن مان لیا گیا ہے ؛ روز بروز اشیائے ضرورت میں پیدا ہونے والی گرانی اور روپیوں کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے اب صورت حال یہ ہوگئی کہ معمولی سامان حاصل کرنے کے لئے ڈھیر ساری رقموں کی ضرورت پڑنے لگی اور اتنی ساری رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانا دشوار بھی ہوگیا اور حفاظت کے نقطۂ نظر سے بھی یہ ایک پر خطر بات ہوگئی ؛ اس لئے روپیوں کی جگہ ایسے الیکٹرانک کارڈ جاری کئے گئے ، جو کاغذی کرنسی کی نمائندگی کرتے ہیں ، جن کو کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کہا جاتا ہے ، حمل و نقل کی سہولت ، واجبات کی ادائیگی میں آسانی اور حفاظتی پہلو کی وجہ سے اب یہ کارڈ اس درجہ مقبول ہوگئے ہیں اور ان کا استعمال بڑھتا جارہا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو پچاس فیصد سے بھی زیادہ اسی کا استعمال ہے ، اور ترقی پذیر ممالک میں بھی تیزی سے اس کا استعمال بڑھ رہا ہے ۔
ان مرحلوں سے گذرتے ہوئے اب کرنسی نے ڈیجیٹل دنیا کا رُخ کیا ہے ، جو ’ کرپٹو کرنسی ‘ کہلاتی ہے ؛ چوںکہ یہ رمزی حروف یا خط کی شکل میں حساب پیش کرتا ہے اور اس کا لیجر جس کو اصطلاح میں بلاک چین (Block Chain) کہتے ہیں ، بھی رمزی زبان ہی میں لکھا جاتا ہے ، اس لئے اس کو کرپٹوکرنسی (Crypto Currency) کہتے ہیں ، اس کرنسی کا تصور نومبر ۲۰۰۸ء میں ’ ستوشی ناکاموتو ‘نامی جاپانی شخص نے پیش کیا ، اس کا پس منظر وہ مالیاتی بحران تھا ، جس نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا ، اس بحران میں ایک کردار کرنسیوں کا بھی تھا کہ حکومتیں اپنی کرنسیوں کو سنبھال نہیں سکیں اور اچانک کرنسیوں کی قدر اتنی گر گئی کہ بظاہر نہ کسی چورنے چوری کی نہ کسی ڈاکو نے ڈاکہ ڈالا ؛ لیکن لوگوں کا لاکھوں کا سرمایہ ڈوب گیا اور کئی بینک دیوالیہ ہوگئے ، اس صورت ِحال نے کرپٹو کرنسی کے موجد کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ ایک ایسی کرنسی ہونی چاہئے ، جو حکومتوں اور بینکوں کی گرفت سے آزاد ہو اور وہ براہِ راست عوام کے کنٹرول میں ہو ۔
کہاں جاتا ہے کہ کم از کم ساٹھ کرپٹو کرنسیاں انٹر نیٹ پر موجود ہیں ، ان ہی میں سے ایک ’ بٹ کوئن ‘ ہے ، جس کو بہ مقابلہ دوسری کرنسیوں کے زیادہ قبولیت حاصل ہے ، ان کرنسیوں کی ایک وجہ کشش یہ بھی ہے کہ یہ حکومتوں کی آنکھ سے پوشیدہ ہیں ؛ اس لئے ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا ، بٹ کوئن کے ذریعہ پہلا سودا ۲۳؍ مئی ۲۰۱۰ء کو ہوا ، جس میں دس ہزار بٹ کوئن دے کر دو پیزے حاصل کئے گئے ؛ لیکن اس کی قیمت میں تیز رفتار اضافہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ایک بٹ کوئن کے ذریعہ سینکڑوں پیزے خرید کئے جاسکتے ہیں ، عجیب بات ہے کہ جس شخص نے کرپٹو کرنسی کا تصور پیش کیا اوراس کی زبردست تشہیر کی ، ۲۰۱۱ء میں وہ اچانک اُفق سے غائب ہوگیا اور آج تک یہ ایک معمہ ہے کہ یہ کون شخص تھا اور اچانک کہاں چلا گیا ؟
بٹ کوئن کے سلسلے میں یہ باتیں قابل لحاظ ہیں :
(۱) نہ اس پر حکومت کا کنٹرول ہے نہ کسی بینک کا ۔
(۲) محسوس کرنسی کی طرح نہ اس کے سکے ڈھالے جاتے ہیں ، نہ اس کے نوٹ چھپتے ہیں ، نہ خریدنے اور بیچنے والے کے ہاتھ میں کوئی چیز آتی ہے ، صرف اس کا ایک ذہنی وجود ہے جو نیٹ کی دنیا میں پایا جاتا ہے اور پیچیدہ حسابات کے ذریعہ اسے وجود میں لایا جاتا ہے ۔
(۳) کاغذی نوٹ کی قدر کے بڑھنے اور گھٹنے کا تعلق کسی نہ کسی درجہ میں اس ملک کے اثاثے اور برآمدات وغیرہ سے ہوتا ہے ؛ لیکن بٹ کوئن کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ کا اثاثہ اور دولت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، صرف طلب میں اضافہ اور کمی سے ہوتا ہے ، ڈیمانڈ بڑھ گئی تو قیمت بڑھ جاتی ہے اور کم ہوگئی تو قیمت گھٹ جاتی ہے ۔
(۴) عام طورپر کرنسیوں کی قیمت میں استحکام ہوتا ہے ؛ لیکن بٹ کوئن کی قیمت میں غیر معمولی اور تیز رفتار اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے ، جیسے ۲۰۱۰ء میں ایک بٹ کوئن کی قیمت ایک ڈالر کے چند سینٹ تھی ، پھر ۲۰۱۱ء کے وسط میں تیس ڈالر ہوگئی ، پھر اس سال کے ختم تک دو سو ڈالر اور۲۰۱۳ء میں ۲۶۰ڈالر ہوگئی ؛ لیکن اچانک پھر اس کی قیمت گر کر سو ڈالر پر آگئی ہے ؛ چنانچہ جن حضرات نے ۲۶۰ ڈالر میں کوئن خریدا تھا ، انھیں غیر معمولی نقصان ہوا ، ۲۰۱۶ء میں ایک بٹ کوئن کی قیمت چھ سات سو ڈالر تھی اور دسمبر ۲۰۱۷ء میں ستر ہزار سے اوپر ہوگئی ، قیمت کے اس نشیب وفراز کا سبب سوائے طلب کے بڑھنے اور گھٹنے کے کچھ اور نہیں ہے ،اور اس طلب کے بڑھنے کے لئے کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ جوئے بازوں کی طرح محنت کے بغیر کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے کی ہوس نے کبھی طلب بڑھائی ہے اور کبھی گھٹائی ہے ۔
(۵) اس کرنسی میں چوری اور گم ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہیں ، اگر کمپیوٹر ہیک کرکے کسی نے بٹ کوئن اکاؤنٹ کا پاس ورڈ حاصل کرلیا تو چند لمحوں میں لاکھوں روپیوں کی بٹ کوئن چوری ہوسکتی ہے اور ایسے واقعات پیش آ بھی چکے ہیں ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کا پاس ورڈ گم ہوجائے ، اگر ایسا ہو تو پھر اس کے لئے اس کے پورے سرمایہ کے ڈوب جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔
(۶) اس بات کا بھی بہت اندیشہ ہے کہ اس کو غیر سماجی حرکتوں ، دہشت گردانہ کاموں اور مخدرات کے لئے استعمال کیا جائے ۔
اس پس منظر میں جب ہم بٹ کوئن کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ایک مضمون نگار کے بقول یہ ایک ’ جناتی کرنسی ‘ ہے ، نہ اس کرنسی کا کوئی حسی وجود ہے ، نہ اس کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام ہے ، نہ اس کے پیچھے حکومتوں کی طاقت ہے ، اگر کسی کا یہ سرمایہ چور کرلیا جائے یا ضائع ہوجائے تو کسی عدالت سے رُجوع بھی نہیں کیا جاسکتا ، کرنسی ایسی چیز ہونی چاہئے جس تک ہر شخص کی رسائی ہوسکتی ہو ؛ لیکن بٹ کوئن ایسی چیز نہیں ہے ، اس کی ریز گاری اور چھوٹے سکے آسانی سے دستیاب ہونے چاہئیں ؛ لیکن بٹ کوئن کے چھوٹے سکے حاصل کرنے کا طریقہ نہایت ہی پیچیدہ اور دشوار تر ہے ، جس چیز سے براہِ راست انسان کی ضرورت پوری ہوسکتی ہو ، جیسے چاول ، دال ، گوشت ، انڈا ، پھل ، ترکاری ، ان کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ فطری نظام کے تحت ہوتا ہے ، یعنی جب پیداوار بڑھ جاتی ہے تو طلب کے مقابلے رسد زیادہ ہوجاتی ہے اور قیمت کم ہوجاتی ہے ، اوراگر پیداوار کم ہوئی تو رسد کے مقابلہ طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے تو قیمت بڑھ جاتی ہے ، یہ ایک فطری نظام ہے ؛ لیکن بٹ کوئن کی طلب میں اضافہ کے لئے کوئی واضح اور مناسب سبب موجود نہیں ہے ؛ بلکہ یہ بڑی حد تک جوئے کے مشابہ ہے ، جس میں کسی معقول سبب کے بغیر مصنوعی طورپر طلب پیدا کی جاتی ہے اور جیتنے والا اس کا فائدہ اُٹھاتا ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ شرعاً اس کو کرنسی قرار نہیں دیا جاسکتا ، اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے ، ہاں اگر کاغذی کرنسی کی طرح عالمی اور ملکی سطح پر اس کو کنٹرول کرنے والے ادارے قائم ہوجائیں ، حکومتیں اس کو قبول کرلیں ، اس کرنسی کی پیدائش اثاثوں سے مربوط ہو ، صرف پیچیدہ حسابات پر مبنی نہ رہے ، عام لوگوں کی اس تک رسائی ہوسکتا ہے ، تو اس وقت اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ بھی کاغذی کرنسی کی طرح عرفی کرنسی کے درجہ میں آگئی ہے ؟ اس لئے بہر حال مسلمانوں کو ابھی اس کی طرف لپکنے سے بچنا چاہئے ، کہ شرعاً بھی یہ جائز نہیں ہے اور اس میں زبردست معاشی نقصان کا بھی بھرپور خطرہ موجود ہے !