معصوم مرادآبادی
ہجومی تشدد میں جھارکھنڈ کے 24سالہ نوجوان تبریز انصاری کی وحشیانہ ہلاکت نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔اس درندگی اور بربریت کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کیا جارہا ہے ۔یوں تو ملک میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ہجومی تشدد کی بدترین وارداتیں ہوئی ہیں لیکن تبریز انصاری کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر سطح پر جو شدید رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے‘ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ہر کسی کو اس بات کا دکھ ہے کہ ایک بے قصور نوجوان کو محض اس لئے درندگی اور وحشت کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھا اور اس کا نام تبریز انصاری تھا ۔ جس وقت تبریز انصاری کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو وہ زخموں سے کراہ رہاتھا لیکن پولیس نے اس کا طبی معائنہ کرانے کی بجائے اسے چار دن حوالات میںرکھا ۔یہاں تک کہ زخموں کی تاب نہ لاکر اس کی موت واقع ہوگئی ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس نے حراست کے دوران تبریز انصاری سے اقبال جرم تو کرالیا لیکن اپنی رپورٹ میں ان وحشی درندوں کا کوئی ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کیا جنہوں نے تبریز انصاری کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر بری طرح مارا پیٹا تھا ۔تبریز انصاری ایک خلیجی ملک میں برسرروز گار تھا اور وہ عید کی چھٹیاں منانے اپنے گھر آیا ہوا تھا ۔اس کی شادی بھی چند ماہ پیشتر ہوئی تھی۔
اس بد ترین سانحہ کے چار دن بعد وزیر اعظم نریندرمودی نے تبریز انصاری کی موت پر افسوس کا اظہار تو کیا لیکن انہیں زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ آخر اس معاملے میں پورے جھارکھنڈ کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے ۔وزیر اعظم نے راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد کے اس بیان کا جواب دینا ضروری سمجھا جس میں انہوںنے کہا تھا کہ جھارکھنڈ ہجومی تشد د کا اڈہ بنتا جارہا ہے ۔اگر وزیراعظم ‘غلام نبی آزاد کے بیان کی تہہ میں جاتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہجومی تشد د کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں ‘اتنی پورے ملک میں نہیں ہوئیں ۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق جھارکھنڈ میں اب تک 18بے گناہوں کو ہجومی تشدد میں قتل کیا جا چکا ہے ۔وزیر اعظم کی طرح ہمیں بھی اس بات کا دکھ ہے کہ ہجومی تشدد کے معاملے میں جھارکھنڈ ہی نہیں پورے ملک کی بد نامی ہورہی ہے۔ ہم بھی وزیر اعظم کی طرح بد نامی کے اس کلنک کو ملک کی پیشانی سے مٹانا چاہتے ہیں لیکن یہ کلنک محض زبانی جمع خرچ سے نہیں مٹے گا بلکہ اس کے لئے وزیر اعظم کو کچھ ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ انہوںنے اقلیتوں کے دل سے خوف دور کرنے کے تعلق سے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں جو بیان دیا تھا وہ محض نمائشی بیان نہیں تھا ۔وہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے دلوں سے خوف وہراس دورکرنا چاہتے ہیں ۔
وزیر اعظم کو یہ بات بہرحال ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہجومی تشدد کی مسلسل وارداتوں کی وجہ سے جھارکھنڈ ہی نہیں پورے ہندوستان کی عالمی پیمانے پر بدنامی ہورہی ہے۔اس کا تازہ ثبوت مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی وہ رپورٹ ہے جس میں ہندوستان کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے جاری رپورٹ میں 2018میں مختلف ممالک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ہندوستان سے متعلق باب میں تفصیل سے ہجومی تشد د اور دیگر مسائل کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔رپورٹ میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ وجوہات کی بنا پر ہلاکتوں ‘حملوں ‘فساد ‘تعصب ‘غنڈہ گردی اور مذہبی عقائد پر عمل کے انفرادی حقوق کو محدود کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکمراں بی جے پی کے سینئر قائدین نے اقلیتی طبقات کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کیں ۔بعض غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اکثر حکام نے قصورواروں کو قانونی کارروائی سے تحفظ فراہم کیا۔
ہرچند کہ حکومت ہند نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مذکورہ رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ ملک کا آئین اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔اس سلسلے میں وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے نئی دہلی میں کہا کہ’’ ہندوستان کو اپنے سیکولرزم پر اعتماد ‘سب سے بڑی جمہوریت اور طویل عرصے سے چلی آرہی رواداری اور ہم آہنگی پر مبنی معاشرے پر فخر ہے ۔‘‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی رپورٹ کو مسترد کرنے کے لئے جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے‘ وہ یقینی طور پر بہت خوبصورت اور دل نشین ہیں لیکن ان الفاظ کی باز گشت پچھلے پانچ سال کے دوران اس ملک میں بالکل سنائی نہیں دی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ پچھلے دور اقتدار میں جہاں مسلمانوں پر گئو کشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے ان کی جانیں لی جارہی تھی‘ وہیںاب مسلمانوں کو’ جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے ۔گذشتہ ایک ہفتے کے دوران دہلی ‘کلکتہ ‘جھارکھنڈ اور بہار وغیرہ میں ایسی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں جس میں داڑھی اور ٹوپی رکھنے والے مسلمانوں کو زدوکوب کیا گیا ہے اور انہیں’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا ہے ۔’جے شری رام‘ کا نعرہ اتنی وسعت اختیار کرگیا ہے کہ وزیر اعظم کے جاپان پہنچنے پر وہاں مقیم ہندوستانیوں نے بھی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا ۔اس سے پہلے یہ نعرے پارلیمنٹ میں بھی بلند ہوچکے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایک سیکولر جمہوری ملک کے اندر مذہبی نعروں کی حیثیت کیا ہے اور انہیں اتنا فروغ کیوں دیا جارہا ہے کہ سرحد پار رہنے والے ہندوستانی بھی جے ہند کے بجائے ’جے شری رام‘ پکاررہے ہیں ۔کہیں یہ ہندوستان کے سیکولر جمہوری چہرے کو مسخ کرنے کی سوچی سمجھی اسکیم تو نہیں ہے؟
ہجومی تشد د کا شکار ہونے والے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے قتل میں ملوث افراد کے ساتھ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا رویہ انتہائی نرمی اور بھائی چارے کا ہے۔اس کا تازہ ثبوت تبریز انصاری کے واقعہ سے بھی ملتا ہے جس میں پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے کی بجائے پوری کارروائی تبریز انصاری پر مرکوز رکھی ۔یہاں تک کہ وہ موت کے منہ میں چلاگیا ۔ہجومی تشدد کی سب سے پہلی واردات ستمبر 2015میں اترپردیش کے دادری ٹائون میں ہوئی تھی جہاں محمد اخلاق نامی شخص کو گئو کشی کے جھوٹے الزام میں بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا ۔اس معاملے میں جتنے بھی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ سب ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور یہ مقدمہ اتنی سست رفتاری سے چل رہا ہے کہ شاید ہی کسی کو سزا ہوسکے۔ہجومی تشدد کے دیگر مقدموں کا بھی یہی حال ہے اور یہ سب کچھ سپریم کورٹ کی ان ہدایات کے باوجود ہورہا ہے جس میں قصورواروں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آنے کی بات کہی گئی ہے ۔
ہجومی تشدد کی وارداتوںکے خلاف یوں تو پورے ملک میں شدید غم وغصہ ہے لیکن تبریز انصاری کی وحشیانہ ہلاکت نے اس غم وغصہ کو اپنی انتہائوں تک پہنچا دیا ہے ۔ملک کے ہر شہر میں لوگ تبریز انصاری کی دردناک تصویر کے ساتھ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں مسلم قیادت اور مسلم تنظیموں کے اندر جو اشتراک عمل ہونا چاہئے تھا اس کا فقدان نظر آتا ہے ۔مسلم تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر بیانات جاری کررہی ہیں اور اپنے پر چم تلے احتجاج بھی کررہی ہیں لیکن حالات جس قدر سنگین رخ اختیار کرچکے ہیں ان کے پیش نظر کوئی اجتماعی حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے ۔ضرورت اس بات کی تھی کہ تمام مسلم جماعتیں سیکولر اور انسانیت دوست عناصر کو ساتھ لے کر اس قتل وغارت گری کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرتیں ۔لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔یہی حال سیاسی قیادت کا بھی ہے ۔پارلیمنٹ میں بھی مختلف پارٹیوں کے مسلم ممبران نے انفرادی آواز بلند کی ہے۔اگر تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ دیگر سیکولر جماعتوں کے ممبران کے ساتھ اشتراک کرکے کوئی بڑا احتجاج منظم کرتے تو اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ۔اتنے پریشان کن حالات کے باوجود مسلم قیادت اور مسلم جماعتوں میں انتشار کی کیفیت دیکھ کر کوئی حوصلہ مندانہ تصویر نہیں ابھرتی ۔ظلم وبربریت کے مسلسل واقعات پر لکھتے لکھتے ہمارا قلم بھی جواب دینے لگا ہے کہ آخر ہم کب تک حالات کا ماتم کرتے رہیں گے ۔ہم خود اس شعر کی تعبیر بنے ہوئے نظر آتے ہیں ؎
بہائیں اشک کب تک ‘ کریں آہ وفغاں کب تک
جگر کے خون سے لکھیں ستم کی داستاں کب تک
masoom.moradabadi@gmail.com