شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
افسوس کہ آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک سو اٹھاون سالہ قانون تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۷۷ کو ایک آدھ جز کے علاوہ منسوخ کردیا ، یہ دفعہ اس طرح ہے :
جو کوئی کسی آدمی ، عورت یا جانور کے ساتھ بالارادہ مباشرت خلاف وضع فطری کرے، اسے سزائے عمر قید ، یا دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دس سال تک کی سزائے قید دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا ۔
یہ وہ قانون ہے جسے ۱۸۶۱ء میں لارڈ میکالے نے ڈرافٹ کرایا تھا اور یہ نافذ العمل ہوا تھا ، ۲۰۰۱ء میں ناز فاؤنڈیشن نے ہائی کورٹ میں اپنی عرضی داخل کی اور اسے آئین کے خلاف قرار دیا ؛ کیوں کہ یہ دو بالغ اشخاص کی باہمی رضامندی سے ہونے والا عمل ہے ؛ لہٰذا اس پر پابندی لگانا شخصی آزادی کے خلاف ہے ، ناز فاؤنڈیشن کی یہ عرضی ۲۰۰۴ء میں مسترد کردی گئی ، پھر مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے جولائی ۲۰۰۹ء میں دہلی ہائی کورٹ نے عرضی گذار کی حمایت میں فیصلہ دیا اور کہا کہ یہ مساوات کے اُصول کے خلاف ہے ، پھر معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا ، سپریم کورٹ میں جن تنظیموں نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا ، اس میں مسلم پرسنل لا بورڈ بھی شامل تھا ، بہر حال ۱۱؍ ستمبر ۲۰۱۳ء کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ، جس میں ہم جنسی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ، پھر دوبارہ ایک دوسرے درخواست گذار کے ذریعہ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا؛ یہاں تک کہ اسی ماہ ستمبر ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ کا وہ افسوس ناک فیصلہ آیا جس میں اس دفعہ کو خلاف آئین قرار دے دیا گیا ،اب صرف نابالغ بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق کو جرم سمجھا جائے گا اور بالغ مردوں کے درمیان، عورتوں کے درمیان اور مرد و عورت کے درمیان غیر فطری تعلق جرم شمار نہیں کیا جائے گا۔
اس فیصلہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایک عرصہ سے مغربی ملکوں کی طرف سے اس غیر فطری عمل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جارہی تھی ؛اس لئے ہندوستان میں نام نہاد شخصی آزادی کے پرستاروں کا عرصہ سے مطالبہ تھا کہ اس عمل کو جرم کی فہرست سے نکال دیا جائے ؛ چنانچہ کئی سال پہلے لا کمیشن اس دفعہ کو حذف کرنے کی سفارش کرچکا ہے ، ۲۰۱۱ء میں اقوام متحدہ نے ہم جنسی کے جواز پر تجویز پاس کی ، اس اجلاس میں ۴۳؍ ممالک نے شرکت کی ، ۲۳؍ ووٹ اس کے حق میں پڑے اور ۱۹؍ ممالک نے اس کی مخالفت کی ، اس کی موافقت میں سرفہرست امریکہ اور یورپی یونین تھا اور مخالفت میں روس اور مسلم ممالک تھے ، چین نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا ، اس وقت اقوام متحدہ میں شامل ممالک کی تعداد ۲۰۰؍ کے قریب ہوچکی ہے ، اتنے اہم مسئلہ میں صرف ۲۳؍ ووٹ پر اس غیر فطری عمل کو جائز قرار دینا کیا جمہوری تقاضوں کے مطابق ہے؟ یہ بات قابل غور ہے ، بہر حال سپریم کورٹ ہمارے لئے قابل احترام ہے ؛ لیکن مقام فکر ہے کہ کیا اخلاقی اقدار کو قانون سے بالکل نکال باہر کرنا اور آزادی کے نام پر ایسی چیزوں کو درست قرار دینا جو انسان کے لئے تباہ کن اور ہلاکت کا دروازہ ہے ، کیا عدالت کو زیبا ہے ؟
خدا نے انسان کی صنفی ضرورت کو پورا کرنے ہی کے لئے مردوں اور عورتوں کو پیدا فرمایا ہے اور یہ نظام ابتداء انسانیت سے ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ں کو پیدا کیا اور بہشت کو ان کا مسکن بنایا ، جہاں راحت و سکون کے تمام اسباب موجود تھے ؛ لیکن پھر بھی اسے کافی نہیں سمجھا گیا اورحضرت حواء علیہا السلام کی شکل میں ایک عورت کو حضرت آدم ں کا جوڑا بنایا گیا : { وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا } (النساء : ۱ ) ؛ کیوں کہ زندگی گزارنے کے لئے مرد اور عورت کی رفاقت سے صرف انسان کی صنفی خواہشات ہی پوری نہیں ہوتی ہیں ؛ بلکہ اس سے نسل انسانی کی افزائش بھی ہوتی ہے ، خاندان وجود میں آتے ہیں اور انسان کے اندر صنف مخالف کی طرف رغبت کی جو فطری کیفیت رکھی گئی ہے ، اس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے لئے سکون کا ذریعہ بنتے ہیں ، نیز انسان کو خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے تقسیم کار کی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک فریق گھر کے باہر کے کام کرے اور ایک فریق گھر کے اندر کی دنیا کو دیکھے ، ایک فریق سے بچوں میں کسی قدر خوف ہو اور دوسرا فریق اس کے لئے پیار و محبت کا پیکر ہو ، مردوں اور عورتوں کی چوںکہ صلاحیتیں الگ الگ ہیں ؛ اس لئے ان دونوں کا اشتراک اس تقسیم کار میں معاون ہوتا ہے ، اگر دونوں فریق ایک ہی طرح کی صلاحیتوں کے حامل ہوں تو معاشرتی زندگی کے امور کی ان کے درمیان مناسب طور پر تقسیم نہیں ہوپائے گی ۔
غرض کہ ازدواجی زندگی کا مرد اور عورت کے ذریعہ وجود میں آنا خدا کی بنائی ہوئی فطرت ہے ، اس کی خلاف ورزی در حقیقت قانون فطرت سے بغاوت ہے اور خدا کی بنائی ہوئی فطرت سے بغاوت ایسا جرم ہے کہ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں انسان کو اس کی سزادی جاتی ہے ، خواہ افراد کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انفرادی طور پر دی جائے یا پوری قوم یا اس کا غالب حصہ اجتماعی حیثیت میں بد اعمالی کا مرتکب ہو اور اس پر اللہ تعالی کا عذاب آئے ، چنانچہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سب سے پہلے اس برائی میں جو قوم مبتلا ہوئی ، وہ حضرت لوطؑ کی قوم تھی ، جو اردن میں بحر مردار کے جنوب میں واقع سدوم نامی شہر میں قیام پذیر تھی ؛ چنانچہ اسی لئے اس برائی کا نام عربی زبان میں لواطت اور لا طینی زبان میں سدومی (sodomy ) پڑ گیا ، قرآن مجید میں اس قوم کی بد خصلتی ، حضرت لوط ں کی طرف سے اصلاح کی کوشش اور پھر اس قوم پر اللہ کے غیر معمولی عذاب کا تفصیل سے نقشہ کھینچا گیا ہے :
’’ اور اسی طرح ہم نے لوطؑ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم لوگ ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے ساری دنیا جہاں میں کسی نے ایسا نہیں کیا ؟ (وہ یہ کہ ) تم عورتوں کو چھوڑ کر خواہش نفسانی پوری کرنے کے لئے مردوں پر مائل ہوتے ہو ، حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے گذر جانے والے ہو اور لوط کی قوم سے اس کے سوا کچھ جواب نہ بن پڑا کہ وہ (آپس میں ) کہنے لگے : ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو ؛ کہ یہ بڑے پاک بنتے ہیں ، تو ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو تو بچالیا ، مگر اس کی بیوی (نہ بچی ) کہ وہ انہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا تو دیکھو ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا ؟‘‘ (الأعراف : ۸۰ – ۸۴)
قرآن مجید کا یہ بیان اور اس فعل کی وجہ سے عذاب الٰہی کا نزول ہی اس برائی کی شناعت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ؛ لیکن اس کے علاوہ حدیثوں میں بھی کثرت سے اس کی مذمت کا ذکر آیا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس ص سے مروی ہے کہ تم جس قوم کو لوط کا عمل کرتے ہوئے دیکھو تو اس فعل کا ارتکاب کرنے والے کو بھی قتل کردو اور اس شخص کو بھی جس کے ساتھ یہ فعل کیا جارہا ہو ، (ترمذی ، حدیث نمبر : ۶۵۴۱، ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۴۴۶۲) حضرت عبد اللہ بن مسعود ص اور حضرت ابوہریرہ ص رسول اللہ ا کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قوم لوط کا عمل کرنے والوں پر لعنت ہے ، (دیکھئے : جمع الفوائد ، حدیث نمبر : ۲۵۹۵) ایک روایت میں ہے کہ حضور ا نے فرمایا :جو شخص کسی مرد کے ساتھ برائی کرے یا کسی عورت کے ساتھ غیر فطری راستہ میں برائی کرے ، اللہ اس کی طرف نظر رحمت نہیں اُٹھائیںگے : ’’ لا ینظر اللّٰہ إلی رجل أتی رجلا أو امرأۃ فی الدبر ‘‘ ۔ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۱۶۶)
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ ا نے مرد کے مرد کے ساتھ اور عورت کے عورت کے ساتھ جنسی تعلق کو قرب قیامت کی علامتوں میں سے قرار دیا ہے :
’’ إن من أعلام الساعۃ وأشراطہا أن یکتفی الرجال بالرجال والنساء بالنساء ‘‘ (طبرانی کبیر ، عن عبد اللّٰہ بن مسعود ص ، حدیث نمبر : ۱۰۵۵۶)
آج امریکہ اور مختلف ملکوں میں ہم جنسی کے نکاح کی یا تو قانونی طور پر اجازت دے دی گئی ہے یا وہ اس کی اجازت دینے کے قریب ہیں ، یہ یقینا اسی حدیث کا مصداق ہے ،جس کے ممنوع ہونے پر دنیا کے تمام مذاہب متفق ہیں ، افسوس کہ یہودو نصاری نے خود اپنے دین اور اپنی مذہبی کتابوں کو اس طرح پس پشت ڈال دیا ہے کہ گویا وہ کوڑا کرکٹ ہیں ، بائبل میں حضرت ابراہیم ں کے نکاح میں حضرت سارہ علیہا السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے ہونے کا ، حضرت یعقوبؑ کی بیوی کا ، حضرت نوحؑ ، حضرت لوطؑ ، حضرت موسیؑ ، حضرت زکریاؑ اور مختلف پیغمبروں کی ازواج مطہرات کا ذکر موجود ہے ، ہندو مذہب میں شری رام جی کی بیوی کی حیثیت سے سیتاجی کا نام مشہور ہے ، رام جی کے والد اور والدہ کا ذکر بھی ملتا ہے ، رادھا نامی خاتون کرشن جی کی طرف منسوب ہیں ، غرض کہ تمام مذہبی کتابوں میں مرد و عورت کے جوڑے کا تصور موجود ہے اور کہیں بھی مرد کی مرد اور عورت کی عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی کا تصور نہیں ملتا ہے ، جو لوگ خدا اور مذہب کے منکر ہیں ، وہ اس غیر فطری ازدواج کے قائل ہوتے تو شاید کم حیرت ہوتی ؛ لیکن افسوس کہ جو لوگ اپنے آپ کو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں اور آسمانی کتابوں کے حامل ہونے کے مدعی ہیں ، وہی اس وقت فطرت کے خلاف بغاوت میں پیش پیش ہیں ۔
مذہب اور اخلاق کی ترازو میں تو یہ ہے ہی جرم عظیم ؛ لیکن عقل اور طبی تجربات بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ انتہائی نا روا فعل ہے ، قوم لوط کے بعد یہ برائی جن قوموں میں اجتماعی طور پر پھیلی، ان میں قدیم یونان بھی ہے ، حد یہ ہوگئی کہ یونانیوں نے اس بے ہودہ فعل کو (Greek love) کا نام دے دیا ، یہاں تک کہ یہ اخلاقی انار کی اس ترقی یافتہ قوم کی مکمل تباہی کا باعث بن گئی ، اسی طرح کی صورت حال قدیم ایرانی تہذیب میں بھی پیش آئی ، افسوس کہ اس دور میں یہ اخلاقی بیماری نہ صرف واپس آرہی ہے؛بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہاء ہے کہ اسے قانونی جواز بھی دیا جارہا ہے ؛ لیکن خدا کی نافرمانی اور فطرت سے بغاوت ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ، چنانچہ ایڈز کی بیماری کے جو ابتدائی واقعات امریکہ کی ریاست سانفرانسکو میں سامنے آئے ، وہ ایسے ہی نوجوان لڑکوں میں ، جو ہم جنسوں سے تعلقات رکھتے تھے ، پھر بد کردار خواتین تک بھی یہ بیماری پہنچی اور ان کے واسطہ سے پیٹ میں پرورش پانے والے معصوم بچے بھی اس کا شکار ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو اس بیماری نے اپنا لقمۂ تر بنالیا ۔
یہ بات میڈیکل دنیا میں پوری طرح تسلیم شدہ ہے کہ ایڈز کی بیماری کا بنیادی سبب ہم جنسی ، جنسی انحراف کے دوسرے طریقے اور پاکیزہ زندگی سے محروم ہونا ہے، اور اس سے بڑی آفت یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنی بد کاری کی وجہ سے اس بیماری کا شکار ہوجا تا ہے تو پھر اس کے ذریعہ بہت سے بے قصور اور معصوم لوگ اس کا شکار بنتے چلے جاتے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے ایک طرح کا عذاب ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ا نے فرمایا :
’’جب بھی کسی قوم میں بد کاری کی کثرت ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ کھلے عام اس کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو ان میں پلیگ اور ایسی تکلیف دہ بیماریوں کا ظہور ہوگا ، جو ان کے گذشتہ لوگوں میں کبھی پیدا نہ ہوئی ہوگی ‘‘ ’’۔۔۔ لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط ، حتی یعلنوا بہا إلا فشا فیہم الطاعون ، والأوجاع التی لم تکن مضت فی أسلافہم الذین مضوا ‘‘ (سنن ابن ماجۃ ، عن عبد اللہ بن عمر ص ، حدیث نمبر : ۴۰۱۹)
ہندوستان ہمیشہ سے ایک مذہبی ملک رہا ہے ، یہ مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے ،یہاں بڑے بڑے اخلاقی رہنما اور صوفیاء گزرے ہیں ، شرم وحیاء اور عزت و پاکدامنی کو ہمیشہ یہاں ایک جوہر گراں مایہ سمجھا گیا ہے ، اس ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینا نہایت افسوس ناک اور اس سے بڑھ کر شرم ناک ہے ، یہ فطرت سے بغاوت اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے ؛ اس لئے ہندوؤں ، مسلمانوں اور تمام مذہبی فرقوں کا فریضہ ہے کہ وہ باہمی اشتراک و اتحاد کے ساتھ اس غیر شریفانہ اور بیہودہ تحریک کو ناکام و نامراد بنادیں ، عوامی شعور بیدار کریں ، نوجوانوں کو اس کی مضرتوں سے آگاہ کریں ، حکومت کو ایسی ناشائستہ باتوں کو قبول کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کریں ،اس کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کریں اور مغرب سے تہذیب کے نام پر بد تہذیبی ، عقل کے نام پر بے عقلی اورآزادی کے نام پر نفس اور شیطان کی غلامی کا جو سیلاب آرہا ہے ، سب مل کر اس پر بند باندھنے کی کوشش کریں !!
(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر ، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری اور
آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری و ترجمان ہیں)