میں الزام ان کو دیتا تھا …

ابو فہد
سقوطِ غرناطہ وبغداد اور سقوط دہلی و دکن کے سینکڑوں سال بعد جب ہم سقوطِ لیبیا و عراق اور سقوط ِحلب کے دور میں داخل ہوچکے ہیں تو ہمیں بہت ساری پریشان کن چیزوں، افکار، رد عمل اور پریشان خیالیوں کا سامنا ہے۔ اب حقیقت میں ہو یہ ہا ہے کہ ہمارے ہر عمل ، ہر لفظ اور ہر خیال اور اظہار خیال کے ہر زاوئے کو زوال زدہ تاریخ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔اچانک ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور پکار نے لگتا ہے۔مسلمانوں! تم سجدوں میں پڑے ہو اور خدا تمہیں میدانِ کار کی طرف پکار رہا ہے۔ اسی اثنا میں ایک دوسرا سرپھرا کھڑا ہوتا ہے اور ہانک لگاتا ہے، لوگو میدانِ کار سے نکلو اور میدانِ کارزار کی طر آؤ، نہیں تو زوال کی یہ چادر جو تمہارے ، دلوں ، ذہنوں اورسروں پر تان دی گئی ہے وہ کبھی بھی رفع نہ کی جاسکے گی۔ کسی تیسرے کونے سے ایک اور شخص مرغ کی طرح صبح سویرے اٹھ جاتا ہے اور بانگ لگاتا ہے، لوگو! تم ایسے مباحث میں الجھے ہوئے ہوجن کا موجودہ سائنسی زمانے سے کوئی تعلق نہیں اور اسی لیے ایسا زوال تمہارا مقدر ہے جس کی ابتدا تمہارے پرکھوں نے دیکھی مگرانتہا تمہاری آخری نسل بھی نہیں دیکھ پائے گی۔
آج ہم زوال امت کی ایک طویل تاریخ سے گزرکر سقوطِ حلب کے ایسے پڑاؤ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمارا حال یہ ہے کہ اب اگر ہم کھانستے بھی ہیں تو سرمئی نگاہ اور پارہ صفت دل و دماغ رکھنے والے بہت سارے لوگ اسے بھی ہمارے زوال کی ایک نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ایک صاحب کا ماننا تھا کہ لوگ نماز میں صفیں سیدھی نہیں رکھتے اور خاص اسی لیے وہ زوال کا شکار ہیں۔ ایک محترم بزرگ دانشور جن کا گزشتہ سا ل انتقال ہوگیا اب سے آٹھ دس سال قبل طلبائے مدارس کے ایک چھوٹے سے گروپ کو خطاب کررہے تھے، خطاب کے دوران انہوں نےزوال امت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم قلعہ بند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کسی خاص طبقہ کا نام تو نہیں لیا تھا مگر سیاق و سباق اور لہجہ بتارہا تھا کہ موصوف کا اشارہ ممبر و محراب کے شہہ نشینوں اور سجادہ و خرقہ پوشوں کی طرف ہے۔ ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے سوال کر ڈالا کہ سوال یہ بھی ہے کہ دانشوروں نے کیا کیا ہے۔ یہ سوال محترم بزرگ کے لیے گرچہ غیر متوقع تھا پھر بھی ان کا تحمل دیدنی تھا اور انہوں نے سوال کی معنویت بلکہ کہئے کہ سچائی کو تسلیم کیا۔ کیونکہ واقعہ تو یہی ہے کہ کیا تو کسی نے بھی کچھ نہیں ہے۔ مگر لوگ بھی کیا کریں اپنی فطرت سے مجبور جو ہوتے ہیں۔ انسان کی بہت ساری ذلیل عادتوں میں سے ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی طرف ہی انگلی اٹھاتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ خود اپنی غلطی کے حوالےسے بھی۔یہاں جتنے لوگ ہیں اتنی ہی باتیں ہیں البتہ ایک بات جو سب میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان سب کےنشانے پر مذہبی ایمانیات و اخلاقیات کےحوالے سے پختہ مزاج ہیں ۔ حال یہ ہے کہ الزام عائد کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، مذہبی یا غیر مذہبی البتہ جس پر الزام آئے گا وہ ہرحال میں مولوی یا مولوی نماں فرد ہی ہوگا۔
سوشل سائٹس پر سرگرم لوگوں کو یہ ایک بڑا ہی نیک کام ہاتھ آگیا ہے۔ وہ ہر اس عمل، قول اور حرکت کو سیدھے سیدھے زوال سے جوڑ رہے ہیں جو ان کے دماغ کے ان خلیوں سے میچ نہیں کرتا جن کو انہوں نے اپنے طرح کے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ اب چاہے یہ رنگ فرقہ پرستی کا رنگ ہو، یا تجدد پسندی کا، زبردستی اوڑھی ہوئی دانشوری کا رنگ ہو یا پھر دین بیزار نفسیات کے رنگ میں رنگا ہوا کوئی بھی پھیکا یا گہرارنگ ۔ اس نیک کام میں خود عالم دین بھی مصروف ہیں، صحافی بھی، ادیب بھی، سیاست داں بھی اور بہت سارے ہمارے نادان دوست بھی۔ غرض کہ جس سے بھی دو لائنیں لکھنا اور گھسیٹنا آگئی ہیں وہ علمائے دین کو لعن طعن کرنا اپنا فرض منصبی سمجھنے لگا ہے۔ ابھی حلب کے حوالے سے کچھ لوگوں نے پوسٹس بنائیں۔ ذرا آپ ان کا رخ اور زاویۂ نگاہ دیکھیں۔ ان میں لکھا گیا ہے کہ ایک طرف حلب جل رہا ہے اور دوسری طرف علماء ایک دوسرے کے خلاف فتوے دینے اور الزام تراشی کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک پوسٹ میں عید میلادالنبی پر ہونے والی بحث و تمحیص کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ تم لوگ جشن کے صحیح یا غلط ہونے میں الجھے ہوئےہو جبکہ دشمن تمہاری آخری اور فیصلہ کن شکست کا جشن منانے کی تیاری میں جٹا ہوا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی پوسٹ بنانے یا اس طرح کے کمنیٹس پاس کرنے والے خود اپنے گریبانوں میں کیوں جھانک کر نہیں دیکھتے۔ وہ خود کیا کررہے ہیں۔ سرکاری وغیر سرکاری عصری جامعات میں کیا چل رہا ہے، پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے پادری نما ہمارے یہ لیڈر کیوں تماشائی بنے ہوئے ہیں اور پرفیسرز کس طرح کی بحثوں میں مصروف ہیں۔ اکاؤنٹینٹ کیا کررہا ہے اور تاجر کہاں آتا جاتا ہے۔ انہوں نے اسے اس طرح کیوں نہیں لکھا کہ ایک طرف حلب جل رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ادیب اپنے افسانوں کے نسوانی کردار گھاٹن کا سراپا اتارنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف حلب جل رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے پارلیمینٹیرین دعوتیں اڑانے اور اپنی اپنی پارٹی لیڈروں کی خصیہ برداری میں مصروف ہیں ۔حلب جل رہا ہے اور ہمارے شاعر بے معنی شعروں میں سرکھپا رہے ہیں ۔۔۔۔ آخر یہاں ہرچھوٹے بڑے قومی زوال کو ’’زوال ورسس علماء ‘‘ ہی کے رنگ و روپ میں کیوں دیکھا جاتا ہے۔؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک عرصہ قبل پڑوسی ملک میں کسی صاحب نے پوسٹ بنائی تھی کہ’’ ہماری کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی سو اہم یونیورسٹیز میں اپنا نام درج نہیں کراسکی۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف یہ جنونی علماء میں ہیں ،یہ فقہی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں‘‘۔ اب اس نادان دوست سے کوئی پوچھے کہ بھائی جو لوگ یونیورسٹیوں میں بیٹھے سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جارہے ہیں اور پھوکٹ میں لاکھوں روپئے ماہانا لیتے ہیں یہ ذمہ داری تو ان کی تھی نہ کہ علماء کی۔
ہمارے یہاں کا حال یہی ہے کہ اگر کسی کے گھرکے سامنے سے گزرنے والی نالی بند ہوجاتی ہے تو وہ اسی طرح کےکمینٹس کرتا ہے ’’ یہاں نالیاں بند پڑیں ہیں اور یہ ملّا تین طلاق کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک دانشور صاحب اپنے ایک عمل کو فخریہ بیان کررہے تھے کہ ایک بار ان کے دروازے پر تبلیغ کے کچھ افراد آئے، وہ اندر سے جل بھن گئے۔ انہوں نے امیر جماعت کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کو کھینچا۔ آئیے پہلے ہم یہ نالیاں صاف کرتے ہیں۔ یہاں نالیاں گندی پڑی ہیں اور آپ ہیں کہ دعوت وتبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر یہ کیوں لکھا جاتا ہے کہ بغداد پر ہلاکوں خان چڑھائی کررہا تھا اور بغداد کے مفتی وعلماء اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ کوّا حلال ہے کہ حرام۔جبکہ دیانت داری والی بات تو یہ ہے بغداد کو بچانے کی ذمہ داری والیِ بغداد پر زیادہ عائد ہوتی تھی، تو اس حوالے سے یہ دیکھنا زیادہ ضروری تھا کہ خود والی بغداد، اس کے حوالی موالی اور سپاہی اس وقت کیا کررہے تھے۔ آخر آج تک کسی نے یہ کیوں نہیں لکھا یا کہا کہ ایک طرف دہلی جل رہی تھی او ر دوسری طرف غالب شطرنج کی چالوں میں مگن تھے، یا ازار بند میں گرہیں لگا رہے تھے۔
کل عراق اور لیبیا جل گئے اور آج حلب جل گیا، گجرات جل گیا اور میانمار میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور دنیا کا ہر مسلمان اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہے، ڈفلی بجانے والا ڈفلی بجارہا ہے، ریلیاں کرنے والا ریلیاں کررہا ہے، ناچنے والا ناچ رہا ہے اور گانے والا گارہا ہے۔ کرکٹ کھیلے والے کو اپنے بیٹ اور بال کی فکر ہے اور تاجر کو اپنا پیسہ دوگنا کرنے کی ۔ پر کسی پر کوئی الزام نہیں۔ الزام تو بس ایک بے چارے مولوی پر ہی عائد ہوتاہے، مدرسوں پر ہوتا ہے اور ملی تنظیموں پر ہوتاہے۔ باقی کوئی بھی ذمہ دار نہیں۔ اب چاہے وہ گلی کا گنڈہ ہو، ممبر پارلیمنٹ ہو، بادشاہ ہو، صدر ہو یا پی۔ ایم ہو ۔
حالانکہ اس لعن طعن کے وہ لوگ زیادہ مستحق تھے اور ہیں جو سواد امت کے کالے و سفید کے مالک ہیں، جو ڈیڑھ سو سے زاید مسلم ممالک کے صدر، بادشاہ یا وزیر اعظم ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں سیاسی قوت ہے، جن کے اشاروں پر فوجوں کے دل کے دل حرکت کرتے ہیں، جو ایک عرب سے زائد مسلم آبادی کے حصے میں آنے والے قدرتی ذخائر پر بلاشرکتِ غیر قابض ہیں، جو عالیشان محلوں اور قلعہ نما گھروں میں رہتے ہیں اور جن کے پاس پی .ایم. صدرجمہوریہ اورنائب صدر جمہوریہ سے لے کر ایم پی تک اور چانسلر و وائس چانسلر تک کے عہدے ہیں۔ لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا ہے کہ قوم کے پچھڑے پن کی جب بات آتی ہے تو ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ نائب صدر جمہوریہ ، پی .ایم. اورڈالرز میں سرکاری تنخواہ پانے والوں کو موردِ الزام نہیں ٹہرایا جاتا بلکہ اس کے بلکل ہی الٹ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے کچھ بلغمی مزاج کے حامل افراد بلکہ لیڈر مسجد کی کج و پریشاں صفوں سے ایک نمازی کو اٹھا لاتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو یہ ہے قوم کا سب سے زیادہ غیر ذمہ دار شخص، یہی وہ شخص ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملی زوال کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جائے گی۔
کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ہم اس روش کو بدلنے کی ضرورت پر غور و خوض کرنے کا آغاز کرسکیں گے۔؟؟

SHARE