کافری پوچھ رہی ہے میرے ایماں کا مزاج

مولانا محمود احمد خاں دریابادی 

    جمہوریت میں اختلاف کے اظہار اور اپنے مطالبات منوانےکے لئے جہاں اور بہت سے طریقے ہیں ان میں احتجاج بھی ہے۔

  مگر یہ بھی تجربہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے وہاں ہماری جمہوریت آمریت سےبدل جاتی ہے۔ مثلاً جاٹ اندولن یاد کیجئے جس نے بیک وقت یوپی، پنجاب اور ہریانہ جیسی بڑی ریاستوں کو معطل کردیا تھا، راستے بند تھے، پٹریاں اکھاڑدی گئی، ہائی وے پر مسافروں سمیت گاڑیوں کو جلایا گیا، مگر تعجب یہ ہے کہ پولیس نے ایک بھی گولی نہیں چلائی، ابھی آسام میں جو احتجاج ہورہا ہے، بسیں، گاڑیاں، سرکاری دفاتر جلائے جارہے ہیں، وہاں کے وزیر اعلی کو پانچ گھنٹے ائیر پورٹ کی عمارت میں قید رہنا پڑا، مگر چونکہ احتجاج کرنے والے زیادہ تراکثریتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اب تک وہاں بھی پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ اس کے برخلاف بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب مسلمان احتجاج کے لئے سڑکوں پر اُترے تو انھیں بے تحاشا گولیوں کا سامنا کرنا پڑا، اکیلے ممبئی میں دوہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے۔

  اس لئے ہمارے جو اکابر سڑکوں پر احتجاج سے منع کررہے ہیں اُن کے پیش نظر اسی قسم کے تجربات ہیں، ساتھ ہی یہ بھی جاننا چاہیئے کہ جو مسلمان ایسے احتجاج میں شہید ہوجاتے ہیں بعد میں اُن کے پسماندگان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد ہے سلمان رشدی کے خلاف احتجاجی جلوس میں بارہ مسلمان پولیس کی گولی سے شہید ہوئے تھے۔ ممبئی کے ایک نیتا نے ایک شہید کی بیوہ کو سلائی مشین عطا فرمائی تھی اور آنے والےتین الیکشن میں اُس بیوہ کی مشین وصول کرتی ہوئی تصویر کو الیکشن پوسٹر میں استعمال کیا۔

  اس سب کے باوجود بندے کا خیال یہ ہے کہ ہمیں احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنا چاہیئے، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہر چھوٹی موٹی تنظیم، سیاسی عزائم رکھنے والے چھٹ بھیئے نیتا جذباتی تقریریں کرکے مسلمانوں کو سڑک پر اتار دیں۔

    حالات کی نزاکت اور دور اندیشی کو سامنے رکھ کر اجتماعی فیصلے ہونے چاہیئے۔

   ہاں! احتجاج میں طلبہ مدارس کے استعمال سے میں متفق نہیں ہوں، ماں باپ مدرسوں میں طلبا کو احتجاج کے لئے نہیں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں، طلبا مدرسوں میں ماں باپ کی امانت ہوتے ہیں، ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے کہ اس امانت کو ہر قسم کے خطرات سے بچائیں۔

  بندے کے خیال میں اس وقت سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ آنے والے این آرسی قانون کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی جائے، اس لئے کہ CAB کا نقصان این آرسی نافذ ہونے کے بعد ہی ہوگا ـ تمام اکابرین، تمام ملی، سماجی اور تعلیمی تنظیموں کے ذمہ داران اجتماعی فیصلہ کریں اور شہر شہر، گاؤں گاؤں، محلہ محلہ، گھر یہ آواز پہونچائیں کہ آنے والے این آرسی میں کوئی حصہ نہیں لے گا۔

 ہندوستان میں بیس کڑور مسلمانوں کو ملک بدر کرنا، ان سب کے لئے ڈینشن سینٹر کا انتظام اگر یہ لوگ سر کے بل کھڑے ہوجائیں تب بھی نہیں کرسکیں گے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں