احمد آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار مشرا نے کہا کہ مذہب، ذات پات اور نسل کی بنیاد پر تفرقہ انگیز بیان بازی کا بڑھتا ہوا استعمال آئینی نظریات، بھائی چارے کے ساتھ ساتھ ملک میں اتحاد کے احساس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ جسٹس پرشانت کمار مشرا گجرات کے کھیڑا ضلع کے وڈتل میں وکلاء کی تنظیم آل انڈیا ایڈوکیٹس کونسل کی قومی کونسل کے اجلاس میں ‘برادری: آئین کی روح’ کے موضوع پر اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ سیاست دانوں کی جانب سے شناخت کی سیاست کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ تفرقہ انگیز نظریات، بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور سماجی ناانصافی بھائی چارے کے جذبے کے لیے بڑا خطرہ ہیں اور بھائی چارہ برقرار رکھنا عام شہریوں، اداروں اور رہنماؤں کی مشترکہ ذمہ داری ہے
بھائی چارے کے بغیر دیگر نظریات کمزور ہو جاتے ہین
جسٹس مشرا انہوں نے کہا، “آزادی، مساوات اور انصاف کے نظریات میں بھائی چارہ ایک ایسا دھاگہ ہے جو ہمارے جمہوری معاشرے کے تانے بانے کو جوڑتا ہے اور بھائی چارے کے بغیر دوسرے نظریات کمزور پڑ جاتے ہیں۔” جسٹس مشرا نے کہا کہ بھائی چارے کے لیے ایک بڑا چیلنج مذہب، ذات پات اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی بیان بازی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ “جب افراد یا گروہ ایسی چیزوں کو فروغ دیتے ہیں جو ایک کمیونٹی کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں، تو یہ آئین کی طرف سے تصور کردہ اتحاد کی روح کو کمزور کر دیتا ہے۔”
تفرقہ انگیز بیان بازی سے عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے
جسٹس مشرا انہوں نے کہا کہ شناخت کی سیاست بعض اوقات پسماندہ گروہوں کو بااختیار بناتی ہے لیکن یہ نقصان دہ ہو سکتی ہے جب یہ فلاح و بہبود کی قیمت پر صرف تنگ گروہی مفادات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اکثر ‘اخراج، امتیاز اور تنازع’ ہوتا ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا، ”تفرقہ وارانہ بیان بازی کمیونٹیوں کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرتی ہے، جس سے دقیانوسی تصورات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تناؤ سماجی بے چینی میں بدل سکتا ہے۔ “مزید برآں، جب سیاسی رہنما انتخابی فائدے کے لیے سماجی شناخت کا استعمال کرتے ہیں، تو یہ ان تقسیموں کو گہرا کر دیتا ہے، جس سے اجتماعی تعلق کا احساس پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔”