ہندوستان مذہبی دہشت گردی کا نیا مرکز

ماب لنچنگ اور دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں نے مایوسی کا مظاہرہ شروع کردیاہے ۔ حالات کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے وہ اپنی قیادت کے خلاف بھڑاس نکالنے لگے ہیں ۔یہ صورت حال ہمیں مزید پریشانیوں سے دوچار کرے گی ۔ وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں اور اگر ہم ان کے جال میں پھنس کر خوف زدہ ہونے کا تاثر دے دیتے ہیں تو وہ بہت آسانی سے کامیاب ہوجائیں گے
خبر در خبر (612)
شمس تبریز قاسمی
دہشت گردی ،انتہاءپسندی اور بے گناہوں کاقتل اب ہندوستان کی شناخت بن چکی ہے ۔ کل تک ہم پاکستان ،افغانستان اور دیگر ملکوں کو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرارہے تھے لیکن اب خود ہندوستان اس کا مرکزاور اڈہ بن چکاہے ۔ 2014 کے بعداس مذہبی انتہاءپسندی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ملک کا ایک طبقہ دنیا کے سامنے ایسکپوز ہوگیاہے ۔ امریکی وزرات خارجہ کی رپوٹ کو بھی ہندوستان کے اس طبقے نے عملی طور پر سچ ثابت کردیاہے جس نے حال ہی میں کہاتھا کہ ہندوستان میں مذہب کے نام پر اقلیتوں پر حملہ ہوتاہے ۔ اقلیت وہاں غیر محفوظ ہیں ۔ ہندستان کی وزرات خارجہ نے یہ کہتے ہوئے مستر دکردیاتھاکہ کسی کو بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے لیکن شدت پسند اور دہشت گرد عناصر نے عملی طور پر ہندوستان کی تکذیب کی ہے اور امریکہ کے دعوی کی تصدیق کردی ہے ۔
2014 میں نریندر مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیاتھا ۔ اس نعرہ کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی فضا عام ہوگئی ۔ ہجومی تشدد کی شروعات ہوگئی ۔ گﺅ تحفظ کے نام پر آر ایس ایس ، وی ایچ پی ،بجرنگ اور بی جے پی سے وابستہ لوگوں نے مسلمانوں اور دلتوں پر حملہ شروع کردیا ۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ماب لنچنگ کے تقریبا 150 سے زائد واقعات پیش آئے ۔ ان میں 84 فیصد حملہ مسلمانوں پر ہوا ۔ 70سے زائد مرنے والے مسلمان ہیں ۔
23 مئی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ”سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس“ کا نعرہ دیا ۔ جیسے ہی ان کا یہ بیان سامنے آیا ۔ان کے بھگتوں اور چاہنے والوں نے جے شری رام ۔ جے ہنومان اور وندے ماتر م کے نام پردہشت گردی شروع کردی ۔ گڑگاﺅں میں ایک نوجوان پر جے شری رام بولنے کا دباﺅبنایا۔اس نے انکار کیا تو حملہ شروع کردیا ۔ دہلی کے روہنی میں ایک عالم دین عصر کی نماز کے بعد ٹہل رہے تھے اسی دوران کارسوا ر کچھ دہشت گردوں نے روک کر ان سے کہاکہ جے شری رام بولو ۔ ایسا نہ کرنے پر انہیں ٹھوکر ماردیا ۔ کولکاتامیں شرپسندوں نے ایک شخص کو چلتی ٹرین سے نیچے پھینک دیا کیوں کہ انہوں نے جے شری رام نہیں کہا ۔ سب سے شرمناک اور انسانیت کو لرزہ براندام کردینے والا واقعہ جھارکھنڈ میں پیش آیاہے جہاں شدت پسند عناصر اور بھگوا دہشت گردوں نے 27 تبریز انصاری کے ساتھ ظلم وبربریت کی تمام حدیں پار کردی ۔ پہلے چوری کا الزام لگایا ،اس کے بعد دہشت گردوں کی بھیڑ نے بجلی کے کھمبے سے باندھ کر مسلسل 18 گھنٹے تک اس کی پٹائی ۔ جے شری رام ،جے ہنومان کا نعرہ لگوایا ۔بعد میں دہشت گردوں نے پولس کے حوالے کردیا جس نے الٹے تبریز کے خلاف ہی چوری کا کیس درج کرکے حراست میں لے لیا ۔ دو دن بعد اسے ہسپتال میں داخل کیاگیا لیکن زخموں اور حملوں کی تاب نہ لاکر وہ معصوم اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔پولس نے اب تک اس واقعہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ شدید احتجاج کے بعد جھارکھنڈ پولس نے جو کیس درج کیاہے اس میں ہجومی تشدد اور بھیڑ کے ذریعہ قتل کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے ۔ شہید تبریز انصاری کو ہی چوری کا ملزم بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سے قبل مدھیہ پردیش میں اسی طرح ایک خاتون سمیت تین مسلمانوں کو ایک بھیڑ نے بے دری سے ماراتھا اور جے شری رام کا نعرہ لگانے کیلئے کہاتھا۔

’گائے اور رام‘ ہندو سماج کے بھگوان ہیں ۔ گائے کو ماتا کی حیثیت حاصل ہے رام ان کے بھگوان ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ یہ انسانیت اور عدم تشدد کی علامت ہیں ۔ لیکن ان کے پجاری آج ان کے نام پر بے گناہوں کا قتل کررہے ہیں ۔ دہشت گردی کرکے ملک کی سلامتی کو تباہ وبرباد کررہے ہیں ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کا سبق نہیں دیتاہے لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں یہ حقیقت دنیا کے سامنے آگئی ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کو انجام دینے میں ہندو سماج سے تعلق رکھنے والے سر فہرست ہیں اور مذہب کے نام پر وہ دہشت گردی کرتے ہیں ۔ اپنے مذہب سے انہیں بے گناہوں کو قتل کرنے کا حوصلہ ملتاہے ۔زبردستی اپنا نعرہ لگواتے ہیں ۔ بے گناہوں کو مارتے ہیں ۔
ہندوستان میں ماب لنچنگ اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں ۔ یہ بھیڑ آج مسلمانوں پر حملہ کررہی ہے۔دوسرے نمبر پر دلت بھی ان کے نشانے پر ہیں ۔ عیسائیوں کو بھی یہ ماررہی ہے ۔ آئندہ دنوں میں یہ بھیڑ خود آپس میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوگی ۔ حکومت اور انتظامیہ پر اثر انداز ہوگی اور پھر ملک میں خانہ جنگی کی شروعات ہوجائے گی ۔مسلمانوں کیلئے اس طرح کے واقعات زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں ۔ مسلمانوں نے بہت مرتبہ مشکل وقت دیکھا ہے ، صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور اللہ تعالی نے ان کیلئے پھر حالات کو سازگار بنایا ہے ۔ ہندوستان کے سترسالوں میں مسلمانوں کواسی طرح خوف زدہ رکھنے کی کوشش ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد تقسیم وطن کے نام پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔ 1980 کی دہائی میں فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرکے دہشت پھیلایاگیا ۔ 1990 کی دہائی میں بابری مسجد کے نام پر مسلمانوں کو خوف زدہ رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ 2004 کے بعد حکومت نے دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کیا ۔ملک بھر سے دہشت گردی کے الزام میں مسلمانوں کو گرفتار کیا ۔ انڈین مجاہدین نام کی فرضی تنظیم تخلیق کرکے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو اس جوڑ دیا اور پھر انہیں اس کا ممبر بتاکر گرفتا ر کرنا شروع کردیا ۔ 2014 میں مودی سرکار آنے کے بعد ہجومی تشدد اور قتل کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف زدہ رکھنے اور ڈرانے کا عمل جاری ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہمیشہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ڈرانے کی منصوبہ بندی ہوئی ہے ۔ طریقے الگ الگ رہے ہیں ۔ہاں !حالیہ دنوں میں جو ہورہاہے وہ سب سے زیادہ سنگین ہے۔ مسلمانوں کا قتل اور ان پر حملہ سے زیادہ اہم مجرم کی جرات مندی، سرعام اعترا ف اور اپنے کرائم کی تشہیر ہے ۔ ایک شخص ایک بے گناہ پر حملہ کرتاہے ،اسے مارتاہے ،طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کرتاہے اور اس پوری کاروائی کی وہ ویڈیو شوٹ کرکے اسے عام کرتاہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل کیاجاتاہے تو اس سے مجرموں کے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں ۔ سماج میں اور کئی لوگ مجرم اور دہشت گرد بن جاتے ہین ۔ انہیں یہ احساس ہوتاہے کہ ہندوستان میں کرائم جرم نہیں ہے ۔ پولس اور انتظامیہ دہشت گردی کرنے پر کوئی کاروائی نہیں کرتی ہے ۔
یہ دہشت گرد عناصر اور ہجومی تشدد کرنے والا گروہ تنہا نہیں ہے ۔ جو کچھ یہ کرتے ہیں اتفاقی نہیں ہوتاہے بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہوتاہے ۔ اسے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔جھارکھنڈ میں بی جے پی لیڈر جینت سنہا ماب لچنگ کے مجرموں کاا ستقبال کرچکے ہیں ۔ محمد اخلاق کا کلیدی مجرم یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ریلی میں پہلے نمبر پر بیٹھتاہے۔ ملک کے وزیر اعظم ایسے سنگین واقعات پر خاموش رہتے ہیں ۔کل25جون کو پارلیمنٹ میں جب و ہ تقریر کررہے تھے تو پورے ملک کو امید تھی کہ وہ تبریز انصاری اور جھارکھنڈ میں ہورہی لنچنگ پر بھی کچھ بولیں گے لیکن انہوں نے اشارے میں بھی ایسا کچھ نہیں کیا جبکہ ایک روز قبل راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے انہیں مخاطب کرکے پورے واقعات کی تفصیل بتائی تھی اورپی ایم نے اسے بغور سنا بھی تھا ۔وزیر اعظم کے طر زعمل نے واضح کردیاہے کہ ان کی زبان اور دل میں کوئی مطابقت نہیں ہے ۔ وہ بولتے کچھ اور ہیںلیکن چاہتے کچھ اور ہیں ۔ وہ مسلمانوں کا وشواس جیتنے کی بات کرتے ہیں لیکن عملی مظاہرہ اس کے خلاف کرتے ہیں ۔
ماب لنچنگ اور دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں نے مایوسی کا مظاہرہ شروع کردیاہے ۔ حالات کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے وہ اپنی قیادت کے خلاف بھڑاس نکالنے لگے ہیں ۔یہ صورت حال ہمیں مزید پریشانیوں سے دوچار کرے گی ۔ وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں اور اگر ہم ان کے جال میں پھنس کر خوف زدہ ہونے کا تاثر دے دیتے ہیں تو وہ بہت آسانی سے کامیاب ہوجائیں گے ۔ مسلم قیادت اس وقت خود مشکل حالات سے دوچار ہے ۔ جس طرح کے حالات بنادیئے گئے ہیں اس میں پریس ریلیز جاری کرنا ، لیٹر ہیڈ کے ذریعہ مذمت کرنا اور میڈیا میں آکر کہنا کہ ”حکومت ماب لنچنگ کو بند کرائے ورنہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے “یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اور جو تنظیمیں یہ سب کررہی ہیں اس سے مزید حالات خراب ہوں گے ۔ مسلم قیادت فکر مند ہے ۔ ہمارے نوجوان دوست بھی سنجیدہ ہیں ۔ سول سوسائٹی بھی کمزور ہوجانے کے باوجود ابھی زندہ ہے ۔ سب لوگ اپنی سطح پر کام کررہے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہے وہ اپنا فریضہ نبھارہے ہیں ۔ حالات پررونے اور ہنگامہ کرنے کے بجائے ہم اپنی سطح پر مختلف شہروں میں احتجاج کریں ۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔ ٹوئٹر فیس بک وغیرہ پر ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹ کریں ۔ اس بارے میں مزید تفصیلات ہم اپنے اگلے کالم میں تحریر کریں گے ۔
stqasmi@gmail.com
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )