صفدر امام قادری
(شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ)
ہندستان میں مغربی حکمرانوں کے توسط سے مختلف علمی وسائل ان کے سامراجی منصوبوں کا حصّہ بن کر کبھی اعلانیہ طور پر یا کبھی چپکے سے ہمارے سماج کا حصّہ بنائے گئے ۔اسکول ،کالج اور یونی ورسٹیوں کے متوازی پریس اور اخبارات و رسائل کی باضابطہ اشاعت اس متعین جدید کاری کا ایک حصّہ تھا جس کے زیرِ اثر نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے بعض پیمانے وضع ہوئے۔انگریزی مقاصد سامراجی نقطۂ نظر کے ساتھ واضح جبر اور استحصال کے حربوں سے لیس تھے جسے ہندستانی سماج کے فروغ کی بنیاد تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا مگر یہ سچائی بھی پیشِ نظر ہونی چاہیے کہ اس محدود فیضان سے بھی ہندستانی عوام وخواص کو تھوڑے بہت ایسے مواقع حاصل ہوئے جن سے وہ آزادانہ طور پر خود کو کھڑا کر سکتے تھے۔بے شک ان اشخاص میں اکثریت نے ذاتی استعداد کی بنیاد پر خود کو آراستہ کیاہوگیا۔مگر اس سے کیسے انکار کیا جائے کہ یوروپی قوم کے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قائم کردہ اداروں سے ہی دیسیوں نے چنگاری چن کر ایک عالَم کو روشن کرنے میں کامیابی پائی۔
ہندستان میں صحافت کی بنیاد انگریزی حکمرانوں کی کوششوں سے پڑی۔جیمس اگسٹس ہکی نے ۲۹ جنوری ۱۸۷۰ ء کو’’ ہکیز بنگال گزٹ‘‘ کے عنوان سے جو چار صفحات کا ایک پرچہ شایع کیا،اسے اس ملک میں صحافت کا پہلا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ اس سے ڈیڑھ سو سال پہلے فرانس اور انگلینڈ سے اخبارات شایع ہونے لگے تھے جس سے اہالیانِ یورپ کی جدید تعلیمی سرگرمیوں میں اوّلیات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ہکّی کے گزٹ نے ہندستان میں صحافت کے بہت سارے اصول و ضوابط متعئن کر دیے ۔ہکی کے نقطۂ نظر کو اس کے ان جملوں سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
ــ’’میری پرورش بھی اس طرح کی نہیں ہوئی ہے کہ میں محنت و مشقت کی غلامانہ زندگی کا عادی بن سکوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود روح و دماغ کی آزادی خریدنے کے لیے میں اپنے جسم کو بہ خوشی غلام بنا رہا ہوں۔‘‘
’’ یہ ہفتہ وار سیاسی وتجارتی اخبار ہے جس کے صفحات ہر پارٹی کے لیے کھلے ہیں لیکن اخبارکو کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔‘‘
یہ دونوں اصول اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندستانی سماج میں جو پہلا اخبار شایع ہوا، اس کے مدیرکے سامنے آزادیِ اظہار اور حکومتی نابستگی کے اصول واضح تھے۔ہندستان میں صحافت کے مورخین نے اس عہد کے یوروپین افراد کی زندگی اور کلکتے کے معاشرتی ماحول کے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لییاس نقشِ اوّل واضح کی ہے۔ خاص طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں کے سلسلے سے ایک تنقیدی رائے رکھنے کی وجہ سے اِس اخبار کو اُس سماج کا آئینہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہکی کی صحافیانہ شخصیت میں ایک بے اعتدالی بھی تھی اور بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وارن ہیسٹنگز کے مخالفین کہیں نہ کہیں ہکی اور اس کے اخبار کو حسبِ ضرورت آلۂ کار بنا رہے تھے۔
ہکی کو حکومت کے عتاب در عتاب میں مبتلا رہنا پڑا ۔کئی بار جیل کی سزا ، اخبار اور پریس کی ضبطی اور ضمانت کے مسائل نے ایسا الجھا دیا کہ انھیں اپنی صحافتی زندگی کو سمیٹ لینا پڑا۔ہندستانی اخبار نویسی کا یہ پہلا سبق کچھ اس قدر باعثِ ترغیب رہا جیسے یہ لازم تسلیم کیا جائے کہ اخبار نویسی اور حکومت سے ٹکراؤ لازم ہے ۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صحافت آزادیِ اظہار اور حکومتی جبر سے آزادی کااگر ذریعہ ہے تو اسے نباہنا بے حد مشکل ہے۔شاید اسی وجہ سے اُس دور کے متعدد اخبارات سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے رشتے اچھے نہیں تھے اور جب جب کمپنی کے لیے گنجائش ہوتی، وہ انھیں اپنا شکار بنانے کی کوشش کرتی۔ اس میں یورپ سے تعلق رکھنے والے ایڈیٹر اصحاب بھی شامل تھے جنھیں ہکی کے بعد سرکار مخالف صحافت کے عوض جیل جانا پڑا ۔اسی مرحلے میں اس بات کے امکانات روشن ہوئے کہ ہندستان میں صحافت عوام و خواص کے تصّورات کی ترجمان بن کر اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے سامنے آ سکتی ہے۔
انگریزی کے ساتھ ہی ہندستان کی متعدد زبانوں میں صحافت کے امکانات بہ تدریج روشن ہوتے گئے۔ ہکی کے اخبار سے ’جامِ جہاں نما‘ تک ؛نصف صدی کا ایک مختصر عرصہ بھی گزرا تھا مگر ہندستان کے طول و عرض میں صحافت ایک باضابطہ پیشے کے طور پر اُٹھ کر سامنے آتی ہے۔ گجراتی، مراٹھی، فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادیِ اظہار اور مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے مادری زبان اور دیگر کاروباری زبانوں کی جانب لوگوں نے ہاتھ بڑھائے۔ اسے یوں نیک شگون کہا جاسکتا ہے کہ بعد کے عہد میں صحافت نے بالعموم اور اردو صحافت نے بالخصوص اپنا جو قومی مزاج ثابت کیا؛ اس کے لیے یہ لازم تھا کہ انگریزی زبان سے اور اس کی تربیت سے ہمارا راستہ تبدیل ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ’ جامِ جہاں نما ‘بھی اولاً اردو اخبار نہیں تھااور فارسی زبان میں ہی اس کی اشاعت ہوتی تھی مگر بہت جلد اخبار نے اس عوامی ضرورت کو سمجھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جس کی شناخت ہم اردو جیسی عوامی زبان سے کر سکتے ہیں۔ اخبار نے اولاً ضمیمہ جات شایع کیے اور پھر یہ ایک مقصود بالذات اردو اخبار کے طور پر شایع ہوکر مقبول ہونے لگا۔ ابتدا میں اس اخبار پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا ٹھپہ بھی لگا رہاجس کی وجہ سے صحافت کے مورخین نے اس کی آزادانہ شناخت پر کہیں کہیں سوالات بھی قائم کیے مگر محض پانچ چھے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بیڑیوں سے بھی یہ ادارہ آزاد ہوگیا۔ مختلف مورخین نے اس کے شماروں کے جو نمونے اور اندراجات کے جو اشاریے تیار کیے ہیں،اس کی روٗ سے عتیق صدیقی کے لفظوں میں کہیں تو یہ اخبار عمرِ نوح لے کر سامنے آیا تھا۔ ’’اخترِ شاہنشاہی‘‘کے مطابق اس کی تالیف کے وقت ۱۸۸۸ء میں یہ اخبار جاری تھا۔
’جامِ جہاں نما ‘سے ’دہلی اردو اخبار‘یعنی ۱۸۳۷-۱۸۳۶ء تک کا سفر یوں تو پندرہ برسوں کا ہے مگر اس دوران ہندستان کی صحافت کی پوری دنیا بدل چکی تھی۔ قومی قوانین کی تبدیلی اور دیسی زبانوں کے آزادانہ فروغ کے مواقع اپنے آپ پیدا ہورہے تھے۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ اردو صحافت بنگال سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیلنے لگی تھی اور جغرافیائی اعتبار سے اس کا مزاج قومی ہونے لگا تھا۔ ان تمام تبدیلیوں کے لیے کسی ایک نمونے کی پہچان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت ہمیںدہلی اخباراوردہلی اردو اخبار کی طرف توجہ کرنی ہوتی ہے جسے مولوی محمد باقر نے تقریباً بیس برسوں تک شایع کیا۔ ابتدائی دور کی وہ تمام بحثیں جن میں اس اخبار کے لیے اردو کا سب سے پہلا نقش تسلیم کیا گیا تھا، متعدد شہادتوں کے بعد باطل ہوچکی ہیں۔ مولوی محمد باقر کے صاحب ز ادے محمد حسین آزاد کے اولیت کے سلسلے سے دعوے کا لعدم قرار دیے جاچکے ہیں۔ مگر ۱۸۵۷ء سے پہلے کے اردو اخبارات کی تاریخ اس ایک بات کی لازمی شہادت دیتی ہے کہ مدیر کی حیثیت سے ان دو ڈھائی دہائیوں میں اگر کوئی ایک شخصیت قدِ آدم شبیہہ کے ساتھ ہمارے پیشِ نظر ہوتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مولوی محمد باقرہی ہیں۔ اردو کے طالب علم کے لیے مولوی محمد باقر کی شناخت کے دو اور واضح پیمانے ہیں۔ ایک تو یہی کہ وہ ہماری زبان کے صاحبِ طرز ادیب محمد حسین آزاد کے والد محترم ہیں ؛ اسی کے ساتھ وہ شیخ محمد ابراہیم ذوق کے ہم مشرب بھی ہیں۔ دہلی کالج سے بہ طور طالب علم اور استاد مولوی محمد باقر کا تعلق اہمیت کا حامل ضرور ہے مگر غدر میں ان کی زندگی کا انجام کچھ ایسے سامنے آیا جس نے نئے سرے سے باقر کو ، ان کی صحافت اور دیگر سرگرمیوں کو سمجھنے کا پس منظر عطا کیا۔ اب تاریخی اعتبار سے یہی حیثیت سب سے مقدّم ہے۔
مولوی محمد باقرکی مختصر سوانح حیات
محمد حسین آزاد نے کئی جگہوں پر اپنے خاندان کی تفصیلات بتانے کی کوشش کی ہے۔نبیرۂ آزاد آغا محمد باقر کے کتب خانے میں ایک کتاب کے حاشیے پر مولوی محمد باقر کے قلم سے ایک مختصر شجرہ مندرج ہے جس کی رو سے محققین نے عام طور پر مولوی محمد باقر کے اسلاف کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مورثِ اعلا ایران سے کشمیر پہنچے اور پھر دہلی میں آکر مستقل طور پر آباد ہو گئے۔ بعد میں یہی خاندان محمد حسین آزاد کی وجہ سے غدر کے بعد لاہور پہنچا اور اب بھی اس خاندان کے بعض افراد وہیں مقیم ہیں۔ مولوی محمد باقرکے والد مولوی محمد اکبر اور دادا اخوند محمد اشرف سلمانی تھے۔ ان سے پہلے کی خاندانی کڑیوں میں محمد آشور ، محمد یوسف، محمد ابراہیم وغیرہ کے نام درج ہوئے ہیں۔ محمد باقر کے والدایک مجتہد تھے اور علوم ِدین کے سلسلے سے انھوں نے ایک مدرسہ قایم کر رکھا تھا ۔مولوی باقر نے اولاً اسی مدرسے سے فیض حاصل کیا ۔اس کے بعد میاں عبد الرزّاق کے ادارے میں آگے کی تعلیم کے لیے شامل ہوگئے۔بتایا جاتا ہے کہ وہاں شیخ محمد ابراہیم ذوق ان کے ہم درس تھے ۔یہ رشتہ ایک طویل رفاقت میں بدل کر دہلی کی تہذیبی زندگی کے لیے قابلِ توجہ بن گیا۔مولوی محمد باقر اپنے والد کے تنہا فرزند تھے ۔اس وجہ سے تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔انھوں نے مذہبی اور عصری دونوں تعلیم پائی ۔ دہلی کالج کے ابتدائی عہد کے طالب علموں میںان کا شمار ہوتا ہے ۔ایک مختصر مدّت تک سرکاری ملازمت میں شامل رہے ،پھر والد کے مشورے سے ملازمت سے علاحدہ ہو کر اردو صحافت سے باضابطہ طورپر منسلک ہونے سے پہلے وہ کار و بارسے بھی جڑ چکے تھے۔
مولوی محمد باقر کی تاریخِ پیدائش یا سالِ پیدائش میں محققین کے دوران اتّفاق رائے نہیں ہے۔خاندانی احوال اور دیگر اصحاب کی اطّلاعات کے مطابق ۱۷۷۰ ء ، ۱۷۸۰ء،۱۷۹۰ ء اور ۱۸۱۰ ء کے برس اس سلسلے سے سامنے آتے ہیں ۔چالس برس کے تخمینے کو شاید ہی کسی تحقیقی دائرۂ کار میں رکھ کر تولا جا سکتا ہے۔دو چار پانچ سال کے فرق کو قیاس کے حوالے سے فطری حیثیت دی جا سکتی ہے مگر چالس سال کا دورانیہ کسی بھی آدمی کو پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔آغا محمد باقر نے غدر کے وقت ان کی عمر ۷۰ سال سے زائد بتائی ہے جس کی وجہ سے دوسرے قرائن سے مدد لے کر بعض محققین نے ۱۷۸۰ ء کو ان کا تخمیناً سالِ ولادت تسلیم کیا ہے۔مولوی محمدباقر سے شیخ محمد ابراہیم ذوق کے دوستانہ مراسم لڑکپن کے زمانے سے ہی بتائے جاتے ہیںجسے مقبول روایت کی حیثیت حاصل ہے۔ذوق ۱۷۸۲ ء میں پیدا ہوئے، اس اعتبار سے مولوی محمد باقر کا سالِ ولادت ۱۷۸۰ ء یا اس کے آس پاس معقول معلوم ہوتا ہے۔مگراسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ۱۸۲۸ ء میں مولوی محمد باقر دہلی کالج میں اپنی تعلیم مکّمل کر کے مدرّس بنا دیے جاتے ہیں ۔اگر ۱۷۸۰ ء میں ہی وہ پیدا ہوئے تو کیا وہ ۴۸ سال کی عمر تک تحصیلِ علم میں مبتلا رہنے کے بعد ملازمت میں آئے؟ یہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا ہے۔
سر سیّد احمد خاں کے ایک مکتوب سے یہ پتا چلتا ہے کہ محمد حسین آزاد کے والد سر سیّد کے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے۔سر سیّد نے لکھا ہے :
’’مولوی محمد حسین آزاد صاحب سے اور میرے خاندان سے ایک ربطِ خاص ہے۔اُن کے دادا اور میرے والد میں ایسی دوستی تھی کہ لوگ بھائی بھائی سمجھتے تھے اور ان کے والد مولوی محمد باقر صاحب اور میرے بھائی مرحوم سے بہ سبب ہم عمری کے ایسا ہی ارتباط تھا۔‘‘
حیاتِ جاوید میں سر سیّد کے بڑے بھائی کے بارے میں یہ واضح اطلاع ملتی ہے کہ وہ سر سیّد سے چھے برس بڑے تھے۔اس اطلاع سے سر سیّد کے برادرِ بزرگ کی پیدائش کا سال ۱۸۱۱ء متعئن ہوتا ہے۔ڈاکٹر اسلم فرّخی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مولوی محمد باقر کا سنہ پیدائش ۱۸۱۰ء کے قریب متعئن کیا جاناچاہیے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اسلم فرخی کے تعین کردہ سال کو اہمیت دی اور اپنی تاریخ میں ایسے ہی قبول کیا ہے۔یہاں اُن مضامین اور کتابوں کا حوالہ لازم نہیں ہے جن میں مولوی باقرکی پیدائش کے سلسلے سے بڑی حتمی گفتگو کی گئی ہے کیو ںکہ اکثر افراد نے کسی ایک ماخذ کو اعتبار کے قابل سمجھا اور نقل در نقل کے مرتکب رہے ۔ڈاکٹر صادق اور ڈاکٹر اکرام چغتائی نے بھی مولوی محمد باقر کے سلسلے سے بہت سارے تحقیقی گوشوں کو روشن کیا اور حیات و خدمات کے سلسلے کے بعض پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میںوہ اصحاب کامیاب ہوئے ہیں مگر وہ مولوی محمد باقر کے سالِ ولادت کے سلسلے سے کوئی بنیادی اشارہ فراہم نہیں کرسکے جس سے یہ مسئلہ حل ہوسکے۔۱۸۱۰ ء کے سال کو قبول کرنے میں چند مسائل ہمیں نتیجے تک پہنچنے سے روکتے ہیں:
الف۔ مولوی محمد باقر ۱۸۲۸ ء میں محض اٹھارہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو چکے تھے، یہ معقول نہیں معلوم ہوتا ۔
ب ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں انھیں بہ طورِ مدرس منتخب کر لیا گیا اور وہ آیندہ چھے برسوں تک درس و تدریس کی ذمہّ داریاں ادا کرنے کے بعد ملازمت سے علاحدہ ہو گئے۔
ج۔ ذوق سے عمر میں ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کے سبب مولوی محمد باقر ۲۸ برس چھوٹے ہیں۔ایسے میں دوستانہ تعلق بھی قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا اور مولوی عبد الرزاق کے مدرسے میں ابتدائی دور کی یکجا تعلیم کے بارے میں بھی کچھ یقین سے کہنا معقول معلوم نہیں ہوتا۔
ان تحقیقی اعداد و شمار اور سوال و جواب کی روشنی میں یہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر ۱۸۱۰ ء سے پہلے پیدا ہو چکے ہوں گے مگر یہ تاریخ کتنی پیچھے تک جائے گی اور ہم اسے تخمینے کے لیے بھی کہاں تک روک سکتے ہیں،یہ غیر معین ہے۔اب رہی بات جن لوگوں نے ۱۷۷۰ سے لے کر ۱۸۱۰ ء کے درمیان جتنے برس بھی اس کام کے لیے آزمائے ہیں ، وہ حتمی اور حقیقی تاریخیں کس طرح سے ہیں، اس کا ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں ۔بس یہ یاد رہے کہ ۱۷۸۰ ء کی تاریخ سے بھی ذیل کے واقعات کی صداقت پہ کوئی حرف نہیں آتا ۔
i . محمد حسین آزاد کے سالِ پیدائش کے سلسلے سے بھی اچھے خاصے اختلافات موجود ہیں ۔۱۸۳۰ ء، ۱۸۳۳ ء اور ۱۸۳۵ ء کے سال جگہ جگہ ملتے ہیں۔ آغا محمد باقر نے تو دو جگہوں پر ۱۸۲۷ء اور ۱۸۲۹ ء بھی لکھا ہے۔آزاد کے پنشن کے معاملے میں ان کے سنہ ولادت کے سلسلے سے بعض اختلافات پنجاب کے اکاؤنٹنٹ جنرل کی نگاہ میں کھٹکے تھے اور انھوں نے ۱۸۹۲ء میں اس سلسلے سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔محمد صادق نے محتلف شواہد کی بنیاد پر ان کی پیدایش کا سال۱۸۳۰ ء متعین کیا ہے ۔اگر باقر کی پیدائش ۱۸۱۰ ء بھی ہوتی ہے، تب بھی یہ قرینِ قیاس ہے کہ محمد حسین آزاد ۱۸۳۰ ء کے آس پاس پیدا ہوئے ہوں گے جب کہ ان کے والد کی عمر بیس برس ہو چکی تھی۔
.ii ۳۷۔ ۱۸۳۶ء میں دہلی اخبار شایع ہوا جب ان کی عمر۲۷۔ ۲۶سال تھی ،یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔
.iii ۱۸۵۷ ء میں جب انھیں موت کی سزا دی گئی، اس وقت ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کی رو سے وہ ۴۷برس کے ہوں گے جسے نادرست سمجھنا غیر ضروری ہے۔
مولوی محمدباقر کی تاریخ پیدائش میں جتنے بھی اختلاف رہے ہوں مگر ان کی زندگی کے آخری تیس برس ادبی مورخین کے لیے سب سے اہم ہیں۔ اس میں بھی آخری دو دہائیاں صحافت کے آغاز سے شہادت تک کے سفر کے دائرے میں قید ہیں۔اسی دوران وہ امتیازی حیثیت کے حامل شخص کے طور پر سامنے آتے ہیںاور مدرّس، صحافی، کاروباری اور بالآخر شہیدکے درجے تک پہنچتے ہیں۔اس اعتبار سے اس گفتگو میں مولوی محمد باقر کی زندگی کے اس دورانیے پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کا نقطۂ آغاز ۱۸۲۸ ء مانا جا سکتا ہے اور ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو اس کاانجام قرار دیا جا سکتا ہے۔انھی تین دہائیوں کے حوالے سے ہماری گفتگو جاری رہے گی۔
دہلی اردو اخبار کا سالِ اجرا اور اشاعت
اردو صحافت کی تاریخ کے لیے یہ بات کم پیچیدہ نہیں کہ مولوی محمد باقر کی واحد یادگار ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ آخر کب سے شایع ہوا۔۱۸۳۶، ۱۸۳۷ یا ۱۸۳۸ ؟ محققین نے ان سوالوں کو بہ نظرِ توجہ دیکھا اور ممکنہ حد تک ایک ایک چھوٹی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے نتائج کی طرف بڑھنے کی کوششیں کیں۔اصل دشواری یہ ہے کہ ابتدائی دور کے شمارے کہیں دستیاب نہیں اور غدر کے بعد مولوی محمدباقر کے خاندان کی جو بے سر و سامانی رہی،اس سے ضروری آثار کے محفوظ رہنے کی یکسر توقعات نہیں کی جا سکتیں۔اس اخبارکے ابتدائی شمارے جو دستیاب ہو ئے، وہ ۱۸۴۰ ء اور ۱۸۴۱ ء کے تھے۔چودھری عبد الغفور سرور کے نام مرقوم غالب کے ایک خط سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۸۳۷ ء کے اکتوبر مہینے سے قبل سے یہ اخبار نکلتا تھا۔’آبِ حیات ‘میں محمد حسین آزاد نے ۱۸۳۶ ء کی تاریخ درج کی ہے ۔قاسم علی سجن لال ،مارگریٹا بارنس ، ڈاکٹر عبد السلام خورشید اور مولانا امداد صابری نے محمد حسین آزاد کے بیان کے مطابق اپنی کتابوں میں ۱۸۳۶ ء کو ہی اس اخبار کا سالِ اجرا قرار دیا ہے۔عتیق صدیقی اور نادر علی خاںنے ۱۸۳۷ء کو سالِ اجرا قرار دیا ہے۔ ۱۸۴۰ ء اور ۱۸۴۱ ء کی دو جلدیں جو نیشنل آرکایوز سے حاصل ہوئیں ،ان کے مطابق عتیق صدیقی نے اجرا کی تاریخ متعین کرنے کی کوشش کی۔۲۶ جنوری ۱۸۴۰ ء کا جو اوّلین شمارہ دستیاب ہوا، اس پر جلد سوم اور نمبر ۱۵۳ درج ہے۔اس سے ان محققین نے روشنی حاصل کر کے تاریخ میں پیچھے جانے کی کوشش کی۔عتیق صدیقی نے تخمینہ لگایا کہ دہلی اخبار کا اجرا جنوری ۱۸۳۷ء میں ہوا ہوگا۔مگر نادر علی خاں اسی طریقۂ کار کو آزماتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مولوی محمد باقر کے اخبار کا پہلا شمارہ ۲۳ فروری ۱۸۳۷ ء کو منظرِ عام پر آیا ہوگا۔
جناب عادل فراز نے دہلی اردو اخبار کے اجرا کے سلسلے سے ایک نیا حوالہ اخبار ’’ماہ افروز عالم‘‘ سے پیش کیا ہے ۔اس دور میں اخبارات ایک دوسرے کی خبروں کی نقل حوالے کے ساتھ شایع کرتے رہتے تھے۔دہلی اردو اخبار کے ۱۷ مئی ۱۸۳۶ ء کے شمارے سے ایک خبر ’’ماہ افروز عالم‘‘ کے شمارہ ۲۱ جولائی ۱۸۳۶ ء میں شایع ہوئی۔ہر چند اخبار نے اس خبر کا فارسی ترجمہ شایع کیا ہے مگریہ بات حتمی طور پر طے ہو جاتی ہے کہ ۱۸۳۶ء میں دہلی ارود اخبار نکل رہا تھا۔اس حوالے میں اخبارِ دہلی (دہلی اخبار)موجود ہے ۔معلوم ہو کہ آغاز سے ۳ مئی ۱۸۴۰ء تک اخبار کا نام ’’دہلی اخبار‘‘ رہا ۔۱۰ مئی ۱۸۴۰ء سے اس کے نام کے بیچ میں ’’اردو‘‘ کا اضافہ ہوا اور اس کا مکمل نام ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ ہو گیا۔۱۲ جولائی ۱۸۵۷ ء کے شمارہ بابت جلد ۱۹ نمبر ۲۸ سے اس اخبار کا نام ’’اخبار الظفر‘‘ ہو گیا۔اس طور پر یہ باضابطہ انگریز مخالف اور بادشاہ کی حمایت میں سامنے آگیا ۔۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو آخری شمارے کے ساتھ اس کی زندگی انجام کو پہنچی۔تین دنوں کو بعد خود مولوی محمد باقر بھی غدر کی بھینٹ چڑھا دیے گے۔بعض محققین نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اخبار بیچ میں دو برسوں کے لیے بند ہو گیا تھا۔مگر اس پر اتفاق راے نہیں ۔سرکاری رپورٹوں سے بھی واضح طور پر یہ بات معلوم نہیں ہو پاتی کہ کن برسوں میں یہ اخبار التوا کا شکار رہا ۔حالاںکہ جلد نمبر کے شمار سے دو برس کے التوا کا اندازہ ہوتا ہے ورنہ ۱۸۳۶ سے ۱۸۵۷ تک ۲۱ یا ۲۲ جلدیں ہونی چاہیے تھیں۔جب کہ’ اخبار الظفر ‘کے آخری شمارے میں جلد ۱۹ ہی نظر آتا ہے۔ناموں کی تبدیلی سے اس اخبار کے شمارہ نمبر اور جلد نمبر کا اندراج بدلتا نہیں تھا۔کیوں کہ ۱۸۴۰ ء میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ اور ۱۸۵۷ ء میں ’’اخبار الظفر‘‘ ہونے کے باوجود پرانی گنتی چلتی رہی۔
’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں بالعموم مولوی محمد باقر کا نام کسی حیثیت سے شایع نہیں ہوتا تھا۔اگر چہ وہ اخبار کے مالک اور ایڈیٹر دونوں تھے مگر اس کا باضابطہ کوئی اندراج نظر نہیں آتا۔۱۲جولائی ۱۸۴۰ ء کے شمارے میں ایک سرکلر کی تفصیل میں جو وضاحتیں شامل کی گئی ہیں،ان کی رو سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر اس اخبار کے لیے کوئی اجنبی شخص ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’یہ ترجمہ کیا ہوا ہے مولوی محمد باقر نامی ایک صاحب کا جو سابق میں مدرس تھے مدرسہ خاص دہلی میں۔سر رشتہ داری کلکٹر اور تحصیل داری مدّت تک کی ہے ۔مال کے کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔‘‘
دہلی کالج، ٹیلر اور مولوی محمد باقر
مولوی محمد باقر کی زندگی کے حوالے سے ایک انگریزشخص ٹیلرکا تذکرہ آتا رہاہے۔ٹیلر کا مکمّل نام فرانسس ٹیلر تھا۔دہلی کالج کے قیام اور اس کی ترقی کے معاملات میں ٹیلر کی بنیادی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔۱۸۲۵ء میں جب دہلی کالج کی بنیاد رکھی گئی، ٹیلر کو کالج کا سپرنٹنڈنٹ بنایا گیا۔ان کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے مقرر ہوئی۔۱۸۲۸ ء میں تین برس بعد ٹیلر کی تنخواہ میں ڈیڑھ سو روپے کا اضافہ کرکے اسے ماہانہ تین سو روپے دیے جانے لگے۔۱۸۲۵ء میں ہی مولوی محمد باقر بہ حیثیتِ طالب علم دہلی کالج میں داخل ہوئے ۔دونوں کے درمیان اسی دور میں ایک دوستانہ تعلق قایم ہوگیا ۔پھر ۱۸۲۸ ء میں وہ دہلی کالج میں بہ حیثیتِ مدرس منتخب ہوئے۔اس ملازمت میں بھی ٹیلر کی معاونت شامل رہی۔ٹیلر نے مولوی محمد باقر کی مدرسی کے دوران ان سے اردو اور فارسی زبانیں سیکھی تھیں۔
ٹیلر اور مولوی محمد باقر کے درمیان کی قربت اورخصوصی رشتے کوکئی ذرایع سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔دہلی کالج میں قایم چھاپا خانہ فروخت کرنے کے لیے دفتری طورپر جب طے ہو گیا تو ٹیلر نے مولوی محمد باقر کو اُسے خرید لینے کا مشورہ دیا۔اصل قیمت سے بہت کم رقم پر یہ پریس بیچا گیا۔ٹیلر کے مشورے سے ہی مولوی محمد باقر نے ایک نیلام گھر بنوایا تھا ۔یہ نیلام گھر ہفتے میں ایک بار لوگوں کے لیے کاروباری طور پر کام کرتا تھا ۔اس روز تاجر اپنے نئے سامانوں کے ساتھ آتے، وہاں قیام کرتے اور پھر ملک اور بیرونِ ملک کے سامان بالخصوص عجائبات خریدے اور بیچے جاتے تھے۔مولوی باقر نے ٹیلر کے مشورے سے ہی اپنے صاحب زادے محمد حسین آزاد کا داخلہ دہلی کالج میں کرایا تھا۔
ٹیلر کا ۱۸۲۵ ء سے ۱۸۴۰ ء تک بہ حیثیت سپرنٹنڈنٹ دہلی کالج سے تعلق رہا۔ اس کے بعد بھی وہ قایم مقام پرنسپل کے طور پر کئی بار دہلی کالج سے متعلق ہوا ۔جب تک دہلی کالج سے ٹیلر کا کسی نہ کسی جہت کا رشتہ قایم رہا، مولوی محمد باقر کا بھی کالج سے رسمی یا غیر رسمی تعلق قایم رہا۔محمد اکرام چغتائی نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ اشپرنگر کے دورِ پرنسپلی میں مولوی محمد باقر کا کالج آنا جانا بند رہا۔ٹیلر کے بارے میں دہلی ارود اخبار میں متواتر خبریں شایع ہوتی رہتی تھیں۔ان اطلاعات سے دونوں کے دوستانہ مراسم پورے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔۱۸۵۳ ء میں جب فرانسس ٹیلر نے انگلینڈ جانے کے لیے کالج سے رخصت حاصل کی،اس وقت دہلی کالج کے اسٹاف اور طلبا کی جانب سے ایک اعزازی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقعے سے ٹیلر کی تعلیمی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا۔اس موقعے سے ٹیلر کے کارناموں کے بارے میں ایک مکمل عرض داشت پیش کی گئی۔ بعد میں وہ دہلی اردو اخبار میں تقریباً دو صفحات میں شایع کی گئی۔اس سے بھی ٹیلر اور ایڈیٹر دہلی اردو اخبار کے درمیان قریبی رشتے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
مولوی محمد باقر کی شخصیت سے متعلق تنازعات
دہلی کی تہذیبی اور ثقافتی حیثیت کے بارے میں اطّلاعات جمع کرتے ہوئی یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے بیچ مسلکی اختلافات شدید تھے اور وقتاً فوقتاً کسی واقعے یا حادثے سے اس میں شعلگی پیدا ہوتی رہتی تھی۔مرزا مظہر جان جاناں کا قتل اٹھارہویں صدی کے ان مسلکی اختلافات کا ایک کریہہ چہرہ سامنے لاتا ہے۔گہرائی سے دیکھنے پر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان تنازعات میں شاہی دربار ،حکّام اور امراو رئوسا بہر طور شامل رہتے ۔مولوی محمد باقر کا خاندان روادارانہ ماحول میں پھلا پھولا تھا۔مولوی باقر کے والد مجتہد تھے اور مولوی باقر کے یہاں بھی یہی انداز تھا۔انگریزوں نے فطری طور پر مسلمانوں کے مسلکی اختلاف کو گہرائی سے سمجھ رکھا تھا، اس لیے حسبِ ضرورت اسے اُبھارنے یا کچلنے میں وہ اپنی توجہ صرف کرتے تھے۔
۱۷۹۲ ء میں مدرسہ ٔ غازی الدین، ۱۸۲۵ ء میں دہلی کالج جہاں عربی فارسی کی تعلیم کا انتظام تھا،۱۸۲۸ میں انگریزی مضمون کی تعلیم کا سلسلہ؛ دہلی کالج کی یہ ایک مختصر سی تاریخ ہے۔نواب اعتماد الدولہ نے اپنی وفات سے چند ماہ پہلے دہلی کالج کے لیے ایک لاکھ ستّر ہزارروپے کی رقم وقف کر تے ہوئے ایک وصیت نامہ بہ زبانِ فارسی تیّار کرایا جس کی رو سے عربی ،فارسی اورسائنس کی تعلیم کی مد میں اسے خرچ کرنا تھا ۔نواب اعتماد الدولہ کے بعد نواب سیّد حامد علی خاں اس وصیت کے مطابق نگراں مقرر ہوئے ۔ٹیلر کی جب تنخواہ بڑھائی گئی تو نواب صاحب نے اس پر اعتراض کیا اور واضح لفظوں میں بار بار حکومت کو بتایا کہ وقف کی رو سے اس رقم سے ٹیلر کی تنخواہ دی جانی مناسب نہیں ہے۔کیونکہ ٹیلر مذہب ،مسلک یا زبان تینوں معاملات میں وقف کی رو سے اس رقم سے فیض پانے کااہل نہیں ہو سکتا ۔۱۸۴۰ ء میں آخر ٹیلر کو اِس اچھی تنخواہ سے دست بردار ہونا پڑا ۔ٹیلر اور نواب حامد علی خاں میں داخلی طور پر اسی مرحلے میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ان اختلافات میں مولوی محمد باقر کسی نہ کسی جہت سے شریک ہو گئے بلکہ اس کی متعدد کریہہ شاخیں بھی یہیں سے نکلتی چلی گئیں۔
مولوی محمد باقر کو تمام علمی اور سماجی حیثیات کے باوجود شیعہ استاد کے طور پر دہلی کالج میںموقع نہیں دیا گیا اور لکھنو ٔ سے قاری جعفر علی کو اس کام کے لیے بلا یا گیا۔اس کے پیچھے نواب حامد علی خاںکا سیدھا ہاتھ تھا کیونکہ بار بار وہ حکومت کو یہ بات گوش گزار کراتے رہے کہ چونکہ معطّی کا مسلک شیعہ ہے ،اس لیے شیعہ طلبا کو الگ استاد فراہم کیا جائے۔اسی لیے قاری جعفر علی لکھنؤ سے بلائے گئے ورنہ ۱۸۴۰ ء تک دونوں مسلک کے طلبا ایک ہی استاد سے درس لیتے تھے۔نواب حامد علی خاں کالج کے باہر بھی مسلکی اعتبار سے بے دار شخص کے طور پر پہچان رکھتے تھے ۔اس دوران غالب کی وہ طرح طرح سے معاونت کرنے لگے اور ذوق کو درکنار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔یہاں مولوی باقر کی صحافیانہ سرگرمیوں کے لیے نرم زمین تیارہوئی۔ان کے مربی اور دوست ٹیلر اور ذوق دونوں کی مخالفت میں چوں کہ نواب حامد علی خاں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے مولوی باقر نے ٹیلر اور ذوق کی طرف داری میں اپنے اخبار کے کالم سیاہ کیے۔یہی نہیں ،نواب حامد علی خاں کی مذمّت میں بھی خبریں شایع ہونے لگیں۔یہ اختلافات اس انداز سے بڑھتے جا رہے تھے جب محمد حسین آزاد کا ۱۸۴۵ ء میں دہلی کالج میں داخلہ ہوا تو ان کے مسلک کے اعتبار سے انھیں شیعہ استاد کے حوالے کیا گیا ۔کچھ دنوں تک محمد حسین آزاد نے قاری جعفرعلی سے درس لیا مگر مولوی باقر نے محمد حسین آزاد کا مضمون تبدیل کرا کر انھیں سنّی استاد کے حلقے میں ہی رکھنا قبول کیا۔کیونکہ وہ کسی ایسے استاد کے ذمّے اپنے صاحب زادے کو نہیں لگانا چاہتے تھے جو کسی نہ کسی طور ان سے کھلی دشمنی رکھتا ہو۔
مولوی محمد باقر اور قاری جعفرعلی کے درمیان آپسی مسلکی اختلافات تو ہو سکتے تھے مگر اس کی اصلی بنیاد دہلی کالج کی رنجش تھی۔دہلی کالج میں جب اشپرنگر۱۸۴۵ ء میں پرنسپل بن کر آیاتو ٹیلر سے اس کے واضح اختلافات قائم ہوگئے تھے۔جس طرح سے ٹیلر اور مولوی محمد باقر کی جوڑی بن گئی تھی، اسی طرح اس کے بعد کے زمانے میں اشپرنگر اور قاری جعفرعلی کی جوڑی کام کرنے لگی۔محمد اکرام چغتائی نے برلن میں واقع اشپرنگر کے ذاتی کتب خانے میں موجود متعدد ستاویزات سے استفادہ کرتے ہوئے محمد حسین آزاد اور ان کے والد اور اس موضوع کے متعلقات پر بہت ساری نئی معلومات فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اشپرنگر کے نام قاری جعفر کے متعدد خطوط سے دونوں کے ذاتی اور علمی رشتوں کے ثبوت ملتے ہیں۔اس ذخیرے میں اشپرنگر کے نام نواب حامد علی خاں کے بھی دو فارسی اور دو اردو مکاتیب موجود ہیں ۔ان سب سے اشپرنگر ،حامد علی خاں اور قاری جعفر علی کے قریبی رشتوںکی وضاحت ہو جاتی ہے ۔یہیں یہ بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ مسلکی اعتبار سے رفتہ رفتہ اختلاف کایہ لاوا بڑے پیمانے پر پھوٹنا ہی چھاہتا تھا۔
دہلی میں اہلِ تشیع کے درمیان دو طبقے پیدا ہو گئے: باقری اور جعفری ۔ دہلی اردو اخبار اس کا اکھاڑا بن گیا اور تقریباً چھے بر سوں تک دہلی کا مسلکی ماحول جیسے بگاڑ پر رہا، ویسا تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔دہلی کالج کے سابق اور موجودہ اساتذہ کی یہ مسلکی چپقلش سماجی اعتبار سے نا خوشگواراور غیر صحت بخش ثابت ہوئی۔سارا شہر اور اصحابِ دانش رفتہ رفتہ کسی کی طر ف داری اور کسی کی مذمّت میں شامل ہوتے چلے گئے۔۱۸۴۸ء سے ۱۸۵۴ ء کے دوران ان دونوں کے تنازعات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔بے شک اس میں مولوی محمد باقر کو یہ فایدہ حاصل تھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا اور اس کا وہ حسبِ ضرورت اپنے مفاد میں استعمال بھی کرتے تھے۔
یہاں یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہیے کہ مولوی محمد باقر کی شخصیت میں کچھ عدم توازن کے آثار ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ان کی شخصیت میں شعلگی تھی۔ وہ تیز ردِّ عمل کے قائل تھے اور کسی معاملے پر بھی فوری طور پر برہمی کا اظہار کر سکتے تھے۔مولانا امداد صابری نے انھیں آزاد خیال،وسیع النظر،خود دار اور حق گو انسان قرار دیا ہے مگر اخبار کے مشتملات کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بہ آسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مولوی محمد باقر کے سماج میں کون سے دوست ہیں اور کن سے ان کی دشمنی ٹھنی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ اخبار اور صحافت کے معروضی کردار اور مثالی رویے سے مختلف بات ہے۔
یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ مولوی محمد باقر اپنی صحافت سے کوئی مثالی کردار خلق کر رہے تھے۔بے شک بہت سارے معاملوں میں وہ اعلا صحافیانہ اقدار کو آزمانے میں کامیاب ہوئے تھے۔مگر اس دور کی بعض آزادانہ رپورٹ اور دوسرے اخبارات میں پیش کردہ تجزیوں میں کئی بار مولوی محمد باقر پر صحافیانہ معیار سے بے پروائی برتنے کے الزامات عاید ہوئے۔ذیل میں اُس دور کی مختلف ذرایع سے حاصل شدہ رپورٹوں کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے مولوی محمد باقر اور دہلی اردو اخبار کے صحافتی معیار پر چند سوالیہ نشانات قایم ہوتے ہیں:
’’ دہلی اردو اخبار ایک دریدہ دہن اخبار ہے،جو ذاتیات سے بھرا رہتا ہے۔ذی اثر مقامی شرفا ،جو اس اخبار کے ایڈیٹر کے مذہبی خیالات سے اختلافات رکھتے ہیں ،وہ ان کی پگڑیاں اُچھالا کرتا ہے۔‘‘
’’دہلی کالج کے اوّل عربی مدرس جعفر علی جو شیعہ ہیں، ان کے متعلق ایک خط اس اخبار میں شائع ہوا ہے، جس میں جعفر علی کو نا اہل اور اس عہدے کے لیے نا مناسب گردانا گیا ہے۔‘‘
’’ایڈیٹر اپنی ذاتی مخاصمت کی وجہ سے دہلی کالج کے ایک استاد مولوی جعفر علی پر انتہائی دریدہ دہنی سے ہتک آمیز حملے کرتا رہتا ہے۔مذہبی مباحث میں بھی وہ اکثر الجھ جاتا ہے۔‘‘
’’یہ ایک گندا اخبار ہے جو ذاتیات سے بھرا رہتا ہے ۔مقامی با عزت شرفاجو ایڈیٹر کے مذہبی خیالات سے اختلافات رکھتے ہیں ،یا جن سے کسی اور وجہ سے وہ ناراض ہیں،ان پر اپنے اخبار کے صفحات میں وہ براہِ راست یا با لواسطہ حملے کیا کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسالہ ’ارشاد المومنین‘ (۱۲۷۰ھ) میں مولوی محمد باقر کے حوالے سے جوطرح طرح کے الزامات شایع ہوئے ہیں ،وہ ان کی طبیعت کی گرانی کا مظہر ہیں۔ذخیرۂ اشپرنگر میں محمد اکرام چغتائی صاحب کو خدا بخش نام کے ایک طالب علم کا خط بہ نام اشپرنگر حاصل ہوا جسے اس طالب علم نے اشپرنگر کو بھیجا تھا۔ اس خط پہ سنہ تحریر ۲۶ دسمبر ۱۸۴۸ ء درج ہے۔یہ طالب علم جماعتِ عربی اہلِ تشیع سے متعلق ہے اور مولوی جعفر علی کا براہِ راست شاگرد۔اس خط میں مولوی محمد باقر کے ذریعہ اپنے اخبار میں لگاتار سترہ مہینے سے مولوی سیّد جعفر علی کے سلسلے سے نازیبا خبریں چھاپنے کی اطّلاع دی گئی ہے۔اس طالب علم نے لکھا ہے کہ محمد باقر قایم مقام پرنسپل (ٹیلر) کے مصاحب ہیں ۔یہ بھی لکھا ہے کہ وہ شخص (مولوی محمد باقر) کہتا ہے کہ ڈاکٹر اشپرنگر تو نہیں ہیں، اب میں جو چاہوں، وہ کرا سکتا ہوں۔اس خط میں مولوی باقر پر مولوی جعفر علی کے طلبا کو پریشان کرنے اور دیگر اساتذہ کو تنگ و تباہ کرنے کی تفصیلات درج ہیں ۔ان شکایات میں بے شک مخالفانہ روش اور دشمنی کے امور بھی شامل ہوں گے۔مگر واقعات اور بیان کے اسلوب سے چھن چھن کر کچھ کیفیات سامنے آ رہی ہیں، ان کی رو سے مولوی محمد باقر کی شخصیت کی مخاصمت پسندی سے انکار کرنا مشکل ہے ۔ہر چند یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قاری جعفر علی اور مولوی محمد باقر کے بیچ جو اختلافات شروع ہوئے ، ان کے پیچھے نواب حامد علی خاں کا ہی پورا پورا ہاتھ تھا اور یہ جنگ مولوی باقر سے وہ آمنے سامنے لڑنا ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کام کے لیے انھوں نے مولوی جعفر علی کو آگے کر رکھا تھا۔دہلی اردو اخبار میں مولوی باقر بھی کسی نہ کسی جہت سے نواب حامد علی خاں کے حوالے سے چھوٹی بڑی منفی خبریں بھی شایع کرتے رہتے تھے۔
مولوی محمد باقر بے شک دہلی کی تہذیبی و ثقافتی زندگی میں مرکزیت رکھتے تھے اور ان کا اخبار شمالی ہندستان کا پہلا اخبار تھا ۔ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی ان کا رُعب انگریزوں اور ہندستانیوں میں قایم تھا مگر شخصیت میں تعجیل پسندی اور زور آوری بنیادی حیثیت رکھتی تھیں۔کسی بھی کام میں بھڑ جانا اور مخالفین کو ان کے انجام تک پہنچا دینا ؛ان کے مزاج کا حصّہ تھا۔اس عہد میں صحافت واقعی بڑی چیز تھی اور اس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بلند و بالا ہوئی۔مگر صحافتی کج رویاں اور حالات کے جبر میں ’’جوابِ آں غزل‘‘ پیش کرنے کی ان کی خصوصیت نے کئی بار صحافت کے غیر متوازن انداز کو آزمانے پر مجبور کیا ۔ممکن ہے، اس میں ٹیلر کی حکمتِ عملی کا بھی تھوڑا بہت دخل ہو مگر یہ سچائی مانی جائے گی کہ مولوی محمد باقر نے اپنی صحافیانہ زندگی میں کبھی کبھی صحیح راستے سے ہٹ کر مصلحت کو شی کو بھی اپنا شعار بنایا۔
دہلی اردو اخبار اور مولوی محمد باقر : اردو صحافت کے معیار ساز
یہ بات طے شدہ ہے کہ دہلی اردو اخبار نے اردو زبان کو صحافت کے آزادانہ طور پر معیار متیعن کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔دہلی اردو اخبار سے پہلے جو اخبارات شایع ہو چکے تھے ،ان سب کے مقابلے میں اس اخبار نے اپنے کاموں سے صحافتی معیار کا دعویٰ کیا۔اس زمانے کے سب سبے مہنگے اخبارات میں اس کا شمار ہوتا تھا ۔بیس روپے سالانہ رقم اس عہد کے اعتبار سے بڑی قیمت تھی۔شاید یہی وجہ ہو کہ یہ اخبار خواص میں اپنی زیادہ شناخت رکھتا تھا۔یوں بھی اخبار پڑھنے والا طبقہ غدر سے پہلے نہایت خاص اور با حیثیت طبقہ ہوتا ہوگا۔ہندستان میں تعلیم مٹھّی بھر لوگوں کے پاس تھی جو اخبار پڑھ سکتے تھے۔
مولوی باقر کا اختصاص کئی اسباب سے واضح ہے۔ان کا خاندان تعلیم یافتہ تھا اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ ان سے پہلے سے وہاں موجود تھا۔اس عہد کی گنجایش کے مطابق اعلا تعلیم کے جو وسائل دہلی میںممکن تھے ،وہ اس کے فیض یافتہ تھے۔ہندستانیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں سے ربط ضبط ہونے کی وجہ سے نئی دنیا کا ایک خاکہ ان کے ذہن میں رہا ہوگا۔تدریس کی ذمہّ داریوں سے فراغت اور سرکاری ملازمتوںسے بے رخی کے ادوار گزارتے ہوئے وہ پوری ذہنی تیاری کے ساتھ میدانِ صحافت میں وارد ہوئے تھے۔پریس پہلے بٹھا لیا تھا جس کے بغیر اخبار نکالنا شاید ممکن نہیں تھا۔ہندستان کے سیاسی،سماجی اور تعلیمی ماحول سے بھی وہ پورے طور پر واقفیت رکھتے تھے۔
اس لیے جب مولوی باقرمیدانِ صحافت میں آئے تو ان کے کام نو آموزوں کی طرح نہیں ہو سکتے تھے۔اخبار کے کالم بڑے دانش مندانہ انداز سے طے کیے گئے۔’’حضورِ والا‘‘ اور’’ صاحب کلاںبہادر‘‘ جیسے کالم اور پھران کے لیے مخصوص جگہ کا تعین بتاتا ہے کہ صحافی کی حیثیت سے ان کا ذہن اپنے آپ میںکس قدر تربیت یافتہ تھا۔ اخبار کے جو اوراق محفوظ رہ سکے ،انھی بنیاد وںپر مولوی محمد باقر یا دہلی اردو اخبار کے معیار اور مقام کی گفتگو ممکن ہے۔بے شک یہ سرمایہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور دو برس کے اخبارات تو ترتیب و تدوین کی منزلوں سے گزر کر ہر کس وناکس کے لیے دستیاب ہیں۔اردو صحافت کی تاریخ سے متعلق یا غدر کے بارے میں کوئی ایسی کتاب سامنے نہیں آ سکتی جس میں مولوی محمد باقر کے اس اخبار کے تراشے بہ طورِ مثال شامل نہ کیے گئے ہوں۔
دہلی اردو اخبار کی بنیادی اہمیت تو بالآخر ہم وطنوں کے مفاد کو محفوظ رکھنے اور انگریزوں کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے قایم ہوتی ہے۔۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کے اخبار میں بجا طور پر ہندستانیوں اور انگریزوں کے طریقۂ کار کو مقابلے میں رکھتے ہوئے بات کہنے کی کوشش کی گئی:
’’(انگریزوں) کے تکبر نے ان کو قہرِ الٰہی میں مبتلا کیا۔۔۔۔ اب کہاں ہیں انگلش مین اور فرنڈ آف انڈیا۔۔۔۔ اور وہ لن ترانیاں۔حکمت و حکومت داناؤں انگلستانیوں کی ‘‘
۱۲ اپریل ۱۸۵۷ ء کے اخبار میں بھی انیسویں ریجیمنٹ (بارک پور) کی سرگرمیوں کے بارے میں خبریں شایع ہونے لگتی ہیں۔۱۷ مئی ۱۸۵۷ ء کے دہلی اردو اخبار میں کھلے طور پر دہلی کے حالات اور ابتری کے واقعات کی اشاعت شروع ہو جاتی ہے۔اس دوران دوسرے مقامات سے متعلق بغاوت کی خبریں واضح الفاظ میں پیش کی گئی ہیں۔یہ اخبار کے نقطۂ نظر کا کُھلا اظہار ہے ۔یہ سلسلہ ۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء تک کے آخری شمارے تک قایم رہتا ہے۔
اردو زبان کی ادبی تاریخ لکھنے والوں کے لیے دہلی اردو اخبار ایک بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔مولوی محمد باقر اور نوجوان ،اُبھرتے ہوئے ادیب محمد حسین آزاد کی علمی سرگرمیوں کو اس اخبار کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔محمد حسین آزاد کی ابتدائی تحریریں اسی اخبار میں شایع ہوئیں۔اس لیے جب جب ان کی ادبی نشوونما کے بارے میں معلومات جمع کرنی ہوں گی،ایک محقق کو اس اخبار کے صفحات پلٹنے ہی ہوں گے۔غدر کے بعد اور انجمنِ پنجاب کی بزم میں ہمیں جو محمد حسین آزاد ملتے ہیں، وہ بنے بنائے ہوئے اور تربیت یافتہ ہیں مگر ان کی علمی تربیت گاہ دہلی اردو اخبار کے اوراق ہی تھے اور یہیں وہ لکھتے پڑھتے بڑے ادیب کی شکل میں سامنے آئے۔
دہلی اردو اخبار کی اشاعت کا وہ دور ہے جب وہاں ذوق،غالب اور مومن بستے تھے۔ذوق سے مولوی محمد باقر کی رفاقت اور محمد حسین آزاد سے شاگردی کا رشتہ تھا۔اس لیے ذوق کے حوالے سے ہر طرح کی اطّلاعات اس اخبار میں شایع ہوئیں۔ذوق کا کلام تو استاد ہونے کی وجہ سے بہادر شاہ ظفر سے اُوپر شایع ہوتا تھا۔غالب اورمومن سے متعلق اچھا خاصا سرمایہ اس اخبار کے صفحات میں موجود ہے۔ان کے علاوہ دوسرے اردوو فارسی شعرا جو اس دور میں نمایاں تھے، ان کی تحریریں بھی دہلی اردو اخبار میں اہتمام کے ساتھ شایع ہوتی تھیں۔یہ یاد رہے کہ اس زمانے میں شعرا و ادبا کے کے دواوین بہت مشکلوں سے شایع ہو پاتے تھے۔سب کے قلمی نسخے اور ان کی نقلیں ہی دستیاب ہوتی تھیں۔ایسے میں اس عہد کے درجنوںاہم شعرا و ادبا کی تحریروں کو دہلی اردو اخبار نے پختہ روشنائی میں پیش کر دیا اور انھیں ضایع ہونے سے بچا لیا ۔اکثر محققین نے ذوق،غالب اور مومن کے کلام کی تدوین میں دہلی اردو اخبار میں شایع شدہ کلام سے استفادہ کیا ہے ۔غالب کے اشعار میں جو ترمیم و اضافہ ہوا،اس کے بارے میں بھی اس اخبار سے واضح روشنی ملتی ہے۔
یہ سب کے لیے کھُلی حقیقت تھی کہ دہلی اردو اخبار شیخ محمد ابراہیم ذوق کا طرف دار ہے اور مرزا غالب سے فطری طور پر معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔غالب کے خلاف مستقل طور پر خبریں شایع ہوتی تھیں۔جوئے کے الزام میںغالب کی گرفتاری کی خبر کو اس اخبار نے ۱۵ اگست ۱۸۴۱ ء کے شمارے میں تفصیل کے ساتھ شایع کیا تھا جس میں اطّلاعات سے بڑھ کر طنز اور اس سے بھی بڑھ کر معاندت کا طور دیکھا جا سکتا ہے۔ انہی وجوہات سے غالب اس اخبار کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔
دہلی اردو اخبار میں شایع شدہ خبروں سے اس کی عوامی پہنچ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔صرف دہلی ہی نہیں ہندستان کے طول و عرض سے خبروں کا حصول اور پھر ان کی اشاعت قابلِ توجہ امر ہے۔اس کے ساتھ ایران، انگلستان، افغانستان اورچند دوسرے ممالک کے بارے میں بھی بعض اوقات اطّلاعات شایع ہوتی تھیں۔عمومی سیاسی اور سماجی موضوعات کے ساتھ مذہبی اور تعلیمی امور بھی اخبار کے مدیر کے پیشِ نظر ہوتے تھے اور وقتاً فوقتاً چشم کشا تحریریں ان موضوعات کے حوالے سے بھی دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے علاوہ ہم وطنوں کے بارے میں بھی اچھی خاصی خبریں پیشِ نظر ہوتیں جن کی بنیاد پر آج ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ اخبار کشادہ ذہنی اور اپنے مطالعۂ کائنات کی وجہ سے تاریخی کردار کا حامل ہے۔
مولوی محمد باقر کی شہادت کا قضیہ
اس بات میں کوئی بحث نہیں کہ ایّامِ غدر میں پہلا صحافی جو انگریزوں کی طرف سے موت کا مجرم قرار دیا گیا، وہ مولوی محمد باقر ہی تھے جنھیں غالباً ۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو گرفتار کیا گیا اور آناً فاناً ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ء کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عتیق صدیقی نے باغی اخبار نویسیوں کے احوال پر اپنی کتاب ’’ہندستانی اخبار نویسی ‘‘ میں چند اطّلاعات فراہم کی ہیں۔جیسے ہی غدر کی ناکامی کے بعد انگریزی فوج دوبارہ دہلی پر قابض ہو گئی،اس کے بعد طرح طرح کی تادیبی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ اسی اسکیم کے تحت باغیوں اور ان کے مددگاروں کی تلاش شروع ہوئی ۔حکومتِ پنجاب کے سرکاری دستاویزات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جن اخبارات نے انگریزوں کی مخالفت کی اور ہم وطنوں کی طرف داری میں کسی طرح کا اقدام کیا ،ان پر عتابات نازل ہونا شروع ہوئے۔پنجاب میں سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔پشاور کے اخبار ’’مرتضائی‘‘ کے مدیر کو باغیانہ مضامین لکھنے کے جرم میں قید کر لیا گیا اور اخبار کو بند کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ملتان کے اخبارات پر بھی یہ سلسلہ قایم رکھا گیا۔سیالکوٹ سے نکلنے والے اخبار’’چشمۂ فیض‘‘ کے ایڈیٹر کو حکم دیا گیا کہ اپنے اخبار کووہ لاہور سے نکالے۔لاہور سے نکلنے والے دو دیگر اخبارات پربھی سخت نگرانی شروع ہوئی۔اسی طرح دہلی کے اخبارات بھی زد میں آئے اور لازمی طور پر اس کا اثر دہلی اردو اخبار پر بھی پڑنا تھا۔محمد حسین آزادکا نام بھی چوں کہ دہلی اردو اخبار کے مالک کے طور پر شایع ہوتا تھا،اس لیے وہ بھی گرفتار کیے جانے والوں کی فہرست میں شامل تھے مگر وہ خاموشی سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
مولوی محمد باقر غدر میں قوم پرستی کے الزام میں شہید کیے جانے والے بے شک پہلے صحافی ہیں۔مگر ان کی شہادت کے اسباب پرگذشتہ ڈیرھ صدیوں میں اتنی گرد پڑتی رہی کہ حقیقت کتنی ہے اور فسانہ کتنا ،یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔محمد حسین آزاد، ان کے صاحب زادے اور ان کے پوتے آغا محمد باقر کے بیانات میں جگہ جگہ قصہ گوئی کے عناصر شامل ہو گئے ہیں۔ مولوی عبد الحق ،مالک رام ،امداد صابری،منشی ذکاء اللہ، جہاں بانو بیگم،سر عبد القادر ،طالب الہٰ آبادی،ڈاکٹر محمد صادق، جیون لال،ڈاکٹر اسلم فرّخی اور محمد عتیق صدیق وغیرہ نے شہادت کے واقعے اور اس کے اسباب کی تہہ در تہہ جانچ پڑتال میں جس دقّتِ نظر کا ثبوت دیا ہے،وہ قابلِ توجہ تو ہے مگر کئی بار حقائق گُم ہونے لگتے ہیں اور اصل موضوع سے ذہن دوسری طرف منتقل ہو جاتا ہے۔تمام مبصّرین کے بنیادی نکات پر غور کریں تو کچھ باتیں بے شک قصّہ گوئی کے ذیل میں بھی آ جائیں گی۔یہ بات درست ہے کہ یہ قصّہ گوئی سینہ بہ سینہ روایت کی وجہ سے فطری رنگ آمیزی کا نتیجہ ہے اور حقائق کے سلسلے کی معلومات میں تحقیقی شگاف پُر کرنے کی کوشش سے زیادہ ان باتوں کو اہمیت نہیں دی جاسکتی۔
پرنسپل ٹیلر کے قتل کا الزام مولوی محمد باقر پر پورے طور پر عاید کیا گیا یا نہیں یا ٹیلر اس زمانے میں ہجومی تشدد کا شکار ہو کر اس دنیا سے رُخصت ہوا ،ایسے بہت سارے سوالوں کے جوابات اب تاریخ کے اندھیروں میں گُم ہیں۔یہ قصّہ کہ ٹیلر نے ان کاغذات پر اطالوی زبان میں یہ لکھ دیا تھا کہ ابتدامیں مولوی باقر نے میری جان بچانے کی کوشش کی مگر بعد میں مجھے چھوڑ دیا، یہ کہاں تک درست ہے، اس کی شہادت اب ناممکن ہے۔کہا جاتا ہے کہ انگریز افسر نے ان کاغذات کو لیتے ہوئے مولوی باقر سے ٹیلر کے بارے میں دریافت کیا اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ٹیلر مارا گیا تو اس نے مولوی محمد باقر کو گرفتار کرا دیا۔واقعہ فطری اور حسبِ حال معلوم ہوتا ہے مگرٹیلر کی زندگی کے جو پچیس تیس برس دہلی میں گزرے اورمولوی محمد باقر سے ان کے جو روابط رہے،اس کی روشنی میں ٹیلر کے کردار کو مسخ کرنے جیسا ہے۔ان تین دہائیوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کی رو سے یہ کہا جا سکے کہ ٹیلر مولوی محمد باقر کے تئیں معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔اس کے عیسائی ہونے اور عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے امور کو اسی انداز میں سمجھنا چاہیے جیسے مولوی محمد باقر بھی مسلکی اعتبار سے مختلف مناقشوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے مگران کی روادارانہ شخصیت میں اس سے کوئی واضح تبدیلی نہ ہوئی اور تین دہائیوں تک ٹیلر اور مولوی محمد باقر کے مراسم یکساں طور پر اور ہموار طریقے سے قایم رہے۔
مولوی محمد باقر کو انگریزوں نے ان کی قوم پرستی، بادشاہِ وقت سے خصوصی روابط اور عقیدت مندی، غدر کے باغیوں سے دوستانہ رشتہ ، خفیہ طور پر ہم وطنوں کی طرف داری ، غدر کی سرگرمیوںمیں براہِ راست شریک ہونا، غدر کے موقعے سے اخبار کے ذریعہ انگریزوں کی مذّمت کرنا اور انقلابیوں کی حوصلہ افزائی کرنا جیسے واضح الزامات کے عوض ماخوذ کیا۔ٹیلر کے قتل کا الزام زیادہ سے زیادہ ایک ضمنی سبب ہو سکتا ہے مگر مولوی محمد باقر پر قوم پرستی کے درجنوں ایسے الزامات ثابت ہو سکتے تھے جن پر انھیں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔
انقلابیوں کی خبروں کو اہمیت کے ساتھ شایع کرنا، اخبار کا نام تبدیل کرکے بادشاہ سے انسلاک کا واضح اعلان کرنا ، انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے ہم وطنوں کواخبار کے کالموں میں اکسانا اور جو انقلابی میدانِ کار زار میں تھے، ان کا حوصلہ بڑھانا جیسی باتیں مولوی باقر کی زندگی کی کُھلی کتاب کا حصّہ ہیں۔جیون لال کے روزنامچے میں ۱۷ مئی اور ۴ جون کی تاریخوں کے اندراجات میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ مولوی محمد باقر پیدل فوج کی پلٹنوں کا حصّہ تھے اور افواجِ شاہی کے رُکن کی حیثیت سے خزانے کی حفاظت کے لیے مامور تھے۔۱۶ مئی ۱۸۵۷ء کو بہادر شاہ ظفر سے ان کی ملاقات اور دہلی کے انتظامات کے بارے میں غور و فکر کی اطّلاع جیون لال کے روز نامچے’’غدر کی صبح و شام‘‘میں ملتی ہے۔
غدر کے اوائل میں انگریزوں کی طرف سے ایک اشتہار جاری ہوا تھا کہ انگریز مسلمانوں کو اس ہنگامے کا قصور وار نہیں سمجھتے۔اس اشتہار میں اس بات کی وضاحت موجود تھی کہ کارتوسوں میں سور کی چربی نہیں ملائی گئی ہے بلکہ گائے کی چربی ملائی گئی ہے۔ان کا مقصد واضح تھاکہ ہندو مسلم اتحاد میں بکھراؤ آئے۔دہلی کے علمانے اس اشتہار کا جواب ایک دوسرے اشتہار سے دیااور انگریزوں کی سازش سے محفوظ رہے۔یہ جوابی اشتہار دہلی اردو اخبار کے چھاپاخانے میں شایع ہوا۔اشتہار کی پریس سے اشاعت بھی انگریزوں کے لیے ایک معقول جرم کی حیثیت رکھتی تھی اور موت کی سزا کے لیے یہ بات کافی تھی۔دہلی اردو اخبار میں لگاتار ایسی خبریں یا باغیوں کی فتح یابی پر اظہارِ مسرّت اور انگریز قوم پر لعن طعن کا سلسہ جاری رہتا تھا۔یہ تمام باتیں الگ الگ بھی انگریزوں کی نظر میں جان کے سودا کے لیے کافی تھیںاور یہی ہوا ۔ٹیلر کی موت ایک بہانہ بن گئی ورنہ مولوی محمد باقر کے لیے انگریزوں کے پاس الزام در الزام کی غیرمختتم کڑیاں موجود تھیں۔
اختتامیہ
مولوی محمد باقر کی شخصیت اور ان کے کارناموں کا اجمالی جائزہ ان کے عہد کو دیکھتے ہوئی صحافت کے ایک طالب علم کے لیے حیرت میں ڈال دیتا ہے۔مولوی محمد باقر نے اخبار کی اشاعت سے قومی ضرورتوں کو سمجھا اور اپنے مزاج کو موقع محل کی مناسبت سے بدلنے میں کامیابی حاصل کی۔صحافت میں گہرے اُترنے کے بعد اُنھیںہندستانی سماج کے مسائل اور سامراجی عتابات کو سمجھنے کے مواقع ملے۔دہلی کالج کی تربیت میں روادارانہ ذہن کی تشکیل ہو چکی تھی مگر اسے قوم و ملک کے مفاد میں آزمانے کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی تھی۔دہلی اردو اخبار نے مولوی محمد باقر کو سچے اور اصل ہندستان کو سمجھنے کے لیے تیّار کیا ۔باقر چند برسوں کی صحافت کے بعد اپنے اخبار میں ہمیشہ قومی درد مندی سے لیس نظر آتے ہیں۔جیسے جیسے غدر کی طرف کارواں بڑھتا جاتا ہے، ملک کی ضرورت کے مطابق مولوی محمد باقر کی صحافت بھی بہ تدریج دیسی بدلتی جاتی ہے۔اسی صحافتی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ بہ خوشی اپنی جان قربان کر سکے ۔بالعموم ہم ۱۹۴۷ء پر زیادہ مرکوز رہتے ہیں مگر یہ ایک سچائی ہے کہ ۱۸۵۷ء کے جاں باز اگر اپنی جانوں کو نہیں لٹاتے تو پتا نہیں کہ ہمیں آزادی ملتی بھی یا نہیں اور ہمارے صحافت پیشہ افراد ضرورت پڑنے پر مادرِ وطن کے لیے انسانوں اور لفظوں کی حرمت بچانے کے مقصد سے جان لٹانا سیکھ پاتے یا نہیں۔آج محمد باقر کی شہادت کی یاد اس لیے بھی لازم ہے کہ ہم طرح طرح کی سماجی اور صحافتی غلامیوں کی زد پر ہیں۔اختلاف، احتجاج اور جان کی بازی لگانے کی وہی گردان پھر سے کام آئے گی جو مولوی محمد باقر سے شروع ہوئی تھی۔یہ سبق ہمیں یاد رہے تو ہماری خراجِ عقیدت بھی سچی ہوگی اور ہم اپنے عظیم اسلاف کے پہترین وارث کہے جانے کے بھی حقدارہوں گے۔