ابوفہد، نئی دہلی
اسلام میں کسی بھی طرح کے جشن کا تصورسرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جشن یا خوشیاں منانے کے نام پر اسلام میں بس عیدین ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ عیدین میں بھی عبودیت کا تصور کسی بھی قسم کے جشن وچراغاں کے تصور پر غالب ہے۔عیدین کے ماسوا اسلام کے نام پر جشن جیسا کچھ بھی کیا یا منایاجائے گا وہ شادی بیاہ اور نئے سال کی تقریبات جیسا ایک عام جشن تو ہوسکتا ہے مگر دین وعبادت سے اس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہوگا۔
اگر اسلام میں جشن کا کوئی تصور ہوتا تو اسلامی تاریخ میں کئی ایسے واقعات ، دن اور یادگاریں موجود ہیں جو کسی بھی عظیم سے عظیم تر جشن کے لیے بہت موزوں ہوسکتی تھیں۔ یوم ِفتح مکہ ایسے کسی بھی جشن کے لیے بہت بہتر دن، وقت اور موقع تھا۔ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک جشنِ آزادی مناتے ہیں اور بہت دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں۔اگر اسلام میں بھی یہ چیز پسندیدہ ہوتی تو کیا یومِ فتحِ مکہ کو یوم آزادی کے طور پر منانے سے کوئی چیز مانع ہوسکتی تھی ؟۔ اس دن اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے آزادی ملی اور بیت اللہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔ فتح مکہ انسانی تاریخ کی دیگر تمام فتوحات سے ممتاز اور انوکھی قسم کی فتح ہے۔بعد کے ادوار میں خود مسلمانوں نے بھی کم وبیش آدھی دنیا کو فتح کیا مگر کسی بھی فتح کوفتحِ مکہ کے بالمقابل نہیں رکھا جاسکتا اور کسی بھی نوعیت سے نہیں رکھا جاسکتا ہے؟۔ فتح مکہ کی شان و عظمت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ اسے خود رحمت عالم ﷺ کی قیادت نصیب تھی۔
اور پھر وہ یومِ فتح جسے خود قرآن نے فتح کا نام دیا اور نہ صرف فتح کا، بلکہ ’فتح مبین‘ جیساپرشکوہ نام بھی دیا، یعنی یومِ صلح حدیبیہ۔ یوم صلح حدیبیہ بھی ایک بہت ہی موزوں دن ہوسکتا تھا جوگویا ایک طرح کی زمانی میقات تھا جہاں سے لوگ صف بہ صف احرام باندھ کر عازمِ اسلام ہوئے۔ اس کی معنویت اول دن ہی سے بڑی پراسرار رہی ہے ۔اگر قرآن نے یوم صلح حدیبیہ کو ’فتح مبین ‘ کا نام نہ دیا ہوتا تو دنیا کا کوئی بھی انسان، بڑے سے بڑا تاریخ نویس، قوموں کے عروج وزوال پر نظر رکھنےوالا، جنگ وصلح اور فتوحات سے متعلق تاریخی حوالوں کا جانکار بھی اس دن کو کوئی بھی اہمیت نہیں دے سکتا تھا۔کم از کم اتنی تو ہرگز نہیں جتنی کہ قرآن نے اسے دی ۔قرآن نے اسے تمام فتوحات سے بڑی فتح قرار دیا۔تو جس واقعے کی اہمیت اور عظمت کی گواہی خود قرآن نے دی کیا وہ اس لائق نہیں تھا کہ اسے قومی دن کے طور پر ایک یادگاردن بنایا جاتا اور اس دن عظیم الشان جشن کی تیاریاں کی جاتیں۔
ہجرت ِ مدینہ بھی ایسا ہی ایک موقع ہوسکتا تھا جب مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کا ورود مسعود ہوا،جو بعد میں آپ کی مستقل آرام گاہ بھی بنا ۔ اس دن کا بھلا کیا قصور ہے کہ اسے یوم جشن کے طور پر نہ منایا جائے۔ اور وہ دن !جب غارحرا میں رسولِ امی ﷺکو علم وعرفان کی دولت سے مالامال کیا گیا،قرآن کی پہلی آیت زبانِ نبوت پر جاری ہوئی: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ اور ایک طویل عرصے کے بعد آسمان و زمین کے مابین وحیِ ربانی کے رشتے بحال ہوئے۔اس دن کے خلاف آخر کونسی ایسی وجہ ہوسکتی ہے کہ اسے یومِ جشن قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور پھر دنیا کی زندگی کا وہ سب سے مبارک دن ، جس دن آپﷺ کو خلعتِ نبوت عطا کی گئی اور پھرآپ ﷺکودونوں جہان کے سب سے بڑے خطاب’’رحمۃ للعالمین‘ ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔یقینا اس دن کا بھی یہ حق تھا کہ اسے بھی جشن وچراغاں کے لئے خاص کرلیا جاتا، اگر جشن وچراغاں اسلام میں ایسی ہی کوئی اہم اور ضروری چیز ہوتی۔
یہ اپنے آپ میں بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ فتح مکہ ،فتح مبین اور دیگر بڑے اور اہم واقعات جیسے ہجرت ومعراج وغیرہ کے تعلق سےجشن وچراغاں کاخیال قرنِ اول کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے مسلمان کے ذہن میں نہیں آیاحتیٰ کہ خود رسول اللہ ﷺ کے خیال میں بھی نہیں۔
چونکہ اسلام میں ’جشن‘ کا تصور سرے سے موجود ہے ہی نہیں اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک حتی کہ وہ ممالک بھی جو کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا دستور قرآنی احکام پر مبنی ہے۔ وہ بھی جشن منانے کے لیے ایسے واقعات اور ایام کا انتخاب کرتے ہیں جن کا اسلامی تاریخ سے کچھ بھی علاقہ نہیں، بلکہ ان کا تمام تر علاقہ اور تعلق مابعدِ خلافت کی تاریخ سے ہے ، بلکہ جدید جمہوری طرز کی شاہی ، نیم شاہی اور غیر شاہی حکومتوں ،ملکوں اور فرمارواؤں کی اپنی تاریخ سے ہے۔
ایک مرتبہ چند یہودی حضرت عمرؓ کے پاس آئےاور کہا کہ قرآن میں ایک آیت ہے اگر وہ ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو جشن کا دن قرار دے لیتے۔ ان کا اشارہ سورۂ مائدہ آیت نمبر ۳ کے اس آخری ٹکڑے کی طرف تھا’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا‘‘۔آج ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا۔تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے ہم نے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جس روز یہ آیت نازل ہوئی اس دن مسلمانوں کی دو عیدیں جمع ہوگئیں تھیں۔یہ آیت ۱۰ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر یومِ عرفہ کو جمعہ کے روز عصر کے وقت نازل ہوئی۔(تفسیر عثمانی، صفحہ ۱۴۱ حاشیہ نمبر ۳)
حضرت عمر ؓ کے جواب سے صاف ظاہر ہے کہ عیدین کے جشن کے بعد مسلم امت کو مزید کسی جشن کی ضرورت نہیں۔اور ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ چیز عقل و دانش کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر ہم عیدین کے علاوہ کسی اور دن کو جشن کے لیے منتخب کریں گے تو بہت ممکن ہے کہ عیدین کی خوشیاں بلکہ اس کی مذہبی حیثیت ثانوی ہوجائے اور ہمارے خودساختہ جشن عیدین پر بھاری پڑ جائیں ۔جبکہ ہم جانتے ہیں عیدین میں عبادت کا تصور ہے اور دوسرے کسی بھی خودساختہ جشن کو کتاب وسنت کا سہارا اور بنیادحاصل نہیں۔ عیدین کا براہ راست تعلق دین وعقیدے سے جڑا ہوا ہے۔اور آج امت مسلمہ میں ہوبھی یہی رہا ہے کہ جو رسمیں دین وعقائد سے وابستگی رکھتی ہیں ان کی اہمیت ہمارے معاشروں میں سکنڈری ہوتی جارہی ہے جبکہ خودساختہ رسمیں جن کا کتاب وسنت سے کچھ واسطہ نہیں ،خوب پھل پھول رہی ہیں۔ لہذا آپ دیکھیں گے کہ لوگ اپنے بچوں کا عقیقہ نہیں کرتے مگر برتھ ڈے ضرور مناتے ہیں۔عیدورمضان کی خوشیاں ان کے لیے کوئی ایسی خوشیاں نہیں جن پر خوش ہوا جائے مگر نیوایر اور نیشنل ڈیز کی خوشیاں اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ اس حوالے سے عیش و مستی کا کوئی عنوان تشنہ نہیں رہنے دیتے۔مسجدیں گرچہ سال بہ سال نئی نئی تعمیر ہورہی ہیں مگر ساتھ ہی ان کی ویرانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔عبادت وریاضت کے تخلیے اور شوق وولولے ،میلوں ٹھیلوں کے شوروغوغا کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ظواہر پر رنگ وروغن کیا جارہا ہے اور باطن تاریک پڑا ہوا ہے۔
اس حوالے سے ایک مختصر سا واقعہ جو میرے اپنے ساتھ پیش آیا،شاید کچھ نہ کچھ اثر انگیزی یا منطقی بنیاد ضرور رکھتا ہے اور یہاں اس کا بیان کچھ ایسا بے فائدہ نہیں ہوگا۔یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں یہی کوئی چودہ پندرہ برس کا رہا ہوں گا۔ مجھے یاد ہے میں ایک مسجد میں نماز تراویح ادا کررہا تھا۔ مسجد کے پڑوس میں کسی ہندو گھرانے میں کوئی مذہبی تقریب چل رہی تھی ، لاؤڈاسپیکر کی آواز بہت تیز تھی۔ امام صاحب نے سلام پھیرا اور کہا کہ ان سے کہو کہ تراویح ہورہی ہیں لاؤڈ اسپیکر بند کردیں۔ میں ایک دو بچوں کے ساتھ دوڑا دوڑا گیا اور ان سے کہا کہ مسجد میں تراویح کی نماز ہورہی ہے ،لاؤڈ اسپیکر بند کردیں یا آواز دھیمی کرلیں۔ اس پر ان کا صاف صاف جواب تھا کہ یہاں بھی تو تراویح ہورہی ہے۔ چنانچہ لاؤڈ اسپیکر اپنی پوری شدت کے ساتھ بجتا رہا اور مسجد میں نمازِ تراویح اسی طرح شور وغل کے ساتھ ادا کی گئی۔
توسوال یہ ہے کہ جب ہمیں دوسروں کی ایسی حرکتوں سے تکلیف ہوتی ہے اور ہماری نمازوں میں اس سے خلل واقع ہوتا ہے تو ہم خود یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم بھی تو کئی غیر ضروری رسمیں اسی طرح شوروغل کے ساتھ مناتے ہیں۔یہاں تک کہ بعض علاقوں میں رمضان المبارک کی پوری پوری راتیں نعتوں اور اعلانوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔اور ہم ایسا کرتے وقت ایک بار بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے اس عمل سے کسی کو تکلیف ہوسکتی ہے۔
اِس کے بعد جشن عید میلادالنبی ﷺ کے حوالے سے ادھر ادھر اور یہاں وہاں ہمہ وقت گردش میں رہنے والی چند دلیلوں کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں۔سب سے پہلے ایک مضمون کا یہ اقتبا س دیکھیں:
’’نبی اکرمﷺ کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ (بخاری شریف جلد 2ص 764)‘‘
پورا مضمون پڑھنے کے لئے اس لنک پر جائیں:
http://sunniaqaid786.blogspot.in/2016/11/blog-post_28.html
یہ واقعہ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے جواز کے تعلق سے بڑی ہی طمطراق دعوے داری کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔یہ اقتباس جس مضمون سے لیا گیا ہے اس کی شہہ سرخی دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ صاحب مضمون اس دلیل کو اور اس جیسی دیگر دلیلوں کو کس قدر پراعتماد اور طمطراق لہجے میں پیش کررہے ہیں۔مضمون کی شہہ سرخی ہے’’ عید میلادالنبی ﷺ کو بدعت کہنے والوں کے منہ میں لگام‘‘ یہ مضمون اکبر رضا عطاری صاحب کا ہے جوبارہ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ سے چند دن پہلے سوشل سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے۔
یہ دلیل اور بھی کئی مضامین میں نظر سے گزری ہے،حیرت ہوتی ہے کہ دلیل دینے والے ایک بہت ہی بنیادی بات کوفراموش کرجاتے ہیں۔ یہاں انہیں یہ فرق ملحوظ خاطر رکھنا تھاکہ مطلق پیدائش پر خوشی کا اظہار کرناالگ بات ہے اور یوم ولادت کی خوشی منانابالکل الگ بات ہے۔آپ جانتے ہیں کہ یوم ولادت پیدائش کے پورے ایک سال بعد آتا ہے۔اور پھر سال بہ سال آتا رہتا ہے، جبکہ پیدائش صرف ایک ہی بار ہوتی ہے۔ مطلق پیدائش کی خوشی صرف وہی لوگ مناسکتے ہیں جو کسی بھی بچے کی پیدائش کے وقت دنیا میں موجود ہوں جبکہ یوم ولادت کی خوشی قیامت تک دنیا میں آنے والا ہر شخص مناسکتا ہے۔ کیونکہ یوم ولادت قیامت تک سال بہ سال آتا رہے گا۔جبکہ پیدائش کا ایک ہی دن اور ایک ہی وقت ہوتاہے۔پیدائش باربار نہیں ہوتی۔تو جس طرح پیدائش اور یوم پیدائش میں فرق ہے اسی طرح پیدائش کی خوشی اور یوم پیدائش کی خوشی میں بھی فرق ہے ۔اور اسی طرح کسی ایک کی دلیل کودوسرے کے حق میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا مذکورہ دلیل اس وقت دلیل بن سکتی تھی جب ولادت باسعادت ﷺکے اگلے سال بھی اسی دن کوئی ایسا واقعہ ہوا ہوتا، کسی بھی صحابی نے اگلے سال اسی دن ولادت باسعادت ﷺکی خوشی کا اظہار کیا ہوتا اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔یہاں تک کہ خود ابولہب نے بھی ایسا نہیں کیا۔ پیدائش کے پورے ایک سال بعد جب وہی دن آیا تو کسی نے بھی ضروری نہیں سمجھا کہ آپ ﷺ کا یوم ولادت منایا جائے ، شاید اس وقت یوم ولادت منانے کا رواج تھا ہی نہیں ۔یہاں تک کہ آپﷺ چالیس سال کے ہوئے اور آپ ﷺ کو خلعت نبوت سے نوازا گیا، تب بھی آپ ﷺنے اور آپ ﷺکے اصحاب میں سے کسی نے بھی اس چیز کو ضروری نہیں جانا۔یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں صحابہ وتابعین کا پورا دور گزر گیا مگر اس چیز کایعنی جشن ولادت باسعادت ﷺکا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔اگر جشن ولادت اتنی ہی اہم اورضروری چیز ہوتی جتنی اہم اور ضروری آج سمجھی جاتی ہے اورپھراگریہ سال بہ سال منعقد ہونے والی کوئی بڑی بلکہ عالمی تقریب ہوتی جیسا کہ بعض عالم دین دعویٰ کرتے ہیں کہ جشن عید میلادالنبی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور یہ تقریب سعید قرن اول سے اسی طرح منائی جاتی رہی ہے،تو متقدمین کی کتابیںاِس کے حوالوں سے بھری پڑی ہوتیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے حوالوں اور تذکروں سے متقدمین ومتاخرین کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
مزید برآں یہ کہ ،یہ تو ایک دشمنِ اسلام اور کافر مطلق ابولہب کا عمل تھا اور وہ بھی نبوت سے چالیس سال قبل کا۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں کئی صاحب علم ابو لہب کے اس عمل کو جشنِ عید میلاد النبیﷺ کے لیے حجت مانتے ہیں۔
میں نے جشن ولادت کے حق میں دی جانے والی قرآن و سنت کی جن دلیلوں کا جائزہ لیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی دلیل ایسی نہیں پائی جسے براہ راست قرآن وسنت سے استنباط کیا گیا ہو،بلکہ ساری دلیلیں عمومی نسبتیں رکھتی ہیں۔ سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر۱۱ بھی اس حوالے سے پیش کی جاتی ہے:وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١﴾’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ)
اگر آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ اس قبیل کی آیتوں کو تو کسی بھی قسم کی نعمت پر منطبق کیا جاسکتا ہےاور جشن منایا جاسکتا ہے۔اس آیت کی رو سے تو نزولِ قرآن کی رات یعنی شب قدر کا جشن بھی منایا جاسکتا ہے،رمضان کی آمد کا جشن بھی منایا جاسکتا ہے،فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کا جشن بھی ،یہاں تک کہ اپنے بچے کی پیدائش اور شادی کا جشن بھی اس آیت سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور پھرڈگریاں اور عہدوں کو ہم کس طرح نعمتِ خدابندی کے زمرے سے نکال سکتے ہیں کہ ان پر جشن نہیں مناسکتے۔ یہ آیت تو مطلق ہے اور اسے کہیں بھی فٹ کیا جاسکتا ہے۔اس کے مدلولات تو سینکڑوں اور ہزاروں ہوسکتے ہیں اور ہر انسان کے مدلولات دوسرے انسان سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ خدا کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں۔
سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر۱۱ بھی مذکورہ مضمون میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کا اظہارکرنایا ان کا تذکرہ کرنا یا ان پر شکر بجالانا کسی بھی طرح سے ’’جشن ‘‘ کے موجودہ تصور سے میل نہیں کھاتا۔
صاحبِ مضمون کا ماننا ہے کہ میلاد منانا مستحب ہے اور مستحب کام کے لیے کسی شرعی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ، مگر پھر بھی انہوں نے ان کے بقول ’بد مذہبوں ‘ کی تسلی کی خاطر قرآن وحدیث سے استدلال کرنا بھی ضروری خیال کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے سب سے پہلے مذکورہ آیت وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١﴾ کو بطوراستدلال بیان کیا اور پھر دوسری آیتوں کو اسی آیت کی بنیاد پر تہہ بہ تہہ رکھتے چلے گئے۔
صاحب مضمون نے قرآن وحدیث سے جو مزیددلائل دئے ہیں انہیں بھی ملاحظہ کریں:
’’قرآن مجید سے دلائل:
ا ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ (اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (النحل:18)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (الانبیاء :107)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔‘‘
http://sunniaqaid786.blogspot.in/2016/11/blog-post_28.html
آپ دیکھیں کہ اس مضمون میں جتنی بھی آیتیں لائی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی آیت براہ راست نہ تو ولادت رسولﷺ سے متعلق ہے اور نہ ہی جشن میلادالنبی ﷺ کے متعلق۔جبکہ سورۂ یونس کی آیت نمبر 58 تو ولادت ِرسولﷺ کی بنسبت بعثتِ رسول ﷺ یا پھر نزول قرآن سے زیادہ متعلق ہے ۔مولانا طاہرالقادری نے اس آیت کاجو ترجمہ کیا ہے ذرا ایک نظر اسے بھی دیکھ لیں:
’’ فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح آل عمرآن آیت نمبر164 کا تعلق بھی بعثتِ رسول ﷺ سے ہے نہ کہ ولادت رسولﷺ سے۔سورۃ الضحیٰ آیت نمبر 11 کو جشن عید میلاد النبی ﷺ کے لیے خاص کرنے کے واسطے بھی کوئی نہ کوئی دلیل ہونی چاہئے یا پھر کم از کم اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہونا چاہئے۔ چونکہ قرینہ موجود نہیں ہے اسی لیے اس آیت پر استدلال کی عمارت قائم کرنے کے لیے عقلی دلیل کے سہارے کی ضرورت پیش آئی ۔ عقلی دلیل دیکھیں:
’’ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔… ‘‘
یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہےکہ سورۃ الضحیٰ آیت نمبر گیارہ میں لفظِ ’’فحدِّثْ ‘‘ کا ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے ، اس کا ترجمہ کہیں سے کہیں تک بھی ’’جشن‘‘ سے نہیں کیا جاسکتا ، یا کم از کم اُس جیسے ’جشن‘ سے نہیں کیا جاسکتا جو ہر سال بارہ ربیع الاول کو ولادت باسعادت کے نام پر منایاجاتا ہے۔
اور پھر سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ جب آپ نے جشن میلادالنبی ﷺ کو قرآن سے ثابت کرہی دیا ہے تو پھر تو ا س کی حیثیت مستحب سے زیادہ ہونی چاہئے۔ مزید یہ کہ اس مضمون میں تھوڑا سا تضاد بھی در آیا ہے ۔ صاحب مضمون اپنے مضمون کے آغاز میں مسلمانوں کو اس کی اجازت بھی دیتے ہیں کہ وہ اگر چاہیں تو جشن نہ منائیں ، جشن نہ منانے پر وہ گناہ گار نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مستحب عمل ہے اور پھر آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں:
’’ مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔‘‘
یہاں سوال یہ بھی وارد ہوتاہے کہ ایک مستحب عمل کو تمام مسلمانوں کے لیے لازم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔؟
ایک طرف تو اس عمل کو مستحب کہاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو نہیں مناتا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ مگر دوسری طرف جشن میلاد النبیﷺ نہ منانے والوں کو شیطان سے تشبیہ بھی دی جاتی ہے۔ دیکھیں یہ شعر:
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاوّل
سوائے ابلیس کے جہاں میں، سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
اسی مضمون سے ایک دلیل یہ بھی دیکھیں:
’’اپنی آمد کا جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)‘‘
اب آ پ خود ہی اندازہ لگائیں کہ حضور ﷺ کے عمل میں اورموجودہ دورمیں لوگوں کا جو عمل ہے اس میں کتنی مماثلت اور یکسانیت ہے۔شاید اتنی ہی جتنی دو متضاد چیزوں میں ہوتی ہے جیسے کالےاور سفید رنگ میں اور آگ میں اور پانی میں ۔
یہ بھی اپنے آپ میں بڑی تعجب خیز بات ہے کہ جس نبی مکرمﷺ کی ایک ایک ادا، ایک ایک بات، چال ڈھال اور تبسم و تکلم سے لے کر تخلیے تک کی باتیں محفوظ ہوں یہاں تک کہ یہ بھی معلوم ہوکہ آپﷺ کی داڑھی میں کتنے بال سفید تھے، پیر کے تلوے میں کتنی گہرائی تھی۔ جس نبی ﷺ کے تعلق سے ’’شمائل نبویﷺ ‘‘ کا موضوع سیرت نگاروں کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہو تو یہ بات اپنے آپ میں خاصی تعجب خیز ہوجاتی ہے کہ اس نبی ﷺکے یوم پیدائش میں اختلاف کیونکرواقع ہوگیا۔ کیا معلوم اس میں بھی اسی طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہوں، جس طرح کی حکمتیں آپ ﷺکے’’ اُمی ‘‘ہونے میں پوشیدہ ہیں۔