سمیر چودھری دیوبند
اردو ادب سے گزشتہ روز تاجدار تاج ؔ کی شکل میں ایسا ستارہ غروب ہوگیا جسے اردو ادب میں ہمیشہ احترام و عقیدت سے یاد کیا جائے گا۔تاجدار تاج اردو شاعری میں معتبر شخصیت کے حامل تھے ،جنہوں نے اردو ادب میں نئی جہتیں قائم کیں ،تاجدار نے اگر چہ فلمی میدا ن میں قسمت آزمائی کی ہے مگر ان شاعری میں اسلامی روایات کو بھی نہایت خوبصورت اور سلیقہ مندی سے پیش کیا ،جہاں انہوں نے سماج اور انسانیت کے درد دکھ کوعیاں کر کے ذہنوں کو جھنجھوڑا ہے وہیں رونمانیت سے بھرپور ان کی شاعری نے غزل کے باب میں نئے دریچے کھولے ہیں۔ تاجدار احمد تا ج نے تقریبا10؍ سال کے عرصے میں پر دۂ سیمیں سے وابستہ رہ کر عہد قدیم کی مشہور فلمیں ،رئیس زادہ ،انسان اور انسان ،رام بھر وسے ،راکھ اور چنگاری، بہار آنے تک کے علاوہ تقریبا 35؍ فلموں کی نغمہ نگار ی کی ۔اپنی مترنم اور مخصوص نغمہ نگار ی کی بناپر اس دور کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہنشاہ جذبات دلیپ کما ر اور مشہور اداکار راجیش کھنہ کے دلوں میں جگہ بنا نے والے تا جدار تاج نے بالآخر فلمی تقاضوں کی عدم تکمیل کے سبب1990ء میں نغمہ نگار سے علیحدگی اختیار کر لی ۔اپنے دل میں بھر پور اردو کا درد رکھنے والے تاجدار مگر اپنی سنجیدہ اور رومانی شاعری کے ذریعے اردو کی آبیاری کر تے رہے ۔ تاجدار تاجؔ گزشتہ روز عمر77؍سال ممبئی میں انتقال کرگئے ۔تاجدار تاجؔ علم و ہنر کی بستی دیوبند کے رہنے والے تھے ان کا اصل نام محمد اسلام تھا تقریباً پچاس سال پہلے ممبئی کی سکونت اختیار کی اور ابتداء میں وہ فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے ،30؍35فلموں میں گیت لکھے ان کے مشہور فلمی نغموں میں’’لٹ الجھی ہے سلجھا دے مورے بالما ‘‘’’اے مصور میرے محبوب کی تصویر بنا‘‘شامل ہیں ،ایک وقت کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے تعلق منقطع کرلیا گذشتہ 25سال سے فلمی دنیا سے انہوں نے کوئی رابطہ نہیں رکھا ،تاجدار تاجؔ اپنے مخصوص لہجے اور فکر کی بنیاد پر اردو دنیا میں پہچانے جاتے تھے ان کی شاعری ان کی شناخت تھی اور بلاشبہ یہ شناخت انفرادیت کی حامل تھی ،بڑا رچا بسا لہجہ تھا ،زبان بڑی البیلی اور فکر چست تھی۔ انہوں نے شاعری کے جو نمونے چھوڑے ان میں ’’زبر‘‘ ’’آوارہ پتھر‘‘اور ’’برفیلی زمین کا سورج‘‘کو شہرت حاصل ہوئی بچوں کے لئے بھی بیشمار نظمیں کہیں جن کے دو مختصر مجموعے ممبئی اور دہلی کے معتبر ناشرین نے شائع کئے وہ اس وقت ایک اردو لغت کی ترتیب میں مصروف تھے ،مگر یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور اب ان کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد اس کام کے مکمل ہونے کے آثار بھی ختم ہوگئے ہیں۔تاجدار تاجؔ کا آخری مجموعہ کلام ’’برفیلی زمین کا سورج‘‘کے نام سے منظر عام پر آیا جس کی رسم اجراء ممبئی اور پھر دیوبند میں مئی 2016کو عمل میں آیا جس میں اردو دنیا کی نامور شخصیتوں نے شرکت کی ۔دیوبند میں ان کی آمد ورفت کافی تھی اور اپنے اس وطن اصلی کو کبھی فراموش نہیں کیا ،بڑے شاعر تھے لیکن یہاں کی ادبی نشستوں میں جن میں سے اکثر ان کے اعزاز میں ہوتیں ضرور شریک ہوتے ،سادہ مزاج اور صاف گو انسان تھے ،بلند کردار تھے ،اور چھوٹے بڑوں کے ساتھ خوش مزاجی کے ساتھ پیش آتے تھے ،احتجاج ،کھری بات کہنا ، حقائق پیش کرنا ان کی شاعری کا بنیادی عنصر ہے تاجدار تاجؔ نے اردو شاعری کو ایک نئے آہنگ اور لہجے سے متعارف کرایا ہے ،ان کے یہاں لفظیات کا استعمال خوب تھا ،احتجاج ان کی پہچان تھی اور بلاشبہ وہ اس وقت اردو شاعری کا بلند وبالا اور بنیادی نام تھا۔تاجدار تاج کوجہاں اردو کی زبوں حالی کا سخت افسوس تھا وہیں وہ اس کے فروغ او رترویج و ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں نظر آتے تھے۔ انہوں نے اسی سال مئی میں سفر دیوبند کے دوران اپنی گفتگو میں زور دے کر کہا تھا کہ اپنے تہذیبی ورثے کی بقاء و تحفظ کیلئے بالخصوص اسلامی شناخت کو زندہ و تابند ہ رکھنے کیلئے اپنے بچوں کو اردو تعلیم دلانا نا گزیر ہے ۔ دور حاضر میں وقت رہتے اردو کے واجب حقوق کی بازیافت نہ کی گئی تو یہ زبان بتدریج عوام سے اپنا رشتہ منقطع کر دیگی ۔تاجدار تاج پوری اردو دنیا کو غمگین کرکے آخری سفر پر روانہ ہوگئے لیکن ہمیشہ اردو ادب میں ان کانام احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔
تاجدار تاج کے ان کے پسندیدہ اشعار
کون یہ شمعیں خریدیگا تمہاری بابا
سار ی بستی ہے اندھیروں کی پجاری بابا
میری فصلیں تیر ی نفرت نے جلادیں پھر بھی
میں ادا کرتا رہا مال گزاری بابا
*
نئی رت کے پرندوں کو نئی فکرو نظر دیدے
نشیمن کیلئے تنکے نہیں بر ق و شرر دیدے
*
مسئلہ یہ ہے کہ ستم حد سے گزر جائے تو پھر
سوچتے سو چتے احساس بھی مر جائے تو پھر
ہم اسی خو ف سے زخمو ں کو رفو کر نہ سکے
اتفا قا تیر ی تصویر ابھر جا ئے تو پھر