صرف چالیس لاکھ نہیں ، عام ہندوستانی مسلمان کی شناخت بھی خطرے میں —
مشرّف عالم ذوقی
جو بنگلہ دیشی اور رو ہنگیائی ہیں ، انھیں قتل کر دو .. یہ بیان ایک بی جے پی لیڈر کا ہے۔ میڈیا کی نفرت بھی اس بیان کی حمایت کر رہی ہے مسلم مکت بھارت کی یہ چار برس کی سب سے مضبوط کڑی ہے ، جہاں حکومت کے حساب سے ، اٹھارہ کروڑ مسلم آبادی سے چالیس کروڑ ایک جھٹکے میں کم ہو جایئنگے، پھر باقی مسلم آبادی کے لئے نئی تجاویز اور سازش کے نیے مہرے آ جائیں گے۔ بنگلہ دیش کی حکومت چالیس لاکھ کی آبادی کو بنگلہ دیشی تصور نہیں کرتی ، ممتا بنرجی کی حمایت کے باوجود مغربی بنگال میں ان بے شناخت مظلومین کو جگہ ملے گی ، یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے ، ایسے بیان حکومت کی شہ پر دیے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے حکومت کی مرضی کو دخل ہوتا ہے ، جو بیان دیتے ہیں ، راتوں رات آر ایس ایس اور مودی کی نظر میں ان کا سیاسی قد بڑھ جاتا ہے ، پھر انعام و اکرام کی بارش اور بڑا عہدہ ملتے ہی ان لوگوں کے سیاسی نفرت بھرے بیانات میں تیزی آ جاتی ہے، میڈیا میں بھی یہی حال ہے ، مسلمانوں سے جتنی نفرت دکھاؤ، اتنا پیسہ پاؤ ۔ ٢٠١٩ کے گیم کے لئے مودی کے پاس آخری ہتھیار یہی ہے کہ ہندو راشٹر کا بگل بجا دو ، یہ تماشا اب ہلاکت ، بربادی ، ظلم میں تبدیل ہو چکا ہے، ٹارگٹ مسلمان ہیں ؛ ہر جگہ دیکھ کر اور سمجھ کر نشانہ سادھا جا رہا ہے ..
ایک قانون پچھلے برس بنا جس کے مطابق مسلمانوں سے وہ زمینیں چھین لی جائیں گی ،جن کے وارث پاکستان چلے گئے .. اس قانون میں مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن ایسی زیادہ تر زمینوں کے مالک مسلمان ہی ہیں۔ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کے سر سے چھت چھین لینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور اس کے آگے ملک کے باقی مسلمان ہیں جن کی زمین مختلف طریقوں سے تنگ کئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اب ذرا اسی روشنی میں گاؤ رکشکوں کے مظالم اور ہجومی تشدد کو دیکھنے کی کوشش کیجئے … گاؤ رکشکوں کے بہانے اصل حملہ مسلمانوں سے ان کا پیشہ چھین لینے کا ہے ، ہندوستان میں گیارہ فیصد مسلم کسانوں کی آبادی ہے، یہ آبادی کاشتکاری پر منحصر ہے ، ان میں سے بیشتر کے پاس گاہے اور بھینس ہیں ، آبادی کا ایک بڑا حصّہ دودھ ، کھوا ، پنیر ، گھی وغیرہ کی سپلایی بھی کرتا ہے۔ ایشیا کے سب سے بڑے سلاٹر ہاؤس کا نام الکبیر ہے ، یہاں روز ایک ہزار گایوں کا قتل ہوتا ہے، اس کا مالک ہندو ہے، گیارہ ڈائرکٹر ہیں جو برہمن ہیں ، آج بھی ہزاروں سلاٹر ہاؤس ہندوؤں کے ہیں، سوم سنگیت کا بھی اپنا سلاٹر ہاؤس ہے ، پابندی صرف مسلمانوں پر ہے، اب ان سے یہ روزگار چھینا جا رہا ہے، بے نامی جائداد اور شہریت کا معاملہ اٹھا کر مسلمانوں کو برباد کرنے اور ان کی شہریت چھیننے کی مہم آہستہ آہستہ تیز ہوتی جائے گی ۔ ٢٠١٩ میں اگر یہ سرکار رہی تو ان کے مظالم کی داستان حد سے تجاوز کر چکی ہوگی۔
میڈیا آسام کا معاملہ اٹھا کر سیدھے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے … سال 1971 سے پہلے ریاست میں پہنچے ہزاروں مسلم خاندانوں کے پاس اپنی شناخت کے کوئی کاغذات نہیں ہیں، اس صورت حال میں ان کے سر پر ” بنگلہ دیش کو بھیجے “ کی تلوار لٹک رہی ہے، بنگلہ دیش بھی قبول نہیں کرتا تو یہ کہاں جائینگے ؟ جیل میں ؟ یا ہلاک کر دیئے جائیں گے ؟، آسام میں خوں آشام جنگ کی شروعات ہو گئی ہے … یہ آگ بڑھتی جائے گی اور اس کا فائدہ ٢٠١٩ کے الیکشن میں بی جے پی کو ہوگا۔
آسام کا مسئلہ 1951 کے بعد سرحد پار سے یہاں آنے والوں کو ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے سال 1951 کی مردم شماری میں شامل تمام لوگوں اور ان کے اولاد کو – این آر سي – میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن 1951 اور 1971 کے درمیان آنے والے لوگ کوئی کاغذات نہیں رکھتے، اس لئے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہندوستان میں ایسے کتنے مسلمانوں کے پاس شہریت کے کاغذات ہونگے ؟، مشکل یہ کہ سابق صدر جمہوریہ کا خاندان بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے نام اس فہرست میں شامل نہیں، ریاست کے ووٹر کی فہرست میں، ہزاروں افراد کو مشتبہ شہریوں کی فہرست میں نامزد کیا گیا ہے، ٢٠١٤ کے انتخابات میں بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد ایسے تمام لوگوں کو ملک سے نکالنے اور بنگلہ دیش کے ساتھ لگی سرحد کو سیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، مسلم اور اقلیتی تنظیموں نے حکومت کے فیصلے کے خلاف تحریک شروع کی ہے لیکن کویی نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے … این سی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ہی سر پر منڈلاتا خطرہ مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے … ایک مسئلہ اور بھی ہے، غریب ،بھوکے اسامی مسلم مزدور اپنی قانونی جنگ لڑنے کے لائق بھی نہیں … بے شمار ایسے ہیں جن کے نام پہلے فہرست میں شامل تھے لیکن اب شامل نہیں ہیں … ایسے چالیس لاکھ شہریوں کو حکومت سٹیٹس لیس کرنے اور ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کا دستاویز تیار کر چکی ہے … سپریم کورٹ کی طرف سے جو بیان آیا ہے وہ تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا، دسمبر تک فیصلہ آئے گا ، لیکن میڈیا ابھی سے آسامی مسلمان اور عام مسلمانوں کو بھی غیر ملکی فہرست میں ڈال چکی ہے، یہ مودی اور امت شاہ کا اب تک کا ، سب سے خطرناک گیم ہے، آسام کے بہانے بابر کی اولادوں کو غیر ملکی ٹھہرانے کی سازش شروع ہو چکی ہے۔
راجیہ سبھا میں امت شاہ نے کانگریس پر الزام لگایا کہ جو کانگریس نہ کر سکی ، وہ بی جے پی نے کر دکھایا … نفرت اور ہلاکت کی سیاست کے لئے مرکزی حکمراں جواز اور دلیلیں پیدا کر لیتے ہیں، کانگریس اور اپوزیشن کے ہنگامے اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ مودی اور امت شاہ کے نفرت بھرے الفاظ ہر بار ان پر حاوی ہو جاتے ہیں، سیاسی پارٹیاں ہجومی تشدد تک کے معاملے پر خاموش ہیں، حکومت کی دہری پالیسی کا عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھگاؤ اور ہندوؤں کو بساؤ، بی جے پی حکومت نے جہاں بنگلہ دیش ، عراق اور افغانستان سمیت کئی دیگر ممالک سے آنے والے ہندوؤں کو آسام میں پناہ اور شہریت دینے کی بات کہی ہے، وہیں آسام کے بہانے اس کی نیت عام مسلمانوں سے بھی ان کی شہریت چھین لینے کی ہے، آسام کے گورنر کا حالیہ بیان اسکی تصدیق کرتا ہے۔
پچھلے برس یوم جمہوریہ کے موقع پر جب دلی میں جشن منایا جا رہا تھا ، یہی وقت تھا ، جب وقت کا پہیہ بل ڈوزر لگا کر لاکھوں آسامی مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے موت کا اندھیرا لکھ رہا تھا .. کون لکھے گا ان کی کہانی ؟ سب خاموش رہے تو ان بے گناہ معصوم آسامیوں کی مدد کو کون آئےگا ؟ آسام انتخابات میں بی جے پی نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی تحریک چلایی – کیا لاکھوں کی یہ فوج جو مدّتوں سے اپنے آشیانوں میں غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی ،کیا یہ سب بنگلہ دیشی ہیں ؟ کانگریس نے بدر الدین اجمل کا ساتھ نہیں دیا ، اگر دیتے تو شاید بی جے پی کی فتح کے رتھ کو وہاں روکا جا سکتا تھا ،کانگریس اپنے نشے میں تھی ، بدر الدین اجمل خوش فہمیوں کا شکار رہے اور بازی ہاتھ سے نکل گئی، قصور اجمل کا بھی تھا ، اجمل سے زیادہ قصور وار کانگریس ، جو صرف مسلمانوں کو استعمال کرتی آئی ہے ، اب کانگریس کو اپنا کردار بدلنا ہوگا۔
مشتبہ ووٹرز کے نام پر چالیس لاکھ لوگوں کو بے گھر کرنے کی مہم چلایی جا رہی ہے، عدلیہ بے بس اور لاچار نظر آ رہی ہے، مظاہرہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے ، سیکڑوں برسوں سے آباد لوگوں کو بے در بے گھر کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ لوگ تب سے آباد تھے جب ایسا کوئی قانون بھی نہیں تھا۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں شہریت حاصل کرنا کویی زیادہ مشکل کام نہیں ہے ، روس طاقتور ملک ہے، لیکن اس طاقتور ملک میں شہریت حاصل کرنا بہت آسان ہے، امریکہ میں ٹرمپ سے پہلے تک گرین کارڈ حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا .. کئی ممالک ایسے ہیں جو تجارت کی بنیاد پر آپ کو شہریت دیتے ہیں ، یا اگر آپ ملک میں سرمایہ لگاتے ہیں تو شہریت حاصل کر سکتے ہیں، ہندوستانی بھگوڑا میھل چوکسی نے گوا کی شہریت پیسوں کے زور پر خریدی ، آسام کا مسئلہ کانگریس کو حل کرنا چاہیے تھا، لیکن کانگریس کی ناکامی یہ ہے کہ مسلمانوں سے وابستہ معاملات کو وہ اس لئے حل نہیں کرتی کہ ہندوؤں کے ووٹ کے کھونے کا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے … آسام کے یہ مظلوم جہاں سے بھی آئے ہوں لیکن اب ان کا مسکن آسام ہے، یہاں ان کی نسلیں جوان ہوئی ہیں، انہوں نے اپنی زندگی اور مزدوری کا بیشتر حصّہ آسام کو دیا ہے … ہندوستانی عدلیہ کو اس لحاظ سے بھی غور کرنا چاہیے اور شہریت کے حقوق کو آسان بنانا چاہیے۔
کیا آسامی مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی کہانی دہرائی جائے گی ؟ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان تھے، ان مسلمانوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں،حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا، یہ لوگ ميانمار میں نسلوں سے رہ رہے تھے، یہاں ہونے والے تشدد میں بڑی تعداد میں ان لوگوں کی جانیں گیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے … کیا اب ہندوستان میں یہی تماشا شروع ہو گا ؟ ممتا بنرجی نے یہ مسئلہ اٹھا کر سول وار کا نام دیا تو ان پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا … لیکن آہستہ آہستہ یہ ملک اب اسی طرف بڑھ رہا ہے، امت شاہ اور مودی نے مسلم مخالفت کے تعلق سے سارے دروازے کھول دیئے ہیں اور ہندتو کے فروغ کے لئے میڈیا کو لگا دیا ہے۔
زعفرانی آقاؤں نے شرم بیچ دی ہے … تہذیب سے کنارہ کر لیا، علم کی روشنی کو پتھروں اور غاروں کے عہد میں لے گئے ، اس بے بس ، لاچار ، بے حس ہندوستان پر ترس آتا ہے، یہاں کے آقا سر عام اصول و قوانین اور آیین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، سر عام مسلمانوں کے خلاف زہر اور نفرت کی بارش کرتے ہیں، یہاں ہر انتخاب سے قبل مسلمانوں کو دہشت گرد ہونے کا فتویٰ دیا جاتا ہے، سیاسی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے شاطر دوستو وسکی کے ایڈیٹ معلوم ہوتے ہیں … بتیس ارب پتی بینک کا خزانہ خالی کر گئے، نوکری نہیں، کسان مر رہے ہیں، سڑکوں چوراہوں پر معصوم اقلیتوں کا قتل جاری ہے … این ڈی کے خزانے میں گیارہ سو کروڑ کی رقم الیکشن ، عیاشی . نفرتیں پھیلانے، اور جوڑ توڑ کی سیاست پر خرچ کرنے کے لئے اور فنڈ کہاں سے آیا ، کوئی نہیں جانتا، ہم ایک اجنبی پندرھویں صدی کے جزیرے میں آ گئے ہیں .. … … یہاں موت کا جشن ہے اور نا خواندہ بے شرم لوگوں کے پاس اقتدار کی طاقت … ایسا ملک زندہ نہیں رہتا مر جاتا ہے … آسام کے کھیل کے بہانے ہندو راشٹر کے مسودے پر عمل کی تیاری شرو ع ہے … صرف چالیس لاکھ نہیں ، عام ہندوستانی مسلمان کی شناخت بھی خطرے میں ہے …