نئی دہلی(ایم این این ) تین طلاق کے بعد مسلم شریعت اور پرسنل لاء پر نشانہ لگانے کے لئے حکومت کی طرف سے حلالہ کے نام پر ہلہ بولا گیا ہے اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند نے واضح طورپر حلال کے بارے میں بتایا دیا ہے کہ حلالہ کس کو کہتے ہیں ۔
حاصل معلومات کے مطابق دارالعلوم سے جاری فتوی میں کہا گیا ہے کہ، “پروگرام کے تحت، پہلے طے کرکے کرایا گیا حلالہ اسلام میں ناپسد ہے۔ یعنی اب تک ملک بھر میں جو بھی “حلالہ” پہلے سے طے کرکے کئے گئے تھے وہ تمام غیر جائز تھے۔
دارالعلوم کے اس فتوی كکو مسلم خواتین کے حق میں بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔ فتوے میں یہ بھی صاف کر دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد وہ عورت شہور پر ناجائز”ہو جاتی ہے. عورت کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ طلاق دینے والے مرد کے علاوہ جس کسی بھی مرد سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
باوجود اس کے اگر کچھ لوگ حلالہ کے نام پر بیٹھ کر یہ طے کر دیتے ہیں کہ عورت دوسرے مرد کے ساتھ صرف حلالہ کرے گی اوردوبارہ اپنے پرانے شوہرکے ساتھ نکاح کرے گی تویہ غلط ہے۔ اسلام میں اسے ناپسند ہےاور اسے اسلام میں “لعنت ” شمار کیا گیا ہے۔
شہر کے ہی محلہ عبداللہ رہائشی محمد عثمان نے دیوبند دارالعلوم سے تحریری طور پر سوال کیا تھا۔ اس سوال کے جواب میںدیوبند دارالعلوم کے مفتی حضرات کی بینچ نے جاری کئے فتوے میں کہا ہے کہ
“عورت عورت پر تین طلاق واقع ہو جائے تو اسے نکاح ثانی کرنے کا پورا اختیار ہو جاتا ہے” اس پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنا جائز نہیں ہے۔ عورت كخود مختار ہے۔ وہ اپنے پہلے شوہر کے علاوہ جسے چاہے اپنے نکاح ثانی کے لئے منتخب کرے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے کے لئے دوسرے شوہر سے زبردستی طلاق کرانا قطعا جائز نہیں ہے۔
ہاں اگر دوسرا شوہر خود ہی کسی وجہ سے بعد میں اس کو طلاق دے-دے تو عدت کے بعد پھر عورت کو نئے نکاح کا حق ہو جائے گا۔
اب اگر چاہے تو عورت اپنی مرضی سے پہلے شوہر سے نیا نکاح کر سکتی ہے۔ جس طرح کچھ لوگ مل بیٹھ کر اور طے کرتے ہوئے دوسرا نکاح، پھر طلاق اور پھر پہلے شوہر سے نکاح کراتے ہیں، تو یہ مکروہ شریعت میں ناپسند اور لعنت کا کام ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر دوسرا نکاح کرنے والے شخص کی خود یہ نیت ہو کہ، “میں بعد میں اسے طلاق دے دوں گا تاکہ یہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر کےعزت اور خوشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارے تو یہ کسی حد تک اس میں گنجائش ہے۔






