نور اللّٰہ جا وید
گردش پا انسان کا مقدرہے،اضطراب میں ہی حیات و ثبات کا رازہائے دروں مضمر ہے۔ زندگی رواں دواں تھی، حرکت و عمل ان کا وظیفہ حیات تھا،رک جاناگوار ا نہیں تھا اورچلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، سفر عزیز تھا۔چالیس کی عمر کے بعد توقویٰ مضمحل ہونے لگتے ہیں مگر عمر تو پچاس سال کے قریب پہنچنے والی تھی۔مستزاد یہ کہ ایک حادثہ نے پاؤں سے معذور کردیا تھا۔اس کے باوجود رفتار میں کوئی فر ق نہیں آیا تھااور وہ اپنی نوجوانی کی طرح ہی ذوق و شوق سے برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے ہی جارہے تھے۔ساتھ چلتے چلتے وہ بہت آگے نکل جاتے تھے۔ہم تنک آکر بولتے ذرارک جائیے، تھوڑا سا آرام کرلیجئے۔انہیں ہماری سست گامی کا لحاظ بھی نہیں تھا۔شاید انہیں احساس تھا کہ وقت بہت ہی کم ہے اس لئے وہ برق رفتاری کے ساتھ گرد اڑاتے ہوئے منزلیں طے کررہے تھے۔ مسلسل حرکت و عمل کا کبھی مذاق بھی اڑاتے تو کبھی طنز کستے مگر وہ صرف مسکراکر آگے بڑھ جاتے۔مگر ہم میں سے کوئی بھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ 25اگست 2020کی دوپہران کی تیزگامی کی ایسی خبر لے کر آئے گی کہ ہمارے ذہن و دماغ کو شل ہوجائیں گی۔ وہ برق رفتاری کے ساتھ منزلیں طے کرتے ہوئے اس عالم کے آب و گل کے حدو ں کو ہی پار کرگئے۔گزشتہ دو ہفتوں سے بیماری خبرمل رہی تھی،خبر ملی کہ تشویش ناک حالت ہے، پلازما چاہیے۔مگر مجھے یقین تھا کہ وہ پہلے ہی طرح ایک بار پھر کھڑے ہوجائیں گے اور اپنے خوابوں کی تعبیر میں مصروف عمل ہوجائیں گے۔ابھی اسے بہت کچھ کرنا باقی تھا۔کئی خواب تھے جس کا وہ ذکر کرتے تھے، کئی پروگرام تھے جسے وہ عملی شکل دینا چاہتے تھے۔گھریلوں ذمہ داریاں تھی، جینے کی تمنا تھی۔اس سے پہلے بھی وہ بم دھماکے کی زد میں آئے، لاشوں کے درمیان پڑے رہے مگر پھر”میں زندہ ہوں“ کا صدا بلند کرکے رواں دواں ہوگئے۔سڑک حادثہ نے چکنا چور کردیا، کئی ہفتے اسپتال میں اور کئی مہینے بستر علالت پر رہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ پھر کبھی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوپائیں گے مگر عزم و استقلال سے انہوں نے معذوری کو شکست دیدیا بلکہ پہلے سے زیادہ تیز گام ہوگئے۔جب سوشل میڈیا پر دعاؤں کی اپیل آرہی تھی تو میں لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ وہ بیماری کے بہانے آرام کررہے ہیں جلد ہی رواں داوں ہوجائیں گے۔ان کے عزائم اور خوابوں کے آگے ”کورونا“ کچھ بھی نہیں ہے۔ بات کسی حد درست بھی ہے کہ مگر قدرت کے فیصلے کے آگے وہ کیا سکندر بھی مجبور ہوئے گئے تھے اور اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے گئے ہے۔زندگی کی بے ثباتی کی یہی کہانی ہے۔علامہ اقبال کے بقول
جنبش ہے زندگی جہاں کی،یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتااشہب زمانہ، کھا کھا طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے، پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے واے نکل گئے ہیں، جو ذرا ٹھیرے کچل گئے ہیں
عبد القادر شمس کی موت صرف ایک صحافی، یا ایک عالم دین یا ریسرچ اسکالر یا پھرکئی ملی اور دینی اداروں سے وابستہ ایک فرد کی موت نہیں ہے بلکہ خوابوں کی موت ہے۔وہ خواب دیکھنے کے ماہر اورخوابوں کی عملی تعبیر کیلئے پوری تندہی سے کام کرنے والے تھے۔ کون کیا کہتا ہے؟ اور کون کیا سوچتا ہے؟ انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔بس کام کرتے ہوئے چلے جانا ہے۔لہجہ کی بانکپن ایسی تھی کہ جو ایک مرتبہ ملاقات کرلے وہ ان کا دوست بن جاتا تھا۔لوگوں کو شیشے میں کیسے اتارا جاتا ہے اس فن کے وہ ماہر تھے۔وہ کسی کے بھی مخالفت نہیں تھے۔کسی انصاف پرور بادشاہ سے متعلق سنا تھا کہ اس کے مملکت میں عدل و انصاف کا عالم یہ تھا کہ ایک ہی گھاٹ سے بھیڑیا اور بکری دونوں پانی پیتے تھے۔مگر یہ صرف شنید کی حد تک محدود ہے مگر میری آنکھوں نے عبدا لقادر شمس کی شکل میں ایک ایسے انسان کو بھی دیکھا ہے جس کے پاس دوست و دشمن دونوں آتے تھے اور اپنے اپنے کام کراتے تھے اور وہ خندہ پیشانی سے دونوں گروپ کے کام آتے مگر رازداری کا عالم یہ تھا دونوں گروپ میں سے کسی کو بھی شکایت نہیں ہوتی کہ اس کا راز افشاں کردیا گیا ہے۔درجنوں مرتبہ ہم نے اس پرطنز بھی کسے ہیں کہ یہ وہ کیسے اس طرح کے لوگوں کو ڈیل کرلیتے ہیں۔ مگر وہ بے ساختگی سے مسکراتے اور خاموش ہوجاتے تھے۔وہ امکانات پر یقین رکھنے والے تھے۔امکانات کی راہیں مسدود کرناان کا مسلک نہیں تھا۔مگر وہ منافق اور موقع پرست بھی نہیں تھے کام نکلتے ہی چہر پھیر لیا بلکہ ان کی فطرت ہی ایسی تھی نفع حاصل کرنے سے زیادہ نفع پہنچا یا جائے۔ کوئی حریف بھی نہیں تھا اور نہ وہ کسی کو اپنے لئے خطر محسوس کرتے تھے اس لئے وہ نئی نسل کو آگے بڑھانے اور مواقع فراہم کرنے میں کچھ ہچکچاتے نہیں تھے۔لوگوں کو جوڑنا اور انہیں پلٹ فارم فراہم ان کا مزاج تھا۔اندیشہ سود وزیاں سے بے پرواہ تھے۔دارالعلو دیوبند، جامعہ ملیہ اسلامیہ،وقت کے کئی بڑے اکابرین کی رفاقت اور سرپرستی میں انہوں نے شعور کا جام آتشیں پیا تھا اس لئے ان کی فکرمیں اعتدال، میانہ روی روی تھی۔
یادش بخیر 1999کا سال تھا۔میں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا، بہار،جھارکھنڈ،اڑیسہ ونیپال کے طلبا ء کی سجاد لائبریری کا ناظم کتب خانہ بھی تھا۔اسی زمانے میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ دیوبند میں علمی کا م کیلئے فروکش ہوئے۔انہوں نے سجاد لائبریری میں موجود حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد ؒ کی حیات وخدمات پر ایک کتا ب جو معدوم ہوچکی تھی کولائبریری سے حاصل کرکے اس ہدایت کے ساتھ دہلی لے کر آگئے کہ تم میں سے کوئی دہلی آنا مجھ سے ملاقات کرنا اور میں یہ کتاب لوٹانے کے ساتھ اسلامک فقہ اکیڈمی کی مطبوعات بھی لائبریری کیلئے دوں گا۔ہمیں اس بہانے دہلی گھومنے کا ایک موقع مل گیا چند ہفتے بعد سجاد لائبریری کے ناظم نعیم بھاگلپوری کے ہمراہ دہلی پہنچ گئے۔قاضی ؒ اس وقت صاحب شدید بیمار تھے ملاقات کی کوئی سبیل نہیں تھی مگر ہمیں کہا گیا کہ وہ کتاب بٹلہ ہاؤس میں واقع ملی کونسل کے دفتر میں ملی اتحاد کے اسسٹنٹ ایڈیٹر عبدا لقادر شمس کے پاس ہے ان سے حاصل کرلیں۔میں نے سوچا کہ مولاناعبدالقادر شمس قاسمی کوئی بھاری بھرکم شخصیت ہوں گی۔کونسل کے دفتر استقبالیہ کے عملے نے دوسری منزل پر عبدا لقادر شمس کے کمرے پہنچادیا۔ہماری امیدوں کے برخلاف درمیانی قد،چھریرے بدن اورتیزرفتار شخص نے ہمارا اسقبال کیا۔ملی اداروں کے بدتمیز اور آدم بیزار عملوں کے برخلاف انہوں نے اپنائیت کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوئے،کھانا کھلانے کے ساتھ خوب باتیں کیں، مستقبل کے ارادے پوچھے، مشورے دئیے اور فراغت کے بعد عصری تعلیم کے حصول کی رغب دلائی اور رہنمائی بھی کی۔دہلی کے اس پورے سفر کا ما حصل مولانا عبدالقادر شمس قاسمی سے تعارف تھا۔دیوبند سے فراغت اور ایک سال کی طویل بیمار ی کے بعد میں بھی دہلی میں فروکش ہوگیااور ایک دن اچانک حضرت مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے دفتر بٹلہ ہاؤس میں مولانا عبدا لقادر شمس قاسمی سے ملاقات ہوئی، گزشتہ ملاقات کی یاد دلائی تو ان کا چہرہ کھل گیافورا کہا!ہاں یاد ہے مجھے۔وہ دن تھا اور ان کے انتقال کے آخری دن تک ان کے ساتھ تعلقات مستحکم ہوتے چلے گئے۔غم روزگار نے مجھے دہلی چھوڑنے پر مجبور کردیا اور میں کلکتہ کی پرکیف فضاؤں کا ایسا اسیر ہوا کہ دہلی کی طرف رخ کرنا ہی بھول گیا۔ہزار سے زاید کلومیٹر کے مسافت کے باوجود جن لوگوں سے تعلقات پر گرد نہیں پڑے میں ان میں سے مولانا عبدا لقادر شمس مرحوم تھے۔بلکہ کلکتہ آنے کے بعد ان کی نظرعنایت میں مزید اضافہ ہوگیا۔وہ عالمی سہارا کیلئے پابندی سے مضمون لکھانے لگے،کبھی بنگال کی سیاست پر تو کبھی اڑیسہ کی سیات پر تو کبھی آسام کی سیاست پر۔میں عذر پیش کرتا تھا مجھے آسام اور اڑیسہ کی سیاست سے متعلق کوئی خاص جانکاری نہیں ہے وہ جھٹکے میں بولتے تین دن کا وقت ہے، پڑھئے،آسام کے اخبارات کا مطالعہ کیجئے۔انشاء اللہ لکھاجائے گا۔کوئی مشکل نہیں ہے۔7سال قبل جب میرے مضامین کا مجموعہ ”چراغ راہ“ کتابی شکل جب شایع ہورہا تھا تو میں نے عرض مصنف میں عبدا لقادر شمس مرحوم کا شکریہ اداکرتے ہوئے لکھا تھاکہ”ڈاکٹر عبد القادر شمس کا شکریہ جنہوں نے چٹیل اور غیر مانوس موضوع پر قلم اٹھانے کا ہنر سیکھایا“۔ایسا نہیں ہے کہ یہ عنایات و التفات صرف میرے ساتھ تھے بلکہ درجنوں ایسے نوجوان ہیں جنہیں مولانا مرحوم نے پلیٹ فارم کیا ہے۔جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا اس وقت سوشل میڈیا بھی نہیں تھا صرف اخبارات تھے۔وہاں پر مضمون کا شایع ہونا ایک بڑی بات تھی۔اس وقت انہوں نے ہمیں مواقع دیے اور اپنی شناخت قائم کرنے کا موقع دیا درجنوں افراد کو چہرہ فراہم کیا۔یہ تو نوجوانوں کی بات ہے مولانا مرحوم نے تو کئی بزرگوں،پروفیسروں اور دانشوروں کواپنی شناخت فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔وہ بذات خود عظیم قلمکار تھے۔بے ساختہ لکھنے میں ید طولی حاصل تھا۔روشن ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ تاریخی شعور پر باریک نظر اور وقت کی بدلتی ہوئی کروٹوں پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔کئی یادگار تصانیف اور سیکڑوں مضامین ان کی عظمت و رفعت کی گواہ ہیں۔
25سال سے زاید عرصے تک صحافت سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔صحافی روشن دماغ ہوتا ہے، لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے مگر عام طور پر عملی انسا ن نہیں ہوتا ہے۔لکھنے کے علاوہ میدان میں ا ترکر کام کرنا صحافی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے مگر اس کے بر خلاف مولانا عبدا لقادرشمس مرحوم صحافت کے ساتھ ساتھ دینی و ملی اداروں سے بھی وابستہ تھے۔قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ، مولانا اسرارالحق قاسمی اوردیگر عظیم شخصیات کی رفاقت اور تربیت نے انہیں سماج و معاشرہ کے تئیں فکر مندبنادیا تھا اور ان کیلئے کام کرنے کا جذبہ تھا۔سیمانچل جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے مگر معاشی پسماندگی کی وجہ سے ترقی سے دور ہے میں تعلیمی ماحول کیلئے تگ ودو میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔دعوۃ القرآن کے نام سے ایک ادارہ بھی چلاتے تھے جس کے ماتحت کئی مکاتب چلتے ہیں۔دہلی میں مستقبل قیام کے باوجود وہ اپنی مٹی سے جوڑے ہوئے تھے۔عوام و خواص سے رابطہ تھا۔بہت سی امیدیں تھیں اگر زندگی ساتھ دیتی وہ اپنے علاقے کیلئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔دعوۃ القرآن ٹرسٹ کوایک بڑے ادارے کی شکل دیتے۔مگر قدرت کچھ اور ہی منظور تھا۔
یکم جولائی کو واٹس اپ ان کا پیغام آیا کہ ”باگ ڈوگرا سے دہلی“جارہا تھا مگر فلائیٹ کے ری شیڈول کی وجہ سے مجھے کلکتہ ائیر پورٹ پر8گھنٹہ کیلئے اگلی فلائلٹ کا انتظار کرنا ہوگا۔”کیا درمیان کا وقت آپ کے ساتھ نہیں گزار سکتا ہوں“؟۔۔۔۔۔عبدالقادر شمس جیسی باغ وبہار شخصیت کی میزبانی کون نہیں کرنا چاہے گا۔میں نے فوراً جواب دیا کہ کیوں نہیں۔آپ کلکتہ پہنچئے بندہ حاضررہے گا۔6گھنٹے کی رفاقت رہی۔راشٹریہ سہارا کلکتہ کے ایڈوریل ہیڈ محمد فاروق بھی میر ے گھر آگئے۔پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ فقیرانہ مزاج تھا۔ظاہری زیب وآرائش سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔تکلف و تصنع سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔سیدھے سادھے انسان تھے۔ان کی اس سادگی پر اس مرتبہ بھی کمنٹ کیا اورپرانے تذکرے چھیڑے مگر وہ خاموش رہے اور اس مرتبہ مسکرایا بھی نہیں۔ ہم جب انہیں رخصت کررہے تھے ہم تینوں خاموش تھے۔کم وقت کی رفاقت اور جدائی پر دل بوجھل تھا مگر خاموشی کو توڑتے ہوئے انہوں نے خود وعدہ کیا تھا اگلی مرتبہ کلکتہ کئی روز کیلئے آؤں گا۔ آج جب وہ نہیں ہیں تو مجھے اپنے آپ میں دکھ ہورہا ہے کہ اس جدائی پر ہی کیوں نہیں اپنے ا ن تمام مذاقوں کیلئے معافی مانگی؟وہ بھی انسان تھے کبھی نہ کبھی میری باتیں ناگوار بھی گزری ہوں گی۔لیکن انہوں نے کبھی احسا س بھی نہیں ہونے دیا۔اس کی وجہ سے ہم جری اور گستاخ ہوگئے تھے۔میرے خیال سے یہ مولانا کی سب سے بڑی خوبی تھی وہ کڑوا سے کڑوا گھونٹ مسکرا کر پی جاتے تھے۔
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
مرگیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون
مولانا جب باگ ڈوگرا ائیر پورٹ سے روانہ ہورہے تھے تو ایک پوسٹ لکھا تھا کہ ”خوش رہیں اہل وطن ہم تو چلے پردیس۔۔۔۔۔۔۔با گ ڈوگرا سے دہلی“ واقعی مولانا مرحوم طویل سفر پر روانہ ہورہے تھے۔دوبارہ انہیں لاش کی شکل میں ہی یہاں واپس ہونا تھا۔شاید انہیں یہ احساس ہوگیا تھا اس لئے وہ جدائی کے کرب کا اظہار کیا۔ان کے انتقال کوکئی دن ہوچکے ہیں،اب تو یہ کئی مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور ایک دن ہم سب خوو وہاں پہنچ جائیں گے۔مگر جب بھی پرانے لوگوں کی محفل جمے گی۔ماضی کی یادیں تازہ ہوں گی تو مولانا کا ذکر ضرور آئے گا۔۔۔وہ زندہ میں بھی میر محفل تھے اور مرنے کے بعد بھی ہماری محفلوں کے موضوع سخن رہیں گے۔۔۔۔۔مولانا گویا ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
مولانا عبدالقادر شمس بہت ہی کم عمر بلکہ لڑکپن میں والد کے سایہ سے محروم ہوگئے تھے۔ یتیمی کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی،ترقی حاصل کی اور اپنے چھوٹے بھائی عبد الواحد قاسمی کی آگے بڑھایا۔روزگار سے جڑے رہنے کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔قد رت کا کرشمہ بھی عجیب ہے کہ اب ان کے بچے بھی کم عمری میں ہی والد کے سایے سے محروم ہوگئے ہیں مگر مجھے امید ہے کہ ان کے صاحبزادہ حماد جو ندوۃ اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جے این یو میں عصری تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اپنے والدکی طرح ہمت و جرأت سے کام لیں گے۔ اپنی والدہ اور بہنوں کا خیال رکھتے ہوئے خود بھی ترقی کی منزلیں طے کریں گے۔ان کی یادو ں کا ایک سلسلہ ہے۔بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے مگر صفحات اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔اس لئے شاعری کا سہارا لے کراپنی بات ختم کرتا ہوں۔اللہ مغفرت کرے۔
مرنے والے مرکے بھی فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والے کی جبین روشن ہے،اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے