بجٹ 2019: مودی حکومت نے مہنگائی کی نہیں بلکہ عوام کی کمر توڑی

آج حالات یہ ہیں کہ کسانوں کو فصلوں کے واجب دام نہیں مل رہے، آٹو موبائیلز، ایوی ایشن سیکٹر، ہوٹل انڈسٹری، موبائل انڈسٹری، ریئل اسٹیٹ جیسے شعبے مندی کا شکار ہیں اور عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔

عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے مودی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مہنگائی پر قابو پا لیا ہے۔ پیوش گوئل نے بجت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے سے عام آدمی کو راحت ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے۔ پچھلی حکومتوں کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح پر ہماری حکومت نے قابو پا لیا ہے۔ فی الحال یہ شرح گر کر 4.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے جو اب تک کی سب سے نچلی سطح ہے۔‘

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑ کر ملک کے شہریوں کو بڑی راحت دی ہے یا پھر جملے بازی اور لفاظی کی ماہر حکومت یہاں بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟

ایک ٹی وی ڈبیٹ کے دوران ’انڈیا ٹوڈے‘ کے ایڈٹر انشومن تیواری نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 2014 سے لے کر 2018 تک بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتیں لگاتار گرتی رہیں۔ 2018 میں کچھ مہینے خام تیل کی قیمت ضرور بڑھی لیکن پھر بعد میں نیچے آ گئی۔ حالانکہ خام تیل کی قیمتوں میں جتنی کمی آئی اس تناسب میں ہندوستان کے صارفین کو فائدہ نہیں مل سکا الٹے حکومت نے ٹیکس لگا کر قیمتوں کو تقریباً ایک ہی سطح پر بنائے رکھا۔

اب نظر ڈالتے ہیں گھریلو بازار کی مصنوعات پر، کیا وہاں عام لوگوں کو راحت حاصل ہوئی! نہیں۔ دراصل جس وقت مودی حکومت نے اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا تھا تو اس وقت ہول سیل پرائل انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) میں ریکارڈ گراوٹ آ رہی تھی۔ اس گراوٹ نے یہ اشارے دئے تھے کہ اگر حکومت نے جلد ہی اقدام نہ لئے تو لاگت سے کم قیمت پر مال بیچنے کی نوبت آ جائے گی اور جب اس طرح کی صورت حال آتی ہے تو اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

مصنوعات کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے صارفین قیمتوں کے مزید کم ہونے کا انتظار کرنے لگتے ہیں اور چیزوں کو خریدنا بند کر دیتے ہیں۔ بازار میں جو لوگ سرمایہ لگا چکے ہوتے ہیں انہیں وہ سرمایہ واپس نہیں مل پاتا اور نئی چیزیں بازار میں آنا بند ہو جاتی ہیں۔ مانگ کم ہونے اور بازار میں سریہ کاری نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ روزگار کم ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسا سلسلہ تھا جب حکومت اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپا رہی تھی کہ شرح ترقی 7 فیصد، 7.5 فیصد ہو گئی ہے، دوسری طرح مانگ میں لگاتار کمی آ رہی تھی۔ حکومت نے اسی دوران نوٹ بندی کا جابرانہ فیصلہ لے لیا جس نے مانگ کو بالکل ختم کر دیا۔

اس کے بعد تو دکانداروں، چھوٹے کاروباریوں اور سب سے زیادہ کسانوں کی حالت بدترین ہو گئی۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کے واجب دام نہیں مل پائے۔

آج ملک میں حالات یہ ہیں کہ آدھا درجن سے زیادہ فصلیں ایسی ہیں جن کے کسانوں کو مناسب دام نہیں مل پا رہے، آٹوموبائیلز، ایوی ایشن سیکٹر، ہوٹل انڈسٹری، موبائل انڈسٹری، ریئل اسٹیٹ اور نہ جانے کتنے ایسے شعبے ہیں جو بری طرح مندی کا شکار ہیں۔

اس سب کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج حکومت یہ نہیں بتا پا رہی کہ گزشتہ 4 سال میں 7.5 فیصد کی شرح ترقی رہنے کے باوجود روزگار کیوں نہیں بڑھے! پچھلے دو سالوں میں 7 فیصد کی شرح ترقی کے باوجود جی ایس ٹی کی آمدنی کیوں کم ہو رہی ہے! اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت نے عام لوگوں اور کسانوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور صرف اور صرف اپنی تعریفوں کے پل باندھتی رہی۔ دراصل مودی حکومت مانگ اور مندی کے منیجمنٹ میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اب مہنگائی سے راحت دینے کے کھوکھلے دعوے کر رہی ہے۔