پروفیسر طاہر محمود
اردو کے دو الگ الگ زباں زد عوام مصرعے ہیں ؏
’’ ہرشاخ پہ الوّ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا ‘‘ اور ’’بے زر کا کوئی بہنوئی نہیں زردار کے لاکھوں سالے ہیں‘‘۔ میں نے یہ دونوں مصرعے متعدّد موقعوں پر باربار سنے ہیں ۔ باضابطہ تحریروں میں بھی اور بے تکلف باتوں میں بھی ۔ان میں سے دوسرا مصرع تو ایک منچلے فلم ساز نے ایک بار اپنی فلم میں بھی استعمال کر لیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے اکثر نے بھی یہ مصرعے ضرور سنے اور سنائے ہوں گے اور یہ یقیناً آپ کے ذہنوں میں محفوظ ہوں گے۔البتہ جس با ت میں مجھے شک ہے وہ یہ ہے کہ ان مصرعوں کے خالق سے صحیح واقفیت یا اس کے حالات کا قدرے علم رکھنے والوں کی تعداد شاید بہت زیادہ نہ ہو۔ کوئی ان مصرعوں کو غلطی سے حضرت اکبرؔ الہٰ آبادی سے منسوب کرتا ہے اور کوئی کسی اور معروف مزاح نگار سے۔صد حیف کہ ان لازوال مصرعوں کا اصل خالق آج گمنامی کے اندھیروں میں محو استراحت ہے اور اس کے لاجواب فنِ طنز نگاری پر آج اس کی وفات کے ایک تہائی صدی بعد بھی دنیائے ادب کی بے وجہ ناقدری کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس کے نہ جانے کتنے مقبول زمانہ معاصر اور معروف و غیر معروف واقف کار بھی،جو اس کے کمال فن کے معترف تھے یا اس پر روشنی ڈال سکتے تھے،اب اس فانی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔کم ہی لوگ آج اس عظیم فنکار سے ذاتی واقفیت رکھنے کا دعویٰ کر سکیں گے اور میرا نام خوش قسمتی سے اس محدود فہرست میں شامل ہے۔
جن دو معنی خیز مصرعوں سے میں نے اپنی بات شروع کی تھی وہ ان دو مکمل اشعار کا حصہ ہیں ؏
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الوّ کافی تھا
ہر شاخ پہ الوّ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
اللہ غنی اس دنیا میں سرمایہ پرستی کا عالم
بے زر کا کوئی بہنوئی نہیں زردار کے لاکھوں سالے ہیں
اور طنز و ،مزاح کے شاہکار ان خیال آفریں اشعار کے خالق تھے سید ریاست حسین شوقؔ بہرائچی مرحوم و مغفور۔ میں نے اب سے ۴۵ – ۴۰ سال قبل جناب شو قؔ کو اپنے وطنِ پدری شہر بہرائچ اور متعدد اور جگہوں پر دیکھا تھا اور خوب خوب انجمن آرا دیکھا تھا۔ طفولیت اور آغازِ شباب کے زمانے کی نہ جانے ایسی کتنی تصویریں میرے ذہن کے نگار خانے میں محفوظ ہیں، جن میں ان کے ضعف و ناتواں پیکر کا عکس نظر آتا ہے یا اُن کی لرزیدہ آواز ابھرتی ہے۔ آیئے آج ان میں سے کچھ تصویریں آپ کو بھی دکھاتا چلوں ۔
وطنِ عزیز کی انتہائی دل خوش کن آزادی اور اس کی بے حد افسوسناک تقسیم کو ابھی صرف چند سال ہی گذرے ہیں۔ زبردستی ٹھونسی گئی غیر فطری سیاسی سرحد کے دونوں طرف سرگرم سیاست کا دور دورہ ہے۔ مذہبی اور لسانی تعصب اور منافرت کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔جیالی زبان اردو بھر بھی زندہ ہے اور عوامی جلسوں ، مشاعروں اور پردۂ سیمیں کے مکالموں اور نغموں کے ذریعے اپنی مقبولیت کا لوہا بدستور منوا رہی ہے۔ مشرقی یوپی کے دور افتادہ شہروں سے لے کر عروس البلاد بمبئی اور جنوب میں مدراس تک میں اب بھی مشاعروں اور ادبی محفلوں کا انعقاد ہوا رہا ہے۔ اردو شاعری میں حسب سنجیدگی اور متانت بھی ہے اور طنز و ظرافت بھی۔ دونوں طرف اساتذۂ وقت کوائف زمانہ پر بھرپور وار کر رہے ہیں۔ اسی ادلی مناظر میں ایک کہنہ مشق بادشاہِ سخن شوقؔ بہرائچی اپنا ظریفانہ کلام جگہ جگہ پیش کرکے سامعین کی صفیں الٹتے نظر آتے ہیں ۔عمر گزیدہ تنِ نازک ، ذہن ضعیف دانتوں سے بے نیاز ، ہاتھوں میں رعشہ، آواز میں لرزہ، پھر بھی کلام ایسا جاندار کہ شائقینِ ادب کے زبردست مجمعوں میں بھی اپنا بھرپور جادو دکھا رہا ہے اور بزرگ شاعر مکرّر ارشاد کی فرمائشوں اور تحسین و توصیف کے نعروں کی یلغار میں گلے گلے ڈوبے جا رہے ہیں ۔ میں ’’ایک طفل مکتب‘‘ لیکن کم عمری کے باوجود اردو نثر و نظم کی شیرینی کا پوری طرح ذائقہ شناس اس منظر نامے کا عینی شاہد ہوں۔
جناب شوق سنا ہے کہ ضلع فیض آباد کے باشندے تھے۔ تلاش معاش میں شہروں شہروں پھرے، اعظم گڑھ میں آج کی ادبی دنیا کے پیر میخانہ جناب کیفیؔ اعظمی کے والد بزرگوار کے محرّر بنے اور بالآخر مستقلاً شہر بہرائچ میں جا بسے اور اسی غریب پرور شہر کو وطن مالوف بنا لیا۔یہیں ان کی اہلیہ بلدیہ کی رکن منتخب ہوئیں تو مظلوم شوہرنے یوں تہنیت پیش کی ؏
ہمیں لے کے بوسہ رُخ پر شکن کا
یہ باسی سوئیاں سوارت کریں گے
یہیں اُن کے صاحبزادے یہ نعرہ لگاتے ہوئے اساطِ سخن پر نووارد ہوتے دیکھے گئے کہ ’’ جناب شوق ؔ کا بیٹاتخلص ذوقؔ کرتا ہوں‘‘۔ بہرائچ ،لکھنؤ، گورکھپور اور ان اطراف کے کئی اور شہروں میں جناب شوقؔ کو مشاعرے لوٹتے میں نے بچپن اورعفوانِ شباب خود دیکھا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں جب خود مجھے شعر گوئی کا شوق ہوا تھا تو اپنی چند ابتدائی کاوشیں بغرض اصلاح انہیں دکھائی بھی تھی اور خود اپنے گھر پر حسبِ تربیت خاندانی اُن کی جوتیاں بھی سیدھی کی تھی۔غالباً ۱۹۶۴ء میں ، جب کہ میں نے تعلیم مکمل کرکے جونپور میں ملازمت شروع ہی کی تھی، ایک دن علی الصباح اردو کے اخبارمیں شائع ایک جلی سرخی پر نظر پڑی ’’ شوقؔ بہرائچی کا انتقال ‘‘۔ ذہن و دل پر ایک بجلی سی گری۔ بھاگم بھاگ جا کر یہ افسوسناک خبر شفیقؔ بریلوی مرحوم کو دی، کہ وہ بھی بہرائچ کے تھے اور ان دنوں جونپور میں میرے پڑوسی تھے۔ ایک عظیم فنکار کی کسمپرسی میں موت پر ہم دونوں عرصہ تک دل گرفتہ رہے۔
عمر کا ایک بڑا حصہ جناب شوقؔ نے تنگدستی اور افلاس میں گذارا تھا اس عالم میں اپنوں اور غیروں کی بے رخی کے یوں شاکی ہوئے تھے ؏
زمانہ یوں مرے سائے سے دور رہتا ہے
کہ جیسے کاٹ ہی کھائے گی مفلسی میری
ایک اصطلاع کا سہارا لے کر انہوں نے یہ شکایت کی تھی ؏
یہاں اہلِ سخن کی قدر بعد از مرگ ہوتی ہے
یہاں ہر ایک دعویٰ خارج المیعاد ہوتا ہے
حکومت کی عدالت میں ان کی داد رسی ہوئی اور ایک مختصر رقم بطور وظیفہ حسب قاعدہ پہلے صرف ایک سال کیلئے منظور ہوئی تو جناب شوقؔ یوں چیں بہ جبیں ہوئے تھے کہ’’ کیا ایک سال ہے دی معیادِ زندگی ؟ ان کی معیادِ زندگی بہرحال ایک سال میں ہی ختم ہوگئی۔ انہیں دیکھے اور سنے آج کم ازکم چار دہائیاں گذر چکی ہیں۔ جناب شوقؔ کا سراپا اور ان کا انہیں کے منھ سے سنا ہوا کلام پھر بھی ذہن و دل کی کتاب میں محفوظ ہے، کچھ اوراق الٹتا ہوں۔
۱۹۵۲ء میں آنجہانی راجندرؔ پرشاد عرف راجنؔ بابو اپنی دیہی صفات کی شہرت کے ساتھ آزاد ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ منتخب ہوتے ہیں تو جناب شوقؔ نے ایک بہت چھوٹی بحر گڑھ کر اس کا نام ’’بحر شیر خوار‘‘ رکھتے ہیں اور اس انقلاب وقت پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ؏
پُر بہار ارے واہ خار زار ارے واہ
کرسیٔ ناز پر اک گنوار ارے واہ
کچھ عرصہ بعد ادھر سرحد پار ملک فیروز خاں نونؔ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو جناب شوقؔ نے ان کے نام کے ہم معنی انگریزی الفاظ کا فائدہ اٹھا کر یوں چوٹ کرتے ہیں کہ ؏
نونؔ کے دور میں یہ تاریکی
آفٹر نونؔ جانے کیا ہوگا
سرحد کے دونوں طرف بڑھتی ہوئی بد عنوانیوں سے نالاں ہو کر جناب شوقؔ مختلف عنوانوں سے یوں کفِ افسوس ملتے ہیں کہ ؏
عدالت کو بھی اب لبھانے لگی ہے
مسماۃ رشوت کی اٹھتی جوانی
پہونچنا بام ترقی پہ کچھ نہیں مشکل
اسمبلی میں کوئی رشتے دار ہو تو سہی
جو وقتِ پرسش کوئی بھی بگڑا فرشتہ موت ہنس کے بولا
یہ بابو جی حشر کا میداں تمہارا ہندوستاں نہیں ہے
ایک دفعہ گورکھپور کے ایک مشاعرے میں ایک مولوی نما ناظم مجلس قطعاً بے جا طور پر شوقؔ صاحب کیلئے کچھ گستاخانہ جملے کہتے ہیں تو برافروختہ ہو کر انہو ں نے بھی فی البدیہہ حملہ کرتے ہیں اور پوری مولوی قوم کو نعوذ باللہ یوں نشانہ بناتے ہیں ؏
عقل کے کچھ دبیر ہوتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے دہر میں اے شوقؔ
ایک مہمل سی چیز ہوتے ہیں
مولوی بد تمیز ہوتے ہیں
اور پھر ایک طویل غزل میں یوں و شنام طراز نظر آتے ہیں ؏
ہو تم بھی ابنِ آدم اور وہ بھی بنتِ حوا ہیں
مری بیوی تمہیں کہنے لگی بھائی تو کیا ہوگا ؟
یہ ہم بھی مانتے ہیں واجب التعظیم ہیں واعظ
مگر چندیا جو ان کی آپ کھجلائی تو کیا ہوگا
چلے تو ہو کسی محمل نشیں کو دیکھنے زاہد
مگر لیلیٰ کی کتیا تم پہ غرّائی تو کیا ہوگا
اب دوسری طرف چلئے اور دیکھئے کہ جناب شوؔق کسی انتہائی سنجیدہ مصرعے کو حسبِ روایت بار بار دہرا کر اچانک اس پر دوسرا قطعی غیر متوقع ظریفانہ مصرع چسپاں کرکے کس طرح محفل کو قہقہوں سے لالہ زار کرتے ہیں۔ غزل کے پیکر میں اس انداز کے ذرا ان کے چند اشعار دیکھئے ؏
یہ کون آکے تصوّر میں میرے بیٹھ گیا
خدا کی مار ہو انگلی کچل گئی میری
خوشی کوغم حیات کو ممات کہتے آئے ہیں
ہر ایک بات آپ واہیات کہتے ہیں
اور پھر ذرا یہ رنگ بھی دیکھئے۔ ایک نعتیہ مشاعرے میں جناب شوقؔ سامعین میں نظر آتے ہیں تو کچھ دوست نما دشمن انہیں گھیر کر اسٹیج پر لے آتے ہیں اور اپنے مخصوص رنگ میں مگر موقعہ کے شعر سنانے کی فرمائش کی۔ چیلنج قبول کرتے ہوئے وہ یوں گرجتے ہیں کہ ؏
میں گھس جاؤں کا جنت میں خدا سے بس یہی کہہ کر
یہیں سے آئے تھے آدم یہ میرے باپ کا گھر ہے
ہیبل کو آج کعبے سے نکالا ہے یہ فرما کر
یہ بیتِ کبریا ہے بے کہ تیرے باپ کا گھر ہے
پھر محرم کے دنوں میں شوقؔ صاحب کا مسلک انہیں ایک ماتمی مجلس میں لے جاتا ہے تو وہاں اپنے مخصوص رنگ میں عم امام معصوم حضرت کے عمزادہ حسین ؓ حضرت عباسؓ علمبردار (غیر معصوم) کا رشتہ امام مظلوم کے صاحبزادے جوڑ کر ان کی شان میں یہ نے ضرر اور معنی خیز شعر سناتے ہیں؏
عباسؔ کی بزرگی زین العباؔ سے پوچھو
معصوم تو نہیں ہے معصوم کا چچا ہے
افسو س کہ ہر رنگ میں اپنا رنگ دیکھانے والا ’دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والا‘ ’روتوں کو ہنسانے والا‘ طنز و ظرافت کے نشتر سے امراضِ معاشرہ کی تشخیص کرنے والا یہ بے مثال فنکار گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گیا۔ کاش کوئی محقق ’اردو کا کوئی جیالا‘ اس کے فن کو زندہ کرکے اردو والوں سے اس کے فن کا خاطر خواہ تعارف کرواسکے تو یقیناً علم و ادب کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