انقلاب دہر کا روح رواں

نور السلام ندوی
وہ دانائے سبل ،ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادئی سینا
ربیع الاول کا مہینہ بڑا مبارک و مسعود مہینہ ہے، اس مہینہ میں محسن انسانیت ﷺ کی بعثت ہوئی۔آپ ﷺ کی بعثت سے قبل پوری دنیا
ضلالت و جہالت میں ڈوبی تھی،چہار جانب کفر و بت پرستی کا دوردورہ تھا، ظلم و جبر کا بول بالا تھا، مظلوموں اور کمزوروں کا جینا دوبھر تھا، طاقت و قوت
کا دبدبہ تھا، بنی نوع انسان مختلف طبقوں اور گرہوں میں بٹے ہوئے تھے، بھید بھاو¿ اور اونچ نیچ میںپورا معاشرہ چکڑا ہوا تھا۔ جنگ و جدال روز روز
کا معمول بن چکا تھا، عورتوں کی کوئی وقعت نہ تھی، وہ صرف سامان طرب و عیش تھی۔ ہر قسم کی برائیاں اور بے حیائیاں عام تھیں، مخلوق اپنے خالق کو
بھول چکا تھا، پوری انسانیت بربادی کے دہانے پر کھڑی تھی، انسانیت سسک رہی تھی، کراہ رہی تھی،دوسری طرف دنیا نے علم و ہنرمیں ایسی ترقی
کرلی تھی اور طاقت و راحت اور ترقی کے وہ سارے و سائل حاصل کر لئے تھے کہ تہذیب و تمدن کی چمک دمک نگاہ کو خیرہ بناتی تھی ۔ایک طرف
ساسانی ایمپائر تھا تودوسری طرف رومی ایمپائر تھا اور دنیا ان کی طاقت و ترقی کو دیکھ کر ششدرتھی۔ لیکن انسانیت ظلم و حق تلقی ،سنگ دلی ،لذت کو شی
اوراونچ نیچ کے ظالمانہ طور طریق کے نیچے سسک رہی تھی۔ حکومت کرنے والوں ،عیش و لذت کے متوالوں ،علم و ہنر کے ماہروں اور فلسفہ و حکمت
اور مذہب کے پیشواو¿ں کو اس کا احساس تک نہ تھا ۔ ایسے حالات میں ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا، انسانیت جگمگا گئی، پورا عالم منور ہو گیا، پھوٹی
قسمت کا نصیبہ جاگ گیا، رحمت عالمﷺ کی آمد سے بنی نوع انسان کو عزت و افتخار نصیب ہوا، دم توڑتی، سسکتی اور تشنہ لب انسانیت کو آب حیات کا
جام مل گیا۔
عیسوی کلنڈر کے حساب سے چھٹی صدی کا نصف آخری دور تھا جب حجاز کی سرزمین سے قبیلہ قریش کے سب سے معزز خاندان بنو ہاشم
کے گھرانے میں عبد اللہ بن عبد المطلب کے یہاں محمد ﷺ نے آنکھیں کھولیں، بظاہر بے سروسامانی اور تمدن سے دوری کے ماحول میں قدرت
خداوندی نے اپنا معجزہ ظاہر کیا۔ محمد ﷺ ولادت سے پہلے یتیم ہو گئے تھے، چھہ سال کی عمر میں ماں کی آغوش اور سایہ عاطفت سے بھی محروم ہو
گئے، دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش و پرداخت کی، لیکن چند برسوں بعد وہ بھی اس دنیا سے سدھار گئے۔ عہد طفولیت کا یہ زمانہ آپ کے صبر و
امتحان کا دور کہا جا سکتا ہے۔ کچھ بڑے ہوکے رضائی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرائیں، چچا ابو طالب کے ساتھ تجارتی سفر پر گئے۔ آپ بچپن سے
ہی نہایت حلیم ، شریف، امانت دار، عفودرگذر اور جود وسخا کرنے والے تھے۔ آپ کی امانت داری کا یہ حال تھا کہ باوجود دشمنی کے اہل مکہ آپ کے
پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے اور لوگ آپ کو ”الامین “کہ کر پکارتے تھے۔
چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا۔ سرکار دو عالم ﷺ کی بعثت ایک نئی دنیا سے روشناس کرانا اور ایک عظیم
انقلاب سے ہمکنار کرانا تھا۔ آپ کی پوری زندگی قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ عمل ہے، اسوہ حسنہ ہے، آپ کے طریقہ پر چلنے میں
کامیابی ہے اور نافرمانی میں گمراہی ہے ۔ آپ نے اولاد آدم کو پستی سے نکال کر بلندی پر فائز کیا، اس کے وقار کو بلند کیا، انسانوں کو اس کا حق دلوایا،
آقا و غلام کے فرق کو مٹایا، امیری و غریبی اور اونچ نیچ کے فاصلہ کو دور کیا، گورے اورکالے اور عربی و عجمی کی دیوار کومنہدم کیا ، عورتوں کو عزت و شرف
دی، جھگڑاوفساد کو ختم کیا، کفر و بت پرستی کے دلدل سے نکال کر لوگوں کا رشتہ اپنے مالک حقیقی سے استوار کیا، روح ووجدان کو پاکیزگی عطا کی،
انسانوں کو زندگی کے تقاضے سکھائے، زندگی کے رموز بتائے اور ایسی تعلیم دی اور عملی تربیت کی کہ عرب کی اجڈ اور سخت قوم جلد ہی آپ کے
قدموں پر نثار ہونے لگی، آپ کے لئے جان چھڑکنے والی بن گئی۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ و نسل کا خاتمہ کر دیا اورصاف صاف
اعلان کیا کہ تم سب ایک انسان آدم کی اولاد ہو، تم سب برابر ہو، کسی گورے کو کالے پر، کسی عرب کو عجم پر کوئی برتری حاصل نہیں ، البتہ نیکی اور خدا
ترسی کی بنیاد پر آدمی اللہ کے نزدیک بڑا بن سکتا ہے۔ آپ نے اخوت انسانی ، مساوات، برابری، رواداری، باہمی تعاون، ہمدردی وخیر خواہی اور
سبھوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ اس وقت معاشرہ میں سب سے بے حیثیت طبقہ عورتوں اور کمزور لوگوں کا تھا، آپ نے ان کو طاقت و عزت
عطا کی، عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا، باپ کی وراثت میں اس کا حصہ متعین کیا۔ حقوق انسانی کے تحفظ و ضمانت کی اس سے بڑی مثال اور
کہاں مل سکتی ہے۔ قرابت داروں کو صلہ رحمی کا مستحق قرار دیا، والدین کا حق توحید کے فوراً بعد مقرر کر دیا۔ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا برتاو¿ کرو۔ پھر حفظ مراتب کے لحاظ سے قانون وارثت، قریب اور دور کے رشتہ دار وں کا متعین کیا ،اہل خاندان
کے ساتھ بہتر سلوک اور تعاون کی تلقین کی، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاو¿ کی تاکیدکی،بعض صحابہ کو یہ شبہ ہونے لگا کہ وراثت میں
اس کا حصہ نہ قرار دے دیں، اپنوں کے علاوہ غیروں کی راحت رسانی کا خیال رکھنے کی ہدایت فرمائی۔، پڑوسی قریب کا ہو یا دور کا ،حکم ہوا اگر کوئی
ایسی چیز پکاو¿ جس کی خوشبو قریبی پڑوسی کو پہونچے تو اسے ضرور بھیج دو۔احترام آدمیت اس درجہ کی کہ ارشاد فرمایا :تم اپنے بچے کو کوئی ایسی چیز دے کر
باہر مت جانے دو جو پڑوسی کا بچہ نہ رکھتا ہو اور نہ خرید نے کی استطاعت ہو۔ حسن سلوک اور انسانی اخوت کا اس سے عظیم پیغام کہیں اور مل سکتا ہے؟؟؟ایران
کے رہنے والے حضرت بلال رضی اللہ عنہ،فارس کے رہنے والے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور رومی النسل حضرت صہیب رومی رضی اللہ
تعالی عنہ کو اپنے ساتھ اس طرح رکھا ، انکو ایسی عزت دی جس طرح لوگ اپنے افراد خاندان کو دیتے ہےں۔ غلامو ں کے ساتھ مساوات کی عملی تعلیم
ایسی دی کہ اپنے غلام حضرت زید ابن حارثہ کو آزاد کر کے اپنے بیٹے کی طرح رکھا یہاں تک کہ لوگوں نے ان کو آپ کا ”متبنیٰ“ کہہ کر پکار نے لگے
پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔غریبوں ، محتاجوں اور بے سہاروں کی مدد کرنے کا حکم دیا ،دولت مندوں اور اہل
ثروت کے دولت میں غریبوں کا حصہ مقرر کر دیا ۔ دوسری مخلوق کے ساتھ بھی آپ کا رویہ شفقت و نرمی اور نفع رسانی کا تھا۔ چنانچہ آپ نے ارشاد
فرمایا : تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا اور فرمایا : ساری مخلوق اللہ کے زیر پرورش ہے، اللہ کی مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کو سب سے
زیادہ پسند وہ ہے جس کا رویہ اس کے زیر پرورش مخلوق کے ساتھ اچھا ہو ۔ رحمت دو عالم ﷺ نے اخوت و مساوات کی ایسی مثال قائم کی کہ انسانی
تاریخ نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ آزاد اورمعزز نسل کے مسلمان بادشاہوں کے علاوہ آزاد نسل پر غلام نسل کے بادشاہ بھی ہوئے اور اسلامی تاریخ میں
بار بار ہوئے اس پر کسی نے نہیںکہا کہ غلام نسل کے آدمی ہم پر کیسے حکومت کرسکتے ہیں؟؟؟۔ آپ نے انسانوں کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل
بتلایا اور باقی تمام مخلوقات کو انسانوں کا خادم بتلایا ،انسا ن کو انسانوں سے محبت کرنا سکھلایا۔
آج دنیا نے جمہوریت و مساوات کے جو اعلیٰ نظریات پیش کئے ہیں ،جس کا ڈھنڈور پیٹا جا رہا ہے اور اس پر عمل کرنے کے بڑے بانگ
دعوے کئے جا رہے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کے ذریعہ عطا کئے گئے عملی مساوات و جمہوریت کا ایک چھوٹا سا نمونہ بھی پیش نہیںکر سکتی ۔ امریکہ آج
جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار ہے لیکن وہ خود کالوں اور گوروں کو مساوی سمجھنے ، مساویانہ حقوق دینے میں انصاف سے کام نہیں لے سکا۔ زندگی
کے مختلف شعبہ حیات میں سیاست ہو یا معاشرت ، تعلیمی ہو یا اقتصادی ہر جگہ دونوں میں تفریق کیا جاتا ہے۔
آپ ﷺ اخلاق عالیہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ آپ نے اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار اور محبت و سلوک سے لوگوں کے دل جیت لئے
جو بھی آپ سے ایک مرتبہ مل لیتا وہ آپ پر فریفتہ ہو جاتا، آپ کا گرویدہ ہو جاتا ، آپ نہ تو کسی سے زور زبردستی کرتے اور نہ ہی کسی کو ڈانٹتے ، نہ سختی
کرتے بلکہ محبت و اخلاق سے ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ، نرمی سے سمجھاتے ایک طر ف تو آپ کی یہ انسانیت نوازی اور ہمدردی تھی تو دوسری
ٍ طرف دوسروں کی اس قدر فکر تھی کہ ضرورت مندوں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے،د وسروں کی ضرورتوں کا خیال اور ایثار و قربانی کا جذبہ ایسا تھا کہ فاقوں
کی نوبت آجاتی، حالانکہ آپ کے پاس اتنا مال آ جاتا کہ اگر اسے روک روک کر خرچ کرتے تو اپنا کام فراغت کے ساتھ چلا لیتے مگر آپ کو
دوسروں کی فکر ،حاجت مندوں کی حاجت روائی کا خیال، اپنے ساتھیوں اور مہمانوں کی خاطر و مدارات کی فکر ایسی ہوتی کہ جیسے لوگ اپنی فکر کرتے
ہیں۔جو بھی مال آتا سارا کا سارا غریبوں اور حاجت مندوں میں لٹا دیتے ۔ آپ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان انتقال کر جائے تو
اس کا چھوڑا ہوا مال اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض چھوڑ گیا ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔
محسن انسانیت ﷺ نے ان باتوں کا نہ صرف یہ کہ حکم دیابلکہ ان پر عمل کرنے والا پورامعاشرہ تیار کیا اور ان اصولوں پر عمل کرنے والی
عادت ڈالی درا حالانکہ اس کے لئے آپ کو بے مثال قربانی دینی پڑی ، تکلیفیں اٹھائیں،مصیبتیں جھیلیں، دشمنوں کے حملے برداشت کئے، مخالفوں
کے طعنے سہے، جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی، راہ میں روڑے اٹکائے گئے، غیر معمولی طور پر ذہنی و جسمانی اذیتیں پہونچائی گئیں لیکن آپ
نے صبر و برداشت سے کام لیا۔ ایک موقع پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اب تو برداشت سے باہر ہو گیا تو آپ نے فرمایا ابھی سے تم
بے قرار ہو گئے، تم سے پہلے کی امتوں پر ایسے ایسے حالات گزرے ہیں کہ ان کی بدن لوہے کی کنگھیوں سے نوچے گئے اور انہوں نے صبر کیا، تم بھی صبر
کرو ،اطمنان رکھو ایک وقت آئیگا کہ تم غالب ہوگے ، تم سرفراز ہوگے،کامیابی تمہارے قدموں میں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے جس عظیم منصب پر متمکن کیا تھا اس میں مشکل حالات کا بخوبی مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کی تھی ۔ آپ کو،
آپ کے ساتھیوں کو ، صحابہ کرام کو ایمان لانے اور دعوت و تبلیغ انجام دینے کی پاداش میں گرم پتھر پر لٹائے گئے ، آگ کی دھونی دی گئی، اتنی
ایذائیں دی جاتیں کہ برداشت سے باہر ہو جاتا،آپ صبر کی تلقین کر تے رہے، ایک وقت آیا کہ ظالموں کی ظلم سے تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہو گئے، مدینہ منورہ میں بھی مکہ کے دشمن دشمنی سے باز نہیںآئے۔ لیکن آپ ﷺ ان مشکل حالات اور نازک ترین لمحہ میں بھی اللہ کا پیغام لوگوں تک پہونچاتے
رہے ،دین کی تبلیغ کرتے رہے، اللہ کے بندوں کو راہ راست پر لانے کی انتھک جدو جہد کرتے رہے۔
نبوت کے صرف 23 سالہ زندگی میں آپ نے ایسا انسانی معاشرہ تشکیل دیا جو ہر طرح کے کفر و شرک سے پاک تھا ،جس میں انسانوں کی
کوئی تفریق نہ تھی ،اللہ کے بندے سب آپس میں بھائی بھائی تھے۔ اس معاشرے کا ہر فرد سیرت و سلوک اور اخلاق و کردار میں اعلیٰ تھا ، ایمان و
عقیدے کے اعتبار سے پختہ تھا۔ آپ نے انسانیت کو اس کے مرتبہ عالیہ پر دوبارہ فائز کیا ،عزت و شرف کی بلندی پر پہونچایا ، امن و سلامتی کی راہ پر
گامزن کیا ، اخوت و محبت کی ڈگر پر کھڑا کیا، جمال و کمال سے آراستہ کیا ، صفائی و پاکیزگی سے پےوستہ کیا اور انسانیت کو ایک نئی زندگی دی۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد رواں دواں قافلہ انسانیت کے لئے منارہ نور بنی ۔ آپ نے وہ شریعت دی، نظام حیات دیا ، دستور
زندگی دی جس میں دنیا کے بدلے ہوئے حالات، آنے والے زمانے کے تغیرات اور مستقبل میں علم و ہنر اور سائنس و ٹیکنولوجی کی انتہائی ترقی کے عہد میں
بھی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بھر پور صلاحیت ہے۔آپ کی تعلیمات اور شریعت قیامت تک آنے والی انسانیت کےلئے مکمل رہنمائی اور دستگیری
کرتی رہے گی۔ ہزارہا درود و سلام ہو اس نبی ﷺ برحق پر جس کی آمد سے انسانیت کوحیات جاودانی نصیب ہوئی ۔ ربیع الاول کا مہینہ ہر سال یہی پیغام
لے کر آتا ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی سیرت کے سانچے میں اپنی سیرت کو ڈھال کر دنیا کے سامنے اسلام کی عملی تصویر پیش کریں۔

آئے دنیا میں بہت پاک و مکرم بن کر
کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر

nsnadvi@gmail.com

 

SHARE