میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کے سبب سوشل میڈیا پر پابندی

فوجی حکومت کی وزارت برائے مواصلات نے 7؍ فروری تک واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ وزارت کے مطابق بعض لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی خبریں اور افواہ پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں

میانمار: (ایجنسی) میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوام کا احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔ اس احتجاج پر قدغن لگانے کیلئے فوجی اقتدار نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ بیشتر عوام   سوشل میڈیا پر ہی فوجی بغاوت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ فوجی حکومت نے جمعرات کو  ایک حکمنامہ جاری کرکے  ملک بھر میں ۷؍ فروری تک کیلئے فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام وغیرہ کو بند  کروا دیا ہے۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی عوامی ناراضگی کا بین الاقوامی سطح پر  نوٹس لیا گیا تھا۔ فوجی حکومت نہیں چاہتی ہے کہ عالمی برادری اس معاملے میں کوئی اقدام کرے۔  میانمار کی وزارت برائے مواصلات کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے جس میں  سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ سا تھ ہی کہا گیا ہے ’’ کچھ لوگ ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ بن رہے ہیں ۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر جعلی خبریں  اور افواہیں پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘  بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی ۷؍ فروری تک جاری رہے گی۔

  واضح رہے کہ میانمار سے مسلسل ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ عوام فوج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور فوجیوں  سے واپس بیرکوں میں لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔   حالانکہ عوام سڑکوں پر بھی مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن  سوشل میڈیا کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ ان کی بات تیزی سے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکے۔  اور اس کا اثر دکھائی بھی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی حکومت میں کسی حدتک  تشویش ہے۔

  فوج  نے ہمیں دھوکہ دیا ہے   میانمار میں ہوئی فوجی بغاوت کے باوجود ایک خوشگوار بات یہ ہے کہ عوام نے فوری طور پر اس بغاوت کے خلاف آواز اٹھائی۔ اب تک عوامی سطح پر کسی نے بھی فوج کی حمایت نہیں کی ہے۔  رنگون میں رہائش پذیر مائیکل گلیزن امریکہ  میں ایک قانونی ادارہ چلاتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ میانمار میں فوجی گاڑیوں کے سامنے جتنے بڑے پیمانے پر عوام کا احتجاج ہونا چاہئے تھے اتنے بڑے پیمانے پر نہیں  ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’’ وہاں ایک عجیب سی خاموشی ہے۔‘‘حالانکہ یہ بات پوری طرح سے درست نہیں ہے۔  عوام کافی حد تک باہر نکلے ہیں  اور انہوں نے فوج کے خلاف نعرے لگائے ہیں۔  حالانکہ مائیکل گلیزن کا کہنا ہے کہ  ’’میرے برما کے دوستوں کا عام ردعمل  ناراضگی بھرا تھا۔  انھیں لگتا ہے کہ فوج اور یو ایس ڈی پی نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔‘‘  ادھر رنگون کی سڑکوں پر بھی کئی لوگوں نے اسی طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔  ایک ڈیو لپمنٹ کنسلٹنٹ تھینی او نے کہا کہ’ ’الیکشن قانون کے مطابق ہوا تھا۔ لوگوں نے اپنی ترجیح کے مطابق ووٹ ڈالا تھا۔ ہمیں اب قانون کا تحفظ حاصل نہیں رہا۔‘‘کئی لوگ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ہیلنگ کی رہنے والی ایک ۶۴؍ سالہ شخص  نے کہا ’میں فوجی بغاوت کے حق میں نہیں ہوں۔ میں نے ملک میں نے کئی بار  انتقال اقتدار دیکھا ہے اور میں بہتر مستقبل دیکھ رہا تھا۔‘ مصنف اور تاریخ دان تھینٹ منٹیو نے ٹویٹ میں کہا کہ ایک ’مختلف مستقبل‘ کا دروازہ کھل چکا ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ اس اقدام سے لاکھوں افراد غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا  پر پابندی کے بعد  عوام کے اس موقف کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ فوج نے انہیں دھوکہ دیا ہے کیونکہ اب وہ اپنی دنیا والوں کو نہیں بتا سکتے۔