نا تمام

رابعہ الرباء ،پاکستان
ملت ٹائمز
شازیہ عاصم اور ان کی ناول ناتمام کے پس منظر میں رابعہ الرَبّاء کی خاص تحریر
دو مو سمو ں کے سنگم کا زما نہ تھا ۔ سردی کا جو بن ڈ ھل چکا تھا۔ گر می کی جو انی ابھی دور تھی بہا ر اپنے ر نگ شوخ محبو بہ کی طر ح بکھیر کے جا چکی تھی۔ہو ا نا ٹھنڈ ی تھی نا گر م ۔ مگر سا نس لینا دشوار نہیں تھا۔ مجھے نون ایونیو کے پا س کسی سے ملنے جا نا تھا ۔ جہا ں کبھی فیروز خا ن نو ن کی و سیع و عر یض ر ہائش گا ہ نہر کے بالکل سامنے بڑی شان سے مو جو د تھی۔ جسے اب وقت کی گر د نے مادیت کے ملبے تلے د با دیا ہے۔
صبح کا وقت تھا ۔ ہو ا میں ہلکی سی خنکی تھی ۔ کچھ نہر کنا رے کا اثر تھا۔ میں مطلو بہ جگہ پہنچی ، چا روں اور سناٹے کی آ وازیں ،پھو لو ں کی مہک کے ساتھ روح تک کو چھو تی محسوس ہو رہی تھیں۔زند گی ایک لمحے کے لئے زما ن و مکا ن سے آزاد ہو کر نجا نے کہا ں کا سفر کر آ ئی۔ ایک کشادہ لا ن سے گز ر کر جب میں اس سفید کمر ے میں داخل ہو ئی تو واقعہ معرا ج پہ گفتگو ہو رہی تھے کیو نکہ شب معرا ج کی آ مدآمد تھی۔اور یہا ں عا شقا ن مصطفی ﷺ اکھٹے تھے۔ سب مختلف محکمو ں سے رئٹایرڈ افسران۔ جو یہاں مخصو ص تہواروں پہ اکھٹے ہو کر اپنے مشترکہ عشق پہ باتیں کر تے ہیں۔ معراج ﷺ کے ان نقطوں کو د یکھا جا رہا تھا جن پہ عمو ما نظر نہیں جا تی۔ صاحب محفل اپنا نقطہ نظربیان کر رہے تھے۔
’’ آج کے دور میں ہم بہت فخر کر تے ہیں کہ میرے پا س اتنی بڑ ی گا ڑی ہے ، فلا ں میر ے گھر اتنی بڑی گا ڑی میں آ یا ۔ فلا ں کے گھر میں فنگشن تھا تو فلاں فلا ں ما ڈل کی گاڑی آئی، مگر واقعہ معرا ج عز ت کے معیا رات کا کچھ اور درس دے رہا ہے۔ کہ جسے ہم محبت کر تے ، عز ت دیتے ہیں اس کو تو ہم اپنی اعلی ترین سواری بھیج کرخود بلاتے ہیں، اور اسی پہ واپس اس کی منز ل تک چھو ڑ کے آتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ آ جا نا بھئی ،فلاں فلا ں وقت پہ۔ اور وہ اپنے ہیلی کا پٹر میں بیٹھ کر آ جا تا ہے اورہم ٖفخر سے تن جاتے ہیں، نہیں ،یہ کسی کو عز ت دینے کا کو ئی طر یقہ نہیں۔۔۔ یہ تو قیر کا کو ن سا سلیقہ ہے، یہ احترام کو کون سا ر نگ ہے۔ ۔۔۔،،
اتنے میں میر ے فو ن کی گھنٹی بجتی ہے لکھا ہو ا ہے’’ شازیہ عاصم،، میں سوچتی ہو ں کہ ان سے تو کل کے دن کی با ت ہو ئی تھی آ ج کی تو نہیں ، میں اس بر فا نی چو ٹیو ں کے سے سفید کمر ے سے با ہر نکل آ تی ہو ں ، بر آمدے میں کھڑ ی فون سنتی ہو ں ۔ایک کھلکھلا تی آواز کہتی ہے ’’ آ پ کل نو رکے ساتھ ہی گھر آ جا ئے گا ۔ اس نے آ پ کے گھر کے پا س سے ہی آ نا ہو تا ہے ۔ میں آ پ کو نو ر کا فون نمبر دے دیتی ہو ں۔ گیا ر ہ بجے اس کا پیپر ختم ہو گا ۔ ،،
میں دھیرے سے مسکرانے پہ مجبو ر ہو جا تی ہو ں ۔اور شازیہ جی سے بس اتنا کہہ سکی’’ ٹھیک ہے،،۔

رابعہ الرباء
رابعہ الرباء

اگلے روز صبح ذرا تیز دوھو پ کا را ج تھا مگر اس میں تلخی نہیں تھی ۔ نو ر کا کا لج گھر سے واکنگ ڈیسٹنس پہ تھا ۔ مگر بھا ئی کہنے لگا میں جا تو رہا ہو ں آ پ کو ڈرا پ کر تاجا تا ہوں ۔ یو ں میں چند لمحوں میں نو ر کے سا منے کھڑی تھی۔ ’’ میں نے آ پ کو پہچان لیا تھا ،، نو ر نے یہ کہا تو مجھے اس کی معصو میت پہ پیا ر آ گیا ۔ پہلی نظر میں ہی مجھے اس میں سپارک نظر آ رہا تھا ۔ بس پو لش ہو نے کی دیر تھی۔
ہم گھر پہنچے تو ایک ہنستا مسکرا تا چہر ہ استقبا ل کو خو د کھڑا تھا۔ برا ؤ ن ر نگ کے جو ڑے میں ملبو س اک سلم سما رٹ سی لڑ کی نے تپا ک سے خوش آمدید کہا ۔ یہ مسز شازیہ عاصم تھیں ۔گیراج میں ایک طرف اعلی نسل کے رنگ بر نگ طو طے چہچہا رہے تھے۔ شازیہ مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئیں ۔ نو ر چینج کر نے چلی گئی ۔ ہم کمر ے میں بیٹھ گئے ۔ جس صو فے پہ میں بیٹھی تھی اس کے باکل سا منے وہ ایوارڈ رکھا تھا جو عاصم بٹ کو ان کے نا ول ’’ نا تما م،، پہ ملا تھا ۔جس نا ول کے بارے میں ان کا ذاتی خیال ہے کہ یہ ان کی نا لا ئق اولاد ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ کھو ٹا سکہ بھی کا م آ جا تا ہے۔ شاید ان کے ساتھ یہی ہو ا ۔
سامنے بھی کتا بو ں کے ریکس ، بائیں جا نب بھی ، دائیں جا نب ٹی وی اور سامان آرائش۔ ایک طر ف نو ر کا کمرا ساتھ ہی اس کے والدین کا ، چھو ٹا خاندان ، زندگی آسان ۔یہ سکون مجھے شازیہ کی آنکھو ں میں دکھائی دے رہا تھا۔ نجا نے ہم دونوں کو ن سی زنا نہ گفتگو میں مگن تھے ، کہہ اتنے میں ایک خا تون تشریف لائیں ۔ شازیہ نے تعارف کر وایا یہ میر ی پھو پھو ہیں یعنی عاصم کی مدر۔ آنٹی بہت محبت سے ملیں ۔ کچھ دیر ہما رے پا س بیٹھیں ۔ اپنے بیٹے کے بچپن کے حوالے سے بتا تی ر ہیں ۔ جس سے اندازہ ہو ا کہ وہ بچپن سے ہی ذرا مختلف قسم کے تھے۔ ’’ تم اپنا کا م کر و میں چلتی ہو ں ،، یہ کہہ کر آ نٹی جی ہم دونو ں کو ایٹم بم بنا نے کے لئے تنہا چھو ڑ گئیں۔
