موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل (۲)

 شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

( ۲ ) کسی قوم کے لئے نقصان اُٹھانا بڑی شکست نہیں ہے ؛ بلکہ سب سے بڑی شکست یہ ہے کہ اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے ، اندر کی شکست ہی انسان کو باہر کی شکست سے دوچار کرتی ہے ، جب عالم اسلام پر تاتاریوں کی یلغار ہوئی تو مسلمان اسی صورت حال سے دوچار تھے ، ایک تاتاری عورت پچاس پچاس مسلمان مردوں کو لائن میں کھڑا کرکے جاتی اور انھیں ہدایت دیتی کہ وہ یہیں کھڑے رہیں ، وہ اپنے گھر سے خنجر لے کر آئے گی اور انھیں قتل کرے گی ، مسلمان فرمانبردار غلام کی طرح کھڑے رہتے ، یہاں تک کہ ایک عورت پچاس مردوں کو ذبح کردیتی ، اسی سے ملتی جلتی صورتِ حال ان دنوں پیش آرہی ہے ، ہجومی قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں ؛ لیکن مسلمانوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی ، دو روز پہلے خبر آئی کہ دو شریر غنڈوں نے چار مزدوروں کو یہ کہہ کر بیلٹ سے مارنا شروع کردیا کہ تم گائے کا گوشت کھارہے ہو ؛ حالاںکہ یہ ترکاری کھارہے تھے ، یہ لوگ پٹتے رہے اور اپنا کوئی دفاع نہیں کیا ، یہ بہت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے ، اسلام نے ضرور امن و آشتی قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ، ظلم سے منع کیا ہے ؛ لیکن اس نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کی جائے اور ظالم کے پنجے کو تھام لیا جائے ، جان تو یوں بھی جانی ہے ؛ لیکن ایسے مواقع پر ظالم کو یہ احساس دلانا چاہئے کہ اس کے اوپر مظلوموں کے ہاتھ اُٹھ سکتے ہیں ؛ ورنہ شریر اور غنڈہ عناصر کی جرأت بڑھتی جائے گی ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دین ، اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی عزت و آبرو اور اپنی آل و اولاد کو بچانے میں مارا جائے ، وہ شہید ہے : ’’من قتل دون مالہ فھو شھید ، ومن قتل دون دینہ فھو شھید ، ومن قتل دون دمہ فھو شہید ، ومن قتل دون اھلہ فھو شھید‘‘ ( ترمذی ، عن سعید بن زید ، ۱۴۲۱ ، نیز دیکھئے : مجمع الزوائد ، عن بن عباس ، حدیث نمبر : ۱۰۴۶۸) یہ نہ صرف شریعت کی تعلیم ہے ؛ بلکہ ہمارے ملک کا قانون بھی ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے ، اس پس منظر میں ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ’’ اپنی حفاظت آپ ‘‘ کا پیغام دیا جائے اور وہ اپنے آپ کو اپنے تحفظ کے لئے تیار رکھیں ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاقتور مومن بہتر اور اللہ کو محبوب ہے کمزور مومن کے مقابلے میں : ’’المومن القوی خیر وأحب إلی اﷲ من المومن الضعیف ‘‘ (مسلم ، عن ابی ہریرۃ ، حدیث نمبر : ۲۶۶۴)

 آر ایس ایس ایک زمانہ سے اپنے کارکنوں کو اپنی حفاظت آپ کرنے کی بلکہ فساد مچانے کی تربیت دے رہی ہے ؛ حالاںکہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ؛ البتہ موجودہ حالات میں مسلمان ، دوسری اقلیتیں اور دلت ضرور اس خطرہ سے دوچار ہیں ، مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت انگیز تقریریں کی جارہی ہیں اور ان پر ہجومی حملے کئے جارہے ہیں ، اس لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُر امن طریقہ پر مسلم تنظیموں اور اداروں کو نوجوانوں کی جسمانی تربیت کرنی چاہئے ، اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں سمجھانا چاہئے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال سماوی آفات کے موقع پر لوگوں کو بچانے اور ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے کریں ۔

( ۳ ) تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ ہر سطح پر برادرانِ وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا جائے ، اس کے لئے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اور پڑھانے والے اساتذہ ، غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین ، تاجرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے حضرات کے تربیتی پروگرام رکھے جائیں ، خاص طورپر مذہبی اور نیم مذہبی تنظیمیں اس کام کو اپنے ذمہ لے لیں ، ان پروگراموں میں مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں انسانی اُخوت کا تصور کس قدر وسیع ہے ؛ تمام اخلاقی تعلیمات میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو ایک ہی درجہ پر رکھا گیا ہے ، بڑوں کی توقیر ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، غریبوں کی مدد ، بیماروں کی مزاج پرسی ، گاہکوں کے ساتھ ایمان داری ، عورتوں کا احترام ، بوڑھوں کا لحاظ ، مسافروں کی مدد ، معاملات میں دیانت داری و ایمان داری ، مظلوموں کی داد رسی ، مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی و غم خواری ، غرض کہ انسانی سلوک کے معاملہ میں مذہب کی بنیاد پر اسلام نے کوئی تفریق نہیں رکھی ہے ، خود مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے ، بعض دفعہ ایک آٹو والے کی ایمانداری ایک پورے خاندان پر مسلمانوں کے تئیں گہرے خوشگوار نقوش چھوڑ جاتی ہے ، نفرت کا جواب محبت ہی ہے نہ کہ نفرت !

تعلقات بہتر ہوتے ہیں میل جول سے ، اب صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر شہروں میں ہندو اور مسلم آبادیاں الگ الگ ہوگئی ہیں ، جان ومال ، غزت و آبرو اور دین و ثقافت کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے یہ بات بہتر بھی محسوس ہوتی ہے ؛ لیکن ایک ہی سماج میں رہنے والوں کے درمیان تعلق رہنا بھی ضروری ہے ؛ اس لئے اب میل جول کی صورت یہی ہے کہ مختلف تقریبات کے عنوان سے غیر مسلم بھائیوں کو مدعو کیا جائے ، جیسے : شادی بیاہ ، رمضان المبارک ، یوم آزادی ، یوم جمہوریہ ، میلاد النبی وغیرہ ، اور اس میں اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کی جائے ، اسی طرح بہتر تعلقات کا ایک ذریعہ حسن سلوک ہے ، ہاسپٹلوں میں پہنچ کر بیماروں اور تیمارداروں کے لئے کھانا ، پھل اور دواؤں کی فراہمی ، گرما کے موسم میں مسافروں اور راہ گیروں کے لئے ٹھنڈے پانی کا انتظام ، ٹھنڈک میں غرباء کے درمیان کمبلوں کی تقسیم ، گاؤں میں بورویل کا انتظام ، جس سے تمام فرقوں کے لوگ فائدہ اُٹھاسکیں ، مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں غیر مسلم بچوں کو داخلہ دینا ، تمام طبقات کے لئے فری کلینک کھولنا ، غرض کہ حسن سلوک کی مختلف صورتیں ہیں ، جن کے ذریعہ آپ برادران وطن کا دل جیت سکتے ہیں ، ایسے ہی کاموں میں غریب بچوں کے لئے بک بینک قائم کرنا بھی شامل ہے ، خدمت خلق کے کام کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے ’’ مؤلفۃ القلوب ‘‘ کے عنوان سے اس کے لئے مستقل ایک مدد مقرر کی ہے ، اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ زکوٰۃ کا یہ مصرف باقی ہے یا نہیں ؟ لیکن اگر عطیہ و اعانت کی مد سے یہ کام کیا جائے تو اس کے بہتر اور مطلوب ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی ۔

انسان جن لوگوں کے درمیان رہتا ہو ، اگر ان سے تعلقات بہتر نہ ہوں اور ہر وقت خوف و دہشت اور نفرت و عداوت کی فضا ہو ، تو کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ سَنگھ پریوار کے لوگ نفرت پیدا کرنے کے لئے جتنی طاقت لگاتے ہیں ، مسلمان اس زہر کے علاج کے لئے اس سے زیادہ محنت کریں ، اس کے لئے خود مسلمانوں کو باشعور بنایا جائے ، اور اس مقصد کے لئے مسلم وغیر مسلم مشترک پروگرام رکھے جائیں ۔

( ۴ ) چوتھی اہم بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف پروپیگنڈے اپنے شباب پر ہیں ، اور ان کے لئے دو شعبوں کو ہتھیار بنایا جارہا ہے ، ایک : میڈیا ، دوسرے : تعلیم ، تعلیم کے ذریعہ فرقہ پرستی کا زہر پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچتا ہے اور میڈیا کے ذریعہ ہر عام و خاص تک نفرت کا پیغام پہنچایا جارہا ہے ، جو لوگ سچائی سے واقف نہیں ہیں ، وہ جھوٹ کو سچ سمجھنے پر مجبور ہیں ، یہ پروپیگنڈے عام طور پر تین طرح کے ہیں ، ایک تو اسلام کے بارے میں ، جیسے : اسلام کا تصورِ جہاد ، یہاں تک کہ اب تو کلمۂ طیبہ پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے ، دوسرے : ہندوستان کی مسلم تاریخ ، تیسرے : ملک کے مسلمانوں کا رویہ ، پہلے قسم کے اعتراضات تو صد فیصد غلط ہوتے ہیں ، اور انھیں معمولی غور و فکر کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے ، دوسرے اور تیسرے قسم کے اعتراضات میں کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے ؛ لیکن زیادہ تر غلط فہمی ہی ہوتی ہے۔

ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور جانتے بوجھتے غلط پروپیگنڈوں کا اثر دور کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ، اول : یہ کہ ہندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے جو خلاف واقعہ پیش کی جارہی ہیں تعلیمی اور تحقیقی ادارے ان کی مدلل اور سنجیدہ تردید کی طرف متوجہ ہوں اور ان کے سوالات کا تحقیقی جواب اس طرح دیں کہ قرآن و حدیث کا مواد بھی اُن کے سامنے رہے اور جو معترضین ہیں اُن کی مذہبی کتابیں اور تاریخ بھی سامنے ہوں ، وہ اپنے گھر سے بھی واقف ہوں اور فریق مخالف کے گھر میں بھی جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، افسوس کی بات ہے کہ آج کل ہمارے مدارس اور جماعتی مراکز میں مسلکی جھگڑوں پر تو خوب توجہ دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ طلبہ کو تقریر و تحریر کے تربیتی پروگراموں میں دوسرے مسلک کے خلاف اشتعال انگیز اور تمسخر پر مبنی تقریر و تحریر کے لئے تیار کیا جاتا ہے ؛ لیکن باہر سے اسلام پر جو یلغار ہورہی ہے ، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ؛ حالاںکہ سلف صالحین نے ہمیشہ اس میدان کو اپنی علمی کاوشوں کا خاص موضوع بنایا ہے ، دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، ندوہ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ ، مدرسہ صولتیہ کے مؤسس حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ، جامعہ نظامیہ کے بانی حضرت مولانا انوار اللہ فاروقیؒ ، جماعت اہل حدیث کے اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم اور قائد حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، دارالمصنفین اعظم گڑھ کے بانیان علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ ، ان سب ہی حضرات نے اپنے عہد کی ضرورت کے مطابق اسلام پر باہر سے ہونے والی یلغار کو اپنی علمی اور فکری جدوجہد کا اولین ہدف یا خصوصی ہدف بنایا ہے، آج بھی ضرورت ہے کہ علماء اور دینی علوم سے واقف مسلمانوں اصحاب دانش اس پر توجہ دیں ۔

اس کے تدارک کے لئے ضروری کام یہ ہے کہ اسلام مخالف مواد کے جوابات کو سیمیناروں ، سمپوزیموں ، جلسوں ، کانفرنسوں ، مسلم اور غیرمسلم مشترکہ پروگراموں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ پھیلائے جائیں ، جیسے لوگ نماز روزہ کے بنیادی مسائل سے واقف ہوتے ہیں ، اسی طرح کوشش کی جائے کہ ہر پڑھا لکھا مسلمان ان سے واقف ہوجائے ؛ تاکہ وہ خود احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو اور دوسروں کی غلط فہمی دُور کرنے کے لائق ہوسکے، یہ بہت دشوار بھی نہیں ہے ؛ کیوں کہ ایسے مسائل بحیثیت مجموعی پندرہ بیس ہیں ، اگر مساجد کے بیانات ، سیرت کے جلسوں ، دینی مدارس کے پروگراموں ، مسلم تنظیموں کے اجتماعات میں ان مسائل پر گفتگو کی جائے تو ضروری باتیں اکثر مسلمانوں تک پہنچ جائیں گی۔