بے نظیر ”بت تراش“ اور خاکہ نگار مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ

عمر فاروق قاسمی     

(یہ مضمون میرے تحقیقی مقالہ”نورعالم خلیل امینی: احوال و آثار (اردو زبان وادب کے حوالے سے)“ کے دوسرے باب خلیل امینی کے معاصرین سے ماخوذ ہے۔اس حصے کو لکھنے سے پہلے راقم الحروف نے حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مرحوم سے بہ ذریعہ فون رابطہ بھی کیا تھا اور ان کے ذریعہ فراہم کردہ مواد کی روشنی ہی میں یہ حصہ ترتیب دیا گیا تھا، یہ مضمون دونوں مرحومین کے درمیان تعلقات کے پس منظر میں ہے؛لیکن اس سے مولانا مرحومؒ کی شخصیت کے مختلف گوشے اجاگر ہوتے ہیں، اس لیے کچھ ترمیم اور حذف و اضافے کے ساتھ نذرقارئین کیا جاتا ہے۔حذف و اضافے کے اس عمل میں اگر کسی قسم کی بے ترتیبی درآئی ہے تو راقم معذرت خواہ ہے۔ عمرفاروق قاسمی)

 زبان و قلم کے جادو گر مولانانسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش ٢٥ /اگست ١٩٦٠ کو دیوبند میں ہوئی، نسیم شاہ ان کا اصلی نام ہے اور نسیم اختر شاہ قیصرقلمی نام ہے۔معروف صحافی محمد ازہر شاہ قیصر ان کے والداور مشہور صاحب ِقلم مولاناانظر شاہ مسعودی اُن کے چچا ہیں۔ فن حدیث کے منفرد تاجدار مولانا انور شاہ کشمیری ان کے جدّامجد ہیں اور راشدہ خاتون ان کی والدہ کا نام ہے۔دینی تعلیم ازاول تا آخر دارالعلوم دیوبند میں ہوئی،جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب،ادیب ماہر،اورادیب کامل کی سندحاصل کی۔ جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات،فاضل دینیات اور ماہر دینیات کی سرٹیفکیٹ حاصل کی اور آگرہ یونیورسیٹی سے اردو زبان میں ایم اے پاس کیا۔

 جنوری ١٩٧٣ سے مضمون نگاری کی شروعات ہوئی اور تاہنوز یہ سلسلہ قائم رہا۔ آپ کے دینی علمی، فکری،سیاسی، سماجی، ادبی اور شخصی مضامین کی تعدا دتقریباً ١٢٥تک پہنچتی ہے۔ روزنامہ قومی آواز،روزنامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ ہمارا سماج،، روزنامہ انقلاب، ہفت روزہ،نئی دنیا دہلی اور ہفت روزہ راشٹریہ سہارا سمیت ملک وبیرون ِ ملک کے دگر مختلف اخبارات ورسائل نے آپ کے گراں قدر مضامین شائع کیے ہیں۔ ١٩٨٣ سے ١٩٨٧ تک ماہنامہ طیب دیوبند اور ١٩٧٩ سے ١٩٩٣تک پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند کی ادارت بھی کی۔ تقریباً پچاس سے زائد کتابوں پر انھوں نے مقدمے، تاثرات اور تقاریظ لکھے ہیں۔

 تصنیفات و تالیفات:

 (۱)حرف ِ تابندہ (۲) خطبات ِشاہی(۳) میرے عہد کے لوگ (۴) جانے پہچانے لوگ (۵) اپنے لوگ (۶)جانشینِ امام العصر ؒ (۷) شیخ انظر (۸) رئیس القلم مولاناسیدمحمد ازہر شاہ قیصر -زندگی کے چند روشن پہلو (۹) سید محمد ازہر شاہ قیصر ؒ ایک ادیب،ایک صحافی (١٠) دوگوہر آبدار (۱۱) مقبول تقریریں (١٢) اسلام اور ہمارے اعمال (١٣) میرے عہد کادارالعلوم (١٤) اوراق شناسی (١٥) اسلامی زندگی (١٦) خوشبو جیسے لوگ صالحہ(١٧)امام العصر حضرت مولاناسیدمحمدانورشاہ کشمیری ؒ(١٨)اعمال صالحہ (١٩)فخرالمحدثین حضرت مولاناسید انظر شاہ مسعودی۔زندگی کے چند روشن پہلو(٢٠) وہ قومیں جن پر عذاب آیا(٢١) سیرتِ رسول واقعات کے آئینے میں (۲۲) اکابر دیوبند۔اختصاصی پہلو (٢٣) کیا ہوئے یہ لوگ (٢٤) اسلامی تعلیمات۔

 فکردیوبند کے ترجمان:

  مولانا نسیم اختر شاہ قیصر پوری زندگی فکرِ دیوبند کے ترجمان رہے۔ زبان وقلم میں تھوری بھی چاشنی آجانے کے بعد انسان فکری انحراف کا شکار ہوجا تا ہے۔ مذہبی روایات،مسلکی تصلب اور اپنی تہذیب و ثقافت سے منہ موڑ کر لوگ روشن خیالی کے چکر میں مغربی افکار وخیالات کی ترویج واشاعت ہی کو اپنی کامیابی سمجھنے لگتے ہیں؛ لیکن مولاناکی جتنی بھی تحریریں اٹھا کر پڑھ لیجئے اسلامی افکار وخیالات اور دیوبندی نظریات کے دائرے ہی میں گلکاریاں کرتی نظر آئیں گی۔ برصغیر میں اسلام کے سب سے بڑے مرکز اور علم وعمل کا سب سے بڑا گہوارہ مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند سے انھیں بے پناہ عشق ہے۔ نہ صرف دارالعلوم بل کہ دیوبند سے والہانہ لگاؤہے۔ دیوبند کی عظمتوں کو انھوں نے بڑے والہانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ان کی یہ عبارتیں:

 ”دیوبند کو خداوند عالم نے جن عظمتوں سے سرفراز کیا ہے،وہ تاریخ کا حصہ بھی ہیں، حال کا بیان بھی اور باوقار مستقبل کا آئینہ بھی، یہاں کی خا ک سے وہ اہل علم اور مرد مجا ہد پیدا ہوئے جو مسلماناں ہند کی زندگی میں بنیا دی کر دار کی حیثیت رکھتے ہیں یہ خو ش فہمیوں کا ابتلا نہیں، بلکہ حقائق کی وہ روشنی ہے، جو دور تک بہت دور تک بلکہ آخری حد تک پھیلی ہو ئی ہے، اندھیرے سراسیمہ اور خوف زدہ ہیں اور تاریکیاں ان کے قدموں کی چاپ سنتے ہی اپنا راستہ بدل دیتی ہیں، دیوبند کا یہ امتیاز اول دن سے آج تک باقی ہے اخلاص و للہیت کی بستی میں علم و کمال کی آبادی میں اور فکر و نظر کی فصیلوں پر جب تک یہ چراغ جلتے رہیں گے چھ حرفی لفظ ”دیوبند“ ہمیشہ چمکتا رہے گا۔“(۱)

 ”دیوبند ایک چھوٹی سی بستی ہے،مگر خدائی فضل و کرم کے لاتعداد آثار اور بے شمار نشانیاں یہاں آپ کو نظر آئیں گی، علم وعمل کے کو ہ گراں، رشد و ہدایت کے روشن مینار، فکر وفن کی ہزار ہا قندیلیں اور اخلاق و شائستگی کے چھوٹے بڑے چراغ آپ کو یہاں روشن ملیں گے، جنگ آزادی کی پر خار راہیں ہوں یا فضل و کمال اور علم و تحقیق کے پُر پیچ راستے یا پھر ادب و صحافت کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں دیوبند ہر موڑ پر آپ سے ملا قات کرے گا اور ہر سمت میں اس کی تاریخ رقم ہوگی، گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں لفظ ”دیوبند“ اتنی بار لکھا پڑھا اور بولا گیا کہ صرف اس لفظ کو تمام جگہوں سے اٹھا کر…….ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا جائے تو ضخیم جلدیں بھی اس لفظ کی معنویت، وسعت اور پھیلا ؤ کو سمیٹنے میں ناکام ہوں۔“(۲)

 اسلوب نگارش:

 آپ کی تحریر میں بلا کی چاشنی اور لذت پائی جاتی ہے۔ قاری عبارت کی دنیا میں اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔کہیں کہیں بل کہ بہت سی جگہوں پر ان کی نثر میں شعریت کا گمان ہوتا ہے۔ خاندانی تربیت اور دیوبند کے ماحول نے ان کی تحریرمیں صالحیت کو باقی رکھا ہے۔ فکر دیوبند کے ترجمان ہونے کے باوجود ان کے افکار و نظریات میں وسعت اور تنوع ہے۔ الفاظ کے انتخاب میں بہت ہی دقت ِ نظر سے کام لیتے ہیں۔نوکِ قلم سے نکلی ہوئی تحریریں تاثیر کی دھار سے عقل ودماغ کو شکار کرلیتی ہیں اور پھر وہ آہستہ آہستہ اس طرح دل کو گرویدہ بنالیتی ہیں کہ ان کی گرفت سے نکلنے کو قاری کسی طرح آمادہ نہیں ہوتا۔ یوں تو انھوں نے مختلف اصناف میں اپنے قلم کی جولانی دکھلائی ہے؛لیکن فن سوانح اور خاکہ نگاری میں انھوں نے کمال کا رنگ دکھلایا۔ اندازبیان میں جو تسلسل اور روانی ہے وہ آبشاروں سے نکلے ہوئے پانی کی طرح ذہن و دماغ کو سیراب کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ معروف قلم کار مولاناندیم الواجدی نسیم اختر شاہ قیصر کے اسلوب نگا رش کے بارے میں لکھتے ہیں:

  ”مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ایک خاص اسلوب نگارش رکھتے ہیں، ان کے مضامین کے متعلق بلا جھجک یہ رائے دی جا سکتی ہے کہ ان میں داخلی قوت استد لال کے ساتھ زبان کی شگفتگی اور بر جستگی کے علاوہ استعارات اور تشبیہات کی رعنائی بھی ہے، وہ سادہ سی بات کو اس قدر دلکش اور دلفریب انداز میں کہتے ہیں کہ پڑھنے والے کا ذوق ِ لطیف اسے فوراًقبول کر لیتا ہے، وہ خشک مضمون کو بھی زبان کی لطافت سے اس طرح رنگین بنادیتے ہیں کہ قاری کی نگاہ میں دور تک فکر و خیال اور لفظ ومعنی کے خوبصورت پھول کھلنے لگتے ہیں۔“ (۳)

 خاکہ نگاری میں شخصیت شناسی اور چہرے کی پہچان بہت بنیادی چیز ہے۔ شاہ صاحب کوچہرہ پہچاننے میں کمال کا درک حاصل ہے۔”جی ہاں“مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒکا تکیہئ کلام تھا۔وہ مختلف وقتوں میں اپنے اس تکیہ کلام سے مختلف معانی مراد لیا کرتے تھے۔ چہرہ شناس انسان چہرے کے اتار چڑھا ؤ سے ان معانی کو سمجھ لیتا تھا۔ نسیم اختر شاہ قیصر بھی انھی میں سے ایک ہیں۔ملا حظہ ہو اس حوالے سے ان کی یہ عبارت:

 ”مفتی صاحب کی”جی ہاں“بڑی معنی خیز تھی، جب وہ ”جی ہاں“ کرتے تو ادائیگی کے آہنگ سے ہی اس کی معنویت سامنے آتی، کبھی یہ ”جی ہاں“قلب و جگر کو چھیدتی ہوئی رو ح کی گہرئیوں میں اتر جاتی، کبھی سلگتے اور تپتے ماحول میں بارش کے چھینٹوں کا کام کرتی، ناخوش گوار موقع پر اس ’ جی ہاں“ کامفہوم ہی بدل جاتا، ”جی ہاں“سے کبھی تائید اور کبھی تنقید، مخاطب ہی اس کی صحیح سمت متعین کر سکتا تو کر لیتا ہر ایک کے لیے اس کے رخ اور منشا کا اندازہ لگا لینا مشکل تھا، مجلس شوری میں کئی بار ایساہو ا کہ کچھ ممبران اپنے قد سے بڑھ کر اچھل کود مچاتے صورتِ حا ل لفظی جنگ کی حد پار کرنا چاہتی، کہ مفتی صاحب کی ”جی ہاں“سے معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا اور پوری مجلس پر خاموشی چھا جاتی۔“ (ؔ ۴)

     مولانا امینی ؒ اور مولانانسیم اختر شاہ قیصر

  اگرچہ مولاناامینی اور مولانانسیم اختر شاہ قیصر کی عمر کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا، لیکن طالب علمی کے زمانے میں دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ نہیں رہا اور نہ ہی دونوں کی ایک دوسرے سے شناسائی تھی۔شاہ صاحب کی اردو تحریریں مولانا امینی ؒکبھی کبھار رسائل میں دیکھ کر یہ سونچ کر نظر انداز کر دیا کرتے کہ یہ کوئی نوآموز ہوگا؛ لیکن جب ترجمان دیوبند میں ان کے شخصی مضامین شائع ہو نے شروع ہوے تو مولا نا امینی کو ان کی تحریر نے کافی متاثرکیا اور یوں غائبانہ ایک دوسرے کو جاننے لگے۔مولاناامینی ؒان سے تعلقات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 ”دارالعلوم میں تحصیل ِعلم کے لیے مولانا سید نسیم اختر شاہ یقیناً دارالعلوم سے میری فراغت کے بعد آئے ہوں گے؛ اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ درسی کتابوں کے حوالے سے ان کی محنت کا کیا رنگ تھا؛ لیکن ۲۸۹۱ کے اگست میں، جب میں دارالعلوم کے تدریسی خادم کی

[ حیثیت سے وارد ہو ا تو میں نے مختلف رسالوں میں کبھی کبھار ان کے مضامین دیکھے؛ لیکن میں نے یہ یہ سمجھ کر زیادہ توجہ نہیں دی کہ نوآموز ہوں گے ابھی مشق ِ حرف اورتجربہئ لفظ کی منزل ہوگی۔جب ترجمان ِدیوبند نکلنا شروع ہوا تو تقریباًپابندی سے ان کی تحریریں زیب ِ رسالہ ہوتی رہیں اور حسب ِ گنجائش ان سے استفادے کا موقع ملتا رہا تو ان کی تحریروں کا پختہ رنگ اپنی طرف مائل کیے بغیر نہ رہ سکا اور اب ہر ماہ پابندی سے پڑھنے کے لیے وقت میں گنجایش پیدا کرنی پڑی۔“(۵)

 مولانا نور عالم خلیل امینی اور مولانانسیم اختر شاہ قیصر کے درمیان باضابطہ تعلقات کا آغاز ۶۰۰۲ سے ہوتا ہے جب مولانانسیم اختر شاہ قیصر اپنی ایک تصنیف ”جانے پہچانے لوگ“پر مقدمہ لکھوانے مولانا کے ہا ں پہنچے۔اس کے بعد تقریباً ۲۱، ۳۱ سالوں تک یہ تعلق باقی رہا یہاں تک کہ مولانا امینی اس جہانِ رنگ و بو کو چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو گئے۔باضابطہ تعلق کے حوالے سے مولانانسیم اخترشاہ قیصر لکھتے ہیں:

  ”مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے میرے تعلق کا آغاز ۶۰۰۲ء میں ہوا، میں اپنی کتاب ”جانے پہچانے لوگ“ پر مقدمہ لکھوانے کے لئے مولانا کی خدمت میں پہنچا، مولانا نے اول مرحلے میں مقدمہ لکھنے کی حامی بھرلی، جس آسانی سے یہ مرحلہ طے ہوا اتنا آسان ثابت نہ ہوا۔ مولانا کو مقدمہ لکھنے میں چھ ماہ لگ گئے۔ میں نہ مایوس ہوا اور نہ ناامید، مولانا نے خود مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مقدمہ میرے ہاتھ میں آیا تو لفظ لفظ محبتوں اور عنایتوں کا عنوان تھا۔ خاکہ نگاری کی خصوصیات، نامور خاکہ نگاروں کے حوالے، خاکہ نگاری کی ضرورت اور وقیع رائے سب اس مقدمہ کے مندرجات تھے۔ایک بیش بہا مقدمہ جس سے مولانا کے مطالعہ، نظر اور قلمی رفعتوں کے دروازے وا ہوتے ہیں بلکہ مجھے لکھنا چاہئے کہ نئی سمتوں اور جہتوں کے واضح اشارے اس مقدمہ کا امتیاز ہیں۔ مولانا نے دل سے مقدمہ لکھا تھا، چھ ماہ کی محنتوں اور گزرنے والے دنوں کی جھلکیاں مقدمہ میں موجود ہیں۔ یہ مقدمہ، مقدمہ نگاری کے باب میں خاص طور سے دیوبند کی قلمی زندگی میں اپنی انفرادیت کی خود گواہی دیتا ہے۔ مولانا سے ۲۱-۳۱ سال کے عرصہ میں کافی ملاقاتیں رہیں، میں ان کے مکان پر حاضر ہوتا، کھلتے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتے، بڑی نفیس اور نظیف طبیعت پائی تھی، بڑا سلیقہ تھا، انتہائی مہذب تھے، دسترخوان بھی خوش ذائقہ اور لذیذ چیزوں سے سجا ہوتا۔ جب دسترخوان سمیٹنے کی باری آتی تو یہ شکایت ضرور فرماتے کہ آپ لیتے کچھ نہیں ہیں۔

 خوش پوشاک تھے، شاید روز ہی لباس تبدیل کرتے، شیروانی ہر موسم میں زیب تن رہتی، دھیمی چال کے ساتھ مکان سے دارالعلوم آتے، بہت بار باب قاسم دارالعلوم دیوبند اور چھتہ مسجد کے درمیانی راستے میں ان سے آمنا سامنا ہوا، کبھی چند منٹ ٹھہر کر گفتگو فرماتے اور کبھی سلام و دعا کے بعد آگے بڑھ جاتے۔ گفتگو میں بڑا ٹھہراؤ تھا، لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی ساخت بھی دل پذیر ہوتی۔ مولانا مرغوب الرحمن سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوا تو برادرم مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی مدظلہٗ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند اور میں تعزیت کے لئے مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ اس نشست میں مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا انوار الرحمن ممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، مولانا نور عالم خلیل امینی اور دیگر حضرات موجود تھے، مجھے مولانا نور عالم خلیل امینی کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، تعزیتی گفتگو اورمولانا مرغوب الرحمن سے خاندانی اور قدیم تعلق کے تذکرے کے بعد دیگر موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ مولانا میری جانب متوجہ ہوئے، میں یہاں یہ عرض کردوں کہ بہت دیر سنجیدہ ماحول میں گزارنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے اور میری فطرت مجھے چہکنے پر مجبور کرتی اور قہقہوں پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔ میں چند ہی ملاقاتوں میں بڑوں کی مجلسوں میں بھی بے تکلفی کی فضا بنا لیتا ہوں۔میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ کی کتاب ”پسِ مرگ زندہ“ کے بعدمیرا خیال ہے کہ اب ”قبل از مرگ مردہ“ آنی چاہئے۔ یہ سنتے ہی مولانا سنجیدہ ہوگئے، کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئے۔ مگر یہ لمحاتی سنجیدگی تھی، چہرے پر پھر وہی زندہ مسکراہٹ لوٹ آئی جو مولانا کی فطرت کا حصہ تھی۔ فرمایا: بات تو درست ہے، ایسے کردار بھی لاتعداد ہیں، ان پر لکھا جاسکتا ہے۔

 میری کتاب ”اوراق شناسی“ چھپی تو حسبِ معمول مولانا کی خدمت میں بھی بھیجی، میں نے اس کتاب میں اپنی وہ تمام تحریریں شامل کی ہیں جو دیگر حضرات کی کتابوں پر مقدمات اور تقاریظ وغیرہ کی صورت میں لکھی گئیں۔ اتفاق یہ کہ مولانا سے بابِ قاسم اور چھتہ مسجد والے راستے میں ملاقات ہوئی۔ فرمایا کہ میں کتاب کے نام سے یہ سمجھا تھا کہ اس میں کاغذ کی تاریخ اور اقسام وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہوگی۔ میں نے قہقہہ لگایا تو مولانا نے فرمایا کہ ابتدائی مطالعہ کر چکا ہوں، آپ نے اچھا کیا جو یہ چیزیں جمع کردیں۔ ان سے ایک ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کے لئے طبیعت بے چین رہتی تھی، وہ دھیرے دھیرے بولتے،ان کی زبان پر کسی کے لئے کوئی توہین یا تضحیک آمیز بات نہ آتی۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے دو دور اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، دونوں ہی زمانوں کی مثبت اور لائقِ ذکر یادیں ہی ان کی زبان اور قلم کا سرمایہ تھیں۔ ان کے یہاں تلخی نہیں، خوشگواری تھی، بہت سی تلخیوں کو انہوں نے ماضی کے حوالے کردیا تھا۔ مثبت اور بہترین سوچ کے ساتھ زندگی گزاری اور اس سلسلے میں خود سے جو عہد کیا تھا تمام عمر اس کی پاس داری کی، کبھی میں زمانہئ طالب علمی کے حوالے سے انہیں کریدتا اور اس دور کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتا تو وہ اس سمت میں نہ چلتے اور اچھی ہی باتیں بتاتے“۔(۶)

 دونوں ایک دوسرے کے قدرداں اور ایک دوسرے کی تحریرسے کافی متاثر تھے،ہر ایک کو دوسرے کا اسلوب نگارش بے حد پسند تھا۔دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کی تحریر اور طرز نگارش پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور عصبیت سے ماورا ہو کر سراہنا کی ہے۔ مولاناامینی ؒ مولانانسیم اختر شاہ قیصر کے اسلوب کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 مولانانسیم اختر شاہ کا اسلوب بہ یک وقت سادہ بھی ہے اور رنگین بھی۔ ان کے ہاں صرف آمد ہے آورد کا گزر نہیں ان کا ہر لفظ رس دار اور ہر تعبیر مزے دار ہوتی ہے۔ وہ خلوص سے لکھتے ہیں جو کسی اہل ِقلم کی سب سے ممتاز صفت ہوسکتی ہے۔ شخصیت کی تہوں میں ڈوب کر لعل و گہر کی تلاش،ان کا نمایاں وصف ہے۔ موضوعِ سخن شخصیت کو ہر زاویہ نظر سے دیکھنے اور دکھانے کے فن میں بڑی مہارت ہے۔ وہ دور سے نہیں قریب سے دیکھتے ہیں، ان کے قاری کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ قلم کار کو شخصیت سے جذباتی لگاؤ ہے۔ یہ چہرہ نگاری کا کمال ہے کہ لفظ لفظ سے سچائی کی مٹھاس، خلوص کا کیف، قربت کی حرارت، جذباتی ہم آہنگی کی لذت پڑھنے والے کو بھی بھرپور انداز میں محسوس ہو۔ موصوف میں یہ رنگ بہت نکھرا ہو محسوس ہوتا ہے، توقع ہے آیندہ اور شوخ درشوخ ہوگا۔“ (۷)

 ان کی خاکہ نگاری کے بارے میں مولانا امینی لکھتے ہیں:

 ”موصوف کے ہاں بہ طورِ خاص قوت ِمشاہدہ اور قوتِ تخیل وتاثر وقیاس کی فراوانی ہے۔ اس وصف سے انھوں نے خاکہ نگاری میں بہت کام لیا ہے۔ ان کی ہو بہ ہو تصویر کشی اور شخصیت کے مخفی گو شوں کے ”ایکس رے“ بل کہ ”الٹرا ساؤنڈ“ کے عمل میں اس صلاحیت کے فیضان کو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور کسی تکان کے احساس سے کہیں پڑاؤ نہیں کیا تو ایک دن وہ ”ماہر نقاش“ بے نظیر ” بت تراش“ اور قد آور خاکہ نگار کی شناخت کے ساتھ اپنا نام تاریخ نویسوں کو لکھنے پر مجبور کردیں گے۔“(۸)

 دوسری طرف مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے بھی مولاناؒ کے اسلوب کو کافی سراہا ہے مولاناامینی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:

 ”اپنے زمانے کے نامور افراد اور اشخاص کے لئے ان کے دل میں بڑی محبت تھی، ان کے شخصی مضامین بڑے طویل ہوتے، ۵۱-۵۱- ۰۲-۰۲ صفحات پر مشتمل، کبھی اس سے بھی زائد، متعلقہ شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو کو سامنے لاتے، مختصر مضامین لکھنے پر شاید وہ قادر ہی نہ تھے، طوالت کے باوجود ان کے مضامین نثری خوبصورتی اور آراستگی کی بنا پر ذوق اور شوق سے پڑھے جاتے۔ مجھے لمبی چوڑی تحریروں سے وحشت ہوتی ہے، بات مختصر سے مختصر انداز میں ادا کی جائے، میرا دل اس کا تقاضہ کرتا ہے مگر ان کے شخصی مضامین کو ابتداء تا انتہاء پڑھتا۔

 ان کا اندازِ نگارش کتنا دل آویز، پرلطف اور چاشنی بھرا تھا اس کو ان کے پڑھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ مولانا کی زبان اور قلم دونوں ہی تنقید سے پاک تھے۔ انہوں نے بے تحاشہ لکھا، شخصیات پر بھی انہوں نے کمال درجہ دادِ قلم دی، شخصیات پر آدمی لکھے اور اپنا دامن بچا لے جائے بڑی بات ہے۔ تنقید اور تعریض دونوں کے قریب نہ جائے، قلم مثبت اور سیدھی راہ پر ہی چلے، یہ جہاں قلم پر گرفت کی علامت ہے وہیں اپنے افکار و خیالات کو آزاد نہ چھوڑنے کی نشانی ہے۔یہ مولانا کی بڑی خوبی رہی کہ انہوں نے شخصیات پر تفصیل کے ساتھ لکھا اور قلم کو بے قابو نہ ہونے دیا…مولانا تحریری قلمرو کے مالک تھے اور اس کا رنگ جدا تھا۔ ان کی مضمون نگاری مہکتی عبارتوں، پُردم جملوں، مسحور کن اقتباسات، سماں باندھتی تشبیہات سے عبارت تھی۔ تراکیب کی ندرت اور اسلوب کی آفاقیت انہیں دوسرے قلم کاروں سے بلند کرتی ہے۔ شہد میں گھلے طویل اقتباسات،چاشنی میں لپٹے لمبے لمبے جملے یوں ان کا قلم شخصیت کے خدوخال کو خوبصورتی کے ساتھ کاغذ پر ایسے اتارتا کہ مکمل تصویر بن جاتی۔ عادت، اخلاق، مزاج، کردار، کمال، صلاحیت، خدمات، کارنامے، داستانِ زندگی کا ہر ورق روشن ہوتا۔ لگتا کہ زیر قلم مرحوم شخصیت اٹھ بیٹھی ہو اور آنکھیں ان کے متحرک ہونے، چلنے پھرنے کا حیرت انگیز منظر دیکھتی ہوں۔ مولانا نے بے شمار مقالات، مضامین اور کافی کتابیں لکھیں، سب شاہکار ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں،زبان و بیان کاگنجینہ اور اسلوب و ادائیگی کا حسین قرینہ ہیں۔“(۹)

حوالے جات

 (۱)ماخوذ مولا نا شریف حسن صاحب بہ حوالہ میرے عہد کے لوگ ص ٢٩،٣٠،ناشر: ازہر اکیڈمی شاہ منزل محلہ خانقاہ دیوبند سن اشاعت فروری

 (۲) میرے عہد کے لو گ۔ص ٦٢ مضمون ایک مسیحا کی داستانِ زندگی مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی

 (۳)مقدمہ مشمولہ میرے عہد کے لوگ۔ ص ٣٨

 (ؔ ۴)حوالہ سابق ۔ ص ٦٦مضمون ایک مسیحا کی داستان ِ زندگی مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی ؒ

 (۵) مقدمہ مشمولہ جانے پہچانے لوگ۔ص ١٧-١٨، ناشر:

 (۶)نسیم اختر شاہ قیصر،مولانا،مضمون ”مولانانور عالم خلیل امینی قرطاس وقلم کاایک عہد“

 (۷)حوالہ سابق۔ص٢٣-٢٤

 (۸) حوالہ سابق ص ١٩-٢٠

 (۹)نسیم اخترشاہ قیصر، مولانا۔مضمون ”مولانانور عالم خلیل امینی قرطاس وقلم کاایک عہد“

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com