با ت ہم دونو ں میں طے تھی کہ روایتی انٹر ویو نہیں ہو گا۔ بس با تیں کر یں گے ،گو سپس ،جو دو خواتین مل کر کر تی ہیں۔
’’کز ن میر ج یا لو ؟،،
شازیہ کے جا ندار قہقے سے کمر ے میں جیسے پھو ل کھل گئے۔ کو ئی ما ضی کا جھو نکا جیسے انہیں چھو گیا ہو۔ کہنے لگیں ’’ ان کا پتا نہیں مگر مجھے اچھے لگتے تھے۔ اندازہ نہیں تھا کہ شادی ہو جائے گی۔ان کی نظر میں محبت کو ئی وجو د نہیں ر کھتی۔ان سے پوچھیں تو کہتے ہیں ۔محبت کو ئی چیز نہیں ۔محبت کے کو ئی معنی نہیں ہیں،آپ ایک دوسرے کی کئیر کر و ، ایک دوسرے کا خیال ر کھو یہی محبت ہے،،
مگر مجھے یہا ں یہ حا ل کا بیا ن لگ رہا تھا جو ارتقا ء کی کئی منزلیں طے کر چکا تھا کیو نکہ عا صم بٹ کے ایک پرانے افسانے میں ہیروما موں ذاد لڑ کی کی پسند یدگی کا اظہا ر کر تا نظر آتا ہے۔ وہ اس وقت پھو پھو کی بیٹی بھی ہو سکتی تھی، خالو کی بھی ، کو ئی بھی اور ،مگروہ بھی شازیہ کی طر ح ما مو ں زاد تھی۔ وہ محبت کا اظہا ر افسانو ں میں کر تے رہے شاید۔۔۔
شازیہ کی با ت جا ری تھی ساتھ ہی میرے اندر میرا فلسفہ بھی سفر میں تھا ۔وہ کہہ ر ہی تھیں ’’لیکن ہم لو گ محبت میں سوچتے ہیں کہ وہ’’ آئی لو یوِ ،، کہے۔یا میں آ پ کو چا ہتا ہو ں۔ہمیں لفظی محبت بھی چاہئے ہو تی ہے ،مگر وہ کہتے ہیں نہیں اس طر ح نہیں۔سو۔۔۔ نا یہ شا دی سے پہلے ہو ا نا بعد میں،،
’’تو اس ظا لم محبت کے بعد بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک ہو جائیں گے جب ایک ہو نے کا ، شادی ہو نے کا پتا چلا تو کیا احساس تھا۔؟،،
وہ یہ سن کر ایک گہر ی سوچ میں ڈوب گئی اور یک دم خو د ہی نکل آ ئیں۔ میں فقط منتظر تھی
’’ جب شادی ہو نے کا پتا چلا تو بہت اچھا لگا کہ آپ اس احساس کو اسطر ح سے بتا بھی نہیں سکتے۔ بیان ہی نہیں کر سکتے جس کیفیت سے آپ اس لمحے گز ر رہے ہو تے ہو۔ پھر جو اچھا لگتا ہے اس کا مل جانا ۔ یہ اس سے بھی بڑا احساس ہے جو لفظوں کی قید سے آزاد ہے۔،،
وہ یک دم خا مو ش ہو گئیں ۔ پھر کہنے لگیں’’ لیکن یہ بھی تھا کہ اس وقت سب لو گ ، خصوصاَ امی کہتیں تھیں ، اب بھی سوچ لو ،لکھنے والا بند ہ ہے ۔۔ہر وقت کمر ے میں رہے گا۔۔اب بھی دیکھ لو ۔۔مگر میں نے کہا ، نہیں چلے گا ، کو ئی مسلہ نہیں۔
اندازہ تو مجھے کسی چیز کا بھی نہیں تھا ، ایک تو یہ وجہ بھی تھی کہ خا ندان میں اس سے قبل کو ئی لکھنے والا نہیں تھا۔ پھر میں نے سو چا جب ایک شخص پسند ہے تو پھر اس کے ساتھ چلنا ہے تو اس کی ہر چیز کے ساتھ ہی چلنا ہے ناں۔ اور پسند ہو نے کا فائد ہ یہ ہو تا ہے کہ آ پ اس کے ساتھ، اس کی ہر چیز کے، ہر کمی بیشی کے ساتھ چلنے تو تیا ر ہو جا تے ہیں۔ لہذا نے میں کہہ دیا ٹھیک ہے جب اچھے لگ گئے تو جیسے کہو گے ویسے چلو ں گی،،
ان کی لہجے میں مکمل خود سپر دگی آج بھی مو جو د تھی ۔ میں نے اگلے سوال سے ان کو اس کیف سے نکا ل لیا ’’ عا م بیو ی ہو نا اور ایک مصنف کی بیوی ہو نا؟،،
وہ سنجیدہ ہو گئیں ایک لمحہ ٹھہرسی گئیں سامنے کتابو ں والی شلف کو دیکھا ، پھر روانی سے کہنے لگیں’’ رابعہ اس کے لئے تومیں یہ کہو ں گی عام شوہر اور رائیٹر شوہر ، یہ دو الگ چیزیں ہیں۔رائیر ، جو اصل مصنف ہو تا ہے اس کے دماغ میں روشنی ہو تی ہے ، اس کا ہم سفر اس روشنی کے سنگ چل ر ہا ہوتا ہے اسے بھی اس روشنی میں چیزیں اور طر ح سے نظر آنے لگتی ہیں۔ میں ابھی تک عاصم سے سیکھ رہی ہو ں ۔ایک کے بعد ایک چیز ، سیکھنے کا عمل آج بھی جا ری ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں اگر آپ کے شوہر کا دما غ روشن ہے تو یہ پو ری زندگی کا عمل ہے ۔ جب شوہر عا م نہیں ہو تاتو بیو ی بھی ویسی ہی بن جاتی ہے میں نے خود کو ان کے ر نگ میں ڈھالا ہے۔ جو انہو ں نے چاہا میں نے کیا ۔ یو ں زندگی کی ایک چین بن جا تی ہے جبکہ عام مر دمیں ایسا نہیں ہو تا۔ میں اور شوہر وں کو دیکھتی ہو ں تو محسوس ہو تا ہے عاصم میں وہ بہت سب کچھ نہیں ۔ ،،
وہ مطمئن نظر آ رہی تھیں۔’’ کبھی اس مسلسل یکسانیت سے اکتا ہٹ نہیں ہو تی کیونکہ ان کا کا م تو مسلسل یکسانیت کا ہے؟ وہ اس سوال کو سن کے جیسے تھک سی گئی ہو ں کہہ ر ہی ہو ں یہ تو زندگی کا حصہ ہے مگر بہت دھیمے لہجے میں کہنے لگیں
’’ اگر میں تھک گئی تو یہ بھی تھک جا ئیں گے،زندگی کا سفر ایک مسلسل عمل ہے۔میں بھی کبھی کبھی محسوس کر تی ہوں ، مگر کم۔۔۔بہت کم۔۔تھک بھی جا تی ہو ں مگر اگلے ہی لمحے خود کو ایکٹو کر لیتی ہوں ، خود کو یہ سب سوچنے کا وقت نہیں د یتی۔زیا دہ سے زیادہ دو منٹ ، بس اس سے زیادہ نہیں۔،،
وہ ایک خیا ل میں کھو ئی سی دکھائی د ینے لگیں جیسے کسی خواب میں بو ل رہی ہوں’’ کبھی ان کے دوستو ں کو بیو یوں کے ساتھ جا تا ، شاپنگ کر تا دیکھتی ہو ں تو خواہش جنم لیتی ہے کہ کا ش عاصم بھی یو ں ہما رے ساتھ جا ئیں ۔ مگر پھر کہتی ہو ں نہیں ۔ٹھیک ہے ۔،،
یک دم ان کے لہجے میں جا ن سی آ گئی ایک مزے کی با ت بتا تی ہوں ’’ جب ہما ری شادی ہو ئی نا ں ،انہو ں نے دو تیں باتیں کہیں ۔ ایک تو یہ کہ مجھے پیسہ کما نے کا شوق نہیں۔ دوسرا یہ کہ مجھے بچے کم پسند ہیں،اور میں کہیں آنے جا نے کے لئے ٹا ئم نہیں دے سکتا ۔میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں مان گئی ، اب جو مانی ہے وہ نبھا نی بھی تو ہے ناں۔،،
وہ اب بالکل فریش تھیں ۔ اور مجھے فریش کرنے کے لئے میز بھرا جا چکا تھا ۔ غا لباَ انہیں لگا کہ میں چائے پےؤ صحافی ہوں یا مجھے علم ہو نا چاہئے تھا کہ بٹوں کے گھر جاتے ہو ئے ، ایک پیٹ ساتھ اضافی لیکر آ نا چاہئے۔ ا گر چہ مجھے عاصم بٹ صاحب کو دیکھ کے ہمیشہ یہ محسوس ہو ا کہ ان کے نام کے ساتھ ’بٹ ، اضا فی لگا ہو ا ہے ۔ اور ان کی فیملی سے مل کے بھی ایسا ہی لگا۔بازاری چیزیں مجھے کم بھا تی نہیں ہیں سو گھربنا گا جر کا حلو ہ میری تو جہ کا خا ص مرکز بنا ۔ جوبہت لذیذتھا ۔ شازیہ نے بہت چاہا کہ میں سب کچھ کھا کے جا ؤں مگر مجھے معذرت کر نا ہی پڑی۔ اور ہم پھر اپنی گفتگو کی دنیا میں لو ٹ آئے
’’ آپکو اپنے شوہر کا لکھی کو ن سی تحر یر اچھی لگی؟،،
’’ان کے لکھے کچھ افسانے جو بارش میں لکھے گئے، اور ’’دائرہ،،دائرہ مجھے بہت مختلف لگا ۔ میں اکثر ان سے کہتی ہوں کہ آ پ اس میں تھو ڑا سا رومانس ڈال دیتے تو کیا تھا۔ لڑکیاں رومانس شو ق سے پڑ ھتی ہیں۔جب تک رو مانس نا ہو، مزہ ہی نہیں آ تا پڑ ھنے کا ،تو مجھے غور سے دیکھتے ہیں، جیسے میں نے کو ئی غلط با ت کر دی ہو۔اور پھر کہتے ہیں’’اچھا کو شش کر وں گا،، تو میں کہتی ہو ں ’’ ر ہنے دیں یہ آ پ کے لئے ذرا مشکل کا م ہے،اس کے لئے آ پ کو تھوڑا سا رومنٹک ہو نا پڑ ے گا ،، تو شر ارت سے کہتے ہیں ’’ میں اندر سے رومانٹک ہو ا تو با ہر سے بھی ہو نگا،،بحر حا ل میں اکثر سوچتی ہو ں ان کی تحر یر روما نس سے خا لی ہے ۔ ان کو تھو ڑا سا رومانس لا نا چاہئے۔اور یہ بھی ہے کہ ان کی تحر یر عا م قا ری کی تحر یر نہیں۔ ،،
اور یہ کہتے ہو ئے کو ئی نقا د معلوم ہو ر ہی تھیں ۔ میری نظرسا منے ر کھے اس ایوارڈ پہ پر ی جو ان کو نا ول’’ نا تما م،،پہ آکسفورڈ یو نیورسٹی پر یس کی جا نب سے ملا تھا ۔ ’
’’ نا تما م پڑ ھ کے آ پ کو ان پہ شک نہیں ہو ؟،،
شازیہ ہنس پڑیں’’ شک ، شک اس لئے نہیں ہو ا کیو نکہ وہ مجھ سے اس کو سا تھ ساتھ کا فی زیا د ہ ڈ سکس کر رہے تھے۔ ایک ایک نقطے پہ با ت کر تے تھے۔ یہ کیسے کیسے ہو تا ہے ؟ کیا کیا ہو تا ہے؟ لیڈی ڈاکٹر زکے حوالے سے ،میک اپ کے حوالے سے ، ہر طر ح مجھ سے انفرمیشن لے رہے تھے ۔ نا لیتے تو شک ہو تا کہ ، با ہر کہیں ڈسکس کر رہے ہیں۔ یا خو د کہیں سے ہو کر آ رہے ہیں ۔ ہر چیز کا خو د مشاہد ہ کر رہے ہیں ۔،،
پھر شازیہ ایک رو میں خو د بہنے لگیں ۔ میں خامو ش ہو گئی کیو نکہ اسی لمحے پھو لوں کی مہک بکھرتی ہے ۔ میں تو یہی اکھٹی کر رہی ہو ں ۔
’’ان کی یہ با ت اچھی ہے کہ یہ کچھ چھپا تے نہیں۔انڈیا سے آئے تو مجھے آ کے بتا نے لگے ’’ میں نے ایک لڑ کی کے ساتھ چائے پی ہے۔ تو میں نے کہا ’’ اچھا پھر کیا کیا کہا؟،،تو ہم دونو ں ان با تو ں پہ ہنستے ہیں ، یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ میر اذہین بھی اتنا ہی کھلا ہے، میں کہتی ہو ں کہ ایک بند ہ آپ کے ساتھ سچ بو ل رہا ہے تو آپ اس کے پیچھے نا پڑو، ورنہ وہ آ پ سے آئید ہ با ت نہیں کر ے گا جب وہ آ پ کو اپنا سمجھ کے با ت کر رہا ہے تو آ پ بھی اس کو اتنی سپیس دو کہ وہ اپنے اند ر کی با ت کہہ سکے۔ ورنہ ایک د فعہ لڑ ائی ہو گئی تو اگلی دفعہ وہ کہے گا مجھے بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پھر وہ اپنے ر ستے بنانے لگے گا۔
کا لج یو نیورسٹی کی تصویریں دکھاتے ہیں اور بتا تے ہیں ’ یہ میر ی دوست تھی، ’’ ایک لڑ کی کی تصویر د کھائی اور بتایا یہ مجھے پسند کر تی تھی۔اور مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ مجھ سے محبت کر تی ہے۔،،اور میں نے کہا ’’ ہا ئے اللہ عاصم اتنی د یر لگا دی آپ نے۔۔۔بس میں با ت یو ں ہنسی میں اڑ ا جا تی ہو ں ۔ ورنہ بیو یا ں غصہ ہو جا تی ہیں۔میں سو چتی ہو ں جو سد ھر گیا، تو اب اسی پہ نظر رکھو۔ پھر وہ اچا نک سنجید ہ ہو گئیں ’’ با قی ہم کچھ نہیں کر سکتے ، جو انہو ں نے کر نا ہے با ہر بھی کر کے آ سکتے ہیں،، وہ یہ کہہ کر پھر سے زند ہ دل لو گو ں کی طر ح ہنسنے لگی،،۔
اچانک ماہ نو ر نے آ کر اس سنجید ہ و ر نجید ہ ما حو ل کو آ بیدیدہ ہو نے سے بچا لیا۔ عاصم بٹ کی اکلو تی بیٹی ،جس میں مجھے مسقتبل کی ایک مصنفہ نظر آ رہی ہے ۔ اس سے با تو ں با توں میں بات چل نکلی تو بتا نے لگی ’’ پاپا چاہتے ہیں میں رائٹر بنوں،، میر ے منہ سے بے اختیا ر نکل پڑااگر وہ چا ہتے ہیں تو تم رائٹر ہی بنو گی۔ کیو نکہ میرا تجر بہ و مشا ہدہ یہی کہتا ہے اپنی بیٹی کے لئے کی گئی باپ کی خواہش میں بہت پر اسرار طا قت ہو تی ہے۔کچھ دیر تک ما ہ نو ر کے ساتھ کپ شپ ہو تی رہی پھر وہ اپنے کمر ے میں چلی گئی۔ اور ہم اپنی گپ شپ میں لو ٹ آئے۔
’’ شادی کے بعد ایسے مو قعے جب جب آ پ کو ان پہ اچا نک و بے اختیا ر پیا ر آ گیا ہو ۔ کیو نکہ عو رت کو پیار کم کم آ تا ہے جب کہ مر د کے بار ے میں مشہو ر ہے کہ وہ تو ایک تل پہ مر جائے تو سا لم عورت سے شا دی کر لیتا ہے،،
یہ سن کر شازیہ نے ایک زور دار قیہقہ لگایا ’’ہائے یہ تو ابھی تک جاری ہے ۔ مجھے ذرا سی بات پہ پیار آ جا تا ہے۔ وہ جتنے خشک ہیں میں اتنی رومانٹک ہوں۔ یہ سب تو چلتا رہتا ہے ۔ مگر ان کی یہ خو بی ہے کہ خشک طبعیت کے باوجود میر ے رومانس پہ مسکرا پڑتے ہیں،،
یہ بتا تے ہو ئے شازیہ کی آ نکھیں اور گا ل مسکر ار ہے تھے اور میں ان کی سچا ئی کو اپنی آ نکھو ں سے د یکھ رہی تھی۔ایک مسکراہٹ کے ساتھ وہ کہنے لگیں’’مجھے کبھی کبھی شوق ہو تا ہے کہ وہ میر ے ساتھ ڈا نس کر یں ۔ کبھی میں انہیں پکڑ کے گھما بھی لیتی ہو ں تو بس ایک سمائل دیتے ہیں بو لتے کچھ نہیں،،شازیہ کی آ نکھو ں میں ایک شوخ و چنچل لڑ کی ر قص کر رہی تھی۔
’’ان کی کیا با ت بری لگتی ہے؟،، میں نے اچا نک پو چھ لیا تو وہ سنجیدہ ہو گئیں
’’ یہ کہ با ت سنتے کم ہیں ، مطلب آپ ایک با ت کر تے ہیں ، اس کی و ضا حت کر تے ہیں، اس کے اوپشن ہو تے ہیں ۔وہ یہ سب نہیں سنتے،بس کہتے ہیں مختصر با ت کر و ، ایک با ت کر و، میں سو چتی رہ جا تی ہو ں کہ ہائے عاصم میں یہ بھی کہنا چا ہ رہی تھی ۔۔۔وہ بھی کہنا چاہ رہی تھی۔۔۔ ،،
’’ہر ما ں کو ہو تا ہے کہ شو ہر بچو ں کو ٹا ئم دے، تو کیاآپ کی یہ خوا ہش پو ری ہو پا تی ہے؟،،یہ سوال سن کر وہ جیسے لمحہ بھر کو ایک گہر ی سو چ کے کسی کنو یں میں گم ہو ئیں اور اچا نک ابھر آ ئیں
’’ ہو تا ہے ، مجھے بھی ہو تا ہے ہر ماں کی طرح ۔۔۔۔ مگر پھر وہی با ت ناں ۔۔۔میں سمجھتی ہو ں کہ ان کے پا س اتنا وقت نہیں ہے۔لہذا میں نے بچی کی تر بیت بھی یو نہی کی ہے کہ وہ یہ با ت سمجھتی ہے۔ پھر بھی کبھی کہتی ہے ’’ ما ما پاپا کے پا س ٹا ئم ہی نہیں ہو تا ،، تومیں اس کو یہی کہتی ہو ں بیٹا وہ بہت بزی ہیں اور اگر نہیں بھی ہیں تو ۔آپ کہیں جا نا چاہ رہے ہو ،کچھ کر نا چا ہ رہے ہو مجھے بتا ؤ ، میں آپ کے ساتھ ہو ں۔ان کو ان کے حا ل پہ چھو ڑ دو۔جو ٹا ئم وہ آ پ کو دے رہے ہیں سمجھو وہ معاری ٹا ئم ہے بس اس کو کیچ کر لو۔وہی آ پ کے خو بصورت لمحے ہیں۔ جو وہ خو د بیٹھ کر آ پ کے پا س گزاریں۔بس اس کو دیکھو با قی جو نہیں مل ر ہا اس کو چھو ڑ دو،،
’’ عاصم بٹ بحیثیت انسان ؟،، اب ہما رے درمیان مکمل سوال کا تکلف ختم ہو گیا تھا ،ہم لفظو ں میں ایک دوسرے کو سمجھ رہے تھے ۔ زما ں و مکا ں سے بھی اس لمحے، آزادی مل گئی تھی ان کے لہجے میں شکر تھا ۔وہ متانت سے بتانے لگیں
’’ وہ اپنے آ پ کو کچھ نہیں سمجھتے، وہ عا جز بندے ہیں ، لگتا نہیں کہ اتنا پھل دار درخت ہے، اتنا جھکا ؤ ہے ،،
’’ان کی عاجزی تنگ نہیں کر تی اس ما دی دنیا میں رہتے ہو ئے؟،، میں نے اچا نک پو چھ لیا ۔بہت عاجزی سے بتا نے لگیں
’’ ان کی ہر چیز بیلنس پہ ہے۔ وہ دوسروں پہ اتنا بو جھ نہیں ڈالتے کہ وہ سہہ نا سکے،نا خواہشوں کا ، نا گلے شکو ں کا ، نا کسی اور چیز کا ، ایسے ر ہتے کہ آ پ آرام سے اس کو سہہ لیتے ہیں ، مشکل میں نہیں پڑتے،،
’’ بیوی شوہر کا عکس ہو تی ہے؟،،
’’ بیو ی ہی کیا میں توکہتی ہو آپ کی فیملی میں بھی بندے کا عکس نظر آ تا ہے۔ اب ہم یہا ں تین گھر رہتے ہیں ۔ تینوں مختلف ہیں ۔ ہما ری فیملی کا پتا لگ جا تا ہے کہ یہ عاصم کی فیملی ہے۔ فیملی اسی ر نگ میں رنگی جا تی ہے ، پتا بھی نہیں چلتا،،
یہ بات سن کے مجھے سر اصغر ند یم سید کی وہ بات یا د آ گئی جو وہ اکثر یو نیو رسٹی کے لکچرز میں کہا کر تے تھے کہ’’ جو لاتا ہے، مر د وہ اپنے ساتھ گھرمیں لا تا ہے،، اس وقت یہ بات سمجھ نہیں آ تی تھی ۔ اب آ تی ہے۔۔
’’ ان کا اپنا کر دار اور ان کی کہا نیو ں کے کر دار؟،، شازیہ سن کے ہنس پڑ یں
’’ کو ئی فر ق نہیں، جیسی کومپلی کیشن ان کے کر داروں میں ہیں و یسی ہی ان میں ہیں، کر دار بھی ذرا ہٹ کے ہیں، وہ خو د بھی اسی طر ح کے ہیں،،
’’اتنے طو یل سفر محبت کے بعد کو ئی پچھتا وا؟،،شکر بھر ے ٹھہر ے سے ،صدیو ں پا ر دیکھتے کہنے لگیں
’’نہیں ، کو ئی پچھتا وا نہیں ہے، چینج بہت کر نا پڑا ، مگر یہ نہیں لگا کہ یہ کیا ہو گیا۔میں نے انہی کے حساب سے سیٹ اپ بنا لیا ،ما ہ نو ر کو انہی کے حسا ب سے ڈھا ل د یا، ہم اسلا م آبا د تھے ، یہ ساری رات پڑ ھتے تھے، ماہ نور چھوٹی سی تھی، ماہ نور صبح سکو ل جا تی تھی میں نے جلدی اٹھنا تو جو تے اتار کے ان کے کمر ے کے پا س سے گزرنا کہ کہیں میرے جو تے کی آواز سے ان کی آ نکھ نا کھل جائے،کہیں ان کی نیند نا ٹو ٹ جائے۔ ان کی نیند کا احترا م میں نے ہمیشہ ایسے ہی کیا ہے ،،
شازیہ کی باتیں سن کے میں اچانک یہ سوچنے لگی کہ وہ جب کسی ایڈیٹر کا فو ن کسی نئے افسانے کے لئے آ تا ہے تو میں انہیں اکثر یہ کہتی ہو ں سوری میر ی کو ئی بیوی نہیں، لہذا وقت نہیں مل رہا ،۔وہ بات ہنسی میں اڑا جاتے ہیں۔ میں سوچتی رہ گئی اگر شازیہ جیسا مر دہو تا تو میر ے ولیمے کے چاول بھی رقیب تنا ول فر ما چکے ہو تے۔میر ی شیطا نی سو چیں اپنی جگہ، شازیہ ی کی با ت جاری تھی
’’ یہ خو د بھی دوسروں کی نیند کا حترام کر تے ہیں ۔ ما ہ نو ر سو رہی ہو تو لائٹ آ ف کر دیتے ،اور بو لنے بھی نہیں دیتے تھے کہ وہ سو ر ہی ہے۔ اسی طر ح جب وہ سو تے ہیں تو ہم ان کی نیند کا احترام کر تے ہیں۔اس سے آپ ندازہ لگا سکتی ہو کہ جتنی محنت انہو ں نے کی ، ان کے ساتھ ہم نے بھی اتنی ہی محنت کی ہے۔ یو نہی ایک دوسرے کا خیال رکھا ، یہ پو ری فیملی کا رول ہو تا ہے جو با ظا ہر نظر نہیں آتا ۔ہم نے چو نکہ اپنی فیملی کو ان کے سانچے میں ڈھا لا ہے جس میں عا صم نے ہما را ساتھ دیا لہذا ہمیں اندازہ ہے
اگر آ پ ایک دوسرے کی کئیر کر تے ہیں ، اس کے کا م ، نیند ، اس کے احساس ،اس کی ہر چیز کا خیا ل رکھتے ہیں تو اس کا مطلب آ پ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔میں نے ان کے کئی فر ینڈز د یکھے ہیں جن کی بیگما ت کہہ رہی ہو تی ہیں کہ یہ با زار سے فلا ں چیز نہیں لا ئے، تو میں سو چتی ہو ں کہ ’ ان کا کا م کتنا ا اہم ہے ، ان کا رول کتنا اہم ہے ، ہم لو گ اس کو چھو ڑ کے کہیں کہ ہما را کا م کر دو۔ اپنا چھو ڑ دو۔
ایک ذہین بنا ہو تا ہے ہم کہیں کہ اس کو توڑ دو۔ یہ درست نہیں ۔ عاصم رات کو جلدی سوتے ہیں صبح چار پا نچ بجے اٹھ جا تے ہیں۔ تو میں خا مو شی سے ، آ رام سے کمر ے سے با ہر آجاتی ہوں ۔اور دروازہ بند کر دیتی ہو ں ۔ مجھے علم ہو تا ہے کہ یہ ان کا لکھنے کا ٹا ئم ہے۔ اس کے بعد انہو ں نے آ ٹھ بجے کمر ے سے نکلنا ہو تا ہے۔ اس سے پہلے ہم میں سے کو ئی بھی کمر ے میں نہیں جا تا ، میر ی کو ئی چیزا ندر رہ بھی جا ئے تو میں کمر ے میں نہیں جا تی۔کیو نکہ ایک تسلسل بناہو تا ہے ۔ وہ ٹو ٹ جا تا ہے۔ شر وع میں مجھے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا ، انہیں شروع میں مجھے ایک دو دفعہ بتا نا پڑا ، کہ میرا ذ ہین بنا ہو تا ہے جب کو ئی یو ں اند ر آ تا ہے تو سب گڈمڈ ہو جا تا ہے۔اسکے بعد پھر کبھی ایسا نہیں ہو اکہ ان کے لکھنے کے وقت کسی نے انہیں تنگ کیا ہو۔جوذہین اللہ نے دیا ہو تا ہے اگر اس کی حفا ظت نا کی جائے تو یہ زیا دہ دیر کا م نہیں کر تا ۔ارے یہ بھی کہ رابعہ ہم لو گ بھی ان کے ساتھ انہی کی طر ح چل ر ہے ہیں ۔ میر ے کہنے کا مطلب ہے فیملی پہ بھی آ پ کے کا م کا ، آ پ کے رویے کا اثر اسی طر ح پڑ تا ہے۔
ما حو ل کا فی فلسفیا نہ ہو نے لگا میں نے چاہا ذرا تھوڑاسا مسکرا لیں ’’ کبھی آ پ نے ان کا مو بائل چیک کیا؟،، شازیہ یہ سنتے ہے ہنسنے لگیں ، مجھے لگا انہو ں نے یقیناًوہ لطیفہ سن ر کھا ہے۔
’’’’ایک نو جوان مو لو ی صا حب کے پا س گیا اور کہنے لگا ،مولو ی صا حب ایک مسلئے کا حل پو چھنا ہے۔ اکثر رات
کو آ فس کا کا م کر تے ہو ئے ، میں صو فے پر ہی سو جا تا ہو ں،رات کو جب میر ی آ نکھ کھلتی ہے تو د یکھتا ہو ں کہ میر ی
بیو ی بیڈ پر سوئی ہو ئی ہے،اور اسکے اوپر ایک رضائی ہے۔اس ر ضا ئی سے نو ر چھلک ر ہا ہے
تو حضرت میں یہ جا ننا چاہتا ہو ں کہ میر ی بیوی کی کو نسی ایسی نیکی یا عمل ہے، جس کی بد ولت اسکی ر ضا ئی سے اتنا نو ر
چھلکتا ہے؟
مو لو ی صاحب کہنے لگے ، ابے گدھے تو مرے گا کسی دن۔۔
یہ نو ر نہیں چھلکتا،بلکہ تیر ی بیو ی رات کو تیرامو بائیل چیک کر تی ہے
پا س ورڈ ڈال کے رکھا کر،،،،،،،
پھر بتانے لگیں ’’نا ں میں نے کبھی چیک کیا ، نا انہو ں نے کبھی میرا مو بائیل چیک کیا ۔ ہا ں البتہ ایک دفعہ کیا ،جب وہ انڈیا سے آ ئے تھے،،
’’آپ کے لئے کبھی کچھ لکھا ؟، ،بیو ی کے طو ر پہ یا ، منگیتر کے طو ر پہ؟،، وہ مسکرا نے لگیں
’ ایک قہقے نے میرے سوال کا جو اب خو د ہی دے دیا۔’’ ایسا کو ئی سین نہیں ہو ا۔۔، شادی سے قبل مجھ سے ایک دفعہ پو چھا ، کیا پسند ہے ، مجھے شاعری پسند تھی میں نے بتا دیا ۔ تو شادی سے پہلے شاعری کی کتاب گفٹ کی تھی۔اب شاعر ی بھی پسند نہیں رہی ۔ یہ سب عا م زند گی میں تو ہو تا نہیں ، صر ف کتا بو ں کی حد تک اچھا لگتا ہے۔بتا یا نا ں یہ روما نٹک تو ہیں نہیں ، یہا ں رومانس بھی خو د کر نا پڑتا ہے۔ مگر پھر میں سو چتی ہو ں ، چلو کو ئی با ت نہیں ، ایک بند ہ کر لیتا ہے نا ں کا فی ہے، اگر دونو ں خشک ہو تے تو کیا ہو تا ، زند گی کتنی نے ر نگ ، بے کیف ہو تی ۔وہ ان سب معاملا ت میں بالکل ہٹ کے ہیں ۔مگر ایک بات ہے ۔ ہم دونو ں رات کو مل کر ایک گھنٹہ آدھا گھنٹہ مل کر گا نے گاتے ہیں۔ وہ بہت اچھا لگتا ہے اس وقت ان کا مو ڈ ہو تا ہے کہ اب کو ئی کا م نا کر و ۔ اس کے بعد انہو ں نے واک پہ جا نا ہو تاہے۔
جو نہی ہم شروع کر تے ہیں ، ما ہ نو ر کہتی ہے’چلو اب ان کا گا نا ٹا ئم شروع ہو گیا ، وہ پاپا کی ٹا نگ پہ سر رکھ کے آرام سے لیٹ جا تی ہے۔
زیا دہ تر ہم پرانے گانے گاتے ہیں۔ عاصم نے مو سیقی سیکھی ہو ئی ہے ، اس لئے میں جہا ں سمجھ نہیں پا ر ہی ہو تی ان سے پو چھ لیتی ہو ں۔کہ عاصم یہ لائین ذرا صیح کروا دیں ۔ اس کی ادائیگی بتا دیں ۔ اس طر ح کر تے کر تے میں بھی کچھ سیکھ گئی ہو ں ۔میر ے والد جو عاصم کے ما مو ں تھے ، انہیں بھی مو سیقی کا شوق تھا انہو ں نے بھی مو سیقی سیکھی ہو ئی تھی۔ گو یا یہ شو ق شا ید میر ے ساتھ بھی آ یا ۔ ابو اور عاصم کا شو ق ایک تھا ۔ یہ کہہ کہ وہ بے اختار ہنس پڑ یں ۔ ان کی ہنسی کی کھکھلا ہٹ سے ہمیشہ بہا ر آ جا تی ۔
’’اگر حسن اتفا ق سے یہ ساتھ چلے جائیں تو کیسا لگتا ہے؟،،
حسر ت بھر ی نگا ہو ں سے میر ی طر ف دیکھتے ہو ئے کہنے لگیں ’’بہت اچھا لگتا ہے ، ما ہ نو ر کو اب زیا دہ محسو س ہو تا ہے کہتی ہے ’ماما ، پاپا سا تھ ہو تو تو بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن با ہر جانے کا ان کو شوق نہیں ۔ حالانکہ میں کہتی ہو ں عا صم جو آپ کا کا م ہے آ پ زیا دہ با ہر جاؤ تو چیز یں دیکھتے ہو آئیڈیا ملتا ہے ، تو کہتے ہیں ، میرا کا م یہ نہیں، میں ہجو م میں جہا ں بہت زیا دہ لو گ ہو ں مزہ کر تا ہو ں ۔ بازاروں میں ، پا ن کی دکا نو ں پہ۔ پہا ڑو ں پہ چلے جا نا میر ے لئے اس میں د لچسپی کا کو ئی سا مان نہیں ہے خا مشی میں میر ے لئے کو ئی دلچسپی نہیں ہے۔اس لئے ان کو لا ہو ر پسند ہے۔ ۔۔لورلو ر اے۔۔،، کہہ کر ان کے قہقے نے مجھے بھی ہنسنے پہ مجبو ر کر دیا ۔
’’اور یو ں وہ اسلا م آ با د سے لا ہو ر آ گئے۔،،
ہم دو نو ں میں بے تکلفی ہو چکی تھی۔ اب با ت کر نا مز ید آ سا ن ہو گیا تھا ’’ لڑائی ، کو ن منا تا ہے،،
’’ لڑ ائی نہیں ہو تی ، ان کا بس غصہ ہو تا ہے۔ وہ بھی ان کی نا پسند ید ہ با ت پہ ۔ اب وہ بھی کم ہو تا جا رہا ہے۔ لیکن پہلے ایسا ہو تا تھا کہ ان کی کو ئی کتا ب کو ئی کا غذ کہیں اور رکھا گیا تو بر ہم ہوجاتے تھے۔ تب میں خا مشی سے ادھر ادھر ہو جاتی تھی بحث نہیں کر تی تھی ،میں نے ان کو کبھی جواب در جو اب نہیں دیا ۔ تھو ڑی دیر بعد خو د ہی ٹھیک بھی ہو جاتے تھے۔کبھی میں خو د ہی کہہ دیتی تھی سوری عاصم مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ ،،
’’ کبھی ان کو مذاق میں دوسر ی شادی کا خیا ل آ یا ؟،، شازیہ یہ سن کے ہنس پڑ یں
’’ان کے لئے تو ایک شا دی بھی زیا دہ ہے ۔ او ر مذاق والا کا م ، خو ش کر نے والا کا م، ان کے لئے مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلی شادی انسا ن سے غلطی ہو جاتی ہے ، دوسر ی بیوقوفی ہو تی ہے۔ ،،
اب لا لہجہ اچانک مد ھم سر وں کا ہم سفر ہو گیا حسر ت سے بتا نے لگیں ’’ مذا ق تو کر تے ہی کم ہیں ۔ اگر بہت خو ش ہو نگے تو بس گنگنانے لگتے ہیں ۔ اس لمحے بھی کو ئی عجیب کا م نہیں کر تے۔،،
’’ ایوارڈ کی نا مینیشن ہو گئی ان کے اور آ پ کے کیا محسوسات تھے؟،
وہ گہر ی سو چ میں ڈوبیں اور خو د ہی ابھر آئیں ’’ یہ تو ان چیزو ں پہ دیھا ن نہیں کر تے ۔ اپنے اوپر حا وی نہیں کر تے۔ ان کی خیا ل تھا مل گیا ٹھیک ہے ، نا ملا ٹھیک ہے ۔ مگر میں اور ما ہ نو ر کا فی ایکسایٹڈ تھے۔بہت دعا تھی ۔ اور اللہ کا شکر ہے ملا ۔ تب میں نے عا صم سے کہا عا صم یہ ایوارڈ آپ کو نہیں مجھے ملا ہے۔یہ ہما ری محبت کے ساتھ اور سفر کا صلہ بھی تھا ۔،،
اس لمحے شازیہ کی آ نکھو ں کی چمک خو د کہہ ر ہی تھی کہ یہ انہی کا ایوارڈ تھا۔مجھے اس محبت پہ پیا ر آ گیا ۔ ان کی آنکھو ں میں بھی نمی تھی میں نے بھی اپنی آ نکھیں جھکا لیں ۔انہو ں نے اپنی با ت جاری رکھی
’’ یہ بھی شکر ہے کہ ان کو مل گیا ، وہ بھی لو گ ہیں جو پو ری زند گی اپنے کام کو دے دیتے ہیں اور ان کی حو صلہ افزائی بھی نہیں ہو تی۔ میں سمجھتی ہو ں یہ ان کی خو ش قسمتی ہے کہ اچھے ٹا ئم پہ مل گیا ۔ وہ ما دہ پر ست اور دنیا دار ہو تے تو وہ کہا ں سے کہا ں ہو تے۔مگر عا صم کے لیے یہ سب اہمیت نہیں ر کھتا ۔ وہ چیزوں کو بہت آ رام سے چھو ڑ دیتے ہیں ۔ ،،
ہم بھی ما دیت سے نکل کر ذاتیت پہ آ گئے ۔ طو طو ں کی گنگناہٹ یہا ں تک سنا ئی دے رہی تھی۔ ’’ شو ہر کے حو الے سے جو خو بی آ پ کو پسند ہو ؟،،
وہ مطئین سا مسکر ائیں ’’بہت سی ہیں ،مگر سب سے زیا د ہ یہ کہ بہت کئیر نگ ہیں دوسرا یہ کہ ان میں احتر ام انسا نیت بہت ہے ، جھکا ؤ بہت ہے، لو گ مذ ہب سے متا ثر ہو تے ہیں تو کچھ کر تے ہیں ، مگر عا صم اس کے بغیر انسان کو انسا ن سمجھتے ہیں ۔ خو د کو بھی ایک عا م سا انسا ن سمجھتے ہیں۔ جب عا م لو گو ں کی با تیں سنتی ہو ں تو محسو س ہو تو ہے عا صم بہت مختلف ہیں ، وہ بہت اونچائی پہ سوچتے اور عمل کر تے ہیں ۔ انہو ں نے مجھے بھی اتنی اونچائی ہی اپنے ساتھ سفر کروایا ہے کہ مجھے اب بہت کچھ ان کی طر ح نظر آ نے لگا ہے۔ وہ کہتے ہیں پیسہ اہم نہیں وقت ، جو آپ کو مل ر ہا ہے وہ وقت جو آ پ خو د اپنی مر ضی سے کسی کو دے رہے ہو ،وہ زیا دہ اہم ہے ۔
ان کا ایک جملہ ہے ’جیو اور جینے دو، ہما رے ہا ں تو بیو ی کو ایک ریمو ٹ کنٹر و ل چیز سمجھتے ہیں۔عاصم میں یہ بات نہیں ۔ وہ ہمیں کسی حو الے سے بھی با ؤنڈ نہیں کر تے ۔ انہو ں نے یہ کبھی محسو س نہیں ہو نے دیا کہ اب شادی ہو گئی ہے تو میں مجا زی خدا بن بیٹھا ہو ں۔ میر ی مر ضی کی پو جا کرو۔ زند گی پیکچ میں چلتی ہے ، جب عاصم والا پیکیج د یکھتی ہو ں تو لگتا ہے ٹھیک ہے ، جو کچھ ان میں نہیں ، ٹھیک ہے کیو نکہ جو ہے وہ اس سے اچھا ہے۔،،
مجھے شازیہ کی سچا ئی میں با نو قدسیہ نظر آ نے لگیں ، میں نے بھی ان سے کہہ دیا ۔ تو ان کی جا ندا ر ہنسی سے ر نگین کمر ے میں چا رو ں اور تتلیا ں رقص کر نے لگیں۔ اب انہو ں نے مجھ سے سوال کر لیا ’’ وہ کیسے؟،،
’’ وہ یو ں کہ با نو آ پا ں نے اشفا ق صا حب سے کہا تھا ’ اشفا ق صاحب میں آ پ کے پیچھے کھڑی ہو ں۔، یہ ان کی محبت تھی عشق ہی ایسے جملے کہلواتا ہے۔ پھر ان کے کر دار نے اس عاشقانہ قول کو ثا بت بھی کیا ۔ ،،
شازیہ سنجیدگی سے کہنے لگیں ’’ دیکھو رابعہ ہم محبت کو چیز وں میں تو لتے ہیں۔ کہ اس نے مجھے اتنا پیسہ دے دیا ، فلا ں ما ڈل کی گا ڑی لے دی، گفٹ دے دئیے تو یہ محبت ہے یہ۔ سب تو مل جا تا ہے ۔ مگر کچھ چیزیں سمجھنے کی ہیں ۔ محبت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے۔
ہماری مثال لے لو ہم ایک دوسرے سے با لکل مختلف ہیں ، ہما ری لائنز الگ ہیں ، اگر ہم ایک دوسرے کو سمجھتے نا تو مشکل ہو جاتی۔ اس سمجھ میں ہو ایہ کہ مجھے ان کی ہر چیز اچھی لگنے لگی۔وہ کہانی سناتے ہیں ، مجھے کہا نی میں دلچسپی ہو نے لگی۔ حالا نکہ انکی کہا نی میں رومانس نہیں ہو تا ۔ پھر بھی مجھے بو رنگ نہیں لگتی۔ شرو ع میں ان کی عادت تھی کہ پڑھ ، لکھ کرکمر ے سے با ہر نکلتے تو ان کا دما غ بہت تیز چل رہا ہو تا تھا ، تب وہ بہت باتیں کر تے چلے جا تے تھے، اور میں خا مشی سے سنتی رہتی تھی۔مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ یہ خا مو ش زیا دہ ہنے لگے ہیں۔
وہ یہ کہہ کر ہنس پڑ یں ’’ خطر ہ تو مجھے یہ ہے کہ کہیں آگے چل کر۔۔۔، پھر میں عاصم سے پو چھتی ہوں ’ عا صم مستقبل میں یہ اور زیا دہ تو نہیں ہو جائے گا؟،،تو بس مجھے غو ر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ وقت کم ہے ۔ لہذاوہ وقت ضا ئع نہیں کر تے۔
خوا ہش تو ہو تی ہے کہ اسی طرح وقت دیں ۔ مگر میں نے محسو س کر نے والی حس ختم کر دی ہے ۔ اگر خوشبو اند ر جاتی رہے تو آ پ کو آ تی رہے گی۔ میں نے خو شبو کا راستہ ہی روک دیا ہے۔،،
’’ اس سے آ پ کی ذات مہک گئی؟،،
ہا ں نا ں یہی تو ہے۔ میں نے اس کا منفی نہیں لیا ۔ میں زندگی خو د انجو ائے کر لیتی ہو ں ۔ بیٹی کو ساتھ لے لیتی ہو ں ۔ میں نے ایک سرکل بنا لیا ہے اس سے نہیں نکلتی۔میں عمل اور رد عمل کے پیٹر ن پہ چلو ں گی تو مشکلا ت زیا دہ ہو جائیں گی ،کم نہیں ہو نگی،لہذا مشکلا ت کو کم کر نے کے لئے میں دائر ہ کم کر دیتی ہو ں،،
شازیہ یہ سب کہہ رہی تھیں تو مجھے محسوس ہو رہا تھا اس وقت ان میں عاصم بٹ کی روح چپکے سے آ گئی ہے ’’رانجھا رانجھا کر دے نی میں آپے رانجھا ہو ئی۔۔۔،،
’’اور اگر آپ کی شا دی ان سے نا ہو پا تی؟،،
وہ میر ایہ تلخ سوال سن کر مسوس گئیں بھر ے سے لہجے میں کہنے لگیں’’محسوس تو ہو تا،۔۔ وہی ہو تا ۔۔جو سب سے ساتھ ہو تا ہے ۔۔ ایک رشتے کے لئے ، ایک شخص اچھا لگ رہا ہے ، وہ بدلا جائے تو ۔۔ محسوس تو ہو گا۔۔۔،،
یہ پہلا لمحہ تھا کہ ان کی آواز لڑکھڑا گئی اور جواب گم ہو گئے۔ یہ لمحہ ، لمحہ بھر کو ان پہ بیت گیا ۔ اور مجھے بھی اپنی نم آنکھیں چڑا نی پڑیں۔کیونکہ ہم دونو ں مختلف لمحوں کی ، مختلف کشتیو ں کے، مختلف زندگی کے سوار مسا فر تھے۔ مگر تھے تو وہی حساس انسان۔۔ان کی با ت جا ری تھی
’’جیسے میں عاصم سے بات کر تی ہو ں تومیر ے چاروں طر ف روشنی ہو جاتی ہے۔ ان کی باتیں خوبصورت ہو تی ہیں ، بہت آ رام و سکو ن سے با ت کر تے ہیں، مجھے جینے کا پو راحق دیتے ہیں،ظا ہر ہے پھر یہ سب نا ہو تا۔۔،،
وہ ابھی تک اس کیف سے با ہر نہیں آ ئی تھیں۔
میں ان کو پہلے کی طر ح کھکھلاتا دیکھنا چاہتی تھی۔ مو ضو ع بد لنا چا ہا’’اپنے شوہر کو ادب میں کس مقا م پہ د یکھنا چاہتی ہیں؟،،
’’ رابعہ پہلی با ت تو یہ کہ جس سوسائٹی میں ہم ہیں ۔یہا ں لو گ اد ب کو ، ادیب کو، اور ان کے رو ل کو سمجھتے ہی نہیں۔ پھر بھی میں اپنی وسعت نظر سے بہت بلند دیکھنا چاہتی ہو ں،،
اسی دوران آنٹی او ر ما ہ نو ر آ گئے۔ کھانے کی میز ہما رے انتظا ر میں تھی۔ مگرمیر ے پا س کو ئی اضا فی پیٹ نہیں تھا۔ مجھے یو ں بھی کھانا بہت مشکل کا م لگتا ہے۔ دل کر تا ہے کا ش کھانا نا کھانا پڑے ، کھانے کی کو ئی گو لی ہو اور کام ہو جائے ۔ میں اپنی یہ نفسیات کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ کو فتوں سے بھی دل ہی دل میں معذرت کر لی اور بس گھر والو ں سے بھی ۔ مگر پھر بھی آنٹی جی کی خواہش تھی کہ میں کھا نا کھا ؤ ں کیونکہ ان کا خیال تھا شا ید میں تکلف میں ہو ں یا پھر لڑکیو ں کی طر ح ڈ ئیٹنگ پہ۔ مگر ماہ نو ر کو میر ی حا لت کا اندازہ ہو گیا ۔ اس نے مجھے سپو رٹ کیا ۔ اور یو ں میں بچ گئی۔ گلا س پا نی پیا۔ بس مجھے یہی چاہئے تھا ۔ اب میں بھی تھک چکی تھی۔ جا نا چاہتی تھی۔ شام کی د ستک بھی ہو نے ہی کو تھی۔
شازیہ کہنے لگیں ’’ یہ کا م آپ کو ازدواجی زندگی میں بہت مدد کر ے گا ۔ خوش گو ارزندگی گزارنے میں۔۔،،میں ہنس پڑ ی ’’ شاید۔۔جنت و دوزخ کا وقت سے پہلے سفر کبھی کبھی انسان کا توازن بھی کھو لیتا ہے،، مگر وہ مجھ سے متفق نہیں تھیں۔
’’نہیں رابعہ، جو اس نے بنا یا ہے ۔ وہ اس کو ویسا ہی دیتا ہے۔جو اسے سمجھ سکے ،سنبھا ل سکے۔ اور دیکھنایسا ہی ہو گا،،
اور پھر بہت سی یا د یں میر ے ساتھ ہمسفر ہو گئیں ۔
ایک سوال تھا ’’ عاصم بٹ صاحب نے پو ری کی پو ری بیو ی پہ جا دو کیسے کر رکھا تھا؟یہا ں تو لو گ آدھی بیو ی بھی اپنے ر نگ میں نہیں ر نگ سکتے، ہا رے ہارے پھر تے ہیں۔
اگلے روز میں نے عا صم بٹ صاحب کو فو ن کر کے یہ سوال پو چھ لیا۔ انہو ں نے اپنے مخصو ص اندا ز میں کہا
’’ خواتین سب ایک جیسی ہو تی ہیں ۔ یہ مر د کی اپنی کمی بیشی ہو تی ہے جس کا وہ گلہ کر تے ہیں،،اس سے زیا دہ خطر نا ک جو اب نہیں ہو سکتا تھا
کیو نکہ میں اکثر یہ سوچا کرتی تھی کہ اگر مر د کی اہلیت سے بیٹا یا بیٹی کو سائنس ثابت کر چکی ہے تو مرد کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ اگر سب الہا می کتابو ں میں مر د کومخا طب کر کے بات کی گئی ہے تو وہ عمل ہے ،عورت ردعمل۔
فلسفے اپنی جگہ مگر شازیہ سے ملنے کے بعد احسا س ہو تا ہے کہ کبھی عاصم بٹ یہ گا نا بھی گنگنایا کر تے ہو نگے
اک چنچل شو خ حسینہ
میرے سپنوں میں آ ئے۔