علماء کرام کا مقام و مرتبہ

ابوعدنان سعید الرحمن بن نورالعین سنابلی
اللہ تعالیٰ نے بہت ہی محکم انداز میں اس کائنات کو رچایا اور بسایا ۔اس کائنات میں جن و انس کی خلقت فرمائی اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ جاری فرمایا۔رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ آخری نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ منقطع ہوگیا تو رب تعالیٰ نے انبیاء کرام کے مشن کی انجام دہی کے لئے علمائے کرام کی جماعت تیار فرمائی ۔ علمائے کرام حقیقی معنوں میں سماج و معاشرہ کی اصلاح کے اولین ذمہ دار اور انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کاندھوں پر عوام کو سیدھی راہ دکھانے کی ذمہ داری رکھی ہے اور کتاب و سنت کی توضیح و تفسیر اور دعوت و ارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے۔ رب تعالیٰ کی زبانی یہ لوگ رب تعالیٰ سے حقیقی معنوں میں خوف کھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ بلکہ رب تعالیٰ نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔فرمایا:’’قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون‘‘(سورۃ الزمر؍۹) یعنی اے نبی ! آپ بتائیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔
احادیث مبارکہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند و بالا ہے۔اللہ تعالیٰ جسے علم شرعی کے حصول کی توفیق بخشتا ہے گویا اس کے حق میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے۔(صحیح بخاری ؍71، صحیح مسلم؍1037)یہی نہیں، حدیثوں میں وارد ہے کہ ایک عالم جتنے انسانوں کو علم سکھاتا ہے ، وفات کے بعد بھی اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب انسان مرجاتا ہے تواس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے،سوائے تین اعمال کے۔ان میں سے ایک عمل یہ ہے کہ انسان نے اپنے پیچھے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہوں۔(صحیح مسلم؍1631)
غرضیکہ علمائے کرام کی قدر و منزلت ، رفعت شانی اور بلند مکانی کے بیان سے کتاب و سنت کے نصوص بھرے پڑے ہیں۔زیر نظر مضمون میں علمائے کرام کے ایسے ہی چندفضائل کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے کیونکہ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر طرف لوگ علمائے کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں اور ان کی تنقیص کررہے ہیں۔یقینی طور پر اس کے ذمہ دار بہت حد تک علمائے کرام کی جماعت بھی ہے کیونکہ انہوں نے بھی اپنے وقار کو مجروح کیا ہے ، نیز لوگوں کا رشتہ بھی اپنے دین سے انتہائی کمزور ہوا ہے، اس کی وجہ سے بھی ان کے دلوں میں علماء کی عزت کم ہوئی ہے۔اللہ کرے یہ چند سطور علماء کرام کی عزت و وقار کی بحالی کے سلسلے میں معاون ثابت ہوں۔
علماء کرام وارثین انبیاء ہیں:
علم ایک انتہائی بیش بہا دولت اور عظیم نعمت ہے۔ شریعت اسلامیہ نے علم کو انتہائی عظیم مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، اس وجہ سے کہ علم کے بغیر انسانی زندگی کے صلاح و فلاح کا تصور ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے سب سے بہتر انسانوں یعنی انبیاء کرام کو وافر مقدار میں اس دولت سے بہرہ ور کیا تھا۔سبھی انبیاء کرام اپنی قوم میں الٰہی شریعت کے سب سے بڑے جانکار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کے ذمہ اپنے دین کی دعوت و ارشاد اور پندو نصائح کی ڈیوٹی سپرد فرمائی تھی اور وہ اپنی پوری زندگی علی وجہ البصیرہ اس فریضہ کی انجام دہی کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت کہئے کہ انبیاء کرام کی وفات کے ساتھ ہی وہ علم دین و شریعت کو اٹھاتا نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام اپنی وفات سے پہلے پہلے اس عظیم نعمت کا مخصوص انسانوں کو وارث بنادیتے ہیں۔انبیاء کرام کے بعد یہ لوگ لوگوں کی تعلیم و تعلم کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اور اپنی زندگی میں انبیائی مشن کی انجام دہی کرتے ہیں۔علمائے کرام اور انبیاء عظام میں فرق اتنا ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کے برعکس علمائے کرام معصوم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے پاس وحی ہی نازل ہوتی ہے۔ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو علم کی راہ میں چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔طالب علم سے خوش ہوکر فرشتے اس کے لئے اپنا پر بچھادیتے ہیں۔ علم حاصل کرنے والے کے لئے زمین و آسمان کی سبھی چیزیں دعاء خیر کرتی ہیں حتی کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔عبادت گزار پر عالم کی فضیلت ویسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سبھی ستاروں پر ہے۔علماء کرام انبیاء عظام کے وارثین ہیں۔ انبیاء کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے، جس نے اس ورثہ کو پالیا ، اس نے حظ وافر پالیا‘‘۔ (مسند احمد ، سنن ترمذی؍2682، سنن ابوداود؍3641، سنن ابن ماجہ؍223، مسند احمد؍21763،شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ انبیاء کرام نے درہم و دینار میراث میں نہیں چھوڑے ہیں بلکہ انہوں نے علم دین کی میراث چھوڑی ہے اور یہ علم انتہائی عظیم نعمت اور بیش بہا دولت ہے،اللہ تعالیٰ جس انسان کو بھی اس گنجینۂ رحمت سے بہرہ ور کرے گا اور اسے اس دولت سے فیضیاب فرمائے گا ،وہ حقیقی معنوں میں دین و دنیا میں کامیاب ہوگا۔
ایک عالم کا مقام عابد سے بلند و بالا ہے:
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عالم اور دوسرے عابد کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:’’عابد پر عالم کی فضیلت بالکل اسی طرح سے ہے جیسے کہ تم میں سے سب سے کمتر انسان پر میری فضیلت ہے‘‘۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے ، سبھی آسمان اور زمین والے حتی اپنے بل میں موجود چیونٹیاں اور مچھلیاں اس شخص کے حق میں دعا ء خیر کرتی ہیں جو کہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی؍2685، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
اس حدیث پر غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عالم کے لئے کس قدر فضیلت بیان کی ہے اور اس کے مقام و مرتبہ کو کتنا بلند بتایا ہے۔ایک ادنی انسان پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فضیلت حاصل ہے، و ہی فضیلت ایک عالم کو ایک عابد پر حاصل ہے۔جی ہاں! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم و عابد کے مابین فضیلت کے فرق کو بیان کرنے کے لئے آپ نے اپنے اور کسی عظیم انسان کے مابین کی فضیلت کے فرق کو نہیں بیان کیا جبکہ آپ سید ولد آدم ہیں اور عظیم سے عظیم انسان پر بھی آپ کی فضیلت و برتری مسلم ہے،لیکن ایک عام انسان کو بھی یہ سمجھ میں آسکتی ہے کہ ادنی انسان پر آپ کی فضیلت کئی گنا متحقق اور ثابت ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس بات پر حیرت ہوکہ عبادت گزار پر ایک عالم کی اس قدر کیوں فضیلت بخشی گئی ہے۔حالانکہ یہ حیرت و استعجاب بالکل غیرمناسب ہے۔اس وجہ سے کہ بغیر علم عبادت کرنے والا انسان خود گمراہ ہوتا ہے اور اپنے عمل سے دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔آپ مشرکین مکہ ہی کو لیں کہ وہ لوگ عبودیت کے معترف تھے لیکن یہ اعتراف علم سے عاری تھا جس کی وجہ سے کافر اور گمراہ ٹھہرے۔اللہ تعالیٰ نے بتوں کے تعلق سے کفار مکہ کے اس قول کو بیان کرتے ہوئے قرآن پاک میں فرمایا ہے:’’والذین اتخذوا من دونہ أولیاء مانعبدھم الا لیقربونا الا اللہ زلفی‘‘ (سورۃ الزمر؍3) یعنی اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنارکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ( بزرگ )اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں۔
اسی طرح ایک عبادت گزار کسی عبادت کو انجام دے لیکن اس تعلق سے اس کی سوچ فاسد ہو تو ایسی صورت میں اس کی عبادت قابل قبول نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’وذلکم ظنکم الذی ظننتم بربکم أرداکم فأصبحتم من الخاسرین‘‘ (سورۃ فصلت؍23) یعنی تمہاری اسی بدگمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کررکھی تھی تمہیں ہلاک کردیا اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے۔
علماء کرام کا مقام مجاہدین اور شہداء کے مقام سے بھی زیادہ بلند و بالا ہے:
بہت سارے فقہاء کا کہنا ہے کہ علماء کا مقام و مرتبہ صرف عابدوں سے ہی نہیں بلکہ مجاہدین اور شہداء کے مقام ومرتبہ سے بلند ہے۔مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بقول: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ کی راہ میں سعادت پانے والے بہت سارے لوگ عالموں کی تکریم کو دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ انہیں عالم بناکر مبعوث کیا جائے‘‘۔ (احیاء علوم الدین للغزالی ۱؍۸)
حسن بصری کہتے ہیں کہ علماء کی روشنائیوں اور شہیدوں کے خون کو وزن کیا جائے گا اور علماء کی روشنائی کو بوجھل کردیا جائے گا‘‘۔ (مصدر سابق)
ایک عالم ہی جہاد کے فضائل و فوائد کوجانتا ہے ، اس کے شروط و واجبات کا علم رکھتا ہے ، جہاد کی فرض عین اور فرض کفایہ قسموں کے مابین تفریق کو جانتا ہے اور لوگوں کو ان چیزوں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ ایک جاہل جہاد کی حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے، اسے فرض جہاد اور نفل جہاد کے مابین فرق معلوم نہیں ہوتا ، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ فرض جہاد کو چھوڑ کر نفل جہاد میں لگ جاتا ہے،کبھی جہاد کے شرعی حدود کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا ، جس کی وجہ سے غلط ڈھنگ سے جہاد کرنے کی وجہ سے گنہگار بھی ٹھہرتا ہے۔ خوارج کا فتنہ اس بابت ایک واضح مثال ہے۔خوارج انتہائی عبادت گزار تھے، فرائض کی ادائیگی کیا کرتے تھے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کرتے تھے لیکن ان کے پاس علم نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ دین اسلام سے خارج ہوگئے۔انہوں نے بغیر علم کے اجتہاد کیا اور اس اجتہاد نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔یہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہوگئے۔ایک خارجی لیڈر عبدالرحمن بن ملجم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ملعون انسان اپنی اس حرکت کو تقرب الٰہی کا ذریعہ بھی سمجھتا تھا۔
علم اور علماء کی قدر و منزلت:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’یرفع اللہ آمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجات واللہ بما تعملون خبیر‘‘ (سورۃ المجادلۃ؍11) یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالیٰ ہر اس کا م سے جو تم کررہے ہو خوب خبردار ہے۔
ہرزمانے میں لوگوں نے اہل علم کے مقام و مرتبہ کو سمجھا ہے اور انہیں بلند و بالا مقام عطا کیا ہے۔عہد صحابہ کو دیکھیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نوعمر ہونے کے باوجود علم کی دولت سے مالامال ہونے کی وجہ سے حددرجہ عزیز تھے۔عالم یہ تھاکہ بڑے بڑے صحابہ کرام معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی توقیر کیا کرتے تھے اور انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ میں دمشق کی ایک مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک مجلس میں اجلاء صحابہ تشریف فرما تھے۔ ان کے مابین ایک نوعمر جوان بھی بیٹھا تھا جس کی آنکھیں سرمئی تھیں اور سامنے کے دانت چمکیلے تھے۔صحابہ کرام کے مابین جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا تو وہ اس تعلق سے اس نوجوان کی رائے لیتے اور اسے اختیار کیا کرتے تھے۔ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قریب بیٹھے ایک انسان سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ معاذ بن جبل ہیں۔(مسند احمد ؍22117، شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔)
یہی نہیں، تابعین ، تبع تابعین، فقہاء کرام اور علمائے عظام ہر دور میں عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے۔امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداود سجستانی، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ، امام ابن ابی شیبہ، امام عبدالرزاق بن ہمام ، امام ابن سعد، امام دارقطنی، امام نووی،امام ابوحاتم رازی، امام ابن ابی حاتم، امام ابن تیمیہ حرانی، امام ابن قیم جوزیہ، حافظ ابن حجرعسقلانی،جلال الدین سیوطی بلکہ موجودہ دور میں شیخ ابن باز ، شیخ البانی، شیخ ابن عثیمین وغیرہ کو جو قدر و منزلت حاصل ہوئی ، وہ کسی بھی شخص سے مخفی نہیں ہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کے سامنے حق کی وضاحت فرمائی ہے بلکہ امراء و سلاطین کو بھی سیدھی راہ دکھانے کا کام کیا اور نیک نامی حاصل کی۔
علماء کو دوسروں پر مقدم کیا جائے گا:
علماء کرام کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانا ہے تو آپ سیر و مغازی اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں ۔آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر دور میں علماء کو کس قدر عزت و تکریم حاصل ہوئی، نیز امراء و خلفاء نے عالموں کو دیگر افراد پر فوقیت بخشی ۔چنانچہ عبدالرحمن بن ابزی کو دیکھیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں اہل وادی کا گورنر متعین کیا تھا حالانکہ وہ ایک غلام تھے اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس کتاب کے ذریعہ بہت سارے لوگوں کو سربلندی عطا کرتا ہے۔(صحیح مسلم؍817)
ایک بار کا واقعہ ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جنازے میں شرکت کی اور اس کے بعد اپنے خچر پر سوار ہونا چاہا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کی سواری کا رکاب تھام لیا جسے دیکھ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ! یہ کیا کررہے ہو؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ہمیں علماء کے ساتھ ایسے ہی پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے بعد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا کہ ہمیں بھی اہل بیت کے ساتھ اسی عزت کا حکم دیا گیا ہے۔(مدارج السالکین لابن قیم الجوزیۃ۲؍۳۳۰)
مجاہد بن جبر مکی کو دیکھیں کہ وہ انتہائی کالے کلوٹے انسان تھے لیکن اس کے بعد بھی مرجع خلائق تھے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بقول: عالم کا حق ہے کہ اس سے زیادہ سوال نہ پوچھا جائے، جواب دینے کے لئے اسے مجبور نہ کیا جائے، جواب دینے میں سستی کا مظاہرہ کرے تو اس سے الحاح اور ضد نہ کیا جائے، جب اٹھے تو اس کا کپڑا نہ پکڑا جائے، اس کی راز کو فاش نہ کیا جائے، اس کے سامنے کسی بھی انسان کی غیبت نہ کی جائے، اس کی لغزشوں کو نہ ڈھونڈھا جائے۔اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے اور وہ عذر پیش کرے تو اسے قبول کیا جائے۔تم پر ضروری ہے کہ جب تک عالم اوامر الٰہی کی پابندی کرے اس کی عزت و توقیر کرو، اس کے سامنے نہ بیٹھو اور اسے کچھ ضرورت آن پہنچے تو قوم کو اس کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہئے۔(احیاء علوم الدین للغزالی۱؍۵۱)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مزید کہا ہے کہ ایک عالم صوم کی پابندی کرنے والے اور قیام اللیل کا اہتمام کرنے والے مجاہد سے بہتر ہے۔جب کسی عالم کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے اسلام میں ایک خلاء پیدا ہوجاتی ہے جس کی بھرپائی بعد کے لوگ ہرگزنہیں کرسکتے۔ (احیاء علوم الدین للغزالی۱؍۷)
امراء و خلفاء کے ذریعہ علماء کی تعظیم و توقیرکی چند مثالیں: ایسا نہیں ہے کہ علماء کرام کی تعظیم و تکریم صرف عام لوگوں نے ہی کی ہے بلکہ کتب تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امراء و سلاطین نے بھی علمائے کرام کو شایان شان عزت و مقام عطا کیا۔مشہور واقعہ ہے کہ اموی بادشاہ سلیمان بن عبدالملک ایک بار اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ حج کے سفر پر گیا۔دوران سفر حج کے بعض مسائل پوچھنے کی ضرورت پڑی۔تلاش بسیار کے بعد وہ لوگ عطا ء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچے۔وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔سلیمان بن عبدالملک اور اس کے دونوں بیٹوں نے انتظار کیا حتی کہ عطا ء رحمہ اللہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنے سوالات پوچھے۔ عطا ء رحمہ اللہ بغیر ان کی طرف متوجہ ہوئے ان کے سبھی سوالوں کے جواب دیئے۔جب وہاں سے فارغ ہوئے تو سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بیٹوں کو مخاطب ہوکر کہا:دیکھو! تم لوگ علم کے حصول میں ہرگز سستی و کاہلی مت کرنا، کیونکہ میں اس کالے کلوٹے غلام کے پاس اپنی ذلت کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ (صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی۲؍۲۱۲)
مشہور عباسی خلیفہ مامون نے اپنے بیٹوں کو نحو کی تعلیم کے لئے مشہور نحوی فراء کو مکلف کیا تھا۔ایک دن کا واقعہ ہوا کہ انہوں نے کسی کام سے باہر جانے کا ارادہ کیا تو مامون کے دونوں بیٹے ان کی جوتیوں کو سیدھی کرنے کے لئے جھگڑ پڑے۔آپ تصور کیجئے کہ خلیفہ وقت کے صاحبزادے اپنے استاذ کی جوتیوں کو سیدھا کرنے کے لئے لڑ پڑتے ہیں،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں علماء کرام اور اساتذہ عظام کو کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ہر طبقہ کے لوگ انہیں وہ عزت دیا کرتے تھے جن کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔
یہ رہے کتاب و سنت اور تاریخ کے ذخیرے سے علمائے کرام کے بعض فضائل۔ ہم سبھی پر ضروری ہے کہ ہم علمائے کرام کی عظمت و رفعت کا خیال رکھیں اور ان کی توہین یا تنقیص کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔علمائے کرام رب تعالیٰ کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دین کے لئے انتخاب فرماتا ہے لہذا، ان کی تنقیص انتہائی سنگین جرم اور گناہ کا باعث ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم علمائے کرام کی عزت و توقیر کریں اور ان کی اہانت کرکے گناہ
میں مبتلا ہونے سے بچیں۔اللہ ہمیں اس کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین(ملت ٹائمز)

SHARE