لال جھنڈے تلے، سرخ سویرے کے راہی

مولانا عبدالحمیدنعمانی

گزشتہ دنوں کمیونسٹ پارٹی کے بڑے لیڈر سیتا رام یچوری کی رحلت کے ساتھ ہی ایک بار پھر پارٹی اور سیکولر ازم کی ایک مضبوط آواز کے تعلق سے کئی باتیں زیر بحث موضوع بحث آگئی ہیں، کمیونسٹ پارٹیوں کے ابھار اور زوال کے دور میں ترقی پسند ادب و تحریک اور سیاست کے رخ کو لے کر ماضی سے حال تک مختلف امور حتی کہ نکسلی تحریک، ماؤ واد، کسان، مزدور، سرمایہ داری، مذہب و اخلاق، ملک کی تحریک آزادی، باہر کے درآمد افکار وغیرہ بھی زیر بحث آتے رہے ہیں، گزرتے دنوں کے ساتھ، کمزور ہوتے ہوئے سیاسی اقتصادی اور سماجی رول نے کئی قسم کے سوالات کے ساتھ، ملک میں کمیونسٹ پارٹیوں کی ضرورت کا سوال بھی کھڑا کیا ہے، خاص طور سے بھارت کے فرقہ وارانہ ماحول میں فرقہ پرستی کی موثر مزاحمت کے سوال کو فرقہ وارانہ نفرت و تقسیم اور فرقہ و مذہب کے نام پر انصاف و مساوات کے سلسلے میں ملک باشندوں کے درمیان مختلف سطحوں پر تفریق، سب سے نمایاں اور قابل اصلاح معاملہ ہے، جات پر مبنی اونچ نیچ بھی ملک کا ایک سنگین معاملہ ہے، اس پر حال ہی میں سپریم کورٹ نے قیدیوں کے درمیان جات کی بنیاد پر تفریق پر سخت تبصرہ کیا ہے، فرقہ وارانہ نفرت و امتیاز، اس سے بھی زیادہ خطرناک اور انصاف و مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے فرقہ پرستی کے معاملے میں دوہرے معیار اپنانے اور اکثریت کا ووٹ پانے کے لیے کئی سارے معاملے میں مختلف مواقع پر سیکولر کہی سمجھی جانے والی پارٹیوں کو بھی بارہا، ادھر ادھر ہوتے اور فرقہ پرستی سے سمجھوتا اور مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے دیکھا گیا ہے لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کے سلسلے میں فرقہ پرستی اور مذہبی علامتوں کے غلط استعمال کے تعلق سے ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے، کئی باتوں کے بارے میں کمیونسٹوں پر کئی سارے الزامات و اعتراضات عائد کیے جاتے رہے ہیں، گوپال متل نے کئی کتابوں، پتھر کے دیوتا، صحرا میں اذان، ادب میں ترقی پسندی، سوشلزم، کارل مارکس اور رسالہ تحریک میں اشتراکی طرز فکر و حکومت اور کمیونسٹوں کے مختلف مسائل میں اختیار کردہ رویے و پالیسی پر خاصی تنقید کی ہے لیکن بھارت میں ان کی فرقہ پرستی کے خلاف اور سیکولر کردار پر کوئی سوال نہیں اٹھایا ہے، ان کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اخبارات و جرائد نے فرقہ پرستی کے خلاف بڑی مضبوطی سے لڑائی لڑی ہے، علی سردار جعفری، شمیم فیضی، سیتا رام یچوری وغیرہ نے فرقہ وارانہ مسائل کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں فرقہ پرست عناصر اور فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے عروج میں بہت سے اسباب کے علاوہ کمیونسٹ پارٹیوں کی کمزوریوں اور سیاسی لحاظ سے بری طرح سکڑ جانے اور غیر موثر رول بھی سب سے بڑا سبب ہے، اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ محنت کشوں، کسانوں، اور مزدوروں کی اہمیت کا احساس کرانے میں کمیونسٹ پارٹیوں اور ان کے تحت قائم مختلف تنظیموں کا بڑا رول ہے، اس کی اثر اندازی اور اہمیت کا احساس آر ایس ایس کو اس قدر ہوا تھا کہ اس نے گرو گولولکر کی رہ نمائی میں بھارتیہ مزدور سنگھ قائم کیا، گرو گولولکر ،کمیونسٹ خطرے کو شدت سے محسوس کرتے تھے خاص طور سے آزادی کے بعد، انھوں نے سنگھ کے پرچارک دتو پنت ٹھینگڑی کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ لال لیبر یونین میں گھس کر تجربے حاصل کر کے اپنی لیبر یونین قائم کرنے کی راہ ہموار کی جائے، اسی کے تناظر میں جولائی 1955 میں، دلچسپی رکھنے والے سنگھ سے وابستہ افراد نے کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس کے زیر اہتمام قائم آل انڈیا ٹریڈ یونین اور انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس کے مقابلے میں بھارتیہ مزدور سنگھ قائم کیا اور اپنے مخصوص نظریے کے مطابق اس کا رشتہ اپنی قسم کے ہندوتو پر مبنی راشٹر واد سے جوڑ دیا اور مذہبی و شخصی علامت، دست کاری کے حوالے سے معروف دیوتا، وشو کرما اور بال گنگا دھر تلک کو شامل کر کے تحریک کو لال جھنڈے کے مقابلے بھگوا جھنڈے کے زیر سایہ لانے کا کام کیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعد کے دنوں میں خاص طور سے 2014 سے بھارتیہ مزدور سنگھ کا اثر کم اور دیگر طرح کے فرقہ وارانہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آ گئے ہیں، ان کا مقابلہ اپنے کمزور ہوتے رول اور سیاسی اثرات کے باوجود کمیونسٹ پارٹیوں خصوصا سی پی آئی ایم نے کیا اور کسی موقع پر بھی فرقہ پرستی سے سمجھوتا نہیں کیا، اس کا اعتراف، سیتا رام یچوری کی رحلت کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور تنظیموں کے سربراہوں نے بھی کیا ہے، ہماری کئی تنظیمیں اس سلسلے میں کچھ تحفظات رکھتی ہیں تاہم آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکرٹری اور آئی او ایس کے رہ نما ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اس کا اظہار و اعتراف کیا کہ یچوری نے ہمیشہ دبے کچلے اور پس ماندہ طبقات کے حقوق کی جنگ لڑی اور سماجی انصاف، برابری اور سیکولر ازم کی پاسداری کی، یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں فرقہ پرستی کے خلاف مزاحمت کے تناظر میں کمیونسٹ پارٹیوں کی ایک معنویت و اہمیت کے ساتھ افادیت بھی ہے، مولانا اسعد مدنی رح علماء اور سیاسی اشخاص میں کل ملا کر بہت زیادہ عملی آدمی تھے انہوں نے کئی بار ہمارے سامنے بھی کہا کہ ہندستان میں فرقہ پرستی کے خلاف، کمیونسٹ ایک موثر عنصر ہیں اس سلسلے میں ان سے اشتراک مفید ہے، اس پر تا حیات وہ عمل پیرا بھی رہے، جمعیۃ علماء ہند کے مختلف پروگراموں اور اجلاسوں میں کمیونسٹ پارٹیوں کے معروف لیڈروں کو مدعو کرنے پر برابر زور دیتے تھے ،یہ خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی ہند تک ان کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرتی ہے، یہ طرز عمل، ملک و قوم کے مشترک مسائل میں ایک جمہوری نظام حکومت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے، اس سے ” سقوط ماسکو “وغیرہ کا کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے ،بھارت کے بنیادی مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ، آزادی کے بعد قائم سیکولر آزاد بھارت کو ہندو راشٹر اور ہندو بھارت میں تبدیل ہونے سے بچانے کا ہے، ابھی 3/اکتوبر کو سنگھ سربراہ ڈاکٹر بھاگوت نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت پہلے ہی سے ہندو راشٹر ہے، صرف اسے طاقت ور بنانا ہے، یہ خلاف آئین بیان ہے، جس کی پوری طاقت سے مزاحمت کی ضرورت ہے، اس کو ہلکے میں لینا ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ قرار پائے گا، سیتا رام یچوری نے اس دعوے کو بہت پہلے سنجیدگی سے لیتے ہوئے، “سنگھیوں کا ہندو راشٹر ہے کیا ” کے عنوان سے خاصی تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے، یہ اردو، انگریزی، ہندی میں کتا بچے کی شکل میں شائع شدہ ہے، اس میں گرو گولولکر کی نایاب اور منظر سے غائب کر دی گئی کتاب، We Or Our Nation hood defined, کے حوالے سے آر ایس ایس کے مقاصد و نظریات کو پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ بھارت کو اس کی طرف سے کیا سے کیا بنانے کے عزائم ہیں اور ہندو راشٹر کس طرح کا ہو گا، ؟-تحریر میں آر ایس ایس کے متعلق کئی اہم باتوں کو جمع کیا گیا ہے، مثلا یہ کہ سنگھ کے اخبار آرگنائزر( 10مئ 1992) نے یہ رپورٹ شائع کی کہ وشو ہندو پریشد کی طرف سے 18/19 اپریل 1992 کو منعقد مدورئی اجلاس میں آئین کا جائزہ لے کر اس کے از سر نو تیار کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا، یوپی کے وی کے ایس چودھری ایڈووکیٹ نے اپنے افتتاحی خطاب میں زور دے کر کہا کہ منو سمرتی میں سب کے لیے انصاف کا بندوبست ہے، منو نے پوری انسانیت اور ہر زمانے کی ضرورتوں کے پیش نظر قانون تیار کیا تھا، وہ تمام زمانوں اور پوری انسانیت کے لیے ہے،( دیکھیں کتابچے کا صفحہ 19)

یچوری نے پورے جائزے کے بعد لکھا ہے کہ ہندو راشٹر میں غیر انسانی، جات پر مبنی اذیت رسانی کو منظوری دی جائے گی،

کمیونسٹوں کا ہندوتو، ہندو راشٹر، فرقہ پرستی، استحصالی سرمایہ داری اور فلسطین کے متعلق موقف بہت صاف ہے، ان باتوں کی ماضی میں ایک حلقے میں خاصی مقبولیت تھی، بعد میں کچھ وجوہ سے وہ کم سے کم تر ہوتی چلی گئی، کانگریس اور دیگر مبینہ سیکولر پارٹیوں سمیت، خاص طور سے کمیونسٹ پارٹیوں کو ایمانداری سے جائزہ لینا ہو گا کہ فرقہ پرستی اور ہندوتو کو کس طرح ترقی و توسیع ملی اور ان کی طرف سے کہاں کمی رہ گئی کہ ملک میں موجودہ حالات پیدا ہوئے، ؟ایسا تو بالکل نہیں ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کا وجود بالکل ختم ہو گیا ہو، ملک کے کئی حصوں کے انتخابی حلقوں میں ان کے امید وار کامیاب ہوئے ہیں، سال رواں کے عام انتخابات میں بھی، بہار، کیرلا، تامل ناڈو، راجستھان وغیرہ سے کئی امید وار پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں، ابھی حال میں سری لنکا میں تیسرے متبادل کی شکل میں کمیونسٹ لیڈر انورا کمار دسنائیکے نویں صدر منتخب ہوئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ مختلف ممالک میں وہاں کے سماجی، تہذیبی، مذہبی و سیاسی حالات سے موافقت پیدا کر کے، آزادی، انصاف، برابری کا لحاظ کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹیاں بھی ایک بہتر رول ادا کرنے کے ساتھ سرخ سویرے کی راہی بن سکتی ہیں ،چاہے جتنے محدود پیمانے پر ہو ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com