آسام میں مسلم خواتین کے ساتھ پولیس کی درندگی

عابد انور

پورے ملک میں مسلم خواتین اور مسلم لڑکیاں فرقہ پرستوں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور پولیس کا آسان شکار ہیں۔ اس طرح کے حالات پورے ملک میں ہیں۔ خواتین کی آبروریزی، ان کو ذلیل کرنا اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے اور ان میں دہشت پھیلانے کے لئے آبروریزی اور جنسی استحصال کو بطور ہتھیار استعمال کرنا فرقہ پرستوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ فرقہ پرستوں کے اس کام میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کا بھرپور تعاون ملتا ہے۔ یہی وجہ سے ان لوگوں کو سزا نہیں ملتی بلکہ پھولوں کے ہار سے ان کا استقبال ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے والے سیکڑوں ویڈیو اس کے گواہ ہیں کہ ملک مسلم خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہورہا ہے۔ ابھی حال ہی فیروز آباد میں مسلم لڑکیوں کو برقعہ پہننے پر کالج سے بھگادیا گیا اور کالج کے پرنسپل ڈنڈے لڑکیوں کو ہانکتے ہوئے نظر آئے۔ یہ صرف ٹریلر صحیح خبر تو ہم نہیں پہنچتی ہے۔پہنچتی بھی ہے تو اس وقت تک سب ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ابھی حال ہی میں آسام میں تین مسلم خواتین کو پولیس چوکی کے اندر سب انسپکٹر مہندر شرما اور خاتون کانسٹبل ونیتا بورا اور دیگر بہت بے رحمی سے مارا۔ ان مسلم خواتین کو پہلے برہنہ کیا گیا ہے اور اسے بری طرح مارا پیٹا، ان میں ایک خاتون حاملہ تھی جب اس کے حاملہ ہونے کی بات کہی گئی تو پولیس نے کہاکہ وہ ایکٹنگ کر رہی ہے اور اسے اور مارو اور پھر اسے اس قدر مارا گیا کہ حاملہ خاتون کا خون جاری ہوگیا اور اس کے بعد اس کا حمل ضائع ہوگیا، ان خواتین کے پوشیدہ اعضاء کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی، ظاہر سی بات ہے کہ جب ننگا کرکے مارا گیا تو پولیس اہلکاروں نے کیا گیا ہوگا۔ کس کس طرح عضو چھوا ہوگا، نفسیاتی طور پر کس قدر ذلیل کرنے کی کوشش کی ہوگی اسے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ جسم کے چاروں طرف نشان ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کس قدر بے رحمی سے جنسی زیادتی کے ساتھ پیٹا گیا ہے۔ان تین خواتین کو دیر رات پولیس افسر نے گھر سے اٹھایا جب کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایت ہے کہ رات کو خواتین کو گرفتار نہ کیا جائے۔ان خواتین سے بندوق کی نوک پر سادے کاغذ پر دستخط کرائے گئے۔  ان تینوں بہنوں کی عمر بالترتیب 18 ،28 ،30 سال ہے۔ ان خواتین میں سے ایک نے بتایا کہ پولیس دیر رات (رات ایک بج کر 30منٹ) میں میرے گھر میں آٹھ ستمبر کو داخل ہوئی اور جب میں نے پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے تو پولیس افسر نے کہاکہ سوال مت کرو اور پستول تان کر کہا کہ گولی ماردوں گا اور پستول کی نوک پر میری بڑی بہن، مجھے اور میری چھوٹی کو اٹھاکر لے گئے اور بورہا پولیس آؤٹ پوسٹ میں لے گیا اور پہلے ننگا کیا، میرے خفیہ اعضاء کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور ڈنڈے اور جوتے سے مارا ان متاثرہ نے کہاکہ جنسی زیادتی بھی کی گئی۔ ان میں ایک 28سالہ خاتون نے کہا کہ بورہا پولیس آؤٹ پوسٹ پر اس وقت مہندر شرما، او ر بنیتا بورا کے علاوہ چار پانچ پولیس والے تھے اور سب کو سزا دی جانی چاہئے۔ کیوں کہ ان سب نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ان خواتین کو اس لئے پولیس نے بربریت اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا کہ ان کے بھائی پر الزام ہے کہ اس نے ایک ہندو خاتون کو بھگاکر لے گیا اور پولیس اغوا کا معاملہ درج کرکے ان خواتین اس قدر درندگی کا نشانہ بنایا۔ جب کہ ان خواتین کا کہنا ہے کہ دونوں میں پیار و محبت کا معاملہ تھا اور خاتون اپنی مرضی سے اس کے بھائی کے ساتھ گئی ہے نہ کہ وہ بھگاکر لے گیا ہے۔

یہ اچھی بات ہے کہ آسام کے وزیر اعلی سروانند برنوال نے ڈی جی پی کو اس معاملے کی انکوائری کی ہدایت دی ہے اورڈی آئی جی نے انکوائری شروع کروادی ہے۔مہندر شرما اور بیتا بورا کو معطل کیاگیا ہے اور اس کے خلاف فوجداری کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے لیکن انصاف ہوگا یا یہ کہنا مشکل ہے کیوں عام طور اس طرح کی چیزیں لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی جاتی ہیں اور پولیس پھر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے لیپا پوتی کرکے معاملہ کو ختم کردیتی ہے۔جیسا کہ 90 فیصد سے زائد مسلمانوں کے معاملات میں سامنے آئے ہیں۔ قومی کمیشن برائے خواتین نے بدھ کے روز آسام کے ضلع دارنگ میں ایک پولیس چوکی میں تین خواتین کو  طور پربرہنہ کرنے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے کے ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف ریاستی پولیس سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔کمیشن نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے یہاں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کے پولیس ڈائریکٹر جنرل سے اس معاملے میں فوری کارروائی کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کو کہا گیا کہ ملزم افسران کو سخت سے سخت سزاملے۔ کمیشن کے مطابق، یہ واقعہ  اس لئے بھی افسوسناک ہے کیونکہ اس کو پولیس افسران نے انجام دیا ہے، جو امن و امان برقرار رکھنے اورجن پر عوام خصوصاً خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ اس نے کہا کہ جن خواتین کو پولیس اہلکاروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے وہ کسی جرم میں ملوث نہیں ہیں۔خواتین کمیشن نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

اسی کے ساتھ حال ہی اترپردیش کی ضلع چندولی میں ایک 15سالہ مسلم لڑکی کو زندہ جلانے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ جلانے سے پہلے اس لڑکی کا پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ آؤٹ لک انڈیا کی رپورٹ کے مطابق لڑکی 60 فیصد جل گئی ہے اور اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسپتال میں داخل کرنے والے لڑکے نے بتایاکہ 60 فیصد جلی حالت میں داخل کرایا گیا ہے جب کہ شہر ایس پی نے اسے 45 فیصد بتایا۔ اسی طرح مہراج گنج کی ایک مسلم خاتون نے فیس بک پر ایک ویڈیو جاری کرکے پولیس پر زانی کو بچانے کا الزام لگایا ہے۔ اس خاتون میں اپنے  ویڈیو میں کہا ہے کہ مہراج گنج میں ایک کرائے کے مکان کی رہتی ہوں اور مکان مالک کا بھتیجہ انیش ورما ایک دن جبراً اس کے کمرے میں گھس آیا اس کی آبرو لوٹ لی اور اس کا ویڈیو بھی بنایا اور کسی نہ بتانے اور جان سے مارنے دھمکی دیکر چلا گیا۔ اس کے بعد پریشان کرنا ان کا معمول بن گیا۔ جس کی وجہ سے اس خاتون کووہاں مکان چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑا لیکن وہ انیش ورما وہاں بھی آگیا اور زبردستی کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس خاتون نے موبائل چھین لیکر کوتولی پہنچی اور کوتوال رام دھن موریہ کو موبائل دیا اور سارا واقعہ سنایا۔ کوتوال نے انیش ورما کو بلاکر لاک اپ میں بند کردیا اور اس مسلم خاتون سے کہا کہ تم جاؤ میں اس کو جیل بھیج دوں گا لیکن کوتوال نے اسے پیسے لیکر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد انیش ورما سیدھے اس مسلم خاتون کے پاس پہنچا اور گلی گلوج کرنے لگا۔ انیش ورما نے کہاکہ تم کوتوال کے پاس گئی تھی، میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور تمہارے بچے کو اٹھالے جاؤں گا۔ پھر مسلم خاتون ایس پی کے پاس گئی جو نہیں ملے، اس کے بعد سی او کے پاس گئی تو سی او نے اس پر کارروائی ہوگی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ خاتون نے ویڈیو میں کہا کہ میں ایس پی اور سی او کا چکر لگاتے لگاتے تھک چکی ہوں اور انیش ورما اب بھی پریشان کرتا ہے اور بچوں کو مارنے اور اٹھانے کی دھمکی دیتا ہے۔ میری ساری پریشانیوں کا ذمہ دار رام دھن موریہ نے جس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔  اس واقعہ کے بعد میرے شوہر نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے میں کہاں جاؤں، کیسے گزارہ کروں، کیسے لڑوں۔ یہ صرف ایک رخسار کا ہی واقعہ نہیں ہے۔ لکھنؤ، کوشی نگر، پڈرونہ اور اترپردیش کے مختلف اضلاع سمیت پورے ملک میں اس طرح کے واقعات روز کا معمو ل بن گئے ہیں۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں اس طرح کے واقعات بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ پولیس اہلکار، انتظامیہ مجرمین کے خلاف کارروائی کرنے سے ڈرتے ہیں بلکہ بیشتر جگہ پولیس والے ا ن کا بھونپو بن جاتے ہیں۔

مدھیہ پردیش کے مندسور میں 2016 میں بیف کے شک میں دو مسلم خواتین سے مار پیٹ کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ جب گورکشک خواتین سے مار پیٹ اور گالی گلوچ کر رہے تھے تو پولیس والے بھی وہاں کھڑے تھے۔ واقعہ مندسور کے ریلوے اسٹیشن کاتھا۔ مار پیٹ کے دوران ریلوے اسٹیشن پر کافی تعداد میں لوگ بھیڑ کے طور پر موجود تھے۔ لوگ تماش بین بن کر وہاں دیکھتے رہے، انہوں نے خواتین کو مار پیٹ کر رہے لوگوں سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ مکمل ماجرا دیکھنے والے لوگ ویڈیو بنانے میں مشغول تھے۔ ویڈیو میں خواتین کے ساتھ گورکشکو ں کے مار پیٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔پولیس نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی، لیکن بھیڑ سے دونوں خواتین کو نہیں چھڑا پائی۔پولیس ریلوے اسٹیشن پر دونوں خواتین کو گرفتار کرنے پہنچی تھی۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ یہ دو عورتیں فروخت کے لئے بھاری مقدار میں بیف لے کر آ رہی ہیں۔ پولیس کی طرف سے دونوں خواتین کو پکڑے جانے کے بعد بھی اسٹیشن پر موجود بھیڑ خواتین کے ساتھ مار پیٹ کرتی رہی۔ ویڈیو میں دکھائی دے رہا تھا کہ بھیڑ نے خواتین کو گھیر رکھا ہے اور وہ گؤ ماتا کی جے کے نعرے لگا رہے تھے۔ خواتین کو تھپڑ اور گھونسے مارے جا رہے ہیں۔ مارنے والوں میں  جہاں مرد تھے وہیں خواتین کارکن بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بجرنگ دل کے کارکن تھے۔ جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ پولیس کے سامنے بھیڑ خواتین کے ساتھ آدھے گھنٹے تک مار پیٹ کرتی رہی۔ ساتھ ہی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ مقامی ڈاکٹروں کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ گوشت بھینس کا تھا نہ کہ گائے کا۔ تاہم، دونوں خواتین کے خلاف اب بھی کارروائی کی جائے گی کیونکہ ان کے پاس گوشت فروخت کرنے کا اجازت نامہ نہیں تھا۔ جب کہ خواتین نے کہاکہ ان کے پاس اجازت نامہ جسے انہوں نے دکھایا تھا لیکن ان لوگوں نے اسے پھاڑ دیا تھا۔ لیکن پولیس نے خواتین کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیر داخلہ بھوپندر سنگھ نے کہا، ‘کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔اس کی جانچ کی جائے گی۔

مذکورہ خواتین نے اپنے اشتعال انگیز بیان میں انتہا پسند ہندوؤں کو مسلم خواتین کے خلاف تشدد اور جنسی زیادتی پر اکسایا تھا۔ بی جے پی مہیلا مورچہ کی لیڈر سنیتا سنگھ گوڑ نے اپنے شرم ناک بیان میں انتہا پسندوں کو ترغیب دی تھی کہ وہ دس افراد پر مشتمل گروہ بنا کر سرعام مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائیں۔انہوں نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ ہندو نوجوان دس دس، بیس بیس کا گروہ بناکر مسلمان کے گھر جائیں اور ان کی ماؤں اور بہنوں کی اجتماعی آبروریزی کریں۔ بیچ بازار میں آبروریزی کریں اور انہیں کاٹ کر ٹانگ دیں۔ اس سے قبل اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کہہ چکے ہیں کہ مسلم خواتین کی قبر سے نکال کر آبروریزی کی جائے۔ اس کے علاوہ بی جے پی، سنگھ پریوار اور اس سے منسلک سیکڑوں تنظیموں کا نظریہ مسلم خواتین کے سلسلے میں آچکا ہے۔اس لئے ہندو افسران کے دل قانون کا خوف نکل چکا ہے اور یہاں کی عدلیہ بھی انصاف کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں کی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کے لئے ہندوؤں کو اکساتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے زور و شور سے ماب لنچنگ، مسلم خواتین کے ساتھ چھیڑ خوانی اور آبررویزی کے واقعات حکومت اور پولیس کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔ کیوں کہ جہاں جہاں اس طرح کے واقعہ پیش آیا ہے وہاں پولیس کی موجودگی دکھائی دیتی ہے۔ اترپردیش، ہریانہ، پنجاب، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، جھارکھنڈ، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں سر عام ہندو انتہا پسند تنظیم کے غنڈے مسلمانوں اور دلتوں کو پیٹے ہیں اور ویڈیو بناکر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر بھی ڈالتے ہیں اور ایک طرح سے چیلنج کرتے ہیں کہ ہندوستانی قانون ان کا کچھ بگاڑ سکتا ہو تو بگاڑے لے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی، سوشل میڈیا میں بہت شور مچنے کے بعد گرفتاری عمل میں آئی اور کب پولیس اسے چھوڑ دیتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔اگر پولیس مقدمہ درج کرتی ہے تو اس قدرآسان دفعہ کے تحت درج کرتی ہے وہ آسانی سے تھانے سے چھوٹ جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے مندسور اور رتلام میں دو جگہ مسلم خواتین کو گائے کے گوشت رکھنے کے الزام میں سرعام پٹائی کی گئی اور پولیس نے غنڈوں کو گرفتار کرنے کے بجائے مسلم خواتین کو جیل میں ڈال دیا تھا۔