مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
کربلا کے کرب کے بعد جب اہل بیت اطہار کو بنو امیہ کے ظالم اور خبیث سپاہی قیدی بنا کر دمشق لے گئے، تو بہت سے اہل بیت وہاں سے مصر چلے گئے؛ اسی لئے قاہرہ میں متعدد اہل بیت بزرگوں کی قبریں موجود ہیں، اور زائرین وہاں بکثرت آتے رہتے ہیں؛ چنانچہ اہل بیت میں سے حضرت زینب بنت حسینؓ اور امام محمد جعفر صادقؒ کی صاحبزادی سیدہ عائشہؒ یہیں آسودۂ خواب ہیں، اور ان کی قبروں کے ساتھ عظیم الشان مسجدیں بنی ہوئی ہیں، محمد ابن حنفیہؒ کی قبر بھی یہیں ہے، جو حضرت علیؓ کے صاحبزادۂ گرامی قدر اور حضرت علیؓ کی اہلیہ خولہ بنت جعفر بن قیس الحنفیہ کے بطن سے ہیں، جمل اور صفین کی جنگوں میں اپنے والد گرامی کے ساتھ شریک اور علَم بردار رہے، یہیں اہل بیت کی ایک خاتون سیدہ نفیسہ بنت حسن بن زید ایلج بن حسن بن ابی طالب (۱۱؍ربیع الاول ۱۴۵ھ -رمضان ۲۰۸ھ) کی بھی قبر ہے، آپ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں، بچپن ہی سے علم کا شوق تھا۔
جامع ازہر کے سامنے مسجد حسینؓ ہے، غالباََ معتبر طور پر تو یہ بات ثابت نہیں؛ لیکن بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ حضرت حسین کا سر مبارک ….. جو بنو امیہ کے غارتگر نیزے پر اُٹھا کر دمشق لائے تھے ….. بعد میں وہ دمشق سے قاہرہ لایا گیا، اور فاطمی دور حکومت میں اسی جگہ سرِ مبارک کی تدفین عمل میں آئی، واللہ اعلم، اس سے متصل بہت ہی خوبصورت اور وسیع مسجد ’’ جامع حسینؓ ‘‘ کے نام سے ہے، جہاں زائرین کا بڑا اژدہام ہوتا ہے، یہ جگہ اس درجہ مشہور اور زیارت گاہ عام و خاص ہے کہ اگر عام ٹیکسی والوں سے جامع ازہر چلنے کو کہا جائے تو ان کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے؛ لیکن جامع حسین سے ہر عام و خاص واقف ہیں، راقم الحروف نے دیکھا کہ یہاں زائرین کی بڑی تعداد بوہرہ فرقہ کے لوگوں پر مشتمل ہے۔
جیسے بغداد ایک زمانہ میں اہل علم کا مرکز تھا، اسی طرح بغداد کی تباہی کے بعد قاہرہ اہل علم کا مرکز بن گیا تھا اور بڑے بڑے فقہاء، محدثین، صوفیاء اسی خطہ میں خیمہ زن ہوئے تھے، ان ہی میں حضرت امام شافعیؒ ہیں، جو حجاز سے عراق اور پھر عراق سے مصر پہنچے، اور یہیں سے ان کا چشمۂ فیض جاری ہوا، ان کی قبر پر بھی حاضری کی سعادت ہوئی، ایک بڑے فقیہ مجتہد امام لیث ابن سعدؒ جو مصر ہی کے رہنے والے تھے اور جن کے بارے میں امام شافعیؒ کہا کرتے تھے کہ یہ امام مالک سے بڑھ کر فقیہ ہیں؛ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کو ضائع کر دیا ، یعنی ان کے علوم جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا ، ان کی قبر پر بھی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، ان کے مقبرہ کا احاطہ کافی وسیع ہے، کئی محدثین بھی اسی سرزمین میں آسودۂ خواب ہیں، ان ہی میں علامہ زیلعی حنفیؒ، بخاری کے شارحین، علامہ بدرالدین عینیؒ، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور علامہ قسطلانیؒ بھی شامل ہیں، علامہ عینی اور علامہ قسطلانی کی قبریں ایک ہی مقبرہ میں ہیں، اسی میں اس جگہ کو بھی محفوظ و ممتاز رکھا گیا ہے، جہاں علامہ عینیؒ کا درس ہوا کرتا تھا، جب کہ حافظ ابن حجرؒ کا درس جامع ازہر میں ہوا کرتا تھا۔
کاروان صوفیاء کے سرخیل ذوالنون مصریؒ کی قبر بھی یہیں ہے،یہاں بھی حاضری کی سعادت ہوئی، یہاں ایک مقبرہ پر رابعہ بصریہ عدویہ کا نام بھی لکھا گیا ہے، اور اہل مصر کا دعویٰ ہے کہ یہی ان کی قبر ہے؛ لیکن ہم لوگوں کو فلسطین میں بھی ایک ایسی قبر کی زیارت کا موقع ملا تھا، جو حضرت رابعہ بصریہ کی طرف منسوب ہے، (واللہ اعلم) معلوم ہوا کہ یہیں صاحب جلالین علامہ جلال الدین سیوطیؒ بھی آسودۂ خاک ہیں؛ حالاں کہ میں بہت تھک چکا تھا؛ لیکن میں نے کہا کہ علامہ سیوطیؒ ہم لوگوں کے براہ راست محسن ہیں؛ کیوں کہ ان کی تفسیر جلالین پڑھی بھی ہے اور پڑھائی بھی ہے؛اس لئے مجھے بہر قیمت ان کی قبر تک پہنچنا ہے؛ چنانچہ وہاں فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، مصری حکمرانوں میں ابن طولون کی بنائی ہوئی مسجد قابل دید ہے اور افریقی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے، مصر میں عام طور پر سمت قبلہ میں نماز کی صفیں ہوتی ہیں، بقیہ تین طرف سے برآمدہ ہوتے ہیں، جیسا کہ ہم مسجد نبوی میں دیکھتے ہیں، یہ مسجد بھی اسی طرز پر ہے، یہاں بھی حاضری ہوئی، اسی طرح قاہرہ کی مشہور مسجدوں میں مسجد سلطان اور مسجد رفاعی کے سامنے سے بھی گزرنے کا موقع ملا۔
قاہرہ کا قبرستان ایک انوکھا قبرستان ہے، جو بہت بڑے حصہ میں پھیلا ہوا ہے، قبرستان میں ہر خاندان نے اپنی جگہ محفوظ کر لی ہے، اور نہ صرف اس کی احاطہ بندی کر رکھی ہے؛ بلکہ اکثر احاطوں کو مکان کی شکل دے دی گئی ہے، معلوم ہوا کہ اس میں تہہ خانے بنے ہوتے ہیں، اسی کے اندر لاش رکھ دی جاتی ہے، اور بعض مقبرے تو ایسے بھی ہیں کہ اسی میں صاحب خانہ بھی رہتے بھی ہیں، اورمردے کی بھی تدفین ہوتی ہے، پورا علاقہ ابتر حالت میں ہے، اور کچی سڑکوں پر مشتمل ہے، صفائی ستھرائی کی بھی بہت کمی ہے، اتفاق سے اس دن موسم بھی خراب تھا، ابر چھایا ہوا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، اس کی وجہ سے بہت دشواری پیش آرہی تھی، کچھ دور تو ٹیکسی گئی؛ لیکن جب ٹیکسی کا راستہ نہ رہا تو وہاں سے ازہر کے طلبہ نے آٹو فراہم کرنے کی کوشش کی، وہاں زیادہ تر آٹو ہندوستان ہی کے سپلائی کئے ہوئے ہیں، اور اس کو ’’ ٹُک ٹُک ہندی‘‘ کہا جاتا ہے، پھر جہاں آٹو نے ساتھ چھوڑ دیا،وہاں سے پیدل راستہ طے کیا گیا، اس طرح تکان تو بہت ہوگئی؛ لیکن جن بزرگوں کی قبر پر حاضری کا موقع ملا، ان کی نسبت سے زبردست روحانی مسرت حاصل ہوئی، اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں بھی ان کے قدموں میں جگہ مل جائے۔
جامع ازہر دراصل ایک عظیم الشان مسجد ہے، جس کی بنیاد فاطمی حکمراں معز الدین باللہ کے حکم سے رکھی گئی تھی، ۲۴؍جمادی الاولیٰ ۳۵۹ھ کو اس کی بنیاد پڑی اور ۷؍رمضان المبارک ۳۶۱ھ میں اس کا افتتاح ہوا، اس مسجد کا نام پہلے مسجد القاہرہ تھا، پھر جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسبت سے اس کا نام جامع ازہر پڑ گیا، مذکورہ فاطمی فرما ں روا نے اعلان کر دیا کہ یہ سرکاری مسجد ہوگی، اور یہاں سے شیعہ مذہب کی اشاعت عمل میں آئے گی؛ چنانچہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہاں طب، فلکیات اور دیگر علوم کی تعلیم بھی ہونے لگی، تقریباََ ۲۰۰؍ سال یہ مسجد شیعی افکار کی تعلیم و اشاعت کا مرکز بنی رہی، یہاں تک کہ ۱۱۷۱ء میں صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں مصر کی قیادت آئی تو آپ نے طلبہ واساتذہ کے لئے بڑے اوقاف جاری کئے اور یہ مسجد اہل سنت والجماعت کے افکار وعقائد کی اشاعت کا مرکز بن گئی، یہاں سے بڑے بڑے علماء ، فقہاء اور محدثین پیدا ہوئے، جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی، علامہ سخاوی، علامہ سیوطی، علامہ ابن خلدون اور بعد کے لوگوں میں علامہ جمال الدین افغانی وغیرہ شامل ہیں۔
مملوکوں کے دور یعنی آٹھویں نویں صدی ہجری کو جامع ازہر کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے، اُس وقت یہاں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ علم الادویہ، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی، پھر سلطنت عثمانیہ نے اپنے گراں قدر عطیات کے ذریعہ اس کو ایک خود مختار ادارہ بنادیا، اور شیخ الازہر کے منصب کو اہل مصر کے لئے مخصوص کر دیا، پھر شیخ محمد عبدہ کے عہد میں جامع ازہر کے نظام میں جوہری تبدیلیاں ہوئیں،۱۹۳۰ء میں اسلامی وعربی علوم کو تین شعبوں میں تقسیم کر کے تین کالج قائم کئے گئے: کلیۃ اصول الدین، کلیۃ الشریعۃ اور کلیۃ اللغۃ العربیۃ، پھر ۱۹۶۱ء میں سرکاری فرمان کے تحت دیگر عصری علوم کے شعبے قائم ہوئے، اب جامع ازہر دنیا کی قدیم ترین اور عالم اسلام کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، جس میں آٹھ لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں، اور سو سے زیادہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے ۵۰؍ہزار غیر ملکی طلبہ ہیں۔
اگرچہ اب جامع ازہر’’ جامعہ ازہر‘‘ بن چکا ہے، اس کے کالج دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں؛ لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومت مصر نے مسجد کی تعلیم کا قدیم نظام ابھی بھی باقی رکھا ہے، ابھی بھی اس وسیع و عریض مسجد کے مختلف گوشوں میں مختلف اساتذہ الگ الگ مضامین اور کتابوں کا درس دیتے رہتے ہیں، جو طالب علم جس درس میں شرکت کرنا چاہتا ہے، اس میں شریک ہوتا ہے، اور تکمیل پر اس کی سند بھی دی جاتی ہے، اسی میں ایک حلقہ خواتین کی تعلیم کے لئے بھی ہے، مصر کے لوگوں کو بجا طور پر اس ادارہ پر ناز ہے، وہ اس کو بہت تقدس کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور عام طور پر مصر اور اس کے پڑوسی ملکوں میں ازہر کے فضلاء ہی دینی خدمتیں انجام دیتے ہیں؛ مگر افسوس کہ مغربی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے مصری حکومت جامعہ ازہر پر دباؤ ڈال رہی ہے اور جامعہ ازہر نے اپنے نصاب سے وہ تمام چیزیں نکال دی ہیں، جن کو مغرب نے نکالنے کا حکم دیا ہے، جیسے: آیات جہاد اور اہل کتاب سے متعلق آیتیں، اس سے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مقرر کئے ہوئے اِس اُصول کی حکمت و اہمیت سمجھ میں آتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کو سرکاری امداد سے دور رکھا جائے۔
ہندوستان کے جو طلبہ جامع ازہر میں مقیم ہیں، ان کا اصرار تھا کہ کچھ وقت ان کے لئے رکھا جائے، اور بقول ان کے کچھ نصیحت کی جائے؛ چنانچہ مسجد کے ایک گوشہ میں ان طلبہ کے ساتھ بیٹھ گیا، اور بروقت جو باتیں ذہن میں آئیں، وہ عرض کی گئیں، اول یہ کہ علماء کہیں بھی جائیں، اپنی شناخت قائم رکھیں، اور اپنی زندگی کے لئے اختلافی مسائل میں اس نقطۂ نظر کو اختیار کریں، جو شک و شبہ سے بالا تر ہو، اور جو اس عہد کے صالحین کے طریقۂ کار سے ہم آہنگ ہو، میں نے مثال دی کہ جیسے مصر کے بیشتر علماء نے بعض شوافع کے ایک شاذ قول کو بنیاد بنا کر کہا کہ داڑھی سنن عادیہ میں سے ہے نہ کہ سنن شرعیہ میں سے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا داڑھی رکھنا عربوں کے قدیم عرف کی بناء پر تھا نہ کہ حکم شرعی کی بناء پر، یہ ایک شاذ قول ہے، خود فقہاء شوافع نے بھی اس پر فتویٰ نہیں دیا؛ لیکن مصر وشام کے علماء نے عمومی طور پر اس قول کو اختیار کر لیا، ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات اور سلف صالحین کے متوارث عمل کے خلاف ہے، جب یہودی ربیوں اور قبطی عیسائی پادریوں کے ساتھ علماء اسلام کی تصویریں آتی ہیں تو ہم جیسے لوگوں کو بڑا قلق ہوتا ہے کہ دوسرے مذہبی رہنماؤں کی تو بھر پور داڑھیاں ہیں اور ہمارے علماء کا چہرہ صاف ہے، میں نے عرض کیا کہ آپ مصر سے اسلامی علوم کی سوغات لے کر واپس ہوں؛ لیکن مرعوبیت پر مبنی طرز عمل کو نہ خود اختیار کریں اور نہ اس کو لے کر امت کے درمیان جائیں۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ آپ کی فکر میں اعتدال ہونا چاہئے، نہ یہ بات درست ہے کہ مغرب سے جو کچھ آئے آنکھ بند کر کے اسے قبول کر لیا جائے اور دین کو پیمانہ بنانے کی بجائے اپنی یا سماج کی چاہت کو پیمانہ بنا کراسلام کو اس کے سانچے میں ڈھالا جائے، اور نہ یہ درست ہے کہ مسلک کو دین کا اور اپنے مکتب فقہ کو شریعت کا درجہ دے دیا جائے، اور اس کے ایک ایک حرف پر اصرار کیا جائے، توازن اور اعتدال ضروری ہے، علماء اگر اعتدال سے محروم ہو جائیں تو اس کا اثر دو صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، اگر سہولت پسندی میں غلو ہو تو راہ صواب سے انحراف، اور اگر بے جا شدت ہو تو دین سے نفرت ۔
تیسری ضروری بات یہ ہے کہ عالم کو علم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ دینی غیرت و حمیت کا حامل بھی ہونا چاہئے، یہ اس خشیت کا اولین تقاضہ ہے، جس کو قرآن مجید نے علماء کا وصف قرار دیا ہے: إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (فاطر: ۲۸) چنانچہ ہندوستان میں ہمارے بزرگوں نے جو ادارے قائم کئے، ان میں اس بات کا لحاظ رکھا کہ ان مدارس سے جو لوگ پیدا ہوں، ان کے پاس صرف معلومات کا ذخیرہ نہ ہو؛ بلکہ دین کے لئے مرمٹنے کا جذبہ بھی ہو، اسی جذبہ کے تحت ہندوستان میں جب بھی ارتداد کا فتنہ اُٹھا، علماء اس کے مقابلہ کے لئے کمر بستہ ہوگئے؛ بلکہ ایسا بھی ہوا کہ وقت کی نزاکت کے لحاظ سے وقتی طور پر مدرسہ کی خدمت موقوف کر کے انہوں نے اسلام کے تحفظ کو اپنی مہم بنالیا، اگر یہ نہ ہوتا تو عیسائیت، آریہ سماجیت، قادیانیت اور انکار حدیث وغیرہ کا فتنہ جس شدومد کے ساتھ اُٹھا تھا، وہ عمومی طور پر مسلمانوں کو ارتدار وگمرہی کے فتنہ میں بہا لے جاتا؛ اس لئے علماء کو ہر قیمت پر اس جذبہ کو باقی رکھنا چاہئے۔
بہر حال جامع ازہر کی اس مختصر سی نشست کے بعد میں باہر نکلا تو ایک طرف کتب خانوں کی ٹھیک اسی طرح قطار تھی جیسی دیوبند میں یا لاہور کے اردو بازار میں نظر آتی ہے، اسی طرح تنگ سڑکوں کے دونوں طرف دوکانوں کی قطاریں اور لوگوں کی اسی انداز کی بھیڑ بھاڑ تھی، جیسے جامع مسجد دہلی کے پاس ہوتی ہے، ویسے بھی معیار زندگی میں مصر اور ہندوستان کے درمیان کافی مماثلت نظر آتی ہے، شارع عام کے علاوہ پتلی سڑکیں ہیں؛ بلکہ بعض جگہ تو سڑکیں گلیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں، عمارتیں بھی زیادہ تر سادہ قسم کی ہیں، ہندوستان میں بہت سے شہروں میں لوگ دیواروں کو پلاسٹر کے بغیر چھوڑ دیتے ہیں، مصر میں بھی یہ منظر کثرت سے نظر آتا ہے، صفائی ستھرائی کا نظام بھی بہت ناقص ہے، ہندوستان میں تو شہروں کے اندر کچی سڑکیں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں؛ لیکن قاہرہ جیسے شہر میں بھی اندرونی علاقوں میں بکثرت کچی سڑکیں اور کھلے ہوئے نالے پائے جاتے ہیں، عام طور پر عرب ملکوں میں حفظان صحت کے نقطۂ نظر سے خوردنی اشیاء ڈھک کر رکھی جاتی ہیں؛ لیکن یہاں برصغیر ہی کی طرح کھلے ہوئے سامان بیچنے اور سرراہ کھانے کی اشیاء کے تَلنے کا عام رواج نظر آیا، گاڑیاں بھی ہندوستان کے مقابلہ کم درجہ کی ہیں، کاریں اور ٹیکسیاں عام طور پر غبار آلود نظر آتی ہیں، لگتا ہے کہ یہاں عام لوگوں میں بھی صفائی ستھرائی کا اہتمام کم ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب حکومت کی لاپرواہی اور اپنے فرائض سے بے توجہی کا نتیجہ ہے، خاص کر موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے وہاں کی معاشی ترقی تھم سی گئی ہے، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، اور جہاں ایک امریکی ڈالر چار مصری پاؤنڈ کے برابر ہوا کرتا تھا، اب اٹھارہ مصری پاؤنڈ کے برابر ہوتا ہے۔
جامع ازہر کی اس مختصر زیارت نے تشنگی اور بڑھا دی؛ لیکن نظام سفر طے تھا اور آج ہی ہم لوگوں کی واپسی کی فلائٹ تھی؛ اس لئے اس تمنا کے ساتھ رخصت ہوا کہ کوئی سفر خاص طور پر مصر کا کیا جائے؛ تاکہ اس اہم مسلم ملک کے تعلیمی اور مذہبی اداروں کو قریب سے دیکھا جاسکے، جامعہ ازہر کے نظام تعلیم و تربیت کو سمجھا جائے اور یہاں کے تاریخی مقامات پر تفصیلی نظر ڈالنے کا موقع ملے، بہر حال ہمارا قافلہ وہاں سے نکل کر راستہ میں ایک جگہ کھانے کے لئے اُترا، جب سے ہم لوگ مصر پہنچے تھے، احباب کو آج ہی کا کھانا سب سے زیادہ پسند آیا؛ ورنہ ان ملکوں کا بے مسالہ اور اُبالا ہوا کھانا اور سالن لوگ بہ مشکل حلق سے اتارتے تھے، ہم لوگ تیز تیز قاہرہ ائیرپورٹ پہنچے، قاہرہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ تمام عصری سہولتوں سے آراستہ صاف ستھرا ائیرپورٹ ہے، اور ائیرپورٹ پر نماز ادا کرنے کے لئے مخصوص جگہ کی سہولت بھی رکھی گئی ہے، رات کے تقریباََ گیارہ بجے جب ہماری فلائٹ روانہ ہوئی اور جہاز سے قاہرہ پر نظر ڈالی تو شہر کی وسعت اور بے شمار بجلی کے چراغ بڑا اچھا منظر پیش کر رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ دور دور تک جگنو اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔
سیاسی صورت حال بہت ناگفتہ بہ ہے، لوگوں کی زبان پر ایسے قفل ڈال دئیے گئے ہیں کہ لوگ تنہائی میں بھی حکومت کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے ڈرتے ہیں، ان ملکوں میں جاکر احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بدرجہا بہتر ہے، یہاں اظہار رائے کی، مذہب پر عمل کرنے کی، حکومت کی غلطیوں پر ٹوکنے اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی جو آزادی ہے ، ان ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ عالم اسلام اور عالم عرب میں سب سے بڑھ کر قائدانہ صلاحیت مصر کے اندر ہے، علماء مصر کی یہ لیاقت ہر اس شخص کے سامنے نمایاں طور پر آتی ہے، جو عالم اسلام یا عالم عرب کی کسی نمائندہ مجلس میں پہنچے، اور مختلف علماء کے خطابات اور مناقشات کو ملاحظہ کرے، مصر کی حکومت تو مذہب بیزار اور مغرب کے سامنے سربسجود ہے؛ لیکن عوام کے اندر اگرچہ عملی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں، مگر عمومی طور پر ان کے اندر اسلام سے محبت اور شعائر اسلامی کی عظمت ہے، وہ بڑے ادب کے ساتھ علماء سے ملتے ہیں، مجھے بھی بار بار اس کا تجربہ ہوا، اسی طرح حکومت اگرچہ اسرائیل کی دوست ہے اور اس نے مسلم ملکوں سے بڑھ کر اسرائیل سے اپنا تعلق رکھا ہے؛ لیکن عوام کو اسرائیل سے سخت نفرت ہے، یہاں کی فرعونی حکومت نے تو الاخوان المسلمون پر بہت ہی بے جا پابندیاں لگا رکھی ہیں، ان کے رہنماؤں کو پس دیوار زنداں قید رکھا ہے، اور ایک منتخب حکومت کو معزول کر کے اپنا تسلط قائم کر لیا ہے؛ لیکن دینی جذبہ رکھنے والے عوام، تعلیم یافتہ لوگ اور دین پسند حضرات پر آج بھی اِخوان کا بہت اثر ہے، وہ مرسی کے مختصر دور کو ایک سنہرا دور باور کرتے ہیں، اور واقعہ ہے کہ عالم اسلام کو اخوان جیسی جماعت کی ضرورت ہے، جو تشدد سے بچتے ہوئے پُر امن اور جمہوری طریقہ پر اعتدال کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کو لانے کی کوشش کرے؛ البتہ ہو سکتا ہے کہ حالات کے تقاضوں کے تحت طریقۂ کار میں کسی قدر تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جائے۔
اس بات کو دیکھ کر افسوس ہوا کہ حالاں کہ قاہرہ میں ہر طرف مسجد کے بلند مینارے نظر آتے ہیں، بڑی عظیم الشان اور وسیع و عریض، خوبصورت مسجدیں ہیں؛ لیکن:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
عام طور پر نمازیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، بے اعتنائی کا ایک پہلو یہ بھی ہہے کہ مسجدوں میں نہ صرف کرسیوں کی بہتات ہے؛ بلکہ آخری صفوں میں کئی لائنیں طویل بینچوں کی ہیں، جب نماز ہوتی ہے تو ایک ڈیڑھ صف امام کے قریب ہوتی ہے، درمیان میں پوری مسجد خالی رہتی ہے اور لوگ بینچ پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں؛ اگرچہ مسجد کے اندر اس خلاء کے باوجود نماز درست ہو جاتی ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ معمولاََ ایسا کرنا کراہت سے خالی نہیں، اور اس سے نماز کے سلسلہ میں لوگوں کی بے اہتمامی ظاہر ہوتی ہے۔
اسی طرح جہاں شہر کے قدیم محلوں میں باقاعدہ برقعہ پوش خواتین نظر آتی ہیں، وہیں نئے شہر میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مغربی تہذیب کا فتنہ مصر میں اپنے قدم مضبوط کر رہا ہے؛ بلکہ کر چکا ہے، اور حکومت اس کو تقویت پہنچا رہی ہے، مغربی سازش کا ایک حصہ یہ ہے کہ مصر کو اسلامی تاریخ سے کاٹ کر فراعنہ کی تاریخ سے جوڑا جا رہا ہے، فرعون کے نام سے دوکانیں ہیں، مختلف چیزیں فرعون کی تصویر کے ساتھ فروخت کی جاتی ہیں، فرعون کے مجسمے نصب کئے گئے ہیں، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ فرعون سے نفرت کرنے کی بجائے اس کو اپنے لئے آئیڈیل اور وجہ وقار تصور کرتے ہیں، جو قوم اپنی تاریخ، اپنی نمائندہ شخصیتوں اور قابل تقلید قیادتوں سے کٹ جاتی ہے، وہ آہستہ آہستہ اپنی فکر سے بھی محروم ہو جاتی ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے، اور عجیب بدبختی ہے کہ ترکوں کے زوال کے بعد سے محمد مرسی کے مختصر دور کو چھوڑ کر اس ملک پر مسلسل فرعون صفت حکمرانوں کا اقتدار قائم ہے، اور اس تسلسل نے وہاں کے اسلامی تشخص کو بے حد نقصان پہنچایا ہے، والی اللہ المشتکی، اللہ تعالیٰ اس صورت حال سے پورے عالم اسلام خصوصاََ عالم عرب کی حفاظت فرمائے۔