سہیل انجم
اگر کسی مکان میں آگ لگی ہو اور اس کے مکین آگ بجھانے کے بجائے باہم دست و گریباں ہوں تو ظاہر ہے کہ وہ مکان جل کر خاکستر ہو جائے گا۔ آجکل کچھ یہی کیفیت کانگریس پارٹی کی ہے۔ سونے کی لنکا کو جلانے کے لیے ایک ہی ہنومان کافی تھے یہاں تو پارٹی کا ہر لیڈر او رہر کارکن ہنومان بنا ہوا ہے اور اپنی دم میں آگ لگا کر اس مکان سے اس مکان اور اس چھت سے اس چھت پر کود رہا ہے۔ یہ مشق ابھی حال فی الحال شروع نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک عرصے سے جاری ہے البتہ اب اس میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ اب یہ سال خوردہ پارٹی ایک ایسے مردہ شخص میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا وجود بے مصرف ہے اور جو رفتہ رفتہ سڑ گل رہا ہے اور جس کی بدبو سے جینا حرام ہو گیا ہے۔ لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو سکے اس کا کریا کرم کر دینا چاہیے۔ سو، اس کے پسماندگان اس کو شمشمان گھاٹ تک پہنچانے کے انتظامات میں مصروف ہو گئے ہیں۔
سال 2014 کے انتخابات کے موقع پر بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’کانگریس مکت بھارت‘ بنائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے اس اعلان پر سب سے پختہ ایمان اگر کسی کا ہے تو وہ خود کانگریس کا ہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد بی جے پی نے اپنے قائد کے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تگڑم بازیوں کا سہارا لیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے تھے۔ لیکن اب اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریسیوں نے خود ہی یہ کام اپنے ذمہ لے لیا ہے اور اب نریندر مودی اور امت شاہ سمیت پوری بی جے پی دور کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے۔ البتہ اگر کہیں کسی گوشے میں آگ ہلکی ہوتی محسوس ہوتی ہے تو وہ بس اسے ہوا دے دیتی ہے۔ کانگریس کے کارپردازوں نے دو نوجوانوں کو ابھی حال ہی میں پارٹی میں شامل کیا ہے جن میں سے ایک نوجوان خاصا مقبول رہنما ہے اور دوسرا دلتوں اور پسماندہ طبقات میں اچھے اثرات رکھتا ہے۔ پارٹی میں ایسے نوجوان خون کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ دو نوجوان پاٹی کے مردہ جسم میں اپنا کتنا خون چڑھا پاتے ہیں اور اسے کتنی زندگی دے پاتے ہیں یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ بلکہ اس وقت پارٹی کی جو اندورنی صورت حال ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اگر اپنے جسم کا پورا خون نچوڑ کر اس کو پلا دیں تب بھی اس میں زندگی کی رمق لوٹنے والی نہیں ہے۔ کچھ نوجوانوں اور تجربہ کار سیاست دانوں نے بہت پہلے ہی اس جہاز سے چھلانگ لگا دی اور دوسرے جہاز میں پہنچ کر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کر لیا۔ جو لوگ ابھی تک یہ جرأت نہیں دکھا سکے تھے اب وہ بھی کچھ اسی قسم کا فیصلہ کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ جو چھلانگ لگانا نہیں چاہتے ان کو اٹھا اٹھا کر باہر پھینکا جا رہا ہے۔ پنجاب کا واقعہ تازہ بہ تازہ ہے۔ اسے پارٹی قیادت کی احمقانہ حرکت نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے کہ اس نے ایک ایسے شخص پر بھروسہ کر کے گھر کے مکھیا کو بے عزتی کے ساتھ نکال باہر کیا جو پارٹی کو کامیڈی شو کا اسٹیج سمجھتا ہے اور اس کے سنجیدہ معاملات کو لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ ایک ایسے سیماب صفت شخص پر اعتبار کرنا جس کا اپنا نہ کوئی اعتبار ہو اور نہ ہی کوئی وقار، تباہی و بربادی کے سوا اور کیا لائے گا۔ اس کامیڈین کی بلیک میلنگ کے آگے جھک کر کانگریس پارٹی نے اپنے آگے کنواں اور پیچھے کھائی کھود لی ہے۔ اس ایپی سوڈ سے پہلے عام طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر کانگریس کی کامیابی یقینی ہے۔ لیکن اب یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی سیاسی سرگرمیاں کہاں جا کر ختم ہوں گی ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔ امت شاہ اور اجیت ڈوول سے ان کی ملاقاتوں اور متوقع اقدامات کے پیش نظر سوشل میڈیا میں یہ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ وہ ملک کے اگلے وزیر زراعت ہوں گے۔ اگر یہ محض افواہ ہے اور کیپٹن اپنی پارٹی بنانے کے اعلان پر جمے رہتے ہیں تب بھی نقصان کانگریس کا ہی ہے۔ پنجاب میں اگر چہ ابھی بی جے پی مضبوط پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ اس کا طاقتور بازو اکالی دل اس سے ٹوٹ چکا ہے، لیکن ان سرگرمیوں سے اسے کچھ نہ کچھ آکسیجن ضرور مل رہی ہے۔ البتہ سب سے زیادہ فائدہ عام آدمی پارٹی کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس نے ریاستی اقتدار کو طشت میں سجا کر کسی دوسری پارٹی کو تحفے کے طور پیش کر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ دنگل صرف پنجاب میں جاری ہو۔ یہ تماشہ دوسری ریاستوں میں بھی ہو رہا ہے۔ خواہ وہ راجستھان ہو یا چھتیس گڑھ، اترپردیش ہو یا دوسری کوئی ریاست۔ اور اسی درمیان گاہے بگاہے کانگریس کے سینئر رہنما بی جے پی کے کسی نہ کسی لیڈر کا قصیدہ پڑھنے لگتے ہیں۔ تازہ قصیدہ دگ وجے سنگھ نے پڑھا ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی پارٹی ہوگی جس کا کوئی قائد نہ ہو، کوئی صدر نہ ہو۔ راہل گاندھی نے یہ ذمہ داری اٹھائی تھی لیکن انتخابی شکست کے بعد وہ رسی تڑا کر رفو چکر ہو گئے۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ٹوئٹر پر بیان بازی کرکے بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کو شکست دے دیں گے۔ راہل کے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد ایک بار پھر ان کی والدہ سونیا گاندھی کی جانب رخ کیا گیا۔ لیکن انھوں نے بھی کہہ دیا کہ میں عارضی طور پر یہ ذمہ داری قبول کر رہی ہوں، پارٹی اپنا ایک مستقل صدر منتخب کر لے۔ لیکن آج تک کوئی صدر منتخب نہیں کیا گیا۔ اگر کسی جانب سے اس کی آواز اٹھتی ہے تو اسے بغاوت تصور کیا جاتا ہے اور اس کے گھر پر جا کر ہنگامہ آرائی شروع کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ ہنگامہ آرائی کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا لمحہ ہے۔ لیکن اس لمحے کی اہمیت کا اندازہ پارٹی کے لوگوں کو نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کوئی صدر نہیں ہے پھر بھی بڑے بڑے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے راہل اور پرینکا اینڈ کمپنی نے پارٹی کو ہائی جیک کر لیا ہے جس کے نتیجے میں نئی اور پرانی نسل کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی ہے۔ پرانی نسل کے لوگ اس بحرانی کیفیت کو تماش بین کی حیثیت سے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اگر 23 سرکردہ سیاست دانوں کی جانب سے کوئی مکتوب لکھا جاتا ہے تو اسے جی ۔ 23 کہہ کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس گروپ کے ایک سینئر رہنما نے یہ کہہ کر کہ ہم جی ۔23 ہیں لیکن جی حضور نہیں ہیں، پارٹی کی پرانی روایت کو للکارنے کی کوشش کی ہے جس کا انھیں خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس گروپ کے لوگوں کی کوئی عوامی بنیاد نہیں ہے اور وہ اگر از خود انتخابی میدان میں اتریں تو اپنی ضمانتیں بھی نہیں بچا پائیں گے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سیاست داں کے وزن کو انتخابی پلڑے میں نہیں تولا جا سکتا۔ پرانے لوگوں کے پاس تجربات کا خزانہ ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کانگریس کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ ملک کی سب سے پرانی اور اصول و نظریات کی پارٹی ہونے کے ناطے اس کے اوپر سب سے زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اسے اس کا بھی احساس نہیں ہے کہ اس وقت ملک جس تاریک سرنگ میں آگے بڑھتا جا رہا ہے اس سے اگر کوئی نکال سکتا ہے تو وہی نکال سکتی ہے۔ لیکن وہ اپنے اس فرض منصبی کی ادائیگی کے بجائے خود ایک تاریک ترین سرنگ میں داخل ہونے کو ترجیح دے رہی ہے۔ اسے اس کا بھی احساس نہیں ہے کہ اس کی عاقبت نااندیشانہ حرکتوں کی وجہ سے اپوزیشن کی سیاست انتشار سے دوچار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنا احتساب کرے اور کانگریس مکت بھار ت کے مودی کے نعرے کو حقیقت میں بدلنے کے بجائے ملک کو تباہی و بربادی کے غار سے نکالنے کی کوشش کرے۔ ورنہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی اور یہ بات نئی اور پرانی دونوں نسلوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com